donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaqur Rahman Sharar
Title :
   Dahshat Gardi Me Azafa Ke Asbab

’دہشت گردی میں اضافہ کے اسباب‘ 

 

  اشفاق الرحمن شررؔ

مئو ناتھ بھنجن، یو۔پی۔  حال مقیم جدہ، سعودی عربیہ


موبائل: +966551105767  

(e-mail: sharar68@gmail.com)


    بھارت میں ایک بار پھر القائدہ کا جن بوتل سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے اس ہفتہ تین گرفتاریاں ہوئیں جن میں ایک محمد آصف ہے جس پر بھارت میں القائدہ کا چیف ہونے کا الزام ہے، دوسری گرفتاری اڑیسہ کے کٹک سے عبدالرحمن کی ہوئی تو تیسری گرفتاری اتر پردیش کے سنبھل سے ایک اور شخص ظفر مسعود کی ہوئی ان تینوں کو القائدہ کا اہم حصہ بتایا جارہا ہے۔ حقیقت جو بھی ہو ان پر لگائے گئے الزام کتنے صحیح یا غلط ہیں یہ عدالت میں طے ہوگا لیکن ان گرفتاریوں نے ایک سوال ضرور کھڑا کر دیا ہے کہ نوجوانوں میں دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے میں دلچسپی کیوں بڑھ رہی ہے؟؟ محکمہ پولس، میڈیا پرسن، ماہرین معاشرہ اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں جن میں دوخاص وجہ سامنے آئی ایک تو مذہبی جذبات اور دوسرے کم وقت میں زیادہ آمدنی کی لالچ۔ کم وقت میں زیادہ آمدنی کا لالچ ایک وجہ ضرور ہو سکتی ہے لیکن مذہبی جذبات ہرگز نہیں بلکہ مذہب کی غلط اور نامکمل جانکاری ضرور گمراہ ہونے کا سبب ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب غیر انسانی عمل کی تعلیم نہیں دیتا جہاں انسانیت محفوظ نہیں وہ مذہب ہو ہی نہیں سکتا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ کچھ کم علم اور مفاد پرست لوگ خود تو گمراہ ہیں دوسروں کو بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عدم مساوات اور انصاف میں کمی کسی کو بھی گمراہ کر سکتے ہیں۔ بھارت ایک بڑی آبادی والا ملک ہے یہاں ملازمت کے مواقع سے کئی گنا امیدوار ہیں یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے جب کوئی نو جوان محنت کر کے کسی میدان میں مہارت حاصل کر لیتا ہے اور اسے اس کا فائدہ نہیں ملتا تو وہ اپنی صلاحیت کا استعمال غلط طریقہ سے کرنے لگتا ہے۔ یہ مشاہدہ ہوا ہے کہ جتنے نوجوانوں پر دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے کا الزام ہوتا ہے ان میں زیادہ تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو میڈیکل، انجنیئرنگ جیسی اہم تعلیم حاصل کر چکے ہوتے ہیں یا زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ اب پتہ نہیں جان بوجھ کر ایسے ہونہاروں کو پھنسایا جاتا ہے یا حقیقت میں وہ ملزم ہوتے ہیں۔ یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے نوجوان اپنی عمر کے قیمتی سال برباد ہونے کے بعد عدالت سے باعزت بری کر دئے گئے عدالت سے بری ہونے کا مطلب ہے کہ ان کو غلط اور بے بنیاد طریقہ سے پھنسایا گیا تھا۔

    کسی بھی جرم کی طرف راغب ہونے کی سب سے بڑی وجہ عدم مساوات ہے جب کسی حساس دل کو سماج میں عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے دل میں سماج سے بغاوت کی چنگاری پیدا ہو تی ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور ایک روز شعلہ بن کر اسی سماج کو جلانا شروع کردیتی ہے۔ دوسری طرف جب کسی کو انصاف نہیں ملتا تو اس کا یقین قانون اور حکومت سے اٹھ جاتا ہے پھر وہ اپنا حق یا بدلہ پانے کے لئے جرم کا رستہ اختیار کر لیتا ہے۔اس کی مثال چنبل کے ڈاکوئوں سے سمجھ سکتے ہیں اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور بہار میں ایک وقت ایسا تھا جب کا خوف حاوی تھا چنبل کے ڈاکوئوں کے سامنے ہماری پولس مجبور و لاچار دکھائی دیتی تھی۔ چنبل میں پناہ لینے اور پھر خطرناک ڈاکو بننے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا رہا ہوگا جو شوق سے اس میں شامل ہوا ہو ۔ تمام مجرمین کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا سانحہ گذرا جس سے ان کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ان میں کچھ حکومت اور قانون سے انصاف کی امید کئے بغیر ہی اپنا فیصلہ خود کرنے کی ٹھان لئے تو کچھ نے انصاف کی امید پر وقت ، محنت اور دولت خرچ لئے لیکن انھیں انصاف نہیں مل سکا اور وہ مجبور ہو کر جرم کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف سخت قدم اٹھائے جا رہے ہیں دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا ایک ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے لیکن دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ہر وقت ایک نئی تنظیم کا نام سامنے آجاتا ہے۔ پہلے تو مختلف ممالک میں مختلف دہشت گرد تنظیمیں ہوتی تھیں لیکن آج دہشت گردی بین الاقوامی تنظیم بنتی جا رہی ہے۔ القائدہ کا اثر پاکستا، افغانستا، بھارت اور خلیجی ممالک تک میںدکھائی دیا توامریکہ جیسے ترقی یافتہ اور حفاظتی تکنیک سے مصلح ملک امریکہ بھی اس کے اثر سے نہیں بچسکا۔ لشکر طیبہ بھی پاکستان اور بھارت میں سرگرم رہی اب آئی ایس آئی ایس تو پوری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے۔ شام اور عراق سے اٹھی یہ تنظیم دنیا بھر کے ملکوں کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کی کوشش سے بھی زیادہ تیزی سے دہشت گردی میں اضافہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ دہشت گردی مخالف مہم میں کہیں بہت بڑی کمی ہے۔ دنیا بھر میںعام خیال ہے کہ مذہبی جذبات دہشت گردی کی خاص وجہ ہے اور دہشت گردی کا تعلق مسلمانوں سے ہے لیکن یہ حقیقت نہیں دنیا بھر کا یہ خیال مسلمان اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے یا پھر حالات کو مکمل طور سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ اسلام مذہب جسکا بنیادی مقصد انسانیت کی بقائ، تحفظ اور فلاح ہے۔ جہاں وضو میں ضرورت سے زیادہ پانی گرانے سے منع کیا گیا ہے، زبان سے بھی کسی کو تکلیف دینا حرام قرار دیا گیا ہے، زمین پر اکڑ کر چلنے سے روکا گیا ہے، بظاہر بے جان زمین پر بھی بے وجہ پیٹنے سے منع کیا گیا ہے، پیاس سے تڑپتے کتے اور سور جیسے ناپاک جانور کو بھی پانی پلانا کار ثواب بتایا گیا ہے، غلاموں پر سختی کرنے سے روکا گیا ہے، مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے مزدوری دینا ضروری قرار دیا گیا ہے، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے میں مذہب کی قید نہیں جو بھی پڑوس میں بستا ہے وہ پڑوسی ہے اسلام کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کے حقوق ادا کرنا لازم ہے۔ ایسے مذہب میں بھلا دہشت گردی کی گنجائش کہاں ہو سکتی ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے اور ان کے ذہنوں میں زہر بھرنے کے لئے دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے جاری جتنے ویڈیو بھی سامنے آئے ہیں ان میں سب سے پہلے دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم دکھائے جاتے ہیںاور اس ظلم کے خلاف تیار ہونے اور ظلم کا دنیا سے خاتمہ کرنے کو فرض بتایا جاتا ہے۔ نوجوان کے معصوم ذہن مظالم کی ویڈیو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیںنئے خون میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ممکن ہے تمام ویڈیو صحیح نہ ہوں بلکہ ان میں ایڈیٹنگ کر کے ایسی بنا دیا جاتا ہو کہ نوجوان ذہن پر گہرا اثر ہو سکے۔ نو جوانوں کے دل میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ظلم سہنا بھی ظلم ہے جس سے ظالم کی مدد ہوتی ہے۔ حالانکہ جس طرح سے گندگی پیشاب سے دھل تو سکتی ہے لیکن پاک نہیں ہو سکتی اسے طرح ظلم کو ظلم سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ظلم کے مقابلہ ظلم کئے جانے کی اجازت اسلام میں کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔ ظالم کو ظلم سے بعض رکھنے کی ضرور تاکید ہے اس کے لئے اسے سمجھانا اور نہ سمجھنے پر اس سے مقابلہ کرنے کا حکم ہے لیکن کسی بھی بے گناہ پر کسی طرح کی سختی یا ظلم کی گنجائش قطعی نہیں ہے۔ دہشت گردی سے نجات پانے کے لئے مذہبی نمائدوں اور دنیا بھر کی حکومتوں کی مشترقہ ذمہ داری ہے۔ مذہنی نمائندگان مذہب کی صحیح تعلیم دیں ، اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں اور خود کو اس قابل بنائیں کہ نئی نسل ان سے متاثر ہو کر ان کی مکمل پیروی کرے اسی کے ساتھ لوگوں میں امن پسندی اور خدمت خلق کا جذبہ پیدا کریں اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ عدم مساوات و عدم انصاف کی لعنت کو مکمل طور پر ختم کریں، بلا تفریق نسل و مذہب ظلم کے خلاف کارروائی کریں، کسی بھی جرم کو کسی مذہب سے نہ جوڑ کر صرف مجرموں سے جوڑا جائے۔ اگر ذمہ داران اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھائیں تو دہشت گردی کی لعنت کا نام و نشان بھی ختم ہو جائے گا۔


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 574