donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Asjad Eqabi
Title :
   Aayo Saale Nau Par Apna Mohaasba Karen

آئو سال ِ نو پر اپنا محاسبہ کریں


اسجد عقابی


انسانی فطرت بھی عجیب ہے…تلخیوں کی دھوپ میں جھلسنے کے بجائے انسانی طبیعت ہمیشہ وقتی مسرتوں کو ڈھونڈنے میں مصروف رہتی ہے …فنا کی طرف ہر لمحہ رواں زندگی کا مسافر عارضی خوشیوں کی آغوش میں بے فکری کے ساتھ پناہ لے لیتا ہے، انسان کو اگر اپنی زندگی میں ہی موت کا صحیح علم ہوجائے اور اسے موت کے وقت متعین سے آگاہ کردیا جائے تو اس کی ساری خوشیاں ماند پڑجائے اور شگفتگی و تازگی کے تمام غنچے مرجھا جائیں۔ وہ ساری خوشیاں ماند پڑجائیں جو وہ اپنی سوچ وفکر میں ترتیب دیتا رہتا ہے۔ وہ تمام خوشیوں کے شادیانے انہیں کاٹنے کو دوڑیں جسے وہ اپنی فکر سے سلگاتا ہے۔ انہیں عارضی اور خود تراشیدہ خوشیوں میں سے ایک’’سال نو‘‘کی خوشی ہے، موجودہ سال کے گزرنے اور سال نو کی آمد پر مختلف اقسام کی مجلسیں اور محفلیں منعقد کی جاتی ہیں… ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، تفریحی مقامات پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، فائیو اسٹار اور سیون اسٹار ہوٹلوں میں رقص و سرور کی نشست کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں ملک کے نامی گرامی رقاص اور رقاصائوں کو کثیر رقم کے عوض اس رات کیلئے بلایا جاتا ہے۔ پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے رنگ برنگ کے پٹاخے اور پھلجھڑیوں کا بندوبست کیا جاتا ہے، معاشرے کا نوجوان طبقہ تمام قیودات سے مستثنٰی قرار دے دیا جاتا ہے، صبح صادق تک شراب و کباب کی محفلیں سجی سجائی جاتی ہیں، مرد و زن کا بے محابا اختلاط علامتی ترقی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، بنت حوا کی بے شرمیاں ساری ریکھائیں پار کرجاتی ہیں۔ سال نو کے نام پر فضول خرچی کے راستے تلاش کرلئے جاتے ہیں ۔ اس رات شیطان کو خوش کرنے کے تمام حربے آدم کی اولاد اپناتے ہیں ۔ زندگی و موت سے بے فکر انسان اگر اس بات کا بنظر غائر ادراک کرے کہ ہم نے اس سال کیا کھویا اور کیا پایا اور اس مسلم حقیقت کو مان لیں کہ سال نو کی آمد پر اس کی مستعار زندگی کا ایک سال کم ہوگیا ہے ، جس پر خوش ہوکر رقص و سرور کی محفل گرم کرنے کے بجائے خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے، گزری زندگی کی تلافی اور بقیہ عمر سنبھل سنبھل کر گزارنے کا احساس پیدا ہوجائے تو انسان ان تمام لغویات سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے ۔

اس وقت دنیا میں دو بڑی تہذیبوں کا تصادم ہے، ایک وہ تہذیب ہے جو مکمل طور پر دوسری تہذیب کو مٹا کر اپنے وجود کا حصہ بنالینا چاہتی ہے، ایک اسلامی تہذیب ہے جس کا شاندار ماضی اور صدیوں پر محیط اسلامی سلطنت کی لازوال داستانیں ہیں، عدل و انصاف کے خوگر حکمرانوں کی زندہ و جاوید مثالیں ہیں ۔ اور دوسری مغربی تہذیب ہے جو بظاہر اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتی ہے جہاں ہر ایک تمام قیودات سے آزاد ہوکر اپنی زندگی گزارنے کیلئے آزاد ہے، جہاں معاشرہ کا کوئی تصور نہیں ہے والدین کو اپنی نرینہ اولاد پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے، لیکن مغرب نے گزشتہ دو تین صدیوں میں محنت شاقہ اور جہد مسلسل کے بعد مادیت میں ناقابل یقین حد تک ترقی کی ہے اور ایسے ایسے آلات وجود میں آئے ہیں جو تصور انسانی سے بالاتر تھے، مغرب کی اسی مادی ترقی کو دیکھ کر اقوام عالم نے یہ تصور کرلیا کہ جب تک مغرب کے شانہ بشانہ نہیں چلیں گے ہمیں ترقیات نہیں نصیب ہوسکتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب نے اپنے آلات و وسائل کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر اپنی تہذیب بھی تھوپ دی ہے، اور آج کا معاشرہ جو مغرب سے جتنا ہم آہنگ ہے اتنا ہی ترقی یافتہ تصور کیا جارہا ہے ، مغرب کی انہیں تہذیبوں میں سے ایک سال نو پر جشن منانا ہے ۔ نئے سال اور نئی صدی کی آمد میں اس حوالے سے اہمیت کی ایک جہت پائی جاتی ہے کہ یہاں رک کر فرد اور قوم کو اپنی گزشتہ زندگی پر غور کرنے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے مستقبل کیلئے صحیح لائحہ عمل طے کیا جائے، مسلمانوں کے زوال و انحطاط اور روز مرہ کے مسائل و مشکلات بھی اس طرح کے موقع پر مفکرین قوم اور دانشوران قوم کے یہاں زیر بحث آتا ہے کہ وہ کون سے اسباب و علل ہیں جن کی بنیاد پر مسلم امہ اس درجہ پریشانی کا شکار ہوچکی ہے، کن وجوہات کو اپنایا جائے تو عالم اسلام میں اتحاد و اتفاق کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، اپنے مسائل کا حل ہمیں خود تلاش کرنا چاہئے یا پھر کسی لاچار و مجبور قوم کی طرح کاسئہ گدائی لیکر دوسرے کے در پر دستک دیں، اور اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ کیا ہمارے اعمال ہماری بربادی کے ذمہ دار ہیں؟ کیا ہماری گزشتہ زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزری ہے، کیا ہم نے خود کو مومن کامل بنانے کیلئے کسی قسم کی کوئی تگ و دو کی ہے یا نہیں اگر اب تک ایسا نہیں ہوا ہے تو ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، نافرمانیوں کی بیماری سے خود کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے، فرائض کی پابندی کریں، شریعت کے اوامر و نواہی کے پیش نظر زندگی گزاریں، اپنی تاریک زندگی کو سنت نبوی سے روشن کریں، جب ہر سو ایمان کی بَہار آئے گی، عمل صالح کی خوشبو ہر سمت پھیلے گی تب کوثر و تسنیم سے دھلا ہوا ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جو اس قسم کی لغویات سے پاک و صاف ہوگا، جہاں اچھے بْرے کی تمیز ہوگی، نوجوان نسل بے حیائی کو اپنانے کے بجائے حیاء و پاکدامنی کے علمبردار ہوں گے۔ وہ نسل جو کیفوں اور فائیو اسٹاروں کے بند کمروں میں پروان چڑھ رہی ہیں وہ مسجد کے میناروں میں پناہ گزیں ہوں گے۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل ہوگا جو محض اسلامی روایات کا علمبردار وحامی ہوگا تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان تمام لغویات کو اسلام کے منافی سمجھتے ہوئے اس سے دوری اختیار کریں اور اپنے شعائر میں اس طرح رنگ جائیں کہ لوگ ہمیں اور ہمارے اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر ( حالیہ دین اسلام سے جو بعد پیدا ہورہا ہے )وہ ختم ہوجائے ۔


(مضمون نگار اسلامک اسٹیڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر ضلع چمپارن کے استاد ہیں)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 535