donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. M. Ejaz Ali
Title :
   Beef Masla Ke Peechey Ki Haqiqat


بیف مسئلہ کے پیچھے کی حقیقت


 ڈاکٹر ایم اعجاز علی

  سابق ایم پی  

 بانی وسرپرست آل انڈیایونائٹیڈمسلم مورچہ

 شالمیاراپارٹمینٹ لال باغ لکھنؤ

 9431016479


    بابری و دادری کو ایک نظریہ سے دیکھنا ہمارے نمائندوں کی بہت بڑی بھول ثابت ہوئی۔ کیونکہ اس کڑی کی سب سے بڑی چیز تو یہ ہے بیف کا مسئلہ اصل میں ووٹ کی سیاست کے لئے محض ایک مدعہ ہے جس طرح سے بابری مسجد تنازعہ دراصل سنگھ پریوار کا ایک مدعہ تھا یہ بھی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن آستھا کے سوال پر مسئلے تبدیل کرنے میں وہ کامیاب اس لئے ہوا چونکہ معاملہ بھارت کی سرحد تک ہی محدود تھا۔ بیف کو بھی پہلے مدعہ کے طور پر ہی سنگھ استعمال کرنے کا اور اسے بھی ہندوؤں کی آستھا سے جوڑنے کا کام کرے گا لیکن یہ محض ووٹ یکجا کرنے کا ایک ذریعہ ہی بنے گا بابری مسجد کی طرح اسے انٹرنیشنل ایشو نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ وجہ بالکل صاف ہے دنیا بھر میں بیف کا ایکسپورٹ جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے جس میں ہندوستان نہ صرف نمبر ایک ہے بلکہ یہاں سے سپلائی کا ڈیمانڈ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ بڑھتے ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لئے ایسی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں جہاں بیک وقت 100 سے 150 جانور ایک بار میں مشین سے ذبح کی جاتی ہیں۔ پھر ان کے چمڑے چھیلے جاتے ہیں ، بوٹیاں بنائی جاتی ہیں جسے پیکٹوں و ڈبوں میں بھر کر ایکسپورٹ کیاجاتاہے۔یہ سین اگر اس سماج کو دکھلا دیا جائے جسے سنگھ پریوار والے ’’گائے ہمارے ہماری ماتا ہے مسلمان اسے کھاتا ہے‘‘کے نام پر جذباتی بنانے کا کام لمبے عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں تو پھر ان کے اس خفیہ ایجنڈے پر پانی ہی پھر جائے پر لیکن یقین مانئے تو یہ سین عام بھارتیوں کو کبھی دیکھنے کو نہیں مل سکتا ہے۔ کیونکہ ان فیکٹریوں کے مالکان جو زیادہ تر گئو کو ماتا ماننے والوں میں سے ہیں۔ ان کو بڑا خسارہ ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ جو یہ کسی بھی قیمت پر بھی برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ پھر ہندوستان میں جسکی بھی سرکار بنے پر انٹرنیشنل رشتوں کی وجہ کر وہ ایکسپورٹ بند بھی نہیں کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے پہلے ہی کہا کہ یہ معاملہ سرحدوں سے باہر چلاجاتا ہے۔ جہاں باہری ممالک سے رشتوں کا معاملہ سامنے آجاتا ہے لہذا یہ بابری مسجد جیسا معاملہ نہیں بن سکتا ہے۔ ان پر ساری حقیقت کو جانتے ہوئے بھی سنگھ پریوار والے کو آستھا کے نام پر کیوں گھسیٹ کر سیاسی استعمال کرنا چاہتے ہیںاسکو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 1526 میں مغل حکومت قائم ہونے کے بعد بابر نامہ میں گائے کے ذبح پر بندش کی ہدایت ہے۔ جبکہ میر قاسم 712 ؁ء میں ہندستان میں داخل ہوا تھا۔ تب سے لے کر مغل راج قیام کے 800 برسوں کے عرصے کے بیچ بھی بہت سارے مسلم راجاؤں کی حکومت آئیں اور ختم ہوئیں۔ ان حکومتوں میں بھی گائے کے ذبح کولے کر اسی طرح کا تنازعہ ضرور ہوتا ہواگا جیسا کہ آج ہورہا ہے ۔ تبھی تو مغل راج بابر نامہ کا یہ فرمان ہدایت کے طور پر درج ہے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہندو گرنتھوں میں  گائے کے گوشت کے استعمال کو لیکر جو بھی تاریخی حقیقت رہی ہوں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آج کی تاریخ میں گائے کی ماتائی حیثیت سے ہندو بھائیوں کے رگوں میں سمائی ہوئی ہے اور مسلمان یہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں یہ بھی مسلم  محلوں کے گوشت کی دوکانوں اور مسلم ڈھابوں کی حالات سے سارے بھارتی سماج کے سامنے عیاں ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے بیچ نفرت کی دیوار کو سب سے زیادہ مضبوطی بیف سے ہی ملتی ہے چونکہ شاید ہی کوئی ہندو فرد ہو جسکے دل میں تھوڑے ہی وقفے کیلئے یہ تذبذب نہ پیدا ہو جب اسے کسی مسلم کے گھر سے کھانے پر دعوت ملتی ہو خواہ وہ دعوت دینے والے کا جگری دوست ہی کیوںنہ ہو ۔ کیونکہ آج بھی راہ چلتے اس کی نظروں سے روزانہ وہ سارے نظارے گذر رہے ہیں میں جو اسکے جذبات کو لمبے عرصے سے مجروح کرتے چلے آرہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔دن بدن بدلتے چلے گئے سماجی ماحول میں آج بھی کھلے عام ذبح کرنے اور روڈ کے کنارے ہوٹلوں میں کباب و سموسہ تیار کرنے میں ہمیں جھجھک نہیںلگتی ہے تو اندازہ لگائے کہ مسلم دور حکومت میں کیا ہوتا ہوگا۔ برادران و طن کے جذبات کو تو ہم سبھی کتنا مجروح  کرتے چلے آرہے ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ لمبے عرصے سے چلے آرہے اس  تنازعہ کو کم کرنے کے بجائے ہماری قوم نے اپنی حرکتوں سے مزید آبیاری کی ہے۔ دھیرے دھیرے پیدا ہوتے اسی ابال کا نتیجہ آج ہمیں دیکھنے کو نظر آرہا ہے چاہے وہ دادری کا معاملہ ہو یا کشمیر کی اسمبلی میں بھاجپا ممبر کے ذریعہ مسلم ممبر کو مارنے کاہو۔ ساکچھی کے ذریعہ سرے راہ مارنے کی دھمکی تو ان سب قدموں سے مزید ایک قدم آگے کی بات ہے جو عنقریب مستقبل میں ہوسکتا ہے۔ بیف معاملہ کے اس بڑھتے قدم کو روکنے اور اسے ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کے لئے مسلمانوں کو ہی حکمت کے ساتھ صرف ایک ہی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں بھی اس پیشہ و ہوٹلوں میںبیف کے استعمال کو پردے کے پیچھے لے جانا ہوگا۔ روڈ پر ذبح کرنے وسرے عام مال تیار کرنے ، کھلے عام اس کی بکری و جیسے تیسے اسکے ایکسپورٹ کے بجائے کا اس طرح کا انتظام قائم کریں تاکہ عام ہندوستانی کی اس پر نگاہ نہ پڑے۔ اس طرح ملی جلی آبادی کے بیچ روڈ کے کنارے والے مسلم ہوٹلوں و ڈھابوں میں کھے عالم کباب وا شٹو تیار کرنے کے بجائے بند کمروں میں تیار کرنے کاانتظام ہو تاکہ وہاں سے گذرتے وقت کسی دوسرے کو ناک پر رومال رکھنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ بیف ایکسپورٹ کی فیکٹریوں کے خلاف عام ہندوبھائی بھڑکے نہیںکیونکہ وہ انہیں دکھائی نہیں دیتا لیکن ان کے مدمقابل مسلمانوں کے ذریعہ کم مقدار میں اسکا استعمال برادر وطن کی نظرمیں صرف اسلئے خوار ہے چونکہ یہ انہیں دکھائی دیتا ہے جو مستقبل میں سرعام دادری کے واقعے کو دوہرا سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے جبکہ ہم اپنی زبان پر کنڑول کرتے ہوئے گائے کا گوشت کھانا بند کریں۔ ساتھ ہی ہمارے دانشور علماء وسماجی کا رکنوں کو چاہئے کہ وہ پورے ملک میں اس کاروبار کو پر دے کے پیچھے لے جانے کی حکمت کو اپنائیں تاکہ اس  پیشہ پر منحصر مسلم قوم پر روزی کی مار بھی نہ پڑے۔ گوشت خوروں کی خوراک پر بندش نہ لگے۔ ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی ٹھنڈا ہو جائے۔ یاد رکھئے آج سے ہم اس پر عمل کریں گے تو لمبے عرصے کے بعد اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ورنہ بیف پر ردعمل ہماری طرف سے جو سلسلہ جاری ہے اس سے بڑی بڑی فیکٹریاں تو بند نہیں ہونگی لیکن مسلمانوں کو اسکے آڑ میں سنگھ پریوار ایسا اور اتنے لمبے دنوں تک پھنسا کے رکھے رہے گی جب تک بھارت، ہندو ر اشٹر نہ بن جائے ۔

(یو این این)


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 501