donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Maulana Md. Abdul Sami Nadvi
Title :
   Musalman Dahsht Gard Kaise Ho Sakta Hai

جس امت کے پیغمبر کو ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہو


اُس پیغمبرؐ کاامتی دہشت گرد کیسے ہوسکتا ہے؟


ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی

صدر آل انڈیا امامس کونسل شہر اورنگ آباد

لیکچرر شعبہ عربی ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار ویمن نوکھنڈہ اورنگ آباد

موبائل:9325217306


     آگ اور پانی ، شعلہ اور شبنم جس طرح دو الگ الگ متضاد چیزیں ہیں ویسی ہی اسلام اور دہشت گردی دونوں متضاد چیزیں ہیں۔ کیونکہ اسلام امن و شانتی کا مذہب ہے ، اس کا ماننے والا دہشت گرد کیسے ہوسکتا ہے؟ مسلمان دہشت گرد ہوہی نہیں سکتا۔ ایک نہایت ہی بدکار گناہگار ، فاسق و فاجر اور شرابی کو جس نے پیاسے کتے کو پانی پلا دیا جس پر آنحضور ﷺ نے اُسے جنت کی بشارت دے دی۔اسی طرح ایک نہایت متقی ، پرہیزگار ، عبادت گذار خاتون کو صرف اسی وجہ سے دوزخی قرار دے دیا گیا جس نے بلی کو بغیر کھلائے پلائے باندھ کر رکھ دیا اور مار دیا تھا اور حضورؐ کا یہ فرمان کہ جانوروں کو باندھ کر رکھا جائے تاکہ وہ مر جائے نہایت سخت گناہ ہے۔ ایسا رحمت والا نبیؐ جس نے جانوروں کے ساتھ رحم دلی ، ہمدردی اور مہربانی کا حکم دیا ہو اور انھیں تکلیف پہنچانے سے روکا ہو وہ انسانوں کے ساتھ رحم دلی اور مہربانی اور بھلائی کرنے کا حکم کس طرح دیتا ہے ملاحظہ کیجئے: ’’جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ سراپا رحمت عالم حضورﷺ کا فرمان کہ دنیا کے سارے انسان اللہ کا کنبہ ہے ان میں سب سے بہتر آدمی وہ ہے جو اللہ کے کنبہ کے ساتھ بہتر برتاؤ کرتا ہو۔ حضورﷺ کا یہ فرمان : خدا کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرے لوگ محفوظ نہ ہوں۔ اسی طرح حضورﷺ کا تین مرتبہ قسم کھا کر یہ ارشاد فرمانا کہ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ، صحابہؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولؐ کون شخص مومن نہیں؟ کہا : جس کی شراتوں اور تکلیفوں سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ یہ اور اِس طرح کے سینکڑوں ارشادات جس نبیؐ کے ہوں ایسے نبیؐ کے امتی دہشت گرد کیسے ہوسکتے ہیں؟ دہشت گرد دراصل وہ ہوتا ہے جو اپنے خالق سے بے خوف اور بے خبر ہوتا ہے اور جسے آخرت کی فکر نہ ہو۔ مسلمان اپنے خالق کو نہ صرف جانتے اور مانتے ہیں بلکہ اُس سے خوف بھی کھاتے ہیں اور ان کا کامل ایمان ہوتا ہے کہ انھیں اپنے کئے کا حساب کتاب دینا ہے۔ اس لئے وہ کبھی بھی انسانیت کے ساتھ ظلم و ستم ، ماردھاڑ ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی اختیار نہیں کرسکتے۔ دہشت گردی ، ماردھاڑ ، قتل و غارت گری ، فتنہ و فساد وہ مچاتے ہیں جو دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ دنیاوی عیش و عشرت ، مالی مفاد ، تعیش کے اسباب و وسائل اور سامان تعیش اور اِس دنیا کو موج و مستی کی جگہ سمجھتے ہیں۔ آخرت کی زندگی کا جنھیں نہ ہی تصور ہوتا ہے نہ ہی اُس کی خبر و فکر ہوتی ہے۔ یہی لوگ حقیقت میں زمین میں فتنہ فساد ، لوٹ مار ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے ، عام لوگوں کی آنکھوں پر پٹی پڑی ہوتی ہے اور وہ جنھیں معلوم ہیں کہ اصل دہشت گرد کون ہیں، وہ خاموش تماشا بیں بنے ہوئے ہیں انھیں یا تو اپنی کرسی عزیز ہے یا اپنا اقتدار عزیز ہے یا مال و دولت عزیز ہے یا انھیں اپنی جان پیاری ہے اور یہ سب ایک ہی حمام کے ہیں اور ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ ابھی حالیہ چنائی کے سیلابی آفت اور طوفانی مصیبت میں مسلمانوں کی طرف سے انسانیت ، آدمیت اور اچھے سلوک اور بہتر برتاؤ کی میڈیا میں کافی ستائش ہورہی ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ۔ سیکڑوں ہزاروں واقعات ایسے مل جائیں گے ۔ کیونکہ مسلمان رحمت عالم کی تعلیم سے آشنا اسلامی تہذیب کا خوگر مذہبی ہوتا ہے۔ شرافت اور انسانیت اُن کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ خدا اور رسولؐ کے احکامات اُن کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ وہ خلوص و للہیت اور خدا کی خوشنودی کے لئے وہ کام کرتے ہیں۔ آخرت کا تصور اُن کے ذہن و دماغ میں ہوتا ہے ۔ دنیاوی وسائل اور مادی فوائد ان کے کبھی پیش نظر نہیں ہوتے۔ کیونکہ دنیا کی حیثیت ان کی نظر میں مچھر کے پر کے برابر ہوتی ہے۔ وہ تو صرف آخرت پر نظر رکھتے ہیں۔ خدا و رسول کے حکم کو بجا آوری کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ فرمان رسالت مآب ﷺ ہے بیوہ ، یتیم ، مجبور اور پریشان حالوں کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ یا وہ ایسا ہے جیسا کہ رات بھر نمازیں پڑھنے والا ہو کبھی تھکتا ہی نہیں۔ یا وہ ایسا ہے جیسا کہ مسلسل روزہ رکھنے والا ہو ، کبھی رکتا ہی نہیں۔ یہ تو مادہ پرست یہودیوں اور عیسائیوں کی ازلی سازشیں ہیں کہ اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرتے رہتے ہیں اور عام انسانوں کو اسلام اور مسلمانوں سے برگشتہ کرنے کی فراق میں رہتے ہیں۔ ساتھ ہی شعائراسلام سے نفرت دلانے کی خاطر داڑھی ، پردہ ، حقوق خواتین جیسی چیزوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ داڑھی والے کودہشت گرد بتاتے ہیںتاکہ داڑھی ہی سے نفرت ہو جائے اور پھر داڑھی والے ظالم ، جلاد اور بدمعاش ہوتے ہیںکہہ کر میڈیا میں بات چلائی جاتی ہے جبکہ داڑھی یہودی ، عیسائی اور غیراقوام کے لوگ بھی رکھتے ہیں۔ داڑھی شعائر اسلام میں ایک نہایت ہی قابل احترام سنت ہے اور یہ حقیقت ہے کہ حقیقی معنی میں جو مسلمان داڑھی رکھتا ہے وہ محبت رسولؐ سے سرشار اور اُس کے اسوہ پر فدا و جاں نثار ہوتا ہے اور آپﷺ کی ساری تعلیمات پر عمل پیرا ہوتا ہے بھلا وہ دہشت گرد کیسے ہوسکتا ہے؟ ممکن ہے کبھی کبھی بدمعاش بھی داڑھی رکھ لیتے ہیں اور وہ کوئی حرکت بد انجام دے دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے تمام داڑھی والوں کو نیچے دیکھنا پڑتا ہے اور یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ یہودی اور عیسائی یا غیرقوم کے لوگ داڑھی رکھیں تو مذہبی کہلائے اور مسلمان داڑھی رکھیں تو دہشت گرد۔ یہودی عیسائی کسی ایک سبجیکٹ میں اختصاص پیدا کرنے کے لئے محنت کریں تو اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور مسلمان اگر کسی ایک فن میں ، فن حدیث ، فن تفسیر یا کسی فن میں فضیلت و اختصاص پیدا کرے تو اسے تنگ نظر اور معیوب سمجھاجاتا ہے ۔ کوئی یہودی یا مسیحیت کی پروردہ خاتون پردے کی پابندی کرے تو اسے کٹر مذہبی تصور کیا جاتا ہے اور اگر کوئی مسلم خاتون پردے کی رعایت اور اہتمام کرے تو اُس کو دقیانوسیت تصور کیا جاتا ہے۔گویا کہ دورِحاضر میں یہودی اور عیسائیوں کے تمام عیوب ، ہنر تصور کئے جاتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے تمام ہنر ،عیوب شمار کئے جاتے ہیں اور یہ سب اُن کے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔میڈیا ، ذرائع ابلاغ چاہے ہندوستانی سطح کا ہو یا عالمی سطح کا اُن پر اکثروبیشتر جن لوگوں کا کنٹرول ہے وہ اسلام دشمن طاقتیں ہیں یا وہ ہیں جو اسلام دشمن طاقتوں کے زرخرید ہیں۔ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ یہ زر کے عوض زیرو کو ہیرو ظالم کو مبنی برحق اور مظلوم کو گناہگار ٹھہرا دیتے ہیں۔ کوئی مسلم نوجوان چاہے بے قصور ہی کیوں گرفتار نہ ہوا ہو ، اُسے یہی ذرائع ابلاغ مجرموں کی فہرست میں شامل کردیتے ہیں ۔ اُس پر گھنٹوں بحث کرتے ہیں جبکہ ابھی صرف اُس پر تہمت یا الزام لگا ہے۔ حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی اور جب یہ گرفتار کردہ شخص کچھ سالوں کے بعد باعزت بری ہوتا ہے تو اُس کی رہائی کی خبر چند ہی منٹوں میں دے دی جاتی ہے۔ عالمی سطح پر ۱۱؍۹ ٹریڈ سینٹر کا یا پاکستان کے پشاور شہر میں لگ بھگ ۱۵۰ کے قریب معصوم بچوں کے قتل کا واقعہ ہو یا ان جیسے بے شمار دھماکوں کے واقعات میں ان ہی کی تخریبی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے۔ ایک اہم بات جو نہایت قابل غور و فکر اور توجہ دینے کی ہے کہ کبھی کبھی خودکش دھماکے کرنے والے کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ، گوشت کے چیتھڑے چیتھڑے ہوجاتے ہیں مگر اُس کا پاسپورٹ بالکل صحیح سالم ملتا ہے۔ نقلی داڑھیاں ، ٹوپیاں ، کرتے پاجامے یہ سب فرضی ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس موقع پر جو پکڑے جاتے ہیں وہ مسلمان بھی فرضی ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ قاتل بھی وہی ، مدعی بھی وہی اور منصف بھی وہی اور میڈیا میں تشہیر کرنے والے بھی وہی۔ مزید یہ کہ کسی کی چیز کی ذمہ داری قبول کرنے کی خبر بھی وہی نشر کرتے ہیں ، یہاں ذمہ داری قبول کرنے والا میڈیا والوں کو تو مل جاتا ہے لیکن جنھیں شدت کے ساتھ مطلوب ہوتا ہے انھیں باوجود تلاش کرنے کے نہیں ملتا۔یہ عجیب معمہ لگتا ہے۔ تمام خبریں ان ہی طرف سے آتی ہیں اور اُسی کو سچ مان لیا جاتا ہے۔


    انسانی مساوات ، تحمل و برداشت ، نرمی و ہمدردی ، رحم دلی و رواداری ، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ اور سماجی ناہمواری کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ، یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کی طرف دنیا کے سارے ہی مذاہب رہبری رہنمائی ، تلقین و تاکید کرتے ہیں لیکن مذہب اسلام خصوصاً ایک ایسا عالمگیر امن پسند مذہب ہے جو رہتی دنیا تک دنیا کے سارے انسانوں کے لئے باعث رحمت ، باعث امن و سکون اور امن و سلامتی کا ضامن مذہب ہے۔مذہب اسلام کا گہرائی اور گیرائی اور تعصب کی عینک اتار کر یوروپین جب اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کی حقانیت کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یوروپی ممالک میں اسلام کے فروغ کی حقیقی وجہ یہی ہے کہ وہاں کے تعلیم یافتہ افراد جب اسلامی لٹریچر سے قریب ہوتے ہیں اور اسلامی کلچر کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انھیں اس کی تمام تر تعلیمات فطرت کے عین مطابق اور بشری اور فطری تقاضوں کے ہم آہنگ پاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ باطل کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں اور حق کو دبانے ، اُس کو مٹانے اور اسے بدنام کرنے کی نت نئی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔رحمت عالم ، پیغمبراسلام کی شان میں گستاخیوں کا جو سلسلہ ہے وہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے لیکن اسلام کی فطرت میں قدرت نے جو لچک دی ہے کہ اسے جس قدر دبایا جائے گا وہ اسی قدر ابھر کر رہے گا، یہ فطرتِ اسلام کا لازمی خاصہ ہے۔ ’’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ‘‘ آپ انھیں اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت و دانائی ، عقل مندی و ہوشیاری کے ساتھ بلایئے اور احسن طریقے سے ان کے ساتھ مجادلہ اور مباحثہ کیجئے۔ اس آیت پر عمل آوری ہی اُن اعدائے اسلام اور دشمنان مسلمان کا دندان شکن جواب ثابت ہوگا۔ آج کا دور بڑا پرآشوب اور پرفتن دور ہے۔ سائنس و تکنالوجی کا ترقی یافتہ دور ہے۔ موجودہ دور الحادپرستی و دہریت کے بام عروج کو پہنچ گیا ہے۔ انکارِ رسالتؐ اور انکار آخرت کا سیل رواں اپنی حدوں کو پار کرچکا ہے۔ عیسائیت ، سبائیت ، بہائیت ، قادیانیت ، یہودیت اور اشتراکیت جیسی اسلام دشمن طاقتیں اپنی تمام تر عیارانہ ، مکارانہ ، شاطرانہ اور مفسدانہ چالوں کے ذریعہ دنیا کے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف  سرگرم عمل ہیں۔ وہ اپنی تمام تر قوت و توانائی اسلام دشمنی میں خرچ کررہے ہیں۔ سائنس و تکنالوجی کا بے محابہ استعمال ، اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ عالمی سطح پر مجروح کرنے کی خاطر ذرائع ابلاغ اور الیکٹرنک و پرنٹ میڈیا کا لامتناہی سلسلہ اسلامی تہذیب و کلچر کو داغدار بنانے کے لئے نت نئی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کردیا گیا ہے اور ان کی تمام تر توجہ صرف مدافعانہ کوششوں میں ہورہی ہیں جبکہ وہ اُن کے اپنے اہداف و مقاصد کو بروئے کار لانے میں کوسوں دور کردیئے گئے ہیں۔ عیسائیت و یہودیت جو اصلاً نسلاً اور طبعاً ایک دوسرے کے نظریاتی طور پر کٹر مخالف ہیں مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یک جٹ ہوگئے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو نیچا دکھانے یا تکلیف پہنچانے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ان کی تمام تر کوششیں مادی مفادات اور خودغرضی کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ انھیں نہ اپنے مذہب کی قدر ہے اور نہ ہی اس کی فکر ہے نہ ہی اس سے لگاؤ ہے نہ ہی دلچسپی۔ نہ ہی عقیدت و محبت اور نہ ہی مذہبی تعلق انھیں تو دلچسپی ہے اغراض دنیاوی سے مالی مفادات سے اور مادی وسائل سے۔ ان کی ساری زندگی اقتدار کی خواہش اور دولت کی ہوس پر مبنی ہوتی ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جس کی وجہ سے نہ ہی ان کے اندر انسانیت ہے نہ ہی شرافت۔ نہ ہی مروت ہے نہ ہی ہمدردی ۔وہ انسانوں کی شکل میں بھیڑیے ہیں جو بظاہر اپنے آپ کو انسانوں کا مسیحا کہلواتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ انسانوں کے قاتل بنے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی ہلاک اور برباد کرتے جارہے ہیں۔ عراق ، فلسطین، مصر ، شام اور افغانستان میں ہلاکتوں کا لامتناہی سلسلہ سب ان ہی کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ دورِ حاضر میں مسلم دنیا جن حالات کا شکار ہیں ان حالات کا سدباب کرنا ضروری ہے۔ تمام مسلم ممالک کا متحدہ وفاق جن کے پاس دم بھی ہے خم بھی، زر بھی ہے زور بھی۔ صرف حقیقی علم و عرفان اور سیاسی شعور و آگہی کی ضرورت ہے اور ہندوستانی سطح پر ساری تنظیموں ، تحریکوں ، جماعتوں اور مسلکوں کا متحدہ محاذ و پلیٹ فارم جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی شکل میں موجود ہے جو ہندوستانی مسلمان کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ملکی سطح پر تمام ہندوستانی مسلمانوں کی بہتر طریقہ سے رہبری و رہنمائی کرسکتا ہے جس کی آواز پر ہر مسلمان لبیک کہتا ہے اور جس کا حکم واجب العمل ثابت ہوسکتا ہے ۔ دین و دستور بچاؤ اسی تحریک کی ایک کڑی ہے۔ ہندوستانی اور عالمی سطح پر اپنا خود کا بغیر کسی شرکت غیر کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا وجود میں لانا ہوگا۔ جب تک خود کا میڈیا اور خود کا ذرائع ابلاغ نہ ہوگا ، نہ ہی ہندوستانی مسلمان اور نہ ہی عالم اسلام اپنی سیاسی ، سماجی ، دینی و مذہبی لحاظ سے عالمی پس منظر میں نمایاں مقام پانے میں کامیاب ہوسکے گا اور نہ ہی ان کی تنزلی و انحطاط عروج و ترقی میں تبدیل ہوگی   ؎

دل بدل سکتے ہیں جذبات بدل سکتے ہیں
ملک کے فکر و خیالات بدل سکتے ہیں
دور موجود کے دن رات بدل سکتے ہیں
تم بدل جاؤ تو  یارو  یہ حالات بدل سکتے ہیں

(یو این این)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 583