donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mozaffar Hussain Ghazali
Title :
   An Data Ke Man Ki Baat


انداتا کے من کی بات


ڈاکٹر مظفر حسین غزالی


کسان ! میڈیا اور سیاست دانوں کی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے اس سے پیا ر اور ہمدردی جتانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس گفتگو سے کسان کے بنیادی سوال سرے سے غائب ہیں  کھیتی اناج اگانے کے بجائے وو ٹ بنانے کا ذریعہ بن رہی ہے ۔ کسان کو دیش کی بھوک مٹانے والا ، انداتا کہا جاتا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس سے من کی بات کی لیکن اس کے من کی بات سرکار تک پہچانے کا طریقہ نہیں بتایا ۔ کسا ن کب سے اپنا دکھ بیان کرنا چاہتا ہے سرکار آتی ہے چلی جاتی ہے  دیش کے  مکھیا بدلتے رہتے ہیں اس کی کوئی سدھ نہیں لیتا جبکہ ملک کا دستور بنانے والوں نے ذراعت اور پشو پالن کو ریاست کے پالیسی ساز عناصر نے جگہ دیکر عزت بخشی تھی ۔

آج سب کو کسان کی جان کی فکر ہے لیکن اس کی روح کھیت کھلیان میں بستی ہے اسی زمین نے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ’’ میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے اگلے ہیرے موتی ۔۔۔۔۔۔‘یہ کسان اور دیش کی 60-70فیصد آبادی کی زندگی کا سہارا ہے کیونکہ ان کے جیون کی ڈور اسی زمین سے بندھی ہے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کسان قدرتی مار ، بے موسم اولے اور برسات کی وجہ سے خود کشی کررہے ہیں یا اس کی وجہ کچھ اور ہے ۔ وقتی طور پر موسم کے بدلے مزاج نے کسانوں کی جان جوکھم میں ڈالی لیکن اس درد اور مسئلہ سے کسانوں کا رشتہ پرانا ہے ۔کھلی معیشت (لبرل معاشی پالیسی ) سے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہیں آسان ہوئیں اور نجی زمرے کی کمپنیوں کو فروغ ملا وہیں اس نے کھیت اور کسان کو بری طرح متاثر کیا وقت گزرنے کے ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے گئے کسان خود کشی کرنے کو مجبور ہونے لگے ۔1997میں پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں کسانوں کی خود کشی کے واقعات سامنے آئے اس میں سال در۴ سال اضافہ ہی ہوا ہے ۔

فصلوں کی لاگت اور اس سے ہونے والی آم دنی سے کسانوں کی پریشانیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کھتی کی لاگت اور قیمت کمیشن سی اے سی پی سرکار کا اپنا ادارہے جو کسانوں کے لئے فصلوں کی قیمت مقرر کرنے کے اصول طے کرتا ہے اس کے آنکڑے دوسرے سروں اور مطالعوں سے کہیں زیادہ معتبر ہیں ۔اپنی حالیہ روپوٹ میں سی اے سی پی نے 10۔2011اور 12۔2013   کی مدت میں اوسط لاگت و منافع کے آنکڑے پیش کئے ہیں ملک کی سطح پر گیہوں سے ملنے والا منافع 14260،تلہن سے 14960، اور چنے سے 7478روپے فی ہیکٹیئر ہے ۔ یوپی میں کسانوں کے سب سے زیادہ خود کشی کے واقعات ہوئے ہیں وہاں کسان کو گیہوں سے ملنے والا اوسط منافع 10758روپے ہیکٹیئر ہے کیونکہ گیہوں کی فصل چھ ماہ کی ہوتی ہے  اس لئے اس کی فصل کرنے والے کسان کی اوسط آمدنی 1793روپے فی ہیکٹیئر ہوتی ہے اگر وہ دھان کی فصل بھی لگا رہا ہے تو اس سے آنے والی آمدنی 4311روپے کو اور شامل کر لیجئے اس طرح اس کی آمدنی 15679روپے ہو جاتی ہے ۔یعنی 1306روپے ماہانہ۔ایسے میں کسی بھی کسان کے لئے موت کو گلے لگانے کا پورا امکان ہے اگر دوسری ریاستوں کا حال دیکھیں تو پنجاب میں دھان کی فصل منافع دیتی ہے 17651   ہریانہ میں 17960اور آندھرا پردیش میں 6483روپے فی اہیکٹیئر  جبکہ آسام اور بہار میں اس فصل سے کسان کو 3361،226 روپے ہیکٹیئر کا نقصان بھگتنا پڑتا ہے ۔پنجاب کا کسان گیہوں سے 18701روپے ہیکٹیئر حاصل کرتا ہے اگر وہ دونوں فصلیں لگائے تو اس کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے 36352روپے ۔ یعنی 3029روپے ماہانہ ۔ایک صفائی کارکن کی آج ماہانہ تنخواہ 15ہزار سے 18500روپے ہے یہ بھی بتا دیں فصل کی قیمت مقرر کرنے کا طریقہ کتنا مضحکہ خیز ہے مثال کے طور پر دھان کی فصل کی قیمت مقرر کرتے وقت فصل کی لاگت میں کسان کی 15دن کی مزدوری اور بیل جوڑی کی تین دن کی محنت جوڑی جاتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا 15دن کام کرکے دھان کی فصل تیار کی جا سکتی ہے ۔حکومت نے سپریم کور ٹ میں حلف نامہ دیکر کہا ہے کہ فصلوں کے دام کو کسان کی لاگت سے ڈیڑ گنا کرنا ممکن نہیں اس سے غذائی اجناس بہت مہنگے ہو جائیں گے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے کے لئے دائر عرضی پر سرکار نے یہ جواب دیا  تو اناج اور کھانے کی چیزوںکی قیمت کم رکھنے کی ذمہ داری کیا صرف کسان کی ہے  سرکار کا یہ رویہ  انداتا کی پریشانیوں میں  میں اضافہ کرتا ہے کیونکہ کم آمدنی کی وجہ سے کسان  غریبی اور بھکمری کے کگار پر پہنچ چکا ہے ۔

دیش میں 60کروڑ کسان اور 6.4لاکھ گائوں ہیں 17برسوں میں لگ بھگ 3لاکھ کسانوں نے خود کشی کی ہیں صرف 2013میں 11772کسانوں کی جان گئی تقریبا 25کروڑ کسانوں کے پاس زمین نہیں ہے وہ یا تو بٹائی پر کھیتی کرتے ہیں یا کھتیوں میں مزدوری ایک ہزار سال حکومت کرنے  کے با وجود  60.2فیصد مسلمانوں کے پاس دیہی علاقہ میں کھتیی کی زمین نہیں ہے وہ کھیت مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں صرف 2.1فیصد مسلم کسانوں کے پاس ٹریکٹر ہے 1980میں کسان کی آمدنی کا فرق ایک اور ڈھائی کا تھا آج اس کا تناسب ایک اور چھ کا یعنی کسان کی آمدنی ایک ہزار ہے تو آم آدمی کی انکم  چھ ہزار اتنی بڑی آبادی کھیتی پر منحصر ہونے کے با وجود ملک کی کل پیدا وار میں صرف 17فیصد  حصہ کھیتی کا ہے یعنی ملک کی کل آمدنی کا 17فیصد ہی کھیتی سے جڑے  لوگوں کو مل پاتا ہے اس لئے 62فیصد کسانوں کا انحصار من ریگا سے ہونے والی آمدنی پر ہے 58فیصد کے لئے دو جون کی روٹی جٹانا مشکل ہوتا ہے 52فیصد کسان مہاجنوں کے قرض میں ڈوبے ہیں بڑے کسانوں کے قرضے پھر بھی معاف ہو جاتے ہیں لیکن چھوٹے کسان کو کئی بار یہ قرضہ اپنی جان سے چکانا پڑتا ہے ۔ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں بڑا حصہ انہی انداتائوں کا ہے ۔اگر سرکار ایک سے دو ایکڑ زمین انہیں مہیا کرادے تو ان کی زندگی میں بڑا بدلائو آسکتا ہے لیکن سرکار تو کھتیی کو بھی کارپوریٹ کے حوالے کرنے کی تیاری کررہی ہے ۔

بی جے پی نے لوک سبھا اور ہریانہ اسمبلی الیکشن میں اپنے انتخابی منشور میں لکھ کر کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ و ہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو لاگو کروائے گی ان کی فصل کی لاگت پر 50فیصد منافع جوڑ کر قیمت طے کی جائے گی اقتدار میں آنے کے بعد اس نے نہ صرف اپنے وعدے کو بھلا دیا بلکہ مستقبل میں بھی ایسے کچھ کرنے سے انکار کردیا  نریندر مودی تو قانون کی کلہاڑی سے کسان کا رشتہ ہی زمین سے ختم کرنا چاہتے ہیں تبھی تو انہوں نے 2013کے قانون کی تمام شرطوں کو الٹ کر انگریزی راج کی یاد تازہ کردی ۔ اس میں تحویل آراضی کے لئے کم از کم 80فیصد کسانوں کی رضا مندی ضروری تھی نجی ساجھداری والی عوامی اسکیموں کی غرض سے آراضی کی تحویل کے لئے 70فیصد کسانوں کے متفق ہونے کو لازمی کیا گیا تھا ساتھ ہی یہ شرط جوڑی گئی تھی تحویل آراضی کی صورت میں زمین سے جڑے لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوگا اس کا جائزہ لیکر ہی تحویل کا کام پورا کیا جائے ۔ دیش کی حفاظت یا انتہائی مخصوص حالات میں ارجنسی کلاس کے تحت تحویل کو اس شرط سے مشتسنیٰ رکھا گیا تھا ۔2013قانون کی دفعہ105(3)میں کہا گیا تھا کہ زمین سے بے دخل ہونے والوں کو معاوضہ دینے ، دوبارہ بسانے و ان کے استحکام سے متعلق 13قانونوں کو بدلا جائے گا تاکہ کسانوں کی حالت میں بہتری آسکے موجودہ سرکار نے اس پر کچھ کام نہیں کیا بلکہ معاوضہ بڑھانے کے بجائے آدھا کردیا ۔مثال کے طور پر زمین کا سرکاری دام بیس لاکھ ہے تو کسان کو اسی لاکھ ملنے تھے ہریانہ سرکار نے نیا ضابطہ بنا کر دام کو دوگنا کرنے کے بجائے جوں کا توں رکھا ۔یعنی ہریانہ کے کسان کو اسی لاکھ کے بجائے چالس لاکھ ہی ملیں گے ۔

2013کے قانون میں کئی فصلیں دینے والی زرخیز زمین کی تحویل انتہائی مجبوری کی حالت کیا جانا تھا اور اصل ضرورت سے زیادہ یا پانچ سال تک خالی رہنے والی زمین کو کسانوں کو واپس کرنے یا ریاستی لینڈ بنک میں شامل کرنے کی بات کہی گئی مودی سرکار کے وزیر نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ سیج کے لئے تحویل میں لی گئی زمین میں سے تقریبا آدھی زمین کا پانچ برسوں میں کوئی بھی استعمال نہیں ہوا ۔قاعدہ میں یہ زمین کسان کو واپس ہونی چاہئے  ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جو زمین زرخیز نہیں یا کم زرخیز ہے اس کی تحویل میں کسی کو کوئی گریز نہیں ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آدی واسی علاقوں کی زمین تو بنجر یا کم زرخیز ہے لیکن یہی ان کی زندگی کا ذریعہ ہے اگر یہ نکل گئی تو ان کا کیا ہوگا ؟ زندگی سبسڈی یا مدد سے نہیں چلتی ۔

آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی زمین کی میپنگ ، گریڈنگ اور تقسیم نہیں کی گئی اس کی وجہ سے  دیش  ایک طرف نکسلواد کا سامنا کررہا ہے تو دوسری طرف سرکار کو ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کے واسطے تحویل آراضی قانون کا سہارا لینا پڑتا ہے سرکار زمین کی درجہ بندی کرکے ایک سے چار تک کی زمین چھوڑ دے باقی کو اپنی تحویل میں لے لے اس میں کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے دنیا بھر میں سرکاریں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لئے کسانوں سے زمین یا تو خریدتی ہیں یا پھر لیز پر لیتی ہیں کرائے پر زمین لینے سے کسان کو کرایا بھی ملے گا اور وہ ترقی کے کام میں حصہ دار بھی بن جائے گا سرکار تمام شعبوں میں بازار کے اصول کو اپنا رہی ہے تو تحویل آراضی کے لئے نیلامی کے طریقہ کو کیوں نہیں اپنانا  چاہتی سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ اگر کسان کمزور ہوتا ہے تو ہماری خود اعتمادی کم ہوتی ہے اور وہ مضبوط ہوتا ہے تو ہماری آزادی مضبوط ہوتی ہے ۔ ضرورت کسان کے مسئلہ پر سنجیدگی کی ہے تاکہ اس کی آمدنی بڑھ سکے اور کھیتی میں آنے والے جوکھم کم سے کم ہو سکے ۔

نریندر مودی نے کسانوں سے ریڈیو پر انتہائی جذباتی انداز میں من کی بات کہی یہ من کی کم چناوی بھاشن زیادہ تھا ایسا لگ رہا تھا مانو وہ کسان کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوں ان کی ساری گفتگو ایک طرفہ تھی انہوں نے کہا کہ ادھوگ دھندا بڑھے گا تو روز گار ملے گا انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ منظم شعبہ ( Organised sector )میں کتنے روزگار پیدا ہوئے ؟ جو تحویل آراضی سے اجڑے یا دوسرے مقامات پر منتقل ہوئے ان میں سے کتنے لوگوں کو نوکری ملی پھر نوکری تو خاندان سے صرف ایک ہی شخص کو ملے گی اور وہ کیا ہوگی یہ کسی کو معلوم نہیں آنے والے دنوں میں کتنے مستقل روز گار پیدا ہوں گے ؟ کیونکہ آم ادیو گوں میں روزگار برابر سمٹتا جا رہا ہے مثلا بوکارو ، سپات کارخامے میں شروعاتی دور میں 52ہزار لوگوں کو روزگار ملا تھا اب وہاں محض 20.22ہزار کرم چاری ہی رہ گئے ہیں ۔

مودی کہتے ہیں کہ کسان کو زمین سے الگ ہو جانا چاہئے تاکہ دوسرے کارباروں سے اچھی کمائی کر سکیں حال ہی میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر کسان آم اگاتا ہے تو آناج سے زیادہ کما سکتا ہے اور اگر وہ کچے آم کا اچار بنا کر بیچے گا تو اس سے بھی زیادہ آمدنی ہوگی یہی بات جھار کھنڈ کے پہلے وزیر اعلیٰ بابو لال مرانڈی کہتے تھے  یعنی آدی واسیوں کو زمین بیچنے کا حق ہونا چاہئے تاکہ زمین بیچ کر وہ شہر میں رہ سکیں اور اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں پڑھا سکیں رانچی شہر میں رکشا کھیچنے والے اسی فیصد آدی واسی ہیں زمین بیچ  کر جو رقم آتی ہے وج پھر ہو جاتی ہے ساتھ میں کئی طرح کی بیماریاں بھی لاتی ہے زندگی چلانے کے لئے مستقل روزگار چاہئے اس کا مودی سرکار کے پاس کیا منصوبہ ہے انہوں نے یہ نہیں بتایا ۔

گائوں میں اسکول سڑک ، اسپتال بجلی ہو بنیادی ڈھانچہ مہیا ہو لیکن اس میں روک کہا ہے ہے گائوں  میں اسکول ہے لیکن استاد نہیں آتے اسپتال ہیں لیکن ڈاکٹر میسر نہیں ہے جن ڈاکٹروں کا وہا ں تقرر کیا جاتا ہے وہ قریب کے کسی شہر میں ذاتی کلینک چلاتے ہیں ہر طرف کرپشن ہے سرکار کی یوجنائوں میں عوام کی بھاگیداری نہیں ہے اس کا مودی کے پاس کیا منصوبہ ہے انہوں نے یہ نہیں بتایا ۔ وہ کہتے ہیں کہ نجی ادیوگ کیلئے عوامی رضا مندی کی شرط ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ عوام کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی پاسکو کے خلاف لگاتار آندولن ہو رہا ہے لیکن سرکار کارخانہ لگانے پر تلی ہے ۔

مودی نے یہ نہیں بتایا کہ کسانوں کی خود کشی روکنے کے لئے سرکار کیا قدم اٹھا رہی ہے  ایک کسان دہلی آکر  پارلیمنٹ روڈ پر مودی کے دروازے عام آدمی پارٹی کی ریلی میں ہزاروں لوگوں کے سامنے خود کشی کر لیتا ہے کیا اب کسان کی آواز سرکار تک پہنچ پائے گی ۔حقیقت یہ ہے کہ آج ہماری گھریلو پیدا وار میں کھیتی کا حصہ 13فیصد رہ گیا ہے اسے بڑھانے کے بارے میں وہ کیا سوچ رہے ہیں سرکار ریل راستوں ، نیشنل ہائی وے ، ریاستی ہائی وے کے دونوں طرف ایک ایک کلومیٹر جگہ لینا چاہتی ہے یہ کھیتی کے لائق کل زمین کا 32فیصد حصہ پیٹھتا ہے اس سے پیدا وار میں اور گراوٹ آئے گی اس سے بچنے کا ان کے پاس کیا طریقہ ہے ؟  مودی نے کسانوں کے لئے پینشن کا اعلان کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ پینشن کس بنیاد پر ملے گی زمین کے مالک کو ملے گی بٹائی دار یا پٹے دار کو ملے گی یا کھیتی مزدور کو ۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نیشنل نیشن اسکیم کی طرح ہوگی لیکن اس میں تو سرکاری کرم چاریوں کو اپنی آمدنی کا ایک حصہ دینا پڑتا ہے کسان کے پاس کھانے کا انتظام نہیں ہے تو وہ اس اسکیم میں پیسے کہا ں سے دیگا ۔

ایسا لگتا ہے کہ مودی کسانوں سے زمین چھین کر بڑے کارخانوں ، فیکٹریوں اور ادیوگوں کے لئے سستی  لیبر پیدا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ عالمی بنک نے بھارت کو یہ صلاح دی تھی کہ کسان کو زمین سے ہٹا کر ان کی ٹریننگ کی جائے تاکہ وہ صنعتی مزدور بن سکیں نتی آیوگ کے نائب صدر اروند پنگڑیا نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ کھیتی کی زمین کو تحویل میں لئے بغیر سستے مزدور فراہم نہیں ہو سکتے ۔جبکہ سچائی یہ ہے کہ اگر انڈسٹریز کی طرح ذراعت کو مالی مدد اور سستا قرض مہیا کرایا جائے تو یہ شعبہ انڈسٹریز کے مقابلہ کئی گنا زیادہ روز گار پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے دیش کی ترقی کی کوئی بھی کوشش 60کروڑ کسانوں کو نظر انداز کرکے کامیاب نہیں ہو سکتی ملک کی مکمل ترقی تبھی ہوگی جب گائوں اور  شہر کی ترقی ایک جیسی ہو کھیتی بچے گی تبھی ملک بچے گا ۔۔

( یو این این)

********************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 466