donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Aur Madawa Tere Alfaz Nahi Kar Sakte


اور مداوا  ترے الفاظ نہیں کرسکتے


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

(بہار)

موبائل9431414586-

ای میل:rm.meezan@gmail.com


    
    ان دنوں پارلیامنٹ کا سرمائی اجلاس چل رہا ہے اور گذشتہ کئی دنوں تک ملک میں برھتی عدم رواداری اور عدم تحمل پر خوب بحثیں ہوئی ہیں۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کسی طور پر بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ملک کا ماحول ناسازگار ہوتا جارہا ہے، جبکہ حزب اختلاف شواہد کے ساتھ دلائل پیش کر رہے ہیں کہ ملک میں دنوں دن عدم رواداری اور عدم تحمل پروان چڑھ رہا ہے۔ بلاشبہ ملک کے مختلف حصّوں سے یہ خبریں مل رہی ہیں کہ طرح طرح کی افواہوں کے ذریعہ ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مگر آر ایس ایس اور بی جے پی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ ملک میں فرقہ واریت بڑھی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن لوک سبھا میں ہمارے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور راجیہ سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی عدم رواداری کے موضوع پر بحث و مباحثہ کا حکومت کی جانب سے جواب دے رہے تھے، عین اسی وقت گجرات میں صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی ملک میں بڑھ رہی فرقہ واریت اور عدم رواداری پر اپنی فکرمندی کا اظہار کر رہے تھے۔اگرچہ موصوف پہلے بھی اپنی فکرمندی کا اظہار کر چکے ہیں، مگر اس دن انہوں نے جو بات کہی وہ دل کو لگتی ہوئی تھی۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہمارے ذہن میں جو گندگی ہے اسے صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح ہو کہ صدر جمہوریہ ’’سوکچھ بھارت ابھیان‘‘  کے تحت اظہار خیال کر رہے تھے۔ جیسا کہ گذشتہ تین ماہ سے ملک کے دانشوروں ، صحافیوں ، ادیبوں ، مصوروں اور نامور فلم ساز وفنکار کے ذریعہ بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے۔ 100سے زائد ادباء و شعرا نے اپنے انعامات واپس کئے ہیں۔ مختلف سیاسی رہنمائوں کے ذریعہ بھی نشاندہی کی جارہی ہے کہ کہاں کہاں اور کس کس طرح سے سنگھ پریوار کے لوگ آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اوروں کی تو بات جانے دیجئے خود مودی کابینہ کے کئی وزراء اور ان کی پارٹی کے کئی ممبران پارلیامنٹ جس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہیں، اس کی اجازت نہ تو ہمارا آئین دیتا ہے او ر نہ ہمارا مہذب سماج۔فلم اسٹار شاہ رخ خان اور عامر خان کے اظہار خیال پر بھگوا بریگیڈ اور بھاجپا کے لوگوں نے جس طرح بیان بازی کی اور ذلت آمیز رویہ اپنا یا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کی پشت پناہی کے بغیر اس طرح کا ماحول نہیں بن سکتا۔ شاہ رخ خان ، عامر خان کے ساتھ ساتھ دلیپ کمار کو آستین کا سانپ کہنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ بہرکیف، پارلیامنٹ اور ذرائع ابلاغ میں بحث و مباحثہ کا دور یوں ہی چلتا رہے گالیکن ملک میں فرقہ واریت کی چنگاری بجھنے کے بجائے شعلہ کا روپ اختیار کرتی جائے گی۔کیونکہ سنگھ پریوار کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کی بھی یہی منشا ہے۔ گذشتہ کل یعنی ۳/دسمبر کو اتر پردیش کے پرول میں جس طرح ایک ٹر ک ڈائیور کو زدو کوب کیا گیا ، اگر وہاںپولس بروقت نہیں پہنچتی تو اس ڈرائیور کی جان ہی چلی جاتی ۔ واضح ہو کہ ٹرک پر میرٹھ سے علی گڑھ بیف لے جایا جارہا تھا ۔ اتر پردیش میں گو کشی پر پابندی ہے ۔ اس لئے وہاں بھینس اور بیل ہی ذبح کئے جاتے ہیںاور اس پر قانونی پابندی نہیں ہے۔ لیکن جس طرح دادری  میں گائے کے گوشت کے بہانے اخلاق احمد کو موت کے گھات اتارا گیا ، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی ڈرائیور کی جان لینے کی کوشش کی جارہی تھی۔ یہاں پولس کو ہوائی فائرنگ بھی کرنی پڑی۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ گائے کے گوشت کے بہانے ملک میں جس طرح کی فضا بنائی جارہی ہے ، اس کے پس پردہ کون ہے؟ او ر حکومت اس طرح کی افواہیں پھیلانے والے اور نظم و ضبط کو دربہم برہم کرنے والوں کے خلاف کون سا قدم اٹھا رہی ہے؟ خود مودی حکومت کے کئی وزراء اور ممبر پارلیامنٹ جس طرح کی بد زبانی کر رہے ہیں ، اس کے خلاف کیا کاروائی ہوئی ہے؟  دریں اثناء ایک بار پھر رام مندر کا شوشہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے چھوڑا ہے۔ یہ بات پورا ملک سمجھتا ہے کہ یہ تنازعہ عدلیہ کے زیر غور ہے۔ اس کے باوجود بھاگوت کا یہ کہنا رام مندر وہیں بنے گا، در اصل ملک میں ہندوتو کی لہر کو تیز کرنا ہے۔ کیونکہ آئندہ  دو سالوں میں کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیںاور موجودہ مودی حکومت کے تمام تر وعدے ہوائی قلعہ ثابت ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینا آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھی سیاسی حکمت عملی ہے۔ کیونکہ حالیہ بہار اسمبلی انتخاب میں بھاجپا کی جس طرح کی شکست فاش ہوئی ہے اور گجرات کے دیہی علاقے میں بدلدیہ انتخاب میں بھاجپا کی زمین تنگ ہوئی ہے، اس سے سب کے سب گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس لئے ملک میں عدم رواداری اور عدم تحمل کے ساتھ ساتھ ہندوتو شدت پسندی میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔اس لئے تمام سیکولر فورم کو اس کی کاٹ کے لئے بہتر حکمت عملی اپنانی ہوگی کہ ملک کی سا  لمیت کے لئے یہ ضروری ہے۔


    واضح ہو کہ بہار انتخاب کے نتائج نے ملک میں غیر بھاجپا سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی موقع دیا ہے۔ بالخصوص آئندہ سال بنگال اور آسام کے بعد اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے۔ اس لئے ان ریاستوں میں بھی غیر بھاجپائی سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد کی بات ہونے لگی ہے اور بھاجپا کے ساتھ ساتھ سنگھ پریوار اس حقیقت کو خوب سمجھتی ہے کہ اگر ان ریاستوں میں تمام غیر بھاجپا سیاسی جماعت ایک پلیٹ فارم آگئیں تو اس کا حشر بہار سے بھی زیادہ برا ہو سکتا  ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ملک کے گوشے گوشے میں آر ایس ایس کے کارکن طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہے ہیں تاکہ ہندوتو کو فروغ مل سکے۔ ورنہ گائے کا گوشت اور پھر مندر کاراگ الاپنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ بالخصوص ان ریاستوں میں ہی زیادہ واقعات رونما ہورہے ہیں جہاں آئندہ اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ اتر پردیش تو جیسے لگتا ہے کہ فرقہ پرستوں کے لئے تجربہ گاہ بن گیا ہے کہ پارلیامانی انتخاب سے پہلے مظفر نگرکا فسادہوا اور بہار الکشن کے درمیان دادری میں اخلاق کے بہیمانہ قتل کا واقعہ ۔ پھر کرناٹک میں ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش کے جشن پر فرقہ وارانہ ہنگامہ آرائی۔ غرض کہ ملک میں مسلسل مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی تنازعے کو زندہ رکھنا آر ایس ایس کا ایجنڈا بن گیا ہے اور اس کے پس پردہ کہیں نہ کہیں موجودہ مرکزی حکومت بھی ہے کہ وہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہی ہے اور جب کبھی انصاف پسندوں کے ذریعہ ملک کی سا  لمیت کے تئیں فکرمندی ظاہر کی جاتی ہے یا کوئی سوال کیا جاتا ہے تو حسب روایت تھوتھی دلیلوں کے ذریعہ مسئلے کا رُخ ہی موڑ دیا جاتا ہے اور اب تو یہ فیشن عام ہو گیا ہے کہ اگر کوئی عدم رواداری و عدم تحمل پر اپنی فکرمندی ظاہر کرتا ہے تو اسے پاکستان جانے کا فرمان جاری کر دیا جاتا ہے۔ ہندستان کے شہری کو پاکستان بھیجنے کا اشارہ ہر وہ شخص خوب سمجھتا ہے جو آر ایس ایس کی ذہنیت سے واقف ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس پارلیمانی اجلاس میں حکمراں جماعت نے جس طرح اپنی لفاظی کے سہارے حزب اختلاف کے تمام تر الزام کو ردّ کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کے قول و فعل میں جس طرح کا تضاد نظر آیا اسے دیکھ کر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ


؎    دکھ پہنچا ہے بہت دل کو رویے سے ترے
    اور  مداوا  ترے  الفاظ  نہیں  کر سکتے


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 518