donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   BJP Ki Kamiyabi Ka Raz : Secular Voton Me Inteshar


بی جے پی کی کامیابی کا راز: سیکولر ووٹوں میں انتشار؟


٭ڈاکر مشتاق احمد

موبائل : 9431414586


ان دنوں پورے ملک میں یہ بحث گرم ہے کہ حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور دہلی میونسپل کارپوریشن کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں کے بلدیاتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو بڑی کامیابی مل رہی ہے، اس میں ای وی ایم (الکٹرانک ووٹنگ مشین) کا  کرشمہ ہے۔ بلکہ اب تو آپ پارٹی کے کارکنوں نے ای وی ایم کے ذریعہ کس طرح چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور ایک ہی سیاسی جماعت کے حق میں ووٹ ڈلوایا جاسکتا ہے اس کا عملی مظاہرہ بھی پیش کیا ہے۔ واضح ہو کہ حال ہی میں دہلی میونسپل کارپوریشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو بڑی کامیابی ملی ہے اور وہ دہلی پر قابض ہوگئی ہے۔ نتیجہ آنے کے بعد ہی آپ پارٹی کے لیڈران بالخصوص اروند کجریوال نے انتخابی کمیشن پر یہ مبینہ الزام عائد کیا تھا کہ ای وی ایم میں بڑے پیمانے پر چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو جتایا گیا ہے۔ کجریوال کے الزام کی فوراً تردید کرتے ہوئے انتخابی کمیشن نے اپنا موقف ظاہر کیا تھا کہ ای وی ایم میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں ہے۔ اس چیلنج کے جواب میں آپ پارٹی کی حکومت نے دہلی اسمبلی کا یک روزہ خصوصی اجلاس بلاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ای وی ایم میں کس طرح ایک ہی جماعت کے حق میں ووٹنگ کی جاسکتی ہے۔ واضح ہوکہ اس سے پہلے اتر پردیش اسمبلی انتخاب کے نتائج کے بعد بھی اس طرح کے سوالات کھڑے کیے گئے تھے اور مدھیہ پردیش میں ضمنی انتخاب کے وقت بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ ای وی ایم کے کسی بھی بٹن کو دبانے سے بھاجپا کے حق میں ہی ووٹ جارہا ہے۔ اب چونکہ انتخابی کمیشن دہلی نے ای وی ایم کے حوالے سے آرہی خبروں کو سنجیدگی سے لیا ہے اور کل جماعتی میٹنگ کرکے اپنا موقف واضح کیا ہے کہ ای وی ایم میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی اور اگر سیاسی پارٹیاں چاہیں تو اس کی جانچ کے لئے الیکشن کمیشن تیار ہے۔ 

بہرکیف! الکٹرانک ووٹنگ میشن کے سلسلے میں یہ کوئی نیا تنازع نہیں ہے۔ پہلے بھی اس طرح کے شک وشبہات کی باتیں ہوتی رہی ہیں اور نہ صرف ہندستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی جہاں کہیں ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابی عمل پورے کیے جاتے ہیں، وہاں بھی اسی طرح کے سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے ای وی ایم کے ذریعے ووٹنگ کو خیر باد کردیا ہے لیکن اب بھی کئی جمہوری ممالک میں یہ طرز حق رائے دہندگی جاری ہے۔ ہندوستان جیسے ایک بڑی جمہوریت میں بھی دو دہائیوں سے الکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہورہا ہے اور آغاز سے ہی اس کے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیلتی رہی ہیں۔ باوجود اس کے کہ انتخابی کمیشن ملک میں ای وی ایم کے ذریعے ہی ووٹنگ کرانے کو مفید قرار دے رہی ہے اور اس کا یہ دعوی ہے کہ الکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ ہی صاف وشفاف ماحول میں انتخابی عمل پورا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اب جس طرح الکٹرانک ووٹنگ مشین پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے اور بیشتر سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ناخواندہ شہری کی اکثریت ہے، بالخصوص دیہی علاقے میں ناخواندہ خواتین کی اکثریت ہے وہاں الکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال میں طرح طرح کی دشواریاں بھی پیش آرہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی شکایت عام ہورہی ہے اس لئے قدیم طریقہ کار یعنی بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی انتخابی عمل کا پورا ہونا جمہوریت کے استحکام کیلئے ضروری ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن اس کے لئے تیار نہیں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایک تو بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخاب کرانا خرچیلا ہے ساتھ ہی ساتھ اس میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ جب انتخابی عمل کا واحد مقصد ہمارے آئینی تقاضوں کو پورا کرنا ہے اور جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہے تو انتخابی کمیشن کو یہ کوشش کرنی ہوگی کہ ملک کے عوام میں کسی طرح کی غلط فہمی عام نہ ہو کیوں کہ الیکشن کمیشن کو خود مختاریت اس لئے دی گئی ہے کہ وہ ملک کے شہری کو صاف وشفاف جمہوری نظام حکومت دیں اور ملک کے شہری کو جو آئینی حق رائے دہندگی حاصل ہے اسے یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بااعتبار بھی بنایا جائے۔ اس لئے اب جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ میشن پر عوام کا اعتماد متزلزل ہورہاہے تو کمیشن کو کوئی لائحہ عمل پیش کرنا ہوگا جس سے ملک کے شہری مطمئن ہوسکیں،  کیوں کہ انتخابی کمیشن کے تئیں ملک کے عوام کا بھروسہ بحال رہنا ہی جمہوریت کے استحکام کیلئے ضروری ہے۔    

اگرچہ اب انتخابی کمیشن نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ ہر ای وی ایم کے ساتھ وی وی پیٹ مشین لگائی جائے گی جس کے ذریعے یہ ثابت ہوسکے گا کہ کس ووٹر نے کس پارٹی کو ووٹ دیا ہے، کیوں کہ اس مشین کے ذریعہ بٹن دبانے کے ساتھ ہی ایک پرچی بھی نکلے گی جس میں ووٹر یہ دیکھ سکیں گے کہ اس نے جس امیدوار کے حق میں ای وی ایم کا بٹن دبایا ہے اس کے حق میں ہی اس کا ووٹ گیا ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک بڑی مشکل یہ ہوگی کہ آج بھی اس ملک کے پچاس فیصد ووٹر ناخواندہ ہیں اور وہ وی وی پیٹ سے نکلنے والی پرچی کو پڑھ نہیں سکتے تو پھر اس پر ایک خطیر رقم کا خرچ ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ اگر بیشتر سیاسی جماعتیں اور جمہوریت کی بقا کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی ووٹنگ کرائی جائے تو الیکشن کمیشن کو اس پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنی چاہئے کہ الیکشن کمیشن کے تئیں ملک کے رائے دہندگانوں کے ذہن ودل تمام تر شک وشبہات سے پاک ہونے چاہئیں۔ 

جہاں تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کے سلسلے کا سوال ہے تو یہ حقیقت اظہرمن الشمش ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی پالیمانی انتخاب ہوکہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں، یا پھر ولدیاتی انتخابات ، جہاں کہیں بھی وہ جیت رہی ہے تو وہ اکثریت عوام کے ووٹوں کی بدولت نہیں بلکہ بھاجپا مخالف ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے کامیاب ہورہی ہے۔ واضح ہوکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی پشت پناہی کرنے والی سنگھ پریوار کی تنظیمیں لاکھ کوششوں کے باوجود اپنے ووٹوں کے فیصد کو چالیس فیصد سے اوپر نہیں لے جاسکی ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کا ووٹ فیصد محض چالیس فیصد تک محدود رہا۔ باوجود اس کے وہ پارلیامنٹ میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ دیگر مبینہ سیکولر فرنٹ کے ووٹوں کا فیصد 60 تک رہا۔ مگر چونکہ ان کے ووٹ منتشر تھے مثلاً اترپردیش میں سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج وادی پارٹی، کانگریس پارٹی اور دیگر علاقائی پارٹیوں کے ووٹ اگر متحد ہوتے تو بھاجپا اترپردیش سے 80 میں 72سیٹیں جیتنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔یہی صورت حال حالیہ اسمبلی انتخاب کا بھی رہا کہ اگر سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل اگر ایک اتحادی کی صورت میں انتخاب لڑتے تو شاید بھاجپا کا سو سیٹ لانا بھی مشکل تھا ۔ ٹھیک اسی طرح حالیہ دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخاب کے نتائج کا احتسابی جائزہ یہ واضح کردیتا ہے کہ اگر بھاجپا مخالف پارٹیاں متحد ہوتیں تو بھاجپا کو دہلی میں پائوں جمانے کا موقع نہیں ملتا۔ اس کی ایک تازہ مثال گجرات ہے کہ جہاں سے نریندر مودی کا تعلق ہے وہاں حال ہی میں لوکل باڈیز کے انتخابات میں بھاجپا کو  شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ کل آٹھوں حلقوں میں کانگریس کا پرچم بلند ہوا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ رہی ہے کہ وہاں پٹیل برادریوں نے متحد ہوکر کانگریس کا ساتھ دیا ہے۔ اسی لئے میرا ماننا ہے کہ اس وقت ملک میں اگر بھاجپا پارلیامنٹ، اسمبلی یا بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہورہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک میں سیکولر ذہن کی ووٹروں میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سنگھ پریوار نے ایک شطرنجی چال کے ذریعہ غیر بھاجپائی ووٹوں کو منتشر کرنے کا جو لائحہ عمل تیار کیا ہے اس میں وہ کامیاب ہورہی ہے کہ غیر بھاجپائی ووٹوں میں انتشار بڑھتا جارہا ہے جس کا فائدہ بھاجپا کو مل رہا ہے۔ اس لئے ووٹنگ الیکٹرانک مشین پر ہنگامہ آرائی سے زیادہ مفید یہ ہے کہ پہلے وہ تمام سیاسی جماعتیں جو خود کو مبینہ طور پر سیکولر کہتی ہیں اور ظاہری طور پر بھاجپا مخالف کی شناخت رکھتی ہیں وہ اگر واقعی ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا پائوں اکھاڑنا چاہتی ہیں تو سب متحد ہوکر انتخابی عمل میں شامل ہوں۔ جیسا کہ ریاست بہار اور مغربی بنگال میں غیر بھاجپا سیاسی جماعتوں نے اتحاد کے ذریعے بھاجپا کو شکست دیا ہے۔ 

 مختصر یہ کہ پارلیمانی انتخاب کے بعد جن ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ووٹ فیصد 40 کے آس پاس ہی رہا ہے، جبکہ ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے ووٹوں کا فیصد کہیں 60 تو کہیں اس سے بھی زیادہ رہا ہے۔ لیکن جمہوریت میں تو اعداد وشمار کا کھیل ہے کہ 51 ووٹوں کی حیثیت100 کی ہوجاتی ہے کہ اکثریت کی بنیادپر حکومت سازی ممکن ہوجاتی ہے جبکہ 49ووٹوں کی حیثیت صفر ہوکر رہا جاتی ہے۔ جمہوریت کے اس تقاضے کو سمجھنا ضروری ہے ورنہ ای وی ایم کے ذریعے ووٹنگ کہ بیلٹ پیپر سے، ووٹوں کے انتشار کی بدولت بھاجپا کا سیاسی دائرہ روز بروز بڑھتا ہی جائے گا اور بھاجپا مخالف سیاسی پارٹیاں اسی طرح ہائے توبہ کرتی رہیںگی۔  

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 516