donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Babaye Qaum Ghandhi Ke Sapno Ka Mulk Hindustan


بابائے قوم گاندھی کے سپنوں کا ملک ہندستان


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج ، دربھنگہ

موبائل9431414586-

ای میلrm.meezan@gmail.com-


    حسب معمول اس 2اکتوبر کو بھی بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کی یوم پیدائش کے موقع پر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میںانہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالی جائے گی۔راج گھاٹ پر ان کی سمادھی پر مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی سفارتکاروں کے ذریعہ بھی عقیدت کے پھول چڑھائے جائیں گے۔تعلیمی اداروں میں فلسفہ ء گاندھی پر سیمینار اور مذاکرے بھی منعقد ہوں گے ۔ممکن ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کے ذریعہ یوم گاندھی پر کوئی نیا سیاسی اعلان بھی ہو۔ اگرچہ اس کی امید کم ہی ہے کہ اس وقت گاندھی سے کہیں زیادہ اہمیت ہیڈ گیور اور دین دیال اپادھیائے کو دی جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت کا رموٹ سنگھ پریوار کے ہاتھوں میں ہے۔ اور یہ جگ ظاہر ہے کہ آرایس ایس کی نگاہوں میں گاندھی کی شخصی اہمیت کیا رہی ہے؟ اور گاندھی جی کے افکار و نظریات کو وہ کس طرح دیکھتے رہے ہیں؟ان دنوں ذرائع ابلاغ میں جس طرح سنگھ کے نظریہ سازوں کو اہمیت دی جارہی ہے، ایسے وقت میں گاندھی کے افکار و نظریات کی معنویت کیا رہ جاتی ہے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگرچہ گاندھی کو نظرانداز کرنے والے بھی یہ خوب سمجھتے ہیں کہ ہندستانی سماج کا جو تانا بانا ہے، اس میں گاندھی کے عملی فلسفے کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ کیونکہ گاندھی نے جس طبقے کے فلاح و بہبود اور امن و شانتی کی وکالت کی تھی وہ طبقہ اب بھی محرومی کا شکار ہے اور ایک خاص طبقے کے لئے اپنے مادر وطن میں بھی جینا دشوار ہوتا جارہا ہے۔ گاندھی جی نے غلام ہندستان میں آزاد ہندستان کا جو سپنا دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ:

’’میں ایسے ہندستان کے لئے کوشش کروں گا جس میں غریب سے غریب آدمی بھی یہ محسوس کرے کہ یہ اس کا ملک ہے، جس کی تعمیر میں اس کی آواز کی اہمیت ہے۔ میں ایسے ہندستان کے لئے کوشش کروں گا جس میں اونچ نیچ کا کوئی بھید نہ ہو، ہر فرقہ مل جل کر رہتا ہو، ایسے ہندستان میں چھوا چھوت، شراب نوشی اور نشیلی چیزوں کے لئے کوئی جگہ نہ ہو، اس میں خواتین اور مردوں کو مساوی حقوق ملیں گے۔ ساری دنیا سے ہمارا رشتہ امن اور بھائی چارے کا ہوگا ۔

یہ ہے میرے سپنوں کا ہندستان‘‘۔

    بابائے قوم مہاتما گاندھی کے مذکورہ خیلات کو پیش نظر رکھئے اور آزاد ہندستان کے نقشہ کو آنکھوں میں بسائیے ۔ آپ خود بخود اس حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے کہ آزاد ہندستان وہ ہندستان نہیں ہے جس کی تمنا گاندھی جی نے کی تھی۔اور اس کے لئے صرف اور صرف ہمارے وہ رہبر ذمہ دار ہیں جنہوں نے ملک و قوم کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لی مگر وہ ایک قائد سے کہیں زیادہ سیاسی بازیگر ثابت ہوئے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میںآج ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ آزادی کے 68برسوں بعد بھی اس ملک کا مسلمان تعلیمی، اقتصادی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہے۔ جب کبھی وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نصیب میں کبھی بھونڈی، کبھی بھاگلپور، کبھی گجرات تو کبھی مظفر نگر کا فرقہ وارانہ فساد آتا ہے اور وہ دربدری کا شکار ہو جاتا ہے۔ بابائے قوم گاندھی کے سپنوں کا ملک ہندستان جس کے آئین کی روح سیکولرزم ہے، اس ملک میں بابری مسجد دن کے اجالے میں ان لوگوں کے ہاتھوں توڑ دی جاتی ہے جو بطور وزیر اعلیٰ اور ممبر پارلیامنٹ ملک کے سیکولر آئین کے تحفظ کا حلف لیتے ہیں۔ ایک طرف بابری مسجد شہید کی جاتی ہے تو دوسری طرف ملک کے بے قصور مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے بے بنیاد الزاموں میں بھیجنے کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ ہزاروں مائوں کی آنکھوں میں اپنی بیٹوں کا انتظار ہے اور ہزاروں بیویاں اپنے شوہروں کی راہیں دیکھ رہی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں تا حد نظر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ کیا یہ وہی ملک ہے جس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مسلمانوں نے اپنا سب کچھ لٹا دیا؟لیکن آج مرکزی حکومت کا ایک کابینہ وزیر مسلمانوں کے متعلق جب تبصرہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے پی جے عبدالکلام ملک کے مسلمانوں کے مقابلے زیادہ حب الوطن تھے۔ظاہر ہے کہ اس کابینہ وزیر نے اپنی حلف برداری کے وقت آئین کی حفاظت اور تمام تر ازم سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کا عہد لیا تھا، لیکن وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ ظاہر ہے جب اس ملک کے  وزیر اعظم سمیت درجنوں کابینہ وزرائ،  آر ایس ایس کے چیف موہون بھاگوت کے آگے نت مستک ہوں گے اور حکومت کی کارکردگی کا فیصلہ سنگھ پریوار کرے گا ،ایسے ملک میں گاندھی کا سپنا پورا ہوسکتا ہے؟

گاندھی جی نے اپنے ترجمان ’’ہریجن‘‘ کے شمارہ 23جولائی 1938میں لکھا تھا:

’’عدم تشدد میں میرا نہ صرف یقین ہے بلکہ میرے لئے ایمان کا درجہ رکھتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ عدم تششد نہ صرف ہمارے ملک کے سارے مسائل کا حل کرسکتی ہے بلکہ اس کے ذریع دنیا میں جو خوں ریزے مچی ہوئی ہے اسے بھی روکا جاسکتا ہے۔ خاص کر پوری مغربی دنیا کے غرق ہو جانے کا جو خطرہ ہے اس کا نجات بھی عدم تشدد میں ہے۔‘‘

    آج دوسرے ممالک کی بات جانے دیجئے کیا اپنے ملک ہندستان میں گاندھی کے اس فلسفہ ء عدم تشدد پر کتنا عمل ہو رہا ہے ؟ گاندھی جی کے افکار و نظریات کو کسی خاص عہد تک محدود نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کا نظریہ حیات پوری انسانیت کے لئے فلاح و بہبود کا راستہ ہموار کرتا ہے۔یہاں مجھے گذشتہ سال ایک قاری کے ذریعہ کیا گیا سوال بھی یاد آرہا ہے۔ واضح ہو کہ میں گذشتہ 20برسوں سے گاندھی کے فکر و فلسفہ کو سمجھنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔ ناکام اس لئے کہ ان کے فکر و فلسفہ کا سمندر اتنا گہرا ہے کہ اس کی تہوں میں پہنچ کر گوہر نایاب حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔بہرکیف گذشتہ سال میرے مضمون کی اشاعت پر ایک صاحب نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ گاندھی جی بھی سیکولر نہیں تھے۔ظاہر ہے کہ میرے لئے یہ سوال ایک چھبنے والا سوال تھا۔ میں نے ان سے صرف یہ پوچھا کہ آپ  کے پاس گاندھی جی کو سیکولر نہ تسلیم کرنے کا جواز کیا ہے؟ موصوف کوئی جواب نہ دے سکے صرف اپنی بات پر قائم رہے کہ وہ سیکولر نہیں تھے۔ میں نے بڑی معصومیت سے ان سے یہ پوچھا کہ آپ کی نگاہوں میں کبھی ڈاکٹر جگناتھ مشرا، مولوی جگناتھ مشرا ہو جاتے ہیں تو کبھی ملائم سنگھ یادو مولانا ملائم سنگھ بن جاتے ہیں۔ کبھی لالو پرساد یادو مسیحا بن جاتا ہے تو کبھی دوسرے لیڈران افطار کی دعوت میں ٹوپی صافے کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں، کیا وہی آپ کی نظروں میں سیکولر ہیں؟ وہ اب خاموش تھے۔ ظاہر ہے آزادی کے بعد ہم مسلمانوں نے بھی جس طرح جذباتی سیاسی فیصلے لیتے رہے ہیں، اس نے ہمیں وہاں پہنچا دیا ہے جہاں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔سچائی ہے کہ  ہم نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے افکار و نظریات کا کبھی سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا اور نہ اس عہد کو نگاہوں میں رکھا جس عہد مین گاندھی جی نے اس ملک کی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لئے نہ صرف ستیا گرہ کیا بلکہ جب پورا ملک آزادی کا جشن منا رہا تھا تو انسانیت کے علمبردار گاندھی جی جلتے ہوئے نواکھولی(مغربی بنگال) میں فرقہ وارانہ فساد کے شعلے کو بجھانے میں لگے تھے۔

    در اصل گاندھی جی کے قتل کے بعد سے ہی ہما رے سیاسی بازیگروں نے گاندھی کے یوم پیدائش اور یوم شہادت کو رسم ادائیگی بنادیا ہے۔ نتیجہ ہے کہ ہماری بعد کی نسل گاندھی کے فکر و فلسفہ سے دور ہوتی چلی گئی۔ اور کیوں نہ ہوتی کہ جس نظریہ کے لوگوں نے بابائے قوم کو شہید کیا تھا اسی نظریہ کے لوگوں نے ملک میں مختلف ناموں سے ہزاروں تعلیمی ادارے کھول دئے اور نئی نسل کے معصوم ذہنوں میں زہر بھرا جانے لگا۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ آزاد ملک کی فوج کا ایک سربراہ جب ملازمت سے سبکدوش ہوتا ہے تو آر ایس ایس کے نظرئے کی نہ صرف وکالت کرتا ہے بلکہ ملک کی حکومت میں وزیر بن کر بھی وہی رخ اپناتا  ہے جو سنگھ پریوار کی پسند ہے۔گری راج سنگھ ، سادھوی نرنجنا اور آدتیہ ناتھ جیسے لوگ جس طرح ملک میں ایک فرقے یعنی مسلمانو ں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور اشوک سنگھل اور توگڑیا اقلیت طبقے کے لئے ملک میں زمین تنگ کرنے میں لگے ہیں، اس ملک میں گاندھی جی کے سپنوں کا کیا ہوگا؟

    اب میں گاندھی جی کی سری لنکا کے جافنا کی تقریر مورخہ 26نومبر1927کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا تھا۔’’اس  دنیا میں سب سے زیادہ قدیم اگر کچھ ہے تو یہی ہے حق اور عدم تشدد۔ میں نے حق اور عدم تشدد پر غور و فکر کرتے ہوئے یہی محسوس کیا ہے کہ یہ دونوں چیزیں دنیا کے تمام مذاہب کے عناصر لازمہ میں شامل ہے، بالخصوص اسلام میں اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘۔ میرے خیال میں یہ اقتباس ان کے لئے چراغ راہ ثابت ہوگا جو گاندھی کو سیکولر نہیں مانتے اور ان کے لئے بھی جو گاندھی کے فکر وفلسفہ کے بغیر ہندستان کی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ہندستان اگر دنیا میں ایک ترقی یافتہ ملک کی صف میں کھڑا ہونے کے لائق بن سکتا ہے تو صرف اور صرف فلسفہ ء گاندھی کو اپنا کر ہی۔مگر کیا کیجئے کہ آج ملک کی تصویر میں رنگ بھرنے کا کام ان کے ہاتھوں میں ہے جو اس ملک کے کسی خاص طبقے کے چہرے کو مسخ کرنے میں لگے ہیں۔ یہ ایک لمحہ ء فکریہ ہے!


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 544