donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar : Imtehan Me Naqal Nawesi Par Nakail


بہار: امتحان میں نقل نویسی پر نکیل


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں فروری اور مارچ کا مہینہ اسکول اور کالج کے طلبا و طالبات کے لئے کسی نہ کسی درجہ کے امتحان کا مہینہ ہوتا ہے۔ البتہ جہاں کہیں سمسٹر سسٹم ہے وہاں دوسرے مہینوں میں بھی امتحانات ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شمالی ہند میں اکثرتعلیمی اداروں اور بورڈوں کے امتحانات فروری اور مارچ میں ہی منعقد ہوتے ہیں، کیونکہ نئے اکیڈمک سیشن کا آغاز جولائی سے ہوتا ہے۔ اس لئے مئی کے آخر تک میٹرک اور انٹرمیڈیٹ(بارہویں) درجے کے امتحانات کے نتائج لازمی طور پر شائع کرنے ہوتے ہیں۔ بہار میں بھی مذکورہ دونوں مہینہ بڑی سرگرمیوں کا ہوتا ہے کہ نصف فروری کے بعد انٹرمیڈیٹ اور مارچ کے پہلے ہفتے سے میٹرک(دسویں) جماعت کے سالانہ امتحان ہوتے ہیں۔ اس سال انٹرمیڈیٹ کا امتحان 24 فروری 2016سے شروع ہوا ہے اور یہ امتحان 6 مارچ 2016 تک چلے گا۔ پھر10 مارچ سے میٹرک کا امتحان شروع ہو جائے گا۔
     واضح ہو کہ بہار میں مذکورہ دونوں امتحانات بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ، پٹنہ کے زیر اہمتام ہوتے ہیں اور ہر ایک ضلع کلکٹر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ مذکورہ امتحانات صاف و شفاف ماحول میں اختتام پذیر ہوں۔ لیکن گذشتہ کئی برسوںسے انٹرمیڈیٹ اور میٹریک کے امتحانات پر سوالیہ نشان قائم ہوتے رہے ہیں کہبعض مراکز پر نقل نویسی کی شکایتیں ملتی رہی ہیں۔ گذشتہ سال ایک ایسی تصویر اخباروں میں شائع ہوئی تھی جس میں ایک امتحان مرکز کی بلڈنگ کی کھڑکیوں پر سینکڑوں لوگ باہر سے پرزہ دے رہے تھے۔ اس تصویر کے شائع ہونے کے بعد قومی سطح پر بہار کے تعلیمی ماحول پر بحث و مباحثہ شروع ہوگیا تھا اور حکومت کو بھی یہ صفائی دینی پڑی تھی کہ جہاں اس طرح کی نقل نویسی ہوئی ہے وہاں کے امتحان کو رد کیا جارہا ہے۔ بہرکیف، گذشتہ سال کی بدنامی کے نتیجے میں اس سال دو ماہ قبل سے ہی محکمۂ تعلیم کے وزیر ڈاکٹر اشوک چودھری نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اس سال انٹرمیڈیٹ اور میٹرک کے امتحان میں کسی بھی قیمت پر نقل نویسی نہیں ہونے دی جائے گی اور مسلسل میڈیا میں کچھ اس طرح کی خبریں شائع ہوتی رہیں کہ حکومت اس بار کے امتحان کو بد عنوانی سے اور نقل نویسی سے پاک کرنے کو ایک چیلنج کے طور پر لے رہی ہے۔ لہٰذا، وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی انٹر اور میٹرک کے امتحان کو مکمل طور پر کسی بھی طرح کی بدعنوانی اور نقل نویسی سے پاک کرنے کی ہدایت تمام اعلیٰ حکام کودی ہے۔ نتیجتاً اس بار ریاست میں تمام امتحان مراکز پر تین سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں اور خصوصی پولس دستہ کے ساتھ مجسٹریٹ اور اُڑن دستہ مجسٹریٹ بھی بحال کئے گئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں جس اسکول یا کالج کو امتحان مرکز بنایا گیا ہے وہاں کے اساتذہ کو دوسرے امتحان مرکز پر ڈیوٹی میں تعینات کیا گیا ہے اور جہاں کہیں کا بھی ماضی میں نقل نویسی کا رکارڈ رہا ہے، اس مرکز کو حساس قرار دیتے ہوئے وہاں اضافی پولس عملے تعیانات کئے گئے ہیں۔چونکہ بہار میں انٹرمیڈیٹ اور میٹرک کے امتحان دہندگان کی تعداد میں سال در سال بیس سے پچیس فیصد کا اضافہ ہورہا ہے۔ بالخصوص حالیہ دہائی میںعوام الناس میں تعلیم کے تئیں رجحان بڑھا ہے۔ اس لئے ضلع انتظامیہ کے لئے بھی مشکل ہوتی ہے کہ کس طرح اس امتحان کو پرامن اور صاف و شفاف ماحول میں لیا جائے۔ مثلاً اس سال پوری ریاست میں 1109 امتحان مراکز بنائے گئے ہیں۔ کل امتحان دہندگان کی تعداد 1157950ہے۔ جن میں 560422سائنس، 526295آرٹس اور 71233کامرس کے طلبہ ہیں۔ جبکہ 1647ووکیشنل کورس کے امتحان دہندگان شامل ہورہے ہیں۔ اس لئے انٹرمیڈیٹ کا امتحان نہ صرف ضلع انتظامیہ بلکہ حکومت کے لئے بھی بڑی آزمائش کا ہوتا ہے۔ چونکہ انٹرمیڈیٹ کے نتیجہ کی بنیاد پر ہی طلبہ میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس لئے بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ پر یہ دبائو بھی بنا رہتا ہے کہ وہ مئی کے پہلے ہفتے میں ریزلٹ شائع کردے تاکہ یہ طلبہ دیگر تکنیکی و پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکیں۔ کیونکہ زیادہ تر تعلیمی اداروں کا سیشن جون اور جولائی سے شروع ہو جاتا ہے۔


    بہرکیف، اس سال محکمہ تعلیم نے نقل نویسی سے پاک امتحان لینے کے لئے جتنے بھی ٹھوس اقدام ہوسکتے تھے، اٹھائے ہیں اور 24فروری کو پہلے دن کا امتحان جس سختی سے لیا گیا ہے، اس سے صاف ہو گیا ہے کہ واقعی حکومت اور انتظامیہ نقل نویسی پر نکیل کسنے میں کامیاب ہے۔ واضح ہو کہ ایک امتحان مرکز پر تین سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں اور ان کیمروں سے گذر کر طلبہ کو اپنے امتحان کے کمرے میں داخل ہونا ہے اور پھر وہاں بھی مستقل ویڈیو گرافی کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ اگر کوئی امتحان دہندہ کسی طرح کی کوئی نازیبا کوشش کرتا ہے تو وہ ویڈیو گرافی میں قید ہوسکتا ہے۔ ضلع انتظامیہ نے یہ بھی نوٹس جاری کیا ہے کہ جس کمرے میں کسی طالب علم کے پاس سے کسی طرح کا پرزہ ملتا ہے یا نقل کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اس کمرے کے نگراں کو بھی جیل رسید کیا جائے گا۔ لہٰذا تمام مراکز کے امتحان سپرنٹنڈنٹ کو یہ اختیار کلّی دیا گیا ہے کہ اگر امتحان مرکز پر کسی نگراں کی شبیہہ مشکوک ہے تو انہیں بھی امتحان کی ڈیوٹی سے الگ رکھا جائے۔ محکمۂ تعلیم نے ایک نیا تجربہ یہ بھی کیا ہے کہ تمام نگراں کو ضلع کلکٹر کی جانب سے تعیناتی خط اور شناختی کارڈ الکشن کی طرز پر جاری کیا ہے۔ یعنی کس نگراں کو کس مرکز پر ڈیوٹی ملی ہے اس کی اطلاع انہیں محض ایک دن قبل دی گئی ہے۔ غرض کہ حکومت بہار کا محکمۂ تعلیم بالخصوص وزیر تعلیم ڈاکٹر اشوک چودھری نے اس امتحان کو جس سنجیدگی سے لیا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست داںکو بھی اب حقیقت کا اعتراف ہے کہ حالیہ دنوں میں ہمارا تعلیمی ڈھانچہ کس قدر متزلزل ہوا ہے اور نقل نویسی کے عام ہونے کی وجہ سے قومی سطح پر بہار کی کس قدر رسوائی ہوئی ہے۔

     بلاشبہ بہار میں ذہین اور ہونہار طلبہ کی کمی نہیں ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ یہاں کے طلبہ اپنی غیر معمولی ذہانت اور صلاحیت کی بدولت یوپی ایس سی اور دیگر اعلیٰ عہدوں کے امتحانات میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ ریاست کے بعض اضلاع میں نقل نویسی کا چلن بھی عام رہا ہے۔جس کی وجہ سے بہار کا تعلیمی منظرنامہ سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے۔ اب جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس عا  لمیت کے دور میں ڈگری کی اہمیت سے زیادہ صلاحیت کو فوقیت حاصل ہے تو ایسے کسادبازاری کے دور میں گارجین حضرات کو بھی اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں تو حکومت اور انتظامیہ کے اقدام کا خیر مقدم کریں کیونکہ اپنے بچوں کو نقل نویسی سے پاس کرانے میں گارجین حضرات کہیں زیادہ ہی قصوروار ہوتے ہیں کہ وہی امتحان مرکز کے باہر میلا کی صورت میں کھڑے رہتے ہیں اور ان دنوں الکٹرانک میڈیا میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ فلاں مرکز پر کتنی بھیڑ جمع ہے۔ اس سے بھی امتحان مرکز کی بدنامی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی حکومت کے انتظامات پر سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی قانون کا نفاذ یا حکومت کی کسی پالیسی کی کامیابی کا انحصار عوام الناس پر ہے۔ اگر عوام یہ تہیہ کر لیں کہ بہار کے تعلیمی ماحول کو صاف و شفاف اور معیاری بنانا ہے تو وہ دن دور نہیں کہ پھر بہار کے طلبا و طالبات قومی سطح پر اپنی صلاحیت و لیاقت کا پرچم لہرائیں گے اور یہ وقت کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ نتیش کمار اور ڈاکٹر اشوک چودھری نے انٹرمیڈیٹ اور میٹرک کے امتحانات کو نقل نویسی سے پاک کرنے کا جو مصمم ارادہ کیا ہے وہ ریاست کے مفاد میں ہے کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ ہی ایوان اعلیٰ تعلیم کو استحکام بخشتی ہے۔ اگر ان امتحانات میں طلبا و طالبات کی صلاحیت کا صحیح اندازہ ہوجاتا ہے تو پھر اس کے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے میں گارجین کو بھی آسانی ہوتی ہے۔ اس لئے حکومت بہار کا یہ ایک دانشورانہ فیصلہ ہے اور اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 511