donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar : Nitish Kumar Ki Kabeena Me Muslim Chehre


بہار:نتیش کمار کی کابینہ میں مسلم چہرے


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    بہار میں تیسری بار نتیش کی قیادت والی کابینہ تشکیل پا گئی ہے۔ چونکہ یہ حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کی نہیں ہے ، بلکہ انتخاب سے پہلے ریاست میں جو وسیع تر اتحاد بنا تھا جس میں نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ، لالو پرساد یادو کی قیادت والی راشٹریہ جنتا دل اور سونیا گاندھی کی قیادت والی کانگریس شامل تھی، اسے اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ اس لئے اس کابینہ میں بھی اتحاد کی تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کو جگہ ملی ہیں۔ گذشتہ 20نومبر کو نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف دلایا گیا اور ان کے ساتھ 28کابینہ وزراء کو بھی بہار کے گورنر موصوف نے حلف دلایا۔ نتیش کمار نے اسی شام اپنے کابینہ کے تمام وزراء کے قلم دان تقسیم کر دئے۔ واضح ہو کہ 28 کابینہ وزراء میں 12-12جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل کے ممبران ہیں ، جبکہ 4کانگریس کے ممبران شامل کئے گئے ہیں۔ چونکہ بہار قانون ساز اسمبلی میں کل 243سیٹیں ہیں اور نئے ضابطے کے مطابق کل سیٹوں کے 15فیصد ممبران ہی کابینہ میں جگہ پاسکتے ہیں ۔ اس لئے بہار میں وزیر اعلیٰ کو چھوڑ کر 36وزراء بنائے جاسکتے ہیں۔ فی الوقت 28وزراء شامل کئے گئے ہیں ۔ ممکن ہے جلد ہی بقیہ خالی عہدوں پر بھی وزیر وں کی حلف برداری عمل میں آجائے۔ لیکن نتیش کمار ہمیشہ چھوٹی کابینہ کے قائل رہے ہیں ۔ اس لئے ممکن ہے کہ موجودہ کابینہ ہی تادیر کام کرتی رہے۔ اس بار بھی نائب وزیر اعلیٰ بنائے گئے ہیں اور اس عہدۂ جلیلہ پر لالو پرساد یادو کے چھوٹے صاحبزادے تیجسوی پرساد یادو کو براجمان کیا گیا ہے۔ تیجسوی یادو بہار قانون ساز اسمبلی میں راگھوپور حلقہ سے پہلی دفعہ اسمبلی پہنچے ہیں۔ انہیں سڑک اورتعمیرات مکان کا محکمہ بھی دیا گیا ہے۔ لالو پرساد یادو کے دوسرے صاحبزادے تیج پرتاپ یادو کو بھی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ وہ بھی مہوا اسمبلی حلقہ سے پہلی بار کامیاب ہوئے ہیں۔ انہیں محکمۂ صحت اور سیاحت دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ راشٹریہ جنتادل کے کوٹے سے 12وزرا کا فیصلہ پارٹی سپریمو لالو پرساد یادو کوکرنا تھا اور انہوں نے اپنی پارٹی کے 80ممبران اسمبلی سے اس کوٹے کو پورا کیا ہے۔ اس بار کی کابینہ میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ ہر طبقے کی نمائندگی ہو۔ جہاں تک مسلم اقلیت کا سوال ہے تو اس بار کی اسمبلی میں کل  24مسلم منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں 23وسیع تر اتحاد کے ہیں جبکہ ایک بھاکپا مالے سے کامیاب ہوئے ہیں۔ غرض کہ وسیع تر اتحاد کے 23ممبران اسمبلی سے کل 4مسلم ممبران اسمبلی کو کابینہ میں جگہ ملی ہے۔ ان میں راشٹریہ جنتا دل کے جناب عبدالباری صدیقی اور ڈاکٹر عبد الغفور شامل ہیں ۔ جبکہ جنتا دل متحدہ کے واحد مسلم ممبر خورشید عرف فیروز احمد کو جگہ ملی ہے۔ کانگریس کے کوٹہ سے عبد الجلیل مستان کو جگہ دی گئی ہے۔ نتیش کمار کی اس نئی کابینہ میں شامل ان چاروں مسلم لیڈران کی ریاستی سیاست میں اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ بالخصوص جناب عبد الباری صدیقی کی شناخت ایک دانشور سیاست داں کے طورپر ہوتی ہے۔ وہ تقریباً چار دہائیوں سے عملی سیاست میں ہیں اور آغاز تا ہنوز سماجوادی فکر و نظر کے علمبردار ہیں۔ جناب صدیقی پہلی دفعہ  1977ء میں شمالی بہار کے دربھنگہ ضلع کے تحت بینی پور اسمبلی حلقہ سے جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر اسمبلی پہنچے تھے اور اس وقت وہ بہار کے سب سے کم عمر ممبر اسمبلی کے طور پر چرچے میں رہے تھے۔اس وقت بھی آنجہانی کر پوری ٹھاکر کی کابینہ میں انہیں وزیر مملکت کا عہدہ دیا گیا تھا۔ اب تک وہ سات بار بہار اسمبلی میں پہنچے ہیں او ر اس سے قبل وہ لالو پرساد یادو اور رابڑی دیوی کی کابینہ میں بھی وزیر رہ چکے ہیں۔ وہ برسوں راشٹریہ جنتا دل کے ریاستی صدر رہے ہیں ۔پارٹی میں انہیں ایک قد آور لیڈر تسلیم کیا جاتا ہے۔ بہار کے ایک غیر متنازعہ اور ایماندار شبیہہ کے لیڈروں میں ان کی پہچان ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے حلیف جماعتوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس بار وہ علی نگر اسمبلی حلقہ سے منتخب ہوئے ہیں ۔ ان کی صاف ستھری شبیہہ اور غیر متنازعہ شخصیت کے مدنظر ہی انہیں محکمۂ مالیات کا وزیر کابینہ بنایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان جیسے قد آور لیڈر کو اسی طرح کا اہم محکمہ دینا ضروری تھا ۔ اگرچہ عوام الناس کی خواہش تھی کہ اس بار کسی مسلم کو نائب وزیر اعلیٰ بنایا جائے کیونکہ موجودہ اسمبلی کی تصویر بنانے میں اقلیت طبقے کی حصے داری تاریخی رہی ہے۔ بہر کیف! یہ فیصلہ تو سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی تناظر میں لیتی ہیں ۔ لیکن اس سچائی سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عبد الباری صدیقی خواہ کسی عہدے پر رہے ہوں ، ان سے عوام کو کچھ زیادہ ہی توقعات رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لیتے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ ٔ مالیات جیسے اہم شعبے میں رہ کر وہ مسلم اقلیت کے مسائل کو کس حد تک حل کر پاتے ہیں کہ تمام محکموں کی کنجی تو محکمۂ مالیات کے پاس ہی ہوتی ہے۔ دوسرے مسلم وزیر ڈاکٹر عبد الغفور بنائے گئے ہیں ۔ انہیں محکمہ ٔ اقلیتی فلاح و بہبودملا ہے۔ ڈاکٹر عبد الغفور پیشہ ٔ درس و تدریس سے وابستہ ہیں ۔ وہ ایک سرکاری کالج میں اردو کے پروفیسر ہیں ۔ 1995سے مسلسل چوتھی بار ضلع سہرسہ کے مہسی اسمبلی حلقہ سے منتخب ہوئے ہیں ۔ انہیں پہلی بار کسی کابینہ میں جگہ ملی ہے۔ اقلیت طبقے میں ان کی ایک الگ پہچان ہے کہ وہ ہمیشہ مسلم مسائل سے جڑے رہے ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل کے تنظیمی ڈھانچوں میں بھی کئی اہم عہدوں پر رہے ہیں ۔ اگر چہ انہیں جو محکمہ ملا ہے اس کا دائرہ کار محدود ہے لیکن یہ محکمہ بہ ایں معنیٰ اہم ہے کہ اس کا تعلق اقلیت طبقے سے ہے۔ ریاست بہار میں کل 23فیصد اقلیت ہیں ۔ ان میں 18فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ ریاست کے مسلمانوں کے کئی دیرینہ مسائل ہیں ، ان میں لسانی مسئلہ بھی اہم ہے ۔ ریاست میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن اردو کے نفاذ کے معاملے میں بیوروکریٹس کا نظریہ ہمیشہ تعصبانہ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو کے بہتیرے مسائل ہنوز برقرار ہیں۔ چونکہ ڈاکٹر عبدا لغفور خود اردو کے استاد ہیں اور وہ اردو کے مسائل سے واقف ہیں ۔ اس لئے یہ امید بندھتی کہ اب اردو اور اوقاف کے مسائل پر توجہ دی جائے گی۔ میرے خیال میں اقلیت طبقے کے تعلیمی شعبے کو بھی اسی وزارت میں شامل کیا جانا چاہئے کیونکہ جنرل ایجوکیشن کے شعبے میں اقلیت طبقے کے مسائل پر اس قدر توجہ نہیں دی جاتی جس کے وہ حقدار ہیں ۔ ممکن ہے کہ اب جبکہ محکمہ مالیات کے وزیر جناب عبدالباری صدیقی جیسے قد آور مسلم لیڈر ہیں ، تو اقلیت طبقے کے تعلیمی مسائل پر خاطر خواہ توجہ دی جائے گی۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی تعلیمی شعبے میں انقلابی قدم کے قائل رہے ہیں ۔ اس لئے اگر ان کے سامنے اقلیت طبقے کے تعلیمی مسائل کو سنجیدگی سے پیش کیا جائے تو ممکن ہے کہ کوئی خوش آئند راستہ نکل آئے۔ تیسرا مسلم چہرا کانگریس کے عبدالجلیل مستان ہیں ۔ وہ بھی تقریباً تین دہائیوں سے عملی سیاست میں ہیں ۔ وہ پہلی دفعہ 1985ء میں ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ۔ اس بار وہ اموراسمبلی حلقہ سے منتخب ہوئے  اور انہیں محکمۂ آبکاری کا وزیر بنایا گیا ہے ۔ وہ سیمانچل میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں اور مسلم مسائل پر مسلسل آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔ اب جب کہ ایک کابینہ وزیر ہیں اور ان کے اختیارات اضافہ ہوا ہے ، تو ممکن ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرانے کی کوشش کریں گے جس کے لئے وہ آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ چوتھا چہرا خورشید عرف فیروز احمد کا ہے ۔ اگرچہ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس پارٹی سے کیا تھا اور  2005ء میں پہلی بار کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے ، لیکن بعد میں کانگریس چھوڑ کر نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ میں شامل ہو ئے۔ اس بار  وہ سکٹا اسمبلی حلقہ سے منتخب ہوئے ہیں ۔ اور انہیں محکمہ گناکا وزیر بنایا گیا ہے ، چونکہ بہار ایک زراعتی ریاست ہے اور یہاں گنّے کی کھیتی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے ۔ اس لئے ان کا محکمہ اس معنیٰ میں اہم ہے کہ ان کا تعلق کسانوں سے ہے۔ ان کی پہچان بھی فعال و متحرک سماجی کارکن کی رہی ہے۔ بالخصوص اپنے حلقے کے عوام کے مسائل کو لیکر ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ اب جبکہ ریاست کے کابینہ وزیر ہیں ، تو پوری ریاست کے مسلمانوں کی نگاہ ان پر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح اقلیت طبقے کے توقعات کو پورا کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس بار کی کابینہ میں جن مسلم ممبران اسمبلی کو جگہ دی گئی ہے ،وہ سب سے سب سیاسی طور پر اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں اور بالخصوص مسلمانوںکے مسائل سے جڑے رہے ہیں ۔ چونکہ ریاست کے مسلمانوں کی اقتصادی ، تعلیمی ، سماجی اور سیاسی پسماندگی کو  دور کرنے کی وکالت موجودہ وسیع تر اتحاد کی تمام سیاسی جماعتیں یعنی راشڑیہ جنتا دل ، جنتا دل متحدہ اور کانگریس کرتی رہی ہیں ۔ ایسی صورت میں ان مسلم وزراء کی ذمہ داری اور وں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ یہ سب متحد ہو کر مسلمانوں کے مسائل کو حل کرانے کی کوشش کریں تاکہ نتیش کمارکی حکومت کی شبیہہ مزیدقابل تحسین ہو سکے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 398