donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar : Talimi Shobe Me Islahat Ke Imkanat Raushan


بہار :تعلیمی شعبے میں اصلاحات کے امکانات روشن

 

ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586

 

    بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی موجودہ حکومت پیش تر حکومت سے قدرے مختلف نظر آرہی ہے کہ نتیش کمار آٹھ برسوں تک بھاجپا اتحاد والی حکومت کے سربراہ تھے اور کچھ دنوں کے لئے راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کی حمایت سے ان حکومت کی چلی تھی۔ لیکن حالیہ اسمبلی انتخاب میں نئے سیاسی اتحاد یعنی وسیع تر اتحاد کو ملی تاریخی کامیابی کے بعد مشترکہ حکومت تشکیل پائی ہے۔ واضح ہو کہ موجودہ حکومت میں راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس شامل ہیں اور نتیش کمار کی کابینہ میں ان اتحادی سیاسی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کو بھی جگہیں ملی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیش تر حکومت میں جب تک بھاجپا اتحادی کے طور پر شامل تھی تو نتیش کمار کی قیادت والی حکومت میں بھی زعفرانی ذہن کے وزراء اور بیوروکریٹس کی وجہ سے بہتیرے ایسے ترقیاتی کام تھے ، بالخصوص اقلیت طبقے کے، وہ نہیں ہو سکے تھے۔ اب وہ مسئلہ بھی نہیں رہا کہ وسیع تر اتحاد میں کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کی شناخت سیکولر کردار کی سیاسی جماعتوں کی ہے یہ اور بات ہے کہ ماضی میں ان کی کارکردگی بھی تشفی بخش نہیں رہی ہے۔ چونکہ نتیش کمار اپنی کارکردگی بالخصوص عصر حاضر کی سیاست میں اپنی بے داغ شبیہہ کی وجہ سے ممتاز سمجھے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخاب میں سنگھ پریوار کی ’’کل ، بل اور چھل‘‘ تمام کوششوں کو ناکام کرتے ہوئے نتیش کمار ایک بڑی طاقت کے ساتھ واپس ہوئے ہیں اور اب تو ان کی قومی سطح پر بھی ایک منفرد شناخت قائم ہورہی ہے کہ بیشتر غیر بھاجپائی سیاسی جماعت انہیں مستقبل کا وزیر اعظم کے طور پر پیش کررہی ہے۔ جیسا کہ نتیش کمار کی حلف برداری کے وقت بھی جتنے قومی رہنما شامل ہوئے تھے ، ان کی بھی رائے یہی تھی کہ نتیش کمار کو اب قومی سیاست میں سرگرم ہونا چاہئے ۔ بہرکیف، اب وقت ہی بتائے گا کہ نتیش کمار کے لئے آنے والا مستقبل کتنا سازگار رہتا ہے۔ فی الوقت بہار کے عوام کو ان سے بہت سے توقعات ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ اس بار نتیش کمار کا عملی زاویہ نظر بھی قدرے مختلف ہے۔ انہوں نے اپنی پہلی کابینہ میں ہی یہ اشاریہ دے دیا تھا کہ بہار کو ترقی کے بہت سے منازل طے کرنے ہیں۔ اور اس کے لئے روایت سے ہٹ کر کچھ کام کرنے ہوں گے۔ اس کی شروعات انہوں نے محکمہ جاتی جائزے سے کی ہے۔ واضح ہو کہ ان دنوںوزیر اعلیٰ کی صدارت میں تمام سرکاری محکموں کے وزراء اور اعلیٰ حکام مثلاً متعلقہ محکمہ کے پرنسپل سکریٹری اور دیگر سکریٹریز شامل ہوتے ہیں۔ تمام محکموں کی جائزہ میٹنگ کے لئے پہلے ہی شیڈول جاری کر دئے گئے ہیں اور اعلامیے کے مطابق متعینہ تاریخ پر احتسابی میٹنگ ہورہی ہیں ۔ مختصر یہ کہ اس احتسابی میٹنگ میں نتیش کمار نہ صرف متعلقہ محکمہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں بلکہ مستقبل میں اس محکمے کو کیا کرنا ہے اور اس کی نوعیت کیا ہوگی یا محکمہ کو کون سا لائحہ عمل اپنانا ہے ، اس کا خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس احتسابی میٹنگ کا ایک بڑا فائدہ یہ نظر آرہا ہے کہ محکمے میں کام کی رفتار تیز ہوئی ہے اور ویسے افسران جو فائلوں کو بلاوجہ دبائے رکھنے کے عادی ہیں ، ان پر ایک دبائو بنا ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری اسکیم یا پھر کسی فرد واحد کی فائلوں کو بہت دنوں تک التوا میں نہیں رکھ سکتے۔ البتہ اعلیٰ حکام کے ذریعہ اپنے ماتحت کے آفیسروں کے ساتھ بھی اسی طرح کی احتسابی یا جائزہ میٹنگ تواتر کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ سکریٹریٹ کی سطح پر ممکن ہے کہ کاموں میں تیزی آئے مگر نچلی سطح پر اس کا خاطر خواہ اثر نہیں دکھائی دے گا۔ چونکہ وزیر اعلیٰ نے وزراء کو اپنے متعلقہ محکمہ کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے کی بات کہی ہے ۔ اس لئے امید بندھتی ہے کہ ورک کلچر میں قدرے تبدیلی آئے۔ اس وقت محکمۂ تعلیم کے احتسابی میٹنگ میں لئے گئے فیصلے اور التوا میں پڑے کاموں کو انجام دینے کی جو رپورٹ سامنے آئی ہے ، اس سے یہ امکانات روشن ہوئے ہیں کہ آئندہ تعلیمی شعبے میں انقلاب آئے گا۔ محکمۂ تعلیم کانگریس کے حصے میں ہے اور اس کے وزیر کانگریس کے ریاستی صدر ڈاکٹر اشوک چودھر ی ہیں ۔ ان کی پہچان نہ صرف پارٹی میں ایک فعال و متحرک لیڈر کی رہی ہے بلکہ عوام میں بھی ان کی ایک الگ پہچان ہے کہ ڈاکٹر چودھری مفاد عامہ کے کاموں کو انجام دینے میں مثبت نظریہ رکھتے ہیں۔ڈاکٹر چودھری پہلے بھی وزیر رہ چکے ہیں اور اس وقت بھی انہوں نے اپنی تعمیری سوچ کا مظاہرہ کیا تھا۔ حالیہ محکمۂ تعلیم کی احتسابی میٹنگ کے بعد انہوں نے اپنے محکمے کا جو لائحہ عمل پیش کیا ہے ، وہ قابل تحسین ہے۔ مثلاً ایک لمبے عرصے سے اردو ٹی ای ٹی پاس امیدواروں کی بحالی کا مسئلہ التوا میں تھا ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ایک ماہ کی مدت میں تمام اردو اساتذہ کی خالی اسامیوں کو پُر کر لیا جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ اعلان بھی اردو آبادی کے لئے خوش آئند ہے کہ اردو اساتذہ کے لئے خصوصی  ٹی ای ٹی امتحان کا پھر سے اہتمام کیا جائے گا۔ انہوں نے دیگر مضامین کے خالی اسامیوں پر بھی تیس ہزار اسکولی اساتذہ کی بحالی اعلان کیا ہے۔ جہاں تک اعلیٰ تعلیم کا سوال ہے تو گذشتہ ایک دہائی سے ریاست کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ کا بڑا فقدان ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سے کالج اساتذہ کی بحالیاں نہیں ہوئی ہیں۔ حال میں حکومت نے اس کو بھی سنجیدگی سے لیا ہے اور ان دنوں بہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ مختلف مضامین کے تقریباً چار ہزار لکچررس کی بحالی کے لئے انٹرویو شروع ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس کی رفتار سست ہے کہ اب تک صرف میتھلی زبان کے لکچررس کا ہی ریزلٹ آسکا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئندہ اکیڈمک سیشن یعنی جولائی 2016سے قبل تمام اساتذہ کی خالی اسامیوں کو پر کر لیا جائے تاکہ ریاست بہار سے باہر جانے والے طلبہ کو روکا جاسکے۔ کیونکہ اساتذہ کی کمی کی وجہ سے ہی بڑی تعداد میں یہاں کے طلبہ دیگر ریاستوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ حالیہ احتسابی میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ لیا گیا ہے کہ ریاست کے تمام سب ڈویژن میں ایک سرکاری کالج کھولے جائیں گے۔ کیونکہ فی الوقت جتنے سرکاری کالج ہیں ، ان میں طلبہ کی بڑی تعداد سیٹوں سے کہیں زیادہ داخلے کے لئے امڈ پڑتی ہیں۔ جبکہ بنیادی ڈھانچہ برسوں پہلے کی ضرورت کے مطابق ہے۔ اس لئے حکومت کا یہ فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہر ایک سب ڈویژن میں تکنیکی تعلیم کے لئے آئی ٹی آئی بنانے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے۔ تعلیم نسواں کے فروغ کے لئے ہر ایک ضلع ہیڈ کواٹر میں ایک آئی ٹی آئی سنٹر برائے نسواں قائم کرنے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ اس وقت ریاست میں کل 71آئی ٹی آئی ہیں۔ اب جبکہ حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ 2016-17میں مزید آئی ٹی آئی کھولے جائیں گے تو اس سے ریاست کے عوام کو ایک نئی امید بندھی ہے۔کیونکہ دور حاضر میں تکنیکی اور پیش وارانہ تعلیم کی اہمیت قدرے بڑھ گئی ہے۔ شاید حکومت کو بھی عصری تقاضے کے احساس ہے ۔ بالخصوص وزیر اعلیٰ نتیش کمار خود ہی ایک انجینئر ہیں اورانہیں پیشہ وارانہ تعلیم کی فی زمانہ اہمیت کا علم ہے۔ مختصر یہ کہ محکمۂ تعلیم کے احتسابی جائزے میں جتنے فیصلے لئے گئے ہیں ، اگر اسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو آنے والے دنوں میں واقعی تعلیمی شعبے کے دن پھرنے والے ہیں۔بلاشبہ تعلیم ہی تمام تر ترقیاتی نشانے کی راہیں ہموار کرتی ہیں اور کسی بھی ریاست کی شناخت کا ضامن اس ریاست کی تعلیمی معیار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں محکمۂ تعلیم کے ذریعہ اٹھائے جارہے اقدامات ریاست کی تعلیمی گراف کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 570