donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Manjhi Kabina Ke Do Mustahsin Iqdam


بہار میں مانجھی کابینہ کے دو مستحسن اقدام


٭ڈاکٹر مشتاق احمد، پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ (بہار

 موبائل:09431414586

 ای میل:rm.meezan@gmail.com

    بہار میں ان دنوں سیاسی اعتبار سے بے یقینی کا ماحول ہے کیوں کہ جیتن رام مانجھی کے مستقبل کو لے کر روز نئی باتیں سامنے آرہی ہیں اور جس کی وجہ سے حکمراں جنتا دل متحدہ جماعت میں کافی ہلچل بھی ہے ۔ ایک گروپ جیتن رام مانجھی کی حمایت کر رہا ہے تو دوسرا گروپ ان کی مخالفت میں کھڑا ہے اور انہیں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کررہا ہے ۔ اگرچہ پارٹی کے قومی صدر شرد یادو اور سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس کی وضاحت کردی ہے کہ جیتن رام مانجھی کو ہٹانے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں خیمے کے ممبرانِ اسمبلی کے متنازعہ بیانات آر ہے ہیں۔واضح ہو کہ جیتن رام مانجھی کو نتیش کمار نے اپنی پسند کے طورپر وزیر اعلیٰ بنایا تھا لیکن حالیہ دنوں میں وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کی کارکردگی اور متنازعہ بیانات نے جنتا دل متحدہ میں ایک سیاسی بحران پیدا کردیا ہے۔نتیجہ ہے کہ دوسری مخالف سیاسی جماعتوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ جنتا دل متحدہ کے اندر وزیر اعلیٰ کی کرسی کو لے کر رسّہ کشی چل رہی ہے۔واضح ہو کہ اب جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ ساتھ سماجوادی پارٹی ایک دوسرے میں متحد ہونے کو تیار ہیں اور امروز فردا میں اس کا اعلان بھی ہو جائے گا۔ممکن ہے کہ ان تینوںپارٹیوں کے ایک دوسرے میں ضم ہونے کے بعد جو نئی سیاسی پارٹی تشکیل پائے گی اس کے بعدوزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کے لئے مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ اس وقت راشٹریہ جنتا دل اور دیگر حمایتی پارٹیوں کے ممبرانِ اسمبلی نیا لیڈر منتخب کر سکتے ہیں اس طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔اگرچہ راجد سپریمو لالو پرسادیادو نے لیڈر شپ کی تبدیلی سے انکار کیا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ جنتا دل متحدہ کے اندر ایک بڑا گروپ لیڈر شپ کی تبدیلی چاہتا ہے اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ چوں کہ بہار میں اسمبلی انتخاب نومبر 2015ء میں ہونا ہے اور اس وقت بھاجپا کو سبق سکھانے کے لئے نتیش کمار کی قیادت ضروری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے اتحاد کے وجود میں آنے کے بعد بہار کی سیاسی تصویر کیا رہتی ہے۔اس وقت ریاست میں جس طرح کا سیاسی ماحول ہے اس سے حکومت کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے ۔ بالخصوص گذشتہ دس دنوں کے اندر بہار میں دو جگہوں پر فرقہ وارانہ کشیدگی نے حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج کھڑا کیا ہے۔ کیو ںکہ نتیش کمار کی قیادت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے عہدِ وزارت میں کہیں بھی فرقہ وارانہ فساد برپانہیں ہوا تھا اور کہیں اگر چھوٹے موٹے واقعات ہوئے تو اس پر فوراً قابو کرلیا گیا ۔مگر مظفرپور کے عزیز پور میں جس طرح فرقہ پرستوں نے ننگا ناچ کیا اور مسلم طبقے پر قہر برپا کیا اس سے حالیہ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔عزیز پور کے متاثرین سے وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی ، نتیش کمار ، لالو پرساد یادو ، عبد الباری صدیقی وغیرہ نے مل کر انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی ہے اور حکومت نے خصوصی جانچ ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔ ادھر بھاجپا کے لیڈران سشیل کمار مودی ، شہنواز حسین، نند کشور یادووغیرہم نے بھی متاثرہ گائوں کا دورہ کیا ہے اور اس فرقہ وارانہ فساد کو حکومت کی نا اہلی قرارد یا ہے۔سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے واضح کیا ہے کہ مظفرپور کے عزیز پور کے فساد کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں ایک بڑی سازش نے اہم رول ادا کیا ہے۔ان کے اس بیان کی حمایت وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی نے بھی کیا ہے ۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ اگر اس فساد میں سازش ہوئی ہے تو حکومت اس سازش کو بے نقاب کیوں نہیں کر رہی ہے ۔ تاکہ ریاست کے دیگر حصوں میں جس طرح فرقہ وارانہ کشید گی پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہاں نکیل کسی جا سکے۔ابھی عزیز پور فساد پر پورا بہار فکر مند ہے اور ایسے وقت میں ساسارام میں بھی معمولی بچوں کے کھیل کود کے معاملے کو طول دے کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔شکر ہے کہ وہاں کی انتظامیہ نے بر وقت کاروائی کی اور فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو پست کردیا ورنہ عزیز پور کی طرح وہاں بھی فرقہ وارانہ فساد برپا ہو سکتا تھا۔ چوں کہ سالِ رواں میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اس لئے ریاست میں ممکن ہے کہ اس طرح کے فسادات کرانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔اگر سنجیدگی سے غور کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح اتر پردیش کے مظفرنگر میں پارلیامانی انتخاب سے قبل فرقہ وارانہ فسادات کرایا گیا تھا ٹھیک اسی طرح مظفرپور کے عزیز پور میں بھی فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا ہے۔ واضح ہو کہ مظفرنگرمیں بھی مسلم لڑکوں کے ذریعہ مبینہ چھیڑ خوانی کے واقعہ کو فرقہ ورانہ فساد کی وجہ بتائی گئی تھی اور عزیز پور میں بھی ایک مسلم لڑکے کے ذریعہ ایک غیر مسلم نوجوان کے قتل کے واقعہ کو فساد کا رنگ دیا گیا ہے۔اگر چہ قتل کا واقعہ مکمل طورپر جرائم پر مبنی تھا اور پولیس اگر بروقت کاروائی کرتی تو ممکن تھا کہ عزیز پور میں فرقہ پرستوں کی سازش کامیاب نہیں ہوتی۔ لیکن ضلع انتظامیہ کی لاپرواہی اور بے خبری فرقہ پرستوں کے منصوبوںکوپورا ہونے میں معاون رہی۔گذشتہ دن بھاجپا کے قومی صدر امیت شاہ کے بہار دورہ کے بعد سیاسی سرگرمی مزید بڑھ گئی ہے اور ان دنوں حکمراں جماعت بھاجپا کو نشانہ بنا رہی ہے تو بھاجپا حکمراں جماعت جنتا دل متحدہ کو قدم قدم پر گھیرنے میں لگی ہے۔بہر کیف ایسے رسّہ کشی کے سیاسی ماحول میں جیتن رام مانجھی کی کابینہ نے گذشتہ منگل کو دو ایسے فیصلے کئے ہیں جس کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ واضح ہو کہ کابینہ نے ریاست میں گذشتہ تین دہائی سے دربدری کی شکار مولانا مظہرالحق عربی وفارسی یونیورسٹی کے قیام کے لئے پانچ ا یکڑ سے زائد زمین مہیا کرانے کا فیصلہ کابینہ سے لیا ہے۔غرض کہ اب یونیورسٹی کو اپنا مستقل احاطہ نصیب ہو سکتا ہے۔ سند رہے کہ 1991ء میں ایک ساتھ غیر منقسم بہار میں پانچ نئی یونیورسٹیاں تشکیل پائی تھی ۔ موجودہ بہار کی بی این منڈل یونیورسٹی مدھے پورہ ، جے پی یونیورسٹی چھرہ،اور ویر کنور سنگھ یونیورسٹی آرہ ، مولانا مظہرالحق یونیورسٹی کے ساتھ ہی تشکیل پائی تھی ۔ لیکن مذکورہ تمام یونیورسٹیوں کو دو دہائی پہلے ہی اپنا کیمپس  نصیب ہو چکا تھا فقط عربی وفارسی یونیورسٹی ہی دربدری کی شکار تھی اور آج بھی یہ یونیورسٹی سرکاری عمارت حج بھون پٹنہ کے ایک گوشہ میں چل رہی ہے ۔بہار کے مسلمانوں کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ جلد سے جلد اس یونیورسٹی کو بھی خود مختار احاطہ مہیا کرایا جائے کیوں کہ اس یونیورسٹی کی نسبت مولانا مظہر الحق جیسے عظیم مجاہدِ آزادی سے ہے ۔ اس لئے مانجھی کابینہ نے یونیورسٹی کے لئے زمین مہیا کر ریاست ہی نہیں بلکہ ملک کے ان تمام لوگوں کو خوشخبری دی ہے جو مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی کے مستقبل کے فکر مند تھے۔یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر اعجاز علی ارشد اور پرووائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم صاحبان قابلِ مبارک با دہیں کہ ان لوگوں کی کوششوں سے زمین دستیابی کا مسئلہ حل ہو سکا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جلدسے جلد اس سرکاری زمین پر تعمیری کام کا آغاز ہو تاکہ یونیورسٹی کی دربدری ختم ہو سکے۔ مانجھی کابینہ کا دوسرا اہم فیصلہ بھی اقلیت طبقے سے متعلق ہے اور اس فیصلے کی بھی پذیرائی ہونی چاہئے۔ مانجھی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ریاست میں سرکاری عملے کی جتنی بھی سلکشن کمیٹی ہوگی اس میں مسلم اقلیت طبقے کا ایک ممبر لازمی طورپر ہوگا۔ واضح ہو کہ پہلے یہ لازمیت صرف سول کاسٹ اور سول ٹرائبس کے لئے تھی۔ اب کابینہ کے فیصلے کے بعد ریاست میں جہاں کہیں بھی سرکاری ملازمت کے لئے کمیٹی یا کمیشن تشکیل پائے گی اس میں مسلم اقلیت طبقے کا ایک ممبر ہوگا۔ اس فیصلے سے مسلمانوں کے تئیں حکومت کے نرم رویے کا پتہ چلتا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے اس فیصلے کو ایمانداری سے عملی جامہ پہنائے تاکہ مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں میں واجب حصہ داری مل سکے ۔کیوں کہ بہار میں تقریباً 16فی صد مسلم آبادی ہے اور سرکاری نوکریوں میں ان کی حصہ داری نہیں کے برابر ہے۔شایدجیتن رام مانجھی نے سرکاری اعداد وشمار کی بنیاد پر ہی مسلم اقلیت کو انصاف دلانے کی کوشش شروع کی ہے۔ اس لئے مذکورہ دونوں فیصلے کے لئے جیتن رام مانجھی اور ان کی کابینہ کے ساتھ ساتھ نتیش کمار کے تئیں بھی اظہارِ تشکر پیش کیا جانا چاہئے کہ حکومت کا یہ دونوں فیصلہ مسلم اقلیت سے متعلق ہے اور ان فیصلوںکا تعلق مسلمانوں کی تعلیم اور روزگار سے ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ریاست میں مسلمانوں کی پسماندگی اسی وقت دور ہو سکتی ہے جب مسلمانوں کے تعلیمی اور روزگار کے مسائل کو حل کرنے کی خاطر خواہ کوشش ہوگی۔

٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 551