donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Nayi Seyasi Safbandi Ka Imkan


! بہار میں نئی سیاسی صف بندی کا امکان 


(٭ڈاکٹر مشتاق احمد، پرنسپل ملّت کالج، دربھنگا (بہار

 

    پارلیامانی انتخاب کے غیر امکانی نتائج کے بعد نہ صرف قومی سطح پر سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے لگا ہے بلکہ مختلف ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں اپنے وجود کو لے کر فکر مند ہیںاور یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی پارٹی جو کل تک اپنی حریف سیاسی پارٹی کو کسی طوربھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی وہ اب ایک دوسرے سے گلے ملنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ بالخصوص شمالی ہند میں اتر پردیش اور بہار میں جس طرح علاقائی پارٹیوں کو خسارہ عظیم پہنچا ہے اس سے ان پارٹیوں کے اندر ایک طرح کا خوف بھی پیدا ہوا ہے۔ظاہر ہے نتائج کے محاسبے کے بعد یہ حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ بھارتیہ جتنا پارٹی کو جو بڑی اکثریت ملی ہے اس میں بھاجپا یا مبینہ مودی لہر اتنا کارآمد ثابت نہیں ہوا ہے جتنا کہ مبینہ سیکولر فرنٹ کے ووٹوں کے انتشارنے مودی کے راستے آسان کئے ہیں ۔جہاں تک سوال بہار کا ہے تو یہاں کی حکمراں جماعت جنتا دل متحدہ کو بھی مایوسی ہاتھ لگی ہے تو دوسری طرف لالو یادو کی پارٹی کو بھی امید سے کہیں کم سیٹیں مل پائی ہیں۔لالو یادو کو تو سب سے بڑا سیاسی جھٹکا یہ لگا ہے کہ ان کی بیگم سابق وزیر اعلیٰ بہار محترمہ رابڑی دیوی چھپرہ سے انتخاب ہار گئی ہیں تو ان کی بیٹی میسا بھارتی پاٹلی پترا پارلیامانی حلقہ سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والی تھیں اسے بھی ناکامی ہاتھ لگی ہے۔ ان دونوں سیٹوں پر لالو یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کی ناکامی نے لالو یادو کی سیاسی ساکھ کو بھی مسخ کیا ہے ۔جنتا دل متحدہ کے قومی صدر شرد یادو کی شکست نے بھی پارٹی کی امیج پر اثر ڈالا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بہاراسمبلی میں جنتا دل متحدہ کی اکثریت رہتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی تھما دی ہے۔ اگرچہ اسمبلی میں جنتا دل متحدہ کو مکمل اکثریت حاصل تھی اس کے باوجود لالو یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل نے بلا شرط جیتن رام مانجھی کی حکومت کو باہر سے حمایت دینے کا اعلان کیا اور اسمبلی کے اندر اس کامظاہرہ بھی کیا۔ اسمبلی میں راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر جناب عبد الباری صدیقی نے واضح کیا ہے کہ ریاست میں فاشسٹ طاقتوں کو کمزور کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ جنتا دل متحدہ کی حکومت کو مستحکم بنائے رکھا جائے ۔ لہذا اسی حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے راجد نے جنتا دل متحدہ کی حمایت کی ہے ۔ مگر سچائی یہ ہے کہ جس دن نتیش کمار نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اسی دن سے یہ چرچا عام ہونے لگی تھی کہ اب لالو یادو اور نتیش کمار ہاتھ ملانے والے ہیں۔ بالخصوص جنتا دل متحدہ کے قومی صدر شرد یادو نے دہلی میں ہی یہ اشاریہ دیا تھا کہ بہار میں نئی سیاسی صف بندی کی ضرورت ہے ۔ بلا شبہ اگر جنتا دل متحدہ ، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل نے متحد ہو کر پارلیامانی الکشن لڑا ہوتا تو بہار میں بھاجپا پانچ چھ سیٹوں پر سمٹ جاتی اور بھاجپا کے اتحادیوں کا بھی صفایا ہو جاتا ۔ کیوں کہ یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ بھاجپا کا ووٹ فی صد محض 31فی صد رہا ہے جبکہ بھاجپا کا مقابلہ کرنے والی دیگر پارٹیوں کا ووٹ فی صد 69فی صد ہو جاتاہے۔ ظاہر ہے اگر تمام سیکولرفرنٹ ایک ساتھ انتخاب لڑے ہوتے تو نہ صرف بہار بلکہ پورے ملک کا سیاسی منظر نامہ کچھ اورہی ہوتا۔ کیوں کہ جس طرح بہار میں ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے بھاجپا کو غیرمعمولی فائدہ ہوا ہے ٹھیک اسی طرح اتر پردیش میں بھی سماجوادی پارٹی ، کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کے ووٹوں کویکجا کردیں تو وہاں بھی بھاجپا کی تصویر کچھ اورہی نظر آئے گی ۔ دراصل بھاجپا کے لوگوں کو پہلے سے یہ سچائی معلوم تھی کہ اگر یہ تمام علاقائی پارٹیاں ایک ساتھ ہو جائیں گی تو ان کے تمام خواب چکناچور ہو جائیں گے۔ اسی لئے دو سال قبل سے ہی سنگھ پریوار کے لوگ ایک خصوصی مہم چلا کر ا ن تمام علاقائی پارٹیوں کو کس طرح ایک دوسرے سے دور رکھا جائے اس پر کام کرتے رہے اور دوسری طرف خود آر ایس ایس کے لوگ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو اپنے اتحاد میں شامل کرتے رہے نتیجہ یہ ہوا کہ بھاجپا 29سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنانے میں کامیاب رہی جب کہ کانگریس یو پی اے کو بھی متحد نہیں رکھ سکی ۔شاید کانگریس کو یہ یقین تھا کہ علاقائی پارٹیوں کے ووٹ انتشار سے انہیں فائدہ ہوگا ۔ بالخصوص اتر پردیش میں کانگریس کا کسی دوسری پارٹی سے ہاتھ نہیں ملانا کانگریس کی سب سے بڑی بھول تھی کیوں کہ وہ 2009ء کے انتخاب میں بھی اپنا ووٹ فی صد دیکھ چکی تھی۔ دوسری طرف بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی بھی اس خوش فہمی میںتھی کہ بھاجپا کے زور سے کانگریس کا صفایا تو ہوگا لیکن اس کا ان پارٹیوں کو فائدہ ملے گا۔ جب کہ زمینی سچائی کچھ اور تھی کہ مظفرنگر فسادات کے بعد سماجوادی پارٹی سے جاٹ برادری اپنا دامن چھڑا چکی تھی اور وہ قدرے شدت پسند ہو گئی تھی جس کی وجہ سے نہ صرف ملائم کو جاٹ برادری نے خیر باد کہہ دیا بلکہ جاٹ برادری کے پوپ مانے جانے والے چودھری اجیت سنگھ کی پارٹی کا بھی بیڑا غرق ہوگیا اور وہ نہ صرف خود ہارے بلکہ ان کے بیٹے کو بھی ناکامی ہاتھ لگی۔ دوسر ی طرف بہوجن سماج پارٹی کا جاٹو ووٹ بینک بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہااور مسلمانوں نے تو اپنے ووٹو ں کو تین تیرہ کیا ہی ۔ نتیجہ سامنے ہے کہ اتر پردیش جہاں سے 80ممبر پارلیامنٹ منتخب ہوئے ہیں وہاں ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ نتیجہ نہ صرف بھاجپا کے لئے غیر امکانی ثابت ہوا ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ بہر کیف بہار اور اتر پردیش میں نئی سیاسی صف بندی ہونا وقت کا تقاضا ہے اور اس کی پہل بہار میں شروع ہو گئی ہے کہ راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل متحدہ کے درمیان دوریاں کم ہو رہی ہیں۔ اگرچہ ان دونوں پارٹیوں کے سپریمو نے ابھی مہر نہیں لگائی ہے لیکن ان کی خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ عنقریب ہی بہار میں ایک نئی سیاسی فضا تیار ہوگی اور شاید اس میں مجبوراً کانگریس کو بھی شامل ہونا ہوگا اور بایاں محاذ کو بھی اپنے وجود کو بچائے رکھنے کے لئے ان پارٹیوں کے سایے میں آنا ہوگا کیوں کہ آئندہ سال بہار میں اسمبلی ا نتخاب ہونا ہے اور ا گر اس وقت تک یہ تمام علاقائی پارٹیاں ایک ساتھ کھڑی نہیں ہو سکیں تو نتیجہ پارلیامانی انتخاب جیسا ہی ہوگا۔کیوں کہ بھاجپا کو رام بلاس اور اوپندر کشواہا سے ہاتھ ملانے کے باوجود ووٹوں کا فی صد اتنا نہیں بڑھا ہے جس کی بدولت وہ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلے۔ کیوں کہ پارلیامانی انتخاب میں بھی جس علاقے میں سیکولر ووٹ منتشر نہیں ہوا وہاں بھاجپا کا کھاتہ نہیں کھل سکا ۔ مثلاً بہار کے سیمانچل یعنی کشن گنج،ارڑیہ، پورنیہ ، مدھے پورہ ، سپول ، کٹیہار کے ساتھ ساتھ بھاگلپور اور بانکا پارلیامانی حلقے میں بھاجپا کو منہ کی کھانی پڑی محض اس لئے کہ یہاں سیکولر ووٹروں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔اگر اسی طرح کی صورت دیگر حصوں میں ہوتی تو آج نہ صرف بہار بلکہ مرکز میں بھی سیاسی صورتحا ل کچھ اور ہوتی۔کیوں کہ بہار اور اتر پردیش کی بدولت ہی مودی کو اکثریت مل سکی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنی جلدی بہار میں نئی سیاسی صف بندی عملی صورت اختیار کرتی ہے ۔ امکان ہے کہ بہت جلد راجیہ سبھا کی تین سیٹوں کا انتخاب ہوگا اور اس وقت نئی سیاسی صف بندی ہو چکی ہوگی۔قیاس یہ ہے کہ اگر جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل ایک صف میں کھڑے ہوں گے تو اس وقت راجیہ سبھا کی دو سیٹیں انہیں حاصل ہو جائیں گی۔سیاسی گلیاروں میں یہ بھی چرچا ہے کہ کسی بھی طرح لالو پرساد یادو اپنی پارٹی سے ایک راجیہ سبھا ممبر کی جیت یقینی بنانا چاہتے ہیں اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب جنتا دل متحدہ ان کا ساتھ دے۔ ظاہر ہے دہلی میں پائوں جمائے رکھنے کے لئے لالو یاد و کو اپنی بیگم رابڑی دیوی یا بیٹی میسا بھارتی کو راجیہ سبھا بھیجنا سیاسی مجبوری بھی ہے ۔اگر واقعی جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل کا اتحاد عملی صورت اختیار کر لیتا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل میں بھاجپا کے لئے بہار کی زمین تنگ ہو جائے گی۔

 

موبائل:09431414586

 ای میل:rm.meezan@gmail.com

 

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 705