donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Qatal Ke Wardat Par Seyasi Jang


بہار میں قتل کے واردات پر سیاسی جنگ


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل، مارواڑی کالج، دربھنگہ

موبائل: 9431414586

ای میل ،rm.meezan@gmail.com


ان دنوں بہار پھر قومی میڈیا کی سرخیوں میں ہے کہ حالیہ دنوں میں جرائم کے دو ہائی پروفائل قتل کے واردات ہوئے ہیں۔ اولاً گیا کے ایک مشہور تاجر کے لڑکے آدتیہ کا قتل ہوا ہے جبکہ دوسرا سیوان کے ایک صحافی راجدیو رنجن کو سرعام گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ چونکہ ان دونوں قتل کے واردات کے مبینہ سرے حکمراں جماعت سے ملتے ہیں، اس لئے حزب اختلاف بالخصوص بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس معاملہ کو کچھ زیادہ ہی طول دے رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں قتل کے واردات کی وجہ سے عوام الناس میں بھی ایک طرح کا خوف پیدا ہوا ہے۔ اس لئے حکومت بھی معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور جرائم پیشوں پر نکیل کسنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ واضح ہوکہ گیا کا معاملہ اس لئے بھی قدرے طول پکڑ رہا ہے کہ آدتیہ کے مبینہ قاتل راکی یادو حکمراں جماعت جنتا دل متحدہ کی ممبر قانون ساز کونسل منورما دیوی کا بیٹا ہے اور اس قتل کے ورادات کو جس طرح انجام دیا گیا ہے وہ بلا شبہ افسوس ناک ہے۔ اطلاع کے مطابق منورما دیوی کا بیٹا راکی اور آدتیہ سچدیو کے درمیان کار اوور ٹیکنگ کو لیکر معمولی کہا سنی ہوئی لیکن راکی نے اپنی نجی لائسنسی پستول سے آدتیہ کو موت کے حوالے کردیا۔ آدتیہ کا تعلق گیا شہر کے ایک مشہور تاجر خاندان سے ہے اس لئے آدتیہ کی بہیمانہ قتل کے خلاف نہ صرف گیا شہر میں، بلکہ پوری ریاست کے تاجروں کے درمیان غم وغصہ پھوٹ پڑا ہے اور حزب اختلاف کی جانب سے بھی حکومت پر حملے ہونے لگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلی نتیش کمار نے اس قتل کے ورادات کو پولس انتظامیہ کے لئے ایک چیلنج قرار دیا، نتیجتاً گیا شہر کی ایس پی گریما ملک نے فوراً قتل کے مبینہ ملزم کی گرفتاری کے لئے ٹاسک فورس تشکیل دی اور راکی کے فرار ہونے کی صورت میں اس کے والد بندیشوری یادو عرف بندی یادو کو گرفتار کرلیا۔ اتنا ہی نہیں اس کے گھر پر چھاپہ ماری کی گئی اور تلاشی کے دوران کئی بوتلیں شراب کی برآمد ہوئیں، جبکہ بہار میں مکمل شراب بندی نافذ ہے۔ اس لئے محکمہ آبکاری نے راکی کی والدہ ایم ایل سی منورما دیوی کے خلاف بھی شراب رکھنے کا مقدمہ درج کیا اور آخرکار منورما دیوی کو بھی ضلع سیشن جج گیا کے کورٹ میں خود سپردگی کرنی پڑی۔ پولس کے ایف آئی آر میں راکی کے ساتھ اس کے ایک رشتہ دار ٹونی یادو کا بھی نام آیا تھا، اسے بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ غرض کہ آدتیہ قتل کے واردات میں منورما دیوی جیسی ہائی پروفائل سیاست داں کا پورا خاندان اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اس لئے یہ بات بھی اب عوام الناس میں موضوع بحث ہے کہ نتیش کمار جرائم کے معاملہ میں کسی طرح سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔  واضح ہوکہ راکی یادو کو جو پستول کا لائسنس ملا ہے اسے دہلی پولس نے جاری کیا ہے اس لئے اب اس معاملہ میں دہلی پولس کی ساکھ بھی دائو پر لگی ہوئی ہے کہ آخر ایک طالب علم کو غیر ملکی پستول کا لائسنس بغیر بہار پولس کی رپورٹ کے کیسے مل گیا۔

جہاں تک سیوان کے صحافی راجدیو رنجن کے قتل کا سوال ہے تو اس معاملے میں بھی حکومت نے بغیر تاخیر کیے سی بی آئی کو جانچ سپرد کردی ہے۔ اگرچہ حزب اختلاف کی جانب سے اب بھی حکومت پر سیاسی حملہ جاری ہے کہ آج ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان اسمبلی کا ایک وفد نے گورنر بہار سے مل کر ریاست میں نظم ونسق کی بد حالی پر فکر مندی ظاہر کی ہے۔ حزب اختلاف ایک بار پھر پرانے سیاسی جملے کسنے لگا ہے کہ ریاست میں جنگل راج لوٹ آیا ہے اور اس کیلئے راشریہ جنتا دل بالخصوص لالو پرساد یادو کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ریاست میں جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل اتحاد کی حکومت ہے اس لئے حزب اختلاف کو یہ موقع غنیمت مل گیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کے لئے ہائے توبہ مچا رہی ہے ورنہ بہار کی پڑوسی ریاست جھارکھنڈ میں جہاں بھاجپا کی حکومت ہے وہاں بھی آئے دن قتل کے واردات رونما ہورہے ہیں۔ حال ہی میں وہاں بھی ایک صحافی کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا ہے مگر وہاں اس قتل پر کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہورہی ہے۔

بہر کیف بہار میں اگر جرائم کے واردات میں اضافہ ہوا ہے تو وہ حکمراں جماعت بالخصوص نتیش کمار کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہے، کیوں کہ نتیش کمار کی اپنی ایک صاف ستھری شبیہ ہے اور گزشتہ دنوں میں انہوں نے ریاست میں ترقیاتی رفتار کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ جرائم کو بھی قابو میں رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے عوام نے انہیں تیسری بار وزیر اعلی کے عہدے پر بٹھایا ہے اور لوگوں کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ بہار میں ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ امن وسکون کا ماحول قائم رہے گا۔ اسلئے حالیہ دنوں میں جب جرائم کے کئی واردات سامنے آئے ہیں تو ان کے لئے بھی ایک چیلنج ہوگیا ہے کہ کس طرح جرائم  پر قابو پایا جائے۔جہاں تک حالیہ دونوں میں ہائی پروفائل قتل کے واردات کا سوال ہے تو اس میں حکومت نے جس برق رفتاری سے جرائم پیشوں پر قانونی شکنجہ کسا ہے اس سے یہ پیغام ضرور عام ہوا ہے کہ جرائم پیشہ خواہ کتنا ہی سیاسی رسوخ والا ہو وہ آزاد نہیں رہ سکتا ۔ اس کی سب سے بڑی مثال گیا کے آدتیہ قتل کے ملزم ہیں کہ سب کے سب سلاخوں کے پیچھے جاچکے ہیں۔ واضح ہوکہ نہ صرف منورما دیوی سیاسی رسوخ کی حامل تھیں کہ وہ حکمراں جماعت جنتادل متحدہ کی ممبر قانون ساز کونسل تھیں بلکہ اس کے شوہر بندیشوری یادو عرف بندی یادو بھی دو دہائیوں سے گیا ضلع میں اپنی ایک انفرادی سیاسی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ ضلع پریشد کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور نوے کی دہائی میں راشٹریہ جنتا دل کے فعال لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اگرچہ ان کاماضی بھی جرائم کی دنیا سے وابستہ رہا ہے کہ ان پر نکسلائٹ تنظیموں کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام لگتا رہا ہے اور نصف درجن جرائم کے معاملات ان کے خلاف گیا ٹائون تھانہ میں درج ہیں۔ حالانکہ صحافی راجدیو رنجن قتل معاملہ  میں اب تک پولس کو کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی ہے،جبکہ اس معاملہ کو بالواستہ ڈائریکٹر جنرل آف پولس دیکھ رہے ہیں اور اس کیلئے کئی خصوصی ٹاسک فورس ٹیمیں بنائی گئی ہیں جو اندرون ریاست کے ساتھ ساتھ پڑوسی ریاست اتر پردیش، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں چھاپہ ماری کررہی ہیں لیکن ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ 

واضح ہوکہ ریاستی حکومت نے بلا تاخیر اس معاملہ کو سی بی آئی کے حوالے کردیا ہے لیکن اس کے باوجود ریاست گیر سطح پر صحافی قتل معاملہ میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ راجدیو رنجن بہار کے ایک مؤقر ہندی روزنامہ ’ہندوستان‘ کے سیوان ضلع بیورو چیف تھے اور مقتول صحافی کی اپنی ایک الگ شناخت تھی۔ اس لئے میڈیا میں اس قتل کو زیادہ اچھالا جارہا ہے۔ اب جبکہ معاملہ سی بی آئی کے حوالے کردیا گیا ہے اور ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ سی بی آئی پر کس قدر مقدمات کے بوجھ ہیں۔ پھر اس کی تفتیشی رفتار بھی کس قدر سست رو ہوتی ہے اس کا بھی ہم سب کو علم ہے ، اس لئے اب یہ معاملہ طوالت کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ریاستی حکومت اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اس لئے یہ امید بندھتی ہے کہ عنقریب صحافی قتل کے اصل مجرم بھی پولس کی گرفت میں ہوںگے۔ اب پریس کونسل آف انڈیا کی دورکنی ٹیم بھی ریاست کے دورے پر ہے اور وہ اپنے طور پر صحافی قتل معاملہ کو دیکھ رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا کی جانچ رپورٹ میں کیا کچھ نکل کر آتا ہے۔ 

مختصر یہ کہ حالیہ ان دونوں قتل کے واردات کی وجہ سے حزب اختلاف کو یہ موقع ضرور مل گیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف ہنگامہ آرائی کرسکے۔ جیسا کہ آج ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسمبلی ارکان کا ایک وفد گورنر بہار کو عرضداشت دے کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ ریاست میں نظم ونسق کی بگرتی صورتحال پر گورنر موصوف کوئی ٹھوس کارروائی کریں۔ بلا شبہ حالیہ دنوں میں جرائم کے واردات میں جو اضافہ ہواہے اس سے نتیش کمار کی حکومت پر کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ ریاست کے عوام کے درمیان نتیش کمار کی ایک الگ سیاسی شبیہ ہے کہ وہ اپنے گزشتہ دور حکومت میں نہ صرف ترقیاتی کاموں کو تیزی بخشی تھی ، بلکہ امن وامان قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے تھے۔ اس لئے اب جبکہ جرائم کے واقعات میں تیزی آرہی ہے تو عوام الناس بھی فکر مند ہے، اگرچہ قومی سطح پر جرائم کا ریکارڈ یہ دکھاجائے تو بہار سے کہیں زیادہ بھاجپا کی حکومت والی ریاستوں میں جرائم کے واردات بڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں جھارکھنڈ میں ایک صحافی کو جس طرح قتل کیا گیا مگر اس پر کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہورہی ہے۔ اسی طرح ہریانہ اور گجرات میں بھی آئے دن جرائم کے واقعات رونما ہورہے ہیں مگر قومی میڈیا میں وہاں کی خبروں کو ایک طرح سے دبانے کی دانستہ کوشش ہورہی ہے ۔ اس لئے قومی میڈیا پر بھی یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر بہار کے حوالے سے ہی منفی خبروں کو کیوں جگہ دی جارہی ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی جرائم یا پھر بدعنوانی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اس میں قومی میڈیا کا منصفانہ کردار ہونا چاہئے۔  
 

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 554