donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Sae Sathi Panchayti Intekhab Aur Aqliyat Tabqa


بہار میںسہ سطحی پنچایتی انتخاب  اور اقلیت طبقہ

 

٭ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    ایک جمہوری ملک میں پنچایتی نظام کو غیر معمولی سیاسی اہمیت حاصل ہے۔ بالخصوص ہندستان جسے گائوں کا ملک کہا جاتا ہے وہاں پنچایتی نظام کی معنویت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ گائوں کی ترقی کا مکمل خاکہ پنچایت میں ہی تیار کیا جاتا ہے اور جب سے پنچایت کو ترقیاتی اسکیموں کے معاملے میں خودمختاری دی گئی ہے، اس کے بعد تو اسمبلی سے کہیں زیادہ پنچایتی انتخاب میں رسہ کشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک پنچایت کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور تقریباً پانچ ہزارکی آبادی پر ایک پنچایت مشتمل ہوتی ہے اور ان ہی میں سے مکھیا(پردھان) اور سرپنچ کے ساتھ ساتھ وارڈ ممبران، پنچایت سمیتی ممبران، ضلع پریشد ممبران منتخب ہوتے ہیں۔ بہار میں سہ سطحی پنچایتی نظام ہے۔اولاً مکھیا یعنی پردھان اور اس کی کابینہ کے ممبران منتخب ہوتے ہیں۔ سرپنچ اور ان کی کابینہ کے ممبران کا انتخاب الگ ہوتا ہے اور بلاک سطح کے لئے پنچایت سمیتی ممبر کا انتخاب بھی ہوتا ہے۔ بعدہ ضلع پریشد کے ممبران بھی منتخب ہوتے ہیں۔ دراصل جمہوریت کے استحکام کے لئے اس طرح کا سیاسی تانا بانا تیار کیا گیا ہے۔ بالخصوص بابائے قوم گاندھی جی نے پنچایتی نظام کے استحکام کو ہی ملک کے ترقی کا ذریعہ قرار دیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ ہندستان جیسے کثیر المذاہب اور کثیر اللسان و تہذیب و تمدن کے ملک میں اگر مقامی سطح پر جمہوریت کے اصول و ضوابط کی روشنی میں معاشرہ تشکیل پاتا ہے تو پھر مرکز تک صحت مند فضا تیار ہو سکتی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ گاندھی جی کا جو پنچایتی راج کا نظریہ تھا وہ اب تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک کے ہزاروں گائوں ترقی کی روشنی سے محروم ہیں۔ ورنہ پنچایتی نظام درست ہوتا تو آزادی کے ۶۹برسوں کے طویل سفر میں گائوں کی تصویر ضرور بدل گئی ہوتی اور اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک ہمارے ملک کے گائوں کی تصویر نہیں بدلے گی، اس وقت تک ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی ۔

    بہرکیف، بہار میں سہ سطحی پنچایتی اداروں کے کل ۲ لاکھ ۵۹ ہزار عہدوں پر آئندہ اپریل ماہ میں انتخاب ہونا ہے۔ چونکہ پنچایتی انتخاب میں سیاسی رسہ کشی کا ماحول رہتا ہے۔ اس لئے حکومت بہار نے دس مرحلوں میں اس انتخاب کو مکمل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ریاست کے انتخابی کمشنر کی حالیہ جائزہ میٹنگ میں محکمۂ داخلہ کے پرنسپل سکریٹری عامر سبحانی نے کہا ہے کہ پنچایتی انتخاب کو پرامن ماحول میں مکمل کرنے کے لئے نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کی جائے گی اور ریاست کے ایک لاکھ ۱۷ ہزار  پولنگ مراکز پر ریاستی پولس کے ساتھ ساتھ یہ نیم فوجی دستے بھی تعینات کئے جائیں گے۔ واضح ہو کہ ریاست میں ۸۳۹۷ پنچایت ہیں۔ لہٰذا ۸۳۹۷ مکھیا(پردھان) اور اتنے ہی سرپنچ گرام کچہری کا انتخاب ہوگا جبکہ پنچایت وگرام کچہری کے کل ۱۱۴۶۵۰  ممبران منتخب ہوں گے۔ اسی طرح پنچایت سمیتی کے ۱۱۵۱۶  ممبران اورضلع پریشد کے کل ۱۱۶۲  عہدوں کے لئے بھی انتخاب ہوں گے۔ واضح ہو کہ بہار میں پنچایتی نظام میں بھی ریزرویشن نافذ ہے ۔ لہٰذا ہر پانچ سال پر ریزرویشن زمرے کی سیٹیں بدلتی رہتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۸۰ فیصد سیٹوں میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے یعنی جو سیٹ اس پنج سالہ مدت میں ریزرو تھی وہ اب آزاد یعنی جنرل سیٹ ہو جائے گی جبکہ پہلے جو جنرل سیٹیں تھیں وہ ریزرو ہوسکتی ہیں۔ بہار میں درجہ فہرست ذاتیں اور درج فہرست قبائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لئے پچاس فیصد سیٹیں ریزرو ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر آچکا ہے کہ بہار میں پنچایتی انتخاب بہت حساس ہوتے ہیں اور اکثر خون ریزی کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ اس لئے حکومت اور انتظامیہ کے لئے پرامن ماحول میں انتخاب مکمل کرانا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اگرچہ بہار میں پنچایتی انتخاب کسی سیاسی پارٹی کے انتخابی نشان پر نہیں ہوتا اور نہ کوئی سیاسی جماعت اعلانیہ طور پر اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ اکثر جگہوں پر کسی نہ کسی پارٹی کے حمایتی امیدوار میدان میں اترتے ہیں اور اس کی پشت پناہی سیاسی جماعتوں کے ذریعہ کی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے پنچایتی انتخاب بھی سیاسی رسہ کشی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چونکہ بہار میں حال ہی میں اسمبلی انتخاب ہوا ہے اور یہاں جنتا دل متحدہ، راشڑیہ جنتا دل اور کانگریس نے اتحادی صورت میں انتخاب لڑا ہے لیکن پنچایت سطح پر یہ اتحاد برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس لئے ان اتحادیوں کے درمیان بھی کشمکش دکھائی دے رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی اس کوشش میں ہے کہ پنچایت سے لے کر ضلع پریشد تک اپنی پکڑ مضبوط بنائے تاکہ ترقیاتی اسکیم کے نفاذ میں ان کی حصہ داری بڑھ سکے کیونکہ بہار میں ترقیاتی اسکیم کے نفاذ میں ضلع پریشد کے چیئرمین، بلاک کے پرمکھ اور پنچایت کے مکھیا کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اب پنچایت کی ترقیاتی اسکیم کے فنڈ سیدھے مکھیا کے پاس ہوتے ہیں اور وہ گائوں کی سبھا کے ذریعہ ترقیاتی اسکیم کو پاس کرکے اسے انجام دیتے ہیں۔ اس لئے ہر ایک سیاسی جماعت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مکھیا اور سرپنچ ان کی جماعت کے منتخب ہوں تاکہ اسمبلی یا پارلیمانی انتخاب میں وہ ان کے معاون ہو سکیں۔ بلاشبہ کسی بھی سیاسی جماعت کے استحکام کے لئے سہ سطحی پنچایتی انتخاب بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بہار کی ایک کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ یہاں گائوں سے لے کر راجدھانی تک ذات پات کی سیاست کو فروغ حاصل ہے۔ ایسی صورت میں پنچایتی انتخاب میں ذات برادری کی بنیادپر بھی ماحول سازی ہوتی ہے اور کہیں کہیں یہی عمل کشیدگی کا باعث بھی بنتا ہے اور خوں ریزی کی صورت بھی اختیار کرلیتا ہے۔ اس لئے ماضی میں ضلع انتظامیہ کے لئے سہ سطحی پنچایتی انتخاب درد سر ثابت ہوتا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جب آئندہ فروری ۲۰۱۶ میں انتخاب کی مرحلہ وار تاریخ کا اعلان ہوگا تو ریاست میں کس طرح کی سیاسی فضا تیار ہوتی ہے۔ بہرحال انتخاب تو ہونا ہے اور اس کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت بہار نے اقدامات شروع کر دئے ہیں۔جہاں تک سماجی اعتبار سے اقلیت طبقے کا سوال ہے تو اگر اقلیت طبقہ اپنی سیاسی بصیرت و بصارت استعمال کرے تو انہیں سہ سطحی پنچایتی انتخاب میں خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے کہ پنچایت کا دائرہ کم ہوتا ہے اور آبادی بھی متعینہ ہے۔ ایسی صورت میں ایک ٹھوس سیاسی لائحہ عمل بنا کر زیادہ سے زیادہ مکھیا، سرپنچ اور ضلع پریشد کی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ واضح ہو کہ سہ سطحی پنچایت میں اقلیت طبقے کی نمائندگی ان کے بہتیرے مسائل کا حل کرے گی ۔ لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلم اکثریت والی پنچایت میں بھی ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے  انہیں شکست کا سامنا پڑتا ہے۔ اگر ابھی سے ہی اس انتشار پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش شروع ہو جائے تو ممکن ہے کہ پنچایت اور گرام کچہری کے ساتھ ضلع پریشد میں ہماری تعداد بہ لحاظ آبادی قابل اطمینان ہو سکے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ سہ سطحی پنچایتی انتخاب کے مکمل ہونے کے بعد پنچایتی زمرے سے بہار قانون ساز کونسل کے ممبر بھی منتخب ہوتے ہیں۔ اگر پنچایت، پنچایت سمیتی اور ضلع پریشد میں اقلیت طبقے کے ارکان کی تعداد خاطر خواہ ہوگی تو وہ کونسل کے انتخاب میں بھی اپنی موجودگی کا احساس کراسکتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیت طبقے کے دانشور حضرات بھی اس طرف توجہ دیں اور جہاں کہیں ان کی آبادی اس نشانے تک ہے جہاں وہ کامیاب ہو سکتے ہیں تو وہاںاتحاد کی کوشش شروع ہوجانی چاہئے کہ جمہوریت میں اعداد و شمار کو ہی کرشمائی حیثیت حاصل ہے۔ مگر اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم سب عین وقت پر اپنی ڈفلی آپ بجانے لگتے ہیں اور ایک ایک حلقے میں کئی کئی امیدوار کھڑے ہوکر ہمارے ووٹوں کو تین تیرہ کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً جہاں ہماری تعداد فیصلہ کن ہوتی ہے وہاں بھی ہم صفر ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس کی مثال تو اترپردیش ہے کہ جہاں گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں کسی بھی سیاسی جماعت سے ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہو سکے محض اس لئے کہ ان کے ووٹوں میں انتشار ہوگیا تھا۔ اس لئے ایک جمہوری ملک کے شہری کو جمہوریت کے ان تقاضوں کو بھی سمجھنا چاہئے۔ بالخصوص اقلیت طبقے کے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ اس ملک کے تمام تر تانے بانے منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں ہی ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 507