donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Darmiyan Hoga Hamare Fasla, Sonch Na Tha


درمیاں ہو گا ہمارے فاصلہ ، سوچا نہ تھا


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:09431414586

ای میل: rm.meezan@gmail.com


    یہ اندیشہ تو اسی وقت لاحق ہو گیا تھا کہ جب نریندر مودی وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوںگے تو سنگھ پریوار کے تمام تر خفیہ ایجنڈوں کو عملی صورت دی جائے گی۔ اس لئے جس دن مرکز میں بھاجپا کی حکومت قائم ہوئی اسی دن سے ذرائع ابلاغ میں یہ اشاریہ ظاہر ہونے لگا کہ حکومت کی باگڈور بھاجپا کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ سنگھ سنچالک کے ہاتھوں میں ہے اور اس کا ثبوت بھی ملا کہ حال ہی میں نریندر مودی کابینہ کے ایک درجن وزراء اور خود وزیر اعظم نریندر مودی نے سنگھ سنچالک موہن بھاگوت کے دربار میں حاضری دی اور ان سے یہ توصیف نامہ حاصل کیا کہ ان کی حکومت ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔ ہمارا ملک ہندستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں کوئی بھی حکومت صرف اور صرف آئین کی پاسدار ہوتی ہے۔ وہ کسی فرد واحد یا کسی تنظیم کی جوابدہ نہیں ہوتی۔ لیکن نریندر مودی حکومت نے اپنی ڈیڑھ سالہ کارکردگی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک کے آئین یا پھر جمہوری تقاضوں کی پاسدار نہیں ہے۔ اگر وہ ایک جمہوری حکومت کی طرح کام کرتی تو حالیہ برسوں میں جس طرح ملک کی فضا مسموم ہوئی ہے، وہ نہیں ہو سکتی تھی۔ آج ملک میں جس طرح عدم رواداری اور ناانصافی کا ماحول بن گیا ہے وہ نہ صرف ہندستانی عوام کے لئے باعث فکر ہے بلکہ بین الاقومی سطح پر یہ تشویش لاحق ہو گئی ہے کہ ہندستان میں حقوق انسان کی پامالی ہو رہی ہے۔ ایک خاص طبقے کو جس طرح ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے، اس کی اجازت نہ ہمارا آئین دیتا ہے اور نہ ایک مہذب سماج۔لیکن جب کسی سازش کے تحت اور حکومت کی سرپرستی میں اس طرح کے کارنامے انجام پاتے ہیں تو پھر کسی بھی ملک یا خطے میں اسی طرح کا غیریقینی اور خوف کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ایک جمہوری نظام حکومت میں صدر جمہوریہ کی فکرمندی بھی اس بات کو واضح کر دیتی ہے کہ ملک کی فضا کس قدر مکدر بن گئی ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی طبقہ ہو، ہر طبقے میں ایک گھٹن سی ہے۔ دادری میں جو کچھ ہوا،  وہ اچانک نہیں ہوا تھا، بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس طرح کا غیر انسانی رویہ اپنایا گیا اور گمرہی پھیلا کر ایک معصوم کا بہیمانہ قتل کیا گیا۔ محمد اخلاق کے قتل کے بعد جس طرح ایک ممبر پارلیامنٹ مہیش شرما اور ایک ممبر اسمبلی سنگیت سوم کے ذریعہ اعلانیہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا، اس کی اجازت ہمارا آئین نہیں دیتا۔ مگر اس طرح کے غیر آئینی عمل پر ہمارے وزیر اعظم خاموش رہے اور جب آئینی سربراہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے فکر مندی ظاہر کی تو وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی مجبوراً اپنی ساکھ بچانے کے لئے صدر جمہوریہ کے بیان کا خیر مقدم کیا۔ مگر سچائی یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی اپنی آئینی ذمہ داری نبھاتے تو کبھی بھی دادری کا واقعہ پیش نہیں آتا۔ کیونکہ بھاجپا کے نصف درجن وزراء اور ممبرپارلیامنٹ گذشتہ ایک سال سے جس طرح کی زہر افشانی کر رہے تھے، اگر اس کی بروقت سرزنش کی جاتی تو شاید نہ دادری واقعہ ہوتا اور نہ ہماچل پردیش اور پھر جموں کے ادھم پور میں جو کچھ ہوا،  وہ ہوتا۔ اتنا ہی نہیں ممبئی میں سدھیر کلکرنی کو سیاہی پوتنے اور پھر بنارس میں وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کے ذریعہ اعلانیہ طور پر اس طرح کی واردات حمایت کیا جانا، ملک کی سا  لمیت کے لئے خطرہ پیدا کرتا ہے۔ مگر اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی وزیر اعظم نریندر مودی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے ایک خاص پروگرام میں سیتا رام یچوری نے یہ بھی خلاصہ کیا ہے کہ جس وقت بھاجپا کے ممبران پارلیامنٹ اور کچھ وزراء ایک خاص طبقے کے خلاف زہر افشانی کر رہے تھے اس وقت انہوں نے پارلیامنٹ میں بھی وزیر اعظم سے اس مسئلے پر توجہ دینے کی گذارش کی تھی اور تحریری عرضداشت بھی دی تھی۔ بہ قول یچوری وزیر اعظم نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی کو بھی غیر آئینی اقدام اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن انہوں نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ بلا شبہ اگر بر وقت وزیر اعظم کی جانب سے ان بڑبولے ممبر پارلیامنٹ اور وزراء کی سرزنش کی جاتی تو ملک میں یہ پیغام جاتا کہ وزیر اعظم آئین کے پاسدار ہیں۔واضح ہو کہ گذشتہ ایک سال سے مودی کابینہ کے وزیر سادھوی نرنجنا، گری راج سنگھ اور یوگی ادتیہ ناتھ جیسے ممبر پارلیامنٹ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں۔ کبھی لَو جہاد، تو کبھی کثرت آبادی اور کبھی گائے کشی جیسے حساس موضوعات کو ہوا دیتے رہے ہیں اور وزیر اعظم ان سب کے تماشائی بنے رہے۔اب جبکہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے اور ملک کی تکثیریت پر سوال کھڑا ہو گیا ہے تو ملک میں چہار طرف بے چینی دیکھی جارہی ہے۔ اب تک ہزاروں دانشوروں نے اپنے اپنے طور پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ سو سے زائد ادباء اور شعراء نے اپنے انعامات واپس کئے ہیں تو درجنوں فلم سازوں نے بھی اپنے ایوارڈ واپس کر ملک کی سا  لمیت کے تئیں اپنی فکرمندی ظاہر کی ہے ۔ تاجر گھرانوں نے بھی ملک میں بڑھ رہی عدم رواداری اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ حال ہی میں ملک کی راجدھانی دہلی میں مبینہ ہندو سینا کی شہہ پر دہلی پولیس نے جس طرح کیرالہ بھون پر چھاپہ ماری کی۔اس چھاپہ ماری سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اب پولس عملہ بھی کس کے اشارے پر کام کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ملک میں گائے کشی پر پابندی ہے لیکن بیل، بھینس اور بچھڑے کا گوشت نہ صرف مسلمان کھاتے ہیں بلکہ دیگر مذاہب کے افراد بھی اپنی پسند کی غذا کے طور پر لیتے ہیں۔ ملک کے بیشتر حصوں میں بیف ڈش مقبول ہے۔ مگر سنگھ پریوار صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اب انفوسس جیسے مقبول صنعتی ادارہ کے بانی نارائن مورتی اور آر بی آئی کے گورنر رگھورام راجن نے بھی ملک میں فرقہ پرستی اورعدم رواداری کی چنگاری کے شعلہ کا روپ اختیار کرنے پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے اور حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ملک میں اس طرح کی فضا قائم رہتی ہے تو نہ صرف ملک کی ترقی کی رفتار کم ہوگی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہماری ساکھ گرے گی۔بھاجپا کے سینئر لیڈر سابق وزیر و معمر صحافی ارون شوری نے بھی حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ نریندر مودی حکومت بے سمت ہو گئی ہے اور وہ ہندستان کے سب سے کمزور پی ایم ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ بھی آر ایس ایس کی طرف ہے جو اپنے رموٹ سے حکومت چلا رہی ہے۔ چند دنوں قبل بھاجپا کے بزرگ لیڈر لال کرشن اڈوانی بھی یہ تشویش ظاہر کر چکے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ اب ہمارے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے بھی ایک بار پھر گذشتہ کل دہلی ہائی کورٹ کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فکر مندی ظاہر کی ہے کہ ملک میں عدم رواداری بڑھ رہی ہے اور اس کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے اور ہمارے آئین میں ہر شہری کو بنیادی حقوق دئے گئے ہیں جس میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کی گئی ہے۔ مگر فرد واحد کی آزادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی فرائض و ذمہ داری کا احساس بھی دلایا گیا ہے کہ کسی کے انفرادی عمل سے دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر تحفظ آئین کی ذمہ داری ہے وہ خود ہی آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ نتیجتاً آج ملک میں اس طرح کی غیر یقینی اور خوف و ہراس کی فضا قائم ہو گئی ہے، جس کا سد باب ہونا ملک کی سا  لمیت کے لئے لازمی ہے۔ملک کے حالیہ تناظر میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ


    ؎    درمیاں ہو گاہمارے فاصلہ ، سوچا نہ تھا!
        ٹوٹ جائے گا نفس کا سلسلہ، سوچا نہ تھا


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 498