donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Hamare Awami Numaindo Ki Ghair Ikhlaqi Karkardagiyan


ہمارے عوامی نمائندوں کی غیر اخلاقی کارکردگیاں

 

٭ڈاکٹر مشتاق احمد،

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    یوں تو زندگی کے ہر شعبے میں قدرے پستی آئی ہے لیکن حالیہ دہائی میں جتنی پستی سیاسی شعبے میںپیدا ہوئی ہے اس کا وہم و گمان تک نہیں تھا۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے سیاسی نمائندے اپنے سماج کے ساتھ ساتھ ریاست اور ملک کے لئے بھی آئیڈیل ہوا کرتے تھے۔ آزادی سے قبل کے جو سیاسی رہنما تھے ان کی تو بات ہی چھوڑئے کہ وہ سب کے سب جذبۂ ایثار وقربانی کے مجسمہ تھے اور ان کے افکار و نظریات فلاح و بہبود بشر کے لئے نسخۂ کیمیا کی حیثیت رکھتے تھے۔ اگرچہ اس وقت ذرائع ابلاغ میںاتنا انقلاب نہیں آیا تھا اور برقی میڈیا کا تو شاید وجود بھی نہیں تھا۔ البتہ پرنٹ میڈیا کے ذریعہ شہر کے علاوہ دور افتادہ دیہی علاقوں کے قریہ قریہ تک ان کی باتیں پہنچتی تھیں اور ایک شخص دوسرے تک ان کی باتوں کو پہنچاتا تھا۔ مجھے طرح یاد ہے کہ ۱۹۷۲ ء میں چودھری چرن سنگھ جب ہمارے علاقے کے ایک اسکول میدان میں آئے تھے تو ان کو سننے کے لئے ایک دن قبل سے ہی دور دراز کے گائوں سے لوگ وہاں جمع ہونے لگے تھے اور جلسہ کے دن تو ایسا لگ رہا تھا کہ تا حد نظر انسانوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ مجھے آج بھی ان کی تقریر کا یہ جملہ یاد ہے کہ ’’ہندستان میں فولاد کی اہمیت اسی وقت تک برقرار رہے گی جب تک ہمارے کسان  بھائی اپنے ہلوں میں اس کا استعمال کر تے رہیں گے‘‘۔ ان کا یہ فلسفیانہ جملہ مجھے آج بھی یا د ہے اور اب کسانوں کی بدحال زندگی اور ملک میں بڑھتے چند صنعتی خاندان کی عیش پرست زندگی پر سوچنے کو مجبور کرتا ہے۔ بہرکیف، جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ تمام شعبہ ٔ حیات میں پستی آئی ہے لیکن اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ شعبہ ٔ سیاست میں جس قدر اخلاقی گراوٹ اور ابن الوقتی آئی ہے وہ ہندستان جیسے ایک جمہوری ملک کے لئے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ جمہوریت میں عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں ہی ملک کی تصویر اور عوام کی تقدیر بلدنے کی کنجی ہوتی ہے۔ ہمارے ذریعہ منتخب نمائندے ہی ریاستوں کی اسمبلیوں میں اور ملک کی پارلیامنٹ میں قانون بناتے ہیں۔ ان ہی عوامی نمائندوںکے ذریعہ صدر جمہوریہ منتخب ہوتے ہیں اور اسی صدر جمہوریہ کی آخری مہر سے ملک کے لئے قانون بنتا ہے اور اس کا نفاذ بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر ہمارے عوامی نمائندے صحت مند اور تعمیری فکر و نظر کے حامل نہیں ہوںگے تو ہماری جمہوریت کا ڈھانچہ مستحکم نہیں رہ سکتا۔ چونکہ آج ہماری اسمبلیوں اور پارلیامنٹ میں کج فکر نمائندوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس لئے ملک کے عوام طرح طرح کے مسائل اوراضطراب سے دوچار ہیں۔ آئے دن ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ہمارے عوامی نمائدوں کی ایسی ایسی کارکردگیاں اجاگر ہورہی ہیں جن سے ہمارا مہذب سماج شرمندہ ہورہا ہے۔ باوجود اس کے ہمارے نمائندے اپنی نازیبا حرکتوں اور بد زبانی سے پرہیز نہیں کر رہے ہیں اور اس معاملے میں کسی ایک خاص سیاسی پارٹی کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ سچائی تو یہ ہے کہ جن سیاسی پارٹیوں کے بارے میں کل تک یہ بات عام تھی کہ فلاں سیاسی پارٹی کیڈر والی پارٹی ہے اور اس کے ارکان مہذب ہوتے ہیں، اب اس کا طلسم بھی ٹوٹ چکا ہے۔ اس لئے اگر اب یہ بات کہی جائے کہ حمّام میں سبھی ننگے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ہر سیاسی پارٹی اپنے نمائندوں کی غیر جمہوری اور غیر اخلاقی کارکردگی سے پریشان ہے اور اکثر یہ خبر ملتی ہے کہ فلاں پارٹی نے اپنے فلاں رکن اسمبلی یا رکن پارلیامنٹ کو پارٹی سے معطل کیا ہے۔ اگرچہ یہ معطلّی بھی ظاہری ہوتی ہے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد پارٹی میں نہ صرف ان کی واپسی ہوتی ہے بلکہ انہیں وزیربھی بنایا جاتارہا ہے یا پھر پارٹی کی اہم ذمہ داریاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ نتیجتاً بدعنوانی کا معاملہ ہو کہ سماجی سروکار کی بداخلاقی اور کردار کی پستی کا، سیاسی شعبے میں ایسے لوگوں کی تعداد دنوں دن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہمارے عوامی نمائدے اب اسمبلیوں میں عریاں فلمیں دیکھنے لگے ہیں اور گالی گلوج تو عام روش ہوکر رہ گئی ہے۔

     غرض کہ دنوں دن ہماری سیاست غیر معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ غیر انسانی بھی ہوتی جارہی ہے کیونکہ کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے انسانیت شرمسار ہوئی ہے۔ حال ہی میں ایک ممبر اسمبلی پر یہ الزام آیا ہے کہ اس نے ایک معصوم نابالغ لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کیا ہے۔ اگرچہ اس طرح کے ملزم دوسرے شعبہ ٔ حیات سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں کہ آسا رام جیسے مذہبی مکھوٹا  والے بھی ہیں۔ مگر ایک عوامی نمائدہ پر جب اس طرح کا الزام آتا ہے اور وہ مجرم ثابت ہوتا ہے تو ہماری سیاست نہ صرف بندنام ہوتی ہے بلکہ اس سے جمہوری نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس وقت بہار کی سیاست میں بھی ایسے عوامی نمائندوں کی تعدادمیں اضافہ ہوا ہے جن کی وجہ سے یہاں کا مہذب سماج ایک ذہنی اضطراب میں مبتلا ہے۔ نتیش کمار کی قیادت والی موجودہ حکومت کے تئیں عوام صحت مند نظریہ رکھتے ہیں کیونکہ بذات خود نتیش کمار ایک اصول پسند اور سماجی سروکار کے لیڈر مانے جاتے ہیں۔ بلاشبہ نتیش کمارکی گذشتہ ۱۰ سالہ حکومت میں جرائم اور بدعنوانی کے ساتھ ساتھ اخلاقی پستی کو بھی دور کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ حکومت سازی کے بعد کچھ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن سے نہ صرف بہاکا دانشور طبقہ فکر مند ہے بلکہ خود نتیش کمار کے لئے بھی ان کے نمائدے درد سر بن گئے ہیں۔ واضح ہو کہ کچھ ہی دن قبل ان کی پارٹی یعنی جنتادل متحدہ کے ممبر اسمبلی سرفراز عالم پر ٹرین میں چھیڑخانی کا الزام لگا تھا اور انہیں بھی معطل کیا گیا تھا۔ اب جنتا دل متحدہ کے ہی ممبراسمبلی گوپال منڈل اور رانا گنگیشور کو پارٹی سے معطل کیا گیا ہے۔ در اصل ان دنوں اخباروں میں سرخیاں حاصل کرنے کے لئے کچھ اس طرح کے بیان بھی دئے جارہے ہیں جن سے نہ صرف جمہوری تقاضے پامال ہورہے ہیں بلکہ سماجی تانے بانے بھی بکھر رہے ہیں اور ملک کی سا  لمیت پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہورے ہیں۔گوپال منڈل کو نتیش کمارکی پارٹی جنتا دل متحدہ کے ریاستی صدر وششٹ نرائن سنگھ نے اس لئے معطل کیا ہے اور وجہ بتائو نوٹس جاری کیاہے کہ گوپال منڈل نے ایک عوامی جلسے میں برجستہ یہ کہا کہ ’’میں قتل کی سیاست کرتا رہا ہوںاور کروں گا‘‘۔ اس سے قبل گوپال منڈل نے بہار میں شراب بندی کی بھی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ سورا اور سندری تو سورگ میں رہنے والے لوگوں کو بھی پسند ہیں‘‘۔

    ظاہر ہے ایک طرف وزیر اعلیٰ نتیش کماربہار میں یکم اپریل سے شراب بندی قانون نافذ کررہے ہیں اور ریاست میں نظم و ضبط کے استحکام کے لئے جرائم پیشوں پر نکیل کس رہے ہیں۔ ایسے وقت میں ایک عوامی نمائندے کا مذکورہ بیان ریاست کی موجودہ حکومت پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ اسی طرح رانا گنگیشور نے قومی ترانہ کو ہی تبدیل کرنے کی وکالت کی ہے۔ دراصل ان دونوں عوامی نمائندوں کا ماضی بھی متنازعہ رہا ہے۔ اسی طرح دوسری سیاسی پارٹیوں میں بھی کئی ایسے ممبران اسمبلی ہیں جن کی کارکردگی سے ان کی پارٹی کا چہرہ مسخ ہوا ہے۔ لیکن اس وقت جنتا دل متحدہ اپنے دونوں ممبران اسمبلی کے بڑبولے پن کی وجہ سے حزب اختلاف کے نشانے پر ہے اور اس سے خود نتیش کمار بھی قدرے فکر مند نظر آرہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی صرف معطلّی کا پروانہ جاری کر کے ہی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجانا چاہتی ہے یا پھر بہار میں ایک صحت مند سیاسی فضا قائم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم بھی اٹھا تی ہے۔

    آج کی سیاست میں جرائم پس منظر کے عوامی نمائندوں کی کمی نہیں ہے کہ خود ان نمائندوں کے انتخابی حلف ناموں سے پتا چلتا ہے کہ بیس سے پچیس فیصد عوامی نمائدے کسی نہ کسی الزام میں نامزد ہیں اور کئی تو مجرم قرار پاکر سلاخوں کے پیچھے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے نمائندہ آپسی رنجش اور سیاسی دشمنی کی وجہ سے بھی مقدمات میں ملوث ہوتے رہے ہیں۔ مگر اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حالیہ دنوںمیں سیاست میں جرائم پیشوں کی تعداد قدرے بڑھی ہے، جس کی وجہ سے کئی طرح کے سیاسی اور سماجی مسئلے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر اس سنگین مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا اورتمام سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے تو ہماری جمہوریت کا ڈھانچہ ہی متزلزل ہو کر رہ جائے گا۔ یہ ایک لمحہ  ٔ فکریہ ہے نہ صرف ریاست بہار کے لئے بلکہ پورے ملک کے لئے کہ دیگر ریاستوں کے عوامی نمائندوں کے متعلق بھی اکثر اسی طرح کی غیر جمہوری و غیر اخلاقی خبریں آتی رہتی ہیں۔


 ٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 617