donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Musalmano Ke Khelaf Aik Aur Shatrana Sazish


!مسلمانوں کے خلاف ایک اور شاطرانہ سازش


(٭ڈاکٹر مشتاق احمد، (دربھنگا

موبائل:09431414586

 ای میل:rm.meezan@gmail.com


    اس حقیقت سے تو دنیا واقف ہے کہ صبحِ آزادی کے طلوعِ آفتاب کے بعد سے ہی ہندوستان کو مادرِ وطن تسلیم کرنے والے مسلمانوں کے خلاف ذہنی تعصب وتحفظ کی زیریں لہریں چلنے لگی تھیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے مسلمانوں کے لئے ہندوستان کی فضا کو ایک خاص طبقے کے ذریعہ مکدر کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ بالخصوص سنگھ پریوار کی یہ کوشش رہی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ہمیشہ احساسِ کمتری میں مبتلا رکھا جائے اور شعبۂ حیات کے کسی بھی شعبہ میں اس کی شناخت مستحکم نہ ہونے دی جائے۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ آر ایس ایس ذہن کے لوگ کسی ایک سیاسی جماعت میں نہیں ہیں بلکہ ملک میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں اس میں ان کی پیٹھ ہے اور انتظامیہ میں دورِ آغاز سے ہی ان کا دبدبہ رہا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ جن سنگھ اور بعد میں بھاجپا جیسی سیاسی جماعت نے کھلے طورپر آرایس ایس کے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کیا اور اعلانیہ مسلمانوں کے خلاف ملک میں طرح طرح کی غلط فہمیاں عام کرنے کی کوشش کی گئی جس میں ان جماعتوں کو بڑی کامیابی بھی ملی ۔ بالخصوص 80ء کی دہائی کے بعد تو آر ایس ایس نے ملک میں مسلمانوں کے لئے ایک مخصوص لائحہ عمل تیار کیا اور قومی سطح پر مذہبی جنون پیدا کر مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد قومی سطح پر مبینہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاری اور پھر گجرات فسادات کے بعد فرضی انکائونٹر کے ذریعہ مسلمانوں کو ذہنی طورپر ہراساں وپریشاں کرنے کی سازش ہوئی اور جس کا خسارہ مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ آج قومی سطح پر مسلم نوجوانوں کی شناخت مشتبہ ہوگئی ہے ۔ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ نجی اداروں میں بھی مسلم نوجوانوں کے لئے روزگار کی راہیں تنگ ہوگئی ہیں اورآج بھی مبینہ دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہو رہی ہے اور اس مسئلہ پر وہ سیاسی جماعت بھی جو خود کو سیکولر کہتی ہے وہ بھی محض گھڑیالی آنسو بہا رہی ہے۔بہر کیف ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے حالیہ دور آزمائش کا ہے اور اب تو باضابطہ مرکز میں آر ایس ایس کے ریموٹ سے چلنے والی حکومت ہے اس لئے یہ آزمائش اور بھی کٹھن ہو سکتی ہے اس لئے مسلمانوں کو صبر آزما ہونا ہوگا اور قدرے دوراندیشی سے کام لینا ہوگا اور جذباتی نعروں سے جتنا ہو سکے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ جذباتی نعروں کے بہلاوے سے بھی مسلمانوں کو خسارہ عظیم پہنچا ہے کہ مبینہ سیکولر سیاسی جماعتوں نے بھی جذباتی نعروں کی بدولت مسلمانوں کا خوب خوب استحصال کیا ہے ۔میں نے اپنے ایک مضمون میں آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کا ایک جائزہ پیش کیا تھا اور یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ کوئی ایسی دہائی نہیں کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل میں الجھانے کی کوشش نہ کی گئی ہو ۔ آزادی کے بعد سے ہی فرقہ وارانہ فساد تو مسلمانوں کا مقدر ہی بن چکا ہے کہ اب تک ہزاروں فسادات ہو چکے ہیں اور ان فسادات میں نہ صرف مسلمانوں کی جانیں گئی ہیں بلکہ اقتصادی طورپر مسلمانوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور یہ حقیقت عیاں ہے کہ ان فسادات کا ایک خاص مقصد مسلمانوں کواقتصادی طورپر کمزور کرنا ہی رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے 68 سالوں بعدبھی مسلمانوں کی حالت دلت سماج سے بھی بد تر ہے ۔ جیسا کہ خود ایک سرکاری کمیشن سچر کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے۔ واضح ہو کہ آزادی کے بعد مسلمانوں نے اپنی محنت ومشقت کی بدولت باعزت زندگی جینے کی کوشش کی لیکن اسے قدم قدم پر ہراساں کرنے کی سازشیں ہوتی رہیں اور اس میں صرف سنگھ پریوار کے لوگ ہی شامل نہیں تھے بلکہ وہ سیاسی جماعت بھی شامل رہی جو مسلم ووٹوں کی بدولت دہائیوں تک حکومت پر قابض رہی ہیں۔فرق صرف اتنا رہا کہ سنگھ پریوار کھلے عام مسلمانوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے اور ہر محاذ پر مسلمانوں کو ناکام کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب کہ دیگرسیاسی جماعت میٹھی بولی کے ذریعہ ان کا استحصال کرتی رہی۔بہر کیف ایک بار پھر ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک سماجی سازش شروع ہوئی ہے اور اسے ’’لوجہاد‘‘کہا جا رہا ہے ۔ حالیہ دنوں میں اتر پردیش اور جھارکھنڈ میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کا تعلق مسلمانوں سے دور دور کا بھی نہیں ہے لیکن سنگھ پریوار اپنے پروپگنڈے کے ذریعہ جس میں قومی میڈیا کا اہم کردار ہے سماجی سطح پر مسلمانوں کے خلاف معصوم ذہنوں میں زہر بھرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔حال ہی میں ایک ٹی وی چینل پر یہ دکھایا گیا کہ اتر پردیش کے ایک گائوں میں غیر مسلم نوجوانوں کا ایک گروپ مبینہ ’’لو جہاد‘‘ کے خلاف متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف تحریک چلانے والے ہیں۔سنگھ پریوار کا جھوٹاالزام ہے کہ مسلم لڑکے ایک فرضی ہندو نام کے سہارے ہندولڑکیوں کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں۔ جب کہ اب تک جو حقیقت سامنے آئی ہے وہ صد فی صد یا تو عشق کا معاملہ رہا ہے یا پھر ہندو لڑکوں نے ہی فرضی مسلم نام رکھ کر مسلم طبقے کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جھارکھنڈ میں جوواقعہ رونما ہوا ہے وہ تو جگ ظاہر ہے کہ رنجیت کوہلی نام کا شخص فرضی رقیب الحسن کے طورپر تارا شاہ دیو نام کی لڑکی سے شادی رچائی اور اب جب دونوں میاں بیوی کے درمیان کسی طرح کا تفرقہ پیدا ہوا تو سنگھ پریوار کے اشارے پر قومی میڈیا نے یہ پروپگنڈہ کیا جانے لگا کہ کوہلی درحقیقت مسلمان ہے اور اس نے ہندو لڑکی کو بہکا کر شادی کی ہے۔ جب کہ اب کوہلی پولیس حراست میں ہے اور وہ اس حقیقت کو اجاگر کر رہا ہے کہ وہ مذہبی طورپر سکھ ہے اور اس نے مسلم کے طورپر شادی نہیں کی تھی بلکہ ہندو رسم ورواج سے شادی کی تھی اور اب اس کی بیوی اس کو ایک سازش کے تحت سلاخوں کے پیچھے بھیجنا چاہ رہی ہے ۔چوں کہ کوہلی پولیس حراست میں ہے اس لئے اب قومی میڈیا نے بھی بھاری من سے ہی سہی یہ بات کہنے لگی ہے کہ جھارکھنڈ کے رانچی کا معاملہ قطعی طورپر ہندو مسلم کانہیں ہے ۔اس سے پہلے اتر پردیش کے میرٹھ میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا ۔دراصل اترپردیش میں ایک پارلیامانی سیٹ اور گیارہ اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخاب ہونا ہے اور قومی سطح پر محض تین مہینے کی مدت کار میں مودی سرکار کی سچائی عوام کے سامنے آگئی ہے اس لئے سنگھ پریوار ایک بار پھر مذہبی جذباتی نعرے کے سہارے اتر پردیش کا ضمنی انتخاب جیتنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخاب تک اس کا حوصلہ بڑھا رہے۔صرف اس لئے کہ ’’لو جہاد‘‘ کا فرضی جذباتی نعرہ دیا جا رہا ہے اور چوں کہ قومی میڈیا ان دنوں سنگھ پریوار کے اشارے پر چل رہی ہے اس لئے اس کا پروپگنڈہ بھی خوب ہو رہا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ لوگ جو ہندوستان کی جمہوریت کے پاسدار ہیں وہ اس پروپگنڈہ کو ناکام کرنے کے لئے آگے آئیں بالخصوص وہ سیاسی جماعت جو خود کو سیکولر کہتی ہے وہ اس سازش کو ناکام کرنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے کیوں کہ یہ فرضی ’’لو جہاد‘‘ کا نعرہ نہ صرف ایک خاص طبقے یعنی مسلمانوں کے لئے خطرناک ہے بلکہ اس گنگا جمنی تہذیب کے ہندوستان کی سا  لمیت کے لئے بھی خطرناک ہے۔

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 651