donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Nitish Kumar Ki Qayadat Me Nai Seyasi Safbandi Ka Imkaan


نتیش کمار کی قیادت میں نئی سیاسی صف بندی کا امکان


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

موبائل 9431414586

ای میل  rm.meezan@gmail.com


    مرکز میں نریندر مودی کی حکومت تشکیل پانے کے بعد سے ہی ویسی غیر بھاجپا سیاسی جماعتیں جو خود کو سیکولر کہتی رہی ہیں، وہ اس کوشش میں لگ گئی تھیں کہ بہا ر اسمبلی انتخاب سے قبل قومی سطح پر قدیم جنتا پارٹی خاندان کا آپس میں انضمام ہوجائے اور اس کے لئے نتیش کمار نے قدرے اپنی فعالیت دکھائی تھی اور دہلی میں تقریباً ایک درجن چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران مثلاً جنتادل متحدہ کے قومی صدر شرد یادو ، راشٹریہ جنتا دل کے لالو پرساد یادو، سماجوادی پارٹی کے ملائم سنگھ یادو، جنتادل سیکولر کے قومی صدر و سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیو گوڑا ، شرد پوار کی پارٹی این سی پی اور راشٹریہ لوک دل کے اجیت سنگھ وغیرہ کی کئی میٹنگیں بھی ہوئیں مگر ساری کوشش ناکام رہیں۔ نتیجتاً بہار اسمبلی انتخاب میں سماجوادی پارٹی اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے جنتا دل متحدہ، راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس اتحاد کے خلاف اپنے امید وار میدان میں اتار دئے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو بہار کے عوام نے مسترد کر دیا اور بالآخر نتیش کمار کی قیادت میں ہی کانگریس اور راشٹریہ جنتادل اتحاد کی حکومت قائم ہوئی۔ بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج نے ملائم سنگھ کے مبینہ سیکولرزم پر بھی سوالیہ نشان قائم کر دئے کہ انتخاب کے دوران ہی یہ حقیقت عیاں ہو چکی تھی کہ ملائم سنگھ یادو بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں، کیونکہ انھیں اپنی پارٹی کی زمینی حیثیت خوب معلوم تھی، اس کے باوجود انھوں نے تمام سیٹوں پر اپنے امیدواروں کو کھڑ ا کردیا تاکہ سیکولر ووٹوں میں انتشار پیدا ہو جائے ۔ واضح ہو کہ پارلیمانی انتخاب میں بھی محض سیکولر جماعت کے درمیان انتشار کی وجہ سے ہی نریندر مودی کی حکومت قائم ہوئی تھی کیونکہ اس انتخاب میں بھاجپا کو محض ۳۱ فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ بالخصوص اتر پردیش میں بہوجن سماج وادی پارٹی، سماج وادی پارٹی ا ور کانگریس کے درمیان سیاسی رسہ کشی کا فائدہ بھاجپا ملا اور مرکز میں بھاجپا کی حکومت کے قیام کا راستہ ہموار ہو گیا۔ مگر بہار کے عوام نے جو فیصلہ کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہاں کے عوام کی سیاسی بصیرت و بصارت کا اندازہ لگانے میں ملائم یادو ہوں کہ شرد پوار دونوں ہی ناکام رہے ۔

    بہرکیف، اب ایک بار پھر نتیش کمار کی قیادت میں یہ کوشش شروع ہوئی ہے کہ ۲۰۱۷ء میں اتر پردیش اسمبلی انتخاب سے قبل ایک نئی سیاسی صف بندی مکمل ہو جائے۔ اس کے لئے نتیش کمار نے راشٹریہ لوک دل کے قومی لیڈر اجیت سنگھ سے گفت و شنید شروع کر دی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جھارکنڈ وکاس مورچہ کے لیڈر بابو لال مرانڈی سے بھی ہاتھ ملانے کی پہل ہورہی ہے۔ سیاسی گلیاروں میں یہ خبر بھی گشت کر رہی ہے کہ جنتا دل متحدہ کے قومی صدر شرد یادو کی خواہش ہے کہ تمام سیکولر جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ آئندہ ۲۰۱۹ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخاب سے قبل قومی سطح پر بھاجپا کے خلاف ساز گار ماحول قائم ہوسکے اور اس کے لئے نتیش کمار نے بھی حامی بھر لی ہے کہ اجیت سنگھ جیسے قومی لیڈر کو بہار کوٹہ سے راج سبھا کا رکن نامزد کیا جائے گا اور دیو گوڑا کی جنتا دل سیکولر کو بھی اس نئے محاذ میں شامل کیا جائے گا۔ اگرچہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے انضمام کے متعلق فی الوقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس ملک میں سماج وادی نظرئے والی سیاسی جماعتوں کا ایک تاریک پہلو یہ بھی رہا ہے کہ وہ بہت دنوں تک ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ مثلاً ۱۹۷۷ء میں تمام غیر کانگریسی سیاسی جماعتیں بشمول جن سنگھ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں تھیں اور جنتا پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنی تھی۔ لیکن مرارجی بھائی دیسائی کی قیادت والی حکومت کا حشر کیا ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے۔البتہ ، اس حکومت سے جن سنگھ اور آر ایس ایس کو ضرور فائدہ ہوا کہ اس کے بعد ہی سنگھ پریوار کی سیاسی حیثیت مسلسل بڑھتی چلی گئی۔ پھر ۱۹۸۹ء میں بھی وی پی سنگھ کی قیادت میں جو جنتادل بنا، اس کا شیرازہ کس طرح بکھر گیا وہ نقشہ بھی ہم سب کی آنکھوں میں ہے۔ غرض کہ کہنے کے لئے سماج وادی فکر کے لیڈران عوام الناس کے مفاد میں کام کرنے کا تماشہ کرتے رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ سب کے سب اپنے ذاتی مفاد اور انا کی تسکین کی خاطر سنگھ پریوار کو فائدہ پہنچانے میں معاون رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نتیش کمار نے جو ایک بار پھر کوشش کی ہے ، اس میں کہاں تک کامیابی ملتی ہے اور اگر واقعی کوئی کامیابی مل بھی جاتی ہے تو وہ کب تک پائیدار رہ سکتی ہے کیونکہ اس وقت بہار میں نتیش کمار ،کانگریس اور راشٹریہ جنتادل کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں ، لیکن اتر پردیش میں کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل ان کے ساتھ فی الوقت نہیں ہے کیونکہ لالو پرساد یادو نے اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ اس نئی سیاسی صف بندی میں شامل ہوں گے۔ واضح ہو کہ اترپردیش میں ملائم سنگھ کے خلاف لالو پرساد یادو کا جانا غیر ممکن سا لگتا ہے، کیونکہ ملائم سنگھ یادو اور لالو رپرساد یادو کے درمیان رشتہ داری بھی ہے۔ اگرچہ بہار کے معاملے میں ملائم سنگھ یادو نے لالو پرساد یادو کی مرضی کے خلاف اسمبلی انتخاب میں اپنے امیدوار کھڑا کئے تھے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لالو پرساد یادو کا اس نئی سیاسی صف بندی کے متعلق کیا نظریہ رہتا ہے کیونکہ اگر نئی سیاسی صف بندی میں لالو پرساد یادو کی شمولیت نہیں ہوگی تو پھر بہار میں جو اتحاد ہے ، اس کی صحت پر بھی مضر اثرات پڑ سکتے ہیں۔ چونکہ اب نتیش کمار کی قومی سطح پر اپنی منفرد سیاسی شناخت قائم ہو چکی ہے اور نریندر مودی کے مقابلے عوام الناس انہیں ایک سنجیدہ لیڈر تسلیم کرتے ہیں ، اس لئے نتیش کمار کے معاونین یہ چاہتے ہیں کہ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخاب سے قبل نریندر مودی کے خلاف فضا تیار کی جائے تاکہ اس کا براہ راست سیاسی فائدہ نتیش کمار کو مل سکے کیونکہ اس سچائی سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عصر حاضر میں قومی سطح پر ابھرنے والے سیاسی لیڈروں میں نتیش کمار کی شبیہ صاف و شفاف ہے اور اب تک ان کی کارکردگی غیر متنازعہ رہی ہے۔ ان کی بے داغ شخصیت کااعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ دریں اثنا ء تقریباً دو سال کی مدت کار میں نریندر مودی کا جو کریز تھا ، وہ کم ہوا ہے اور اب ان کے حامی بھی دبی زبان سہی ، یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نریندر مودی ہندستان جیسے کثیر المذاہب اور کثیر اللسان و تہذیب ملک کی قیادت کے لائق نہیں ہیں۔ بالخصوص پارلیمانی انتخاب کے وقت نریندر مودی نے عوام الناس کو جو خواب دکھائے تھے ، وہ سب ہوائی قلعے ثابت ہوئے ہیں۔ ملک کی فضا مکدر ہوئی ہے اور چہار طرف فرقہ وارانہ و عدم رواداری کی چنگاری شعلہ کا روپ اختیار کرتی جارہی ہے۔ ملک میںایک ایسا اضطرا ب پیدا ہو گیا ہے کہ گھٹن سا محسوس ہونے لگا ہے۔ ملک کی بڑی دانش گاہوں کو متنازعہ بنایا جارہا ہے اور آزاد فکر و نظر کے طلبہ کو وطن دشمن قرار دینے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ملک میں مذہب اور ذات کی سیاست فروغ پانے لگی ہے ، بالخصوص اقلیت طبقے کے خلاف جس طرح کا ماحول قائم کیا جارہا ہے ، وہ ملک کی سا  لمیت کے لئے مضر ہے۔

    مختصریہ کہ اگر واقعی نتیش کمار کی قیادت میں نئی سیاسی صف بندی قائم ہوتی ہے اور بھاجپا کے خلاف ایک مستحکم سیاسی اتحاد وجود میں آتا ہے تو یہ ملک کے مفاد میں ہوگا کہ آج سب سے بڑا چیلنج ہمارے سامنے ہندستان کو متحد رکھنا اور کثرت میں وحدت کی حفاظت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس نئی صف بندی کا فائدہ حالیہ مغربی بنگال،آسام ، کیرل اور دیگر ریاستوں میں بھی ہوگا کہ ان ریاستوں میں اب تک بھاجپا پائوں جمانے میں ناکام رہی ہے ، لیکن اس بار اس کی کوشش ہے کہ وہ مغربی بنگال اور آسام میں اپنی موجودگی کا احساس کرائے۔ ایسی صورت میں نتیش کمار کی یہ پہل قابل تحسین ہے اور وقت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو خود کو بھاجپا مخالف اور سیکولر کہتی ہیں ، انہیں بھی اس صف بندی میں شامل ہونا چاہئے تاکہ ہمارے جمہوری نظام اور آئین کی پاسداری ہو سکے۔


 ٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 460