donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title : تعلیمی معیار پر صدر جمہوریہ ہند و 
   Taleemi Miyar Per Sadre Jamhuriyae Hind Aur Wazire Azam Ki Fikr Mandi


 

تعلیمی معیار پر صدر جمہوریہ ہند ووزیر اعظم کی فکر مندی؟
 
ڈاکٹر مشتاق احمد، دربھنگہ
 
حسبِ روایت اس سال بھی سالِ نو کے آغاز کے ساتھ کولکاتا میں آل انڈیا سائنس کانگریس کا انعقاد ہوا تھا جس میں عزت مآب صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی اور وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بالترتیب مہمانِ خصوصی وصدر اجلاس شرکت کی تھی ۔ان دونوں سربراہانِ ملک نے اس بات پر اپنی فکر مندی کا اظہار کیا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہندوستان دنوں دن پستی کی طرف مائل ہے اور نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں اچھے سائنس داں اور تحقیقی مزاج کے طلباء پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔ صدر جمہوریہ ہند جناب پرنب مکھرجی نے تمام شرکائے اجلاس کو خوب کھڑی کھوٹی سنائی اور کہا کہ کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر سی بی رمن کے بعد کسی ہندوستانی کو سائنس کے شعبے میں نوبل ایوارڈ نہیں مل پایا؟کیا ستاسی سال کی مدت میں ہم ایک بھی ڈاکٹر رمن جیسے سائنس داں پیدا نہیں کر سکے؟اسی اجلاس میں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی یہ اعتراف کیا کہ ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کا معیار بین الاقوامی سطح کے معیار کے مقابلے بہت ہی پست ہے ۔ایک بار پھر مورخہ 5فروری 2013ء کو دہلی میں ملک کی تمام سنٹرل یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ موصوف نے اپنی فکر مندی کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں معیارِ تعلیم روبہ زوال ہے۔ بالخصوص یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کا معیار پست سے پست ہوتا جا رہا ہے ۔ایک دن بعد عالمی بک فیئر کے موقع پر وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور وزیر مملکت محکمہ انسانی وسائل سشر تھروڑ نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ملک کا تعلیمی نظام درہم برہم ہوگیا ہے ۔اب سوال اٹھتا ہے کہ ملک کے صدر جمہوریہ ،وزیر اعظم اور محکمہ تعلیم کے وزراء خود یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ملک کا تعلیمی نظام پست ہورہا ہے ۔ تو آخر حکومت نے اس کی بلندی کے لئے کون سا لائحہ عمل تیار کیا ہے ؟واضح ہو کہ حال ہی میں ایک رضا کار تنظیم ’’پرتھم‘‘ نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پانچویں درجہ کے 43فی صد بچے دوسرے درجے کے نصاب کی کتاب کا متن نہیں پڑھ سکتے اور پانچویں درجہ کے 58فی صد طلبا ء وطالبات معمولی جوڑ گھٹائو حساب بھی بنانے کے قابل نہیں ہیں۔ اسی طرح کچھ دنوں پہلے
 
 بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ تعلیم کی صورت حال کے تعلق سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے اور دنیا کی دوسو نامور معیاری یونیورسٹییوں کی فہرست جاری کی گئی ہے اس میں ہندوستان کی کسی بھی یونیورسٹی کو جگہ نہیں دی گئی ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ اس دورِ عا  لمیت میں جس معیاری تعلیم بالخصوص تکنیکی تقاضوں کو پورا کرنے والی تعلیم کی ضرورت ہے اس میں ہندوستان کی ایک بھی یونیورسٹی کھڑی نہیں اتررہی ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہندوستان کا جو دبدبہ تھا وہ بالکل ختم ہو چکا ہے۔اس طرح کی رپورٹ گذشتہ سال بھی شائع ہوئی تھی اور اس پر خوب بحث ومباحثہ ہوا تھا۔مرکزی وزیر انسانی ترقیاتی وسائل نے بھی اپنے اعترافیہ بیان میں کہا تھا کہ اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا اور جلد ہی کوئی ایسا خاکہ تیار کیا جائے گا کہ جس کی روشنی میں ملک میں اعلیٰ تعلیم بالخصوص ریسرچ شعبے کو معیاری بنایا جائے گا۔ انہوں نے اس رپورٹ پر اپنا موقف ظاہر کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے کئی تجاویز کا اعلان بھی کیا تھا ۔سب سے چونکانے والی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئی ٹی اور مینجمنٹ کے شعبے میں کئی ایسے ادارے ہیں جس کے فارغین بین الاقوامی سطح پر اپنی علمی لیاقت کا پرچم لہرا رہے ہیں ۔ مثلاً آئی آئی ٹی کھڑگ پور اور آئی آئی ایم اے بنگلور کے علاوہ دیگر درجنوں ایسے ادارے ہیں جن کی شناحت بین الاقوامی سطح پر ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر جو پیمانہ معیار کا طے کیا جاتا ہے شاید اس پر یہ پورا نہیں اترتے۔افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ اس فہرست میں سنگاپور، ہانگ کانگ، شمالی کوریااور چین کے درجنوں تعلیمی ادارے شامل ہیں ۔ اس رپورٹ پر موجودہ مرکزی وزیر مملکت انسانی ترقیاتی وسائل ششی تھروڑ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ملک کی یونیورسٹیوں سے  جو تعلیم یافتہ نوجوان روزگارکے شعبے میں داخل ہو رہے ہیں وہ ملک کی صنعت گھرانوں کے پیمانوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں۔ لہذا انہیں پرائیوٹ سکٹر میں بھی نوکریاں نہیں مل رہی ہیں یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ انہو ںنے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ اب پرائیوٹ سکٹر کے لوگ بھی اپنے نجی تعلیمی ادارے یا پھر تربیتی ادارے کھول رہے ہیں۔ 
بہر کیف! یہ حقیقت تو بین الاقوامی تنظیموں نے عیاں کی تھی اب ملکی تنظیم ’’فکی‘‘ نے بھی اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ ملک کی 62فی صد یونیورسٹیاں اور 90فی صد کالج اوسط درجہ سے بھی کم حیثیت کے ہیں۔ اس رپورٹ سے بہت سی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے ایک انقلاب کی ضرورت ہے ۔ واضح ہوکہ یہ رپورٹ ارنسٹ اینڈ ینگ جیسی تنظیم نے تیار کی ہے ۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی خلاصہ کیا گیا ہے کہ ریسرچ کے معاملے میں فنڈ کی کمی کی وجہ سے معیاری تحقیقی کارنامے انجام نہیں پا رہے ہیں۔ملک میں 45000ڈگری اور ڈپلوما کے ادارے ہیں جن میں تقریباً 590000طلباء زیرِ تعلیم ہیں ۔ اب جب کہ ملک میں بڑی تعداد میں نجی اداروں کے ذریعہ تعلیمی ادارے کھولے جا رہے ہیں لیکن وہاں بھی معیارِ تعلیم کا کوئی خاص پیمانہ طے نہیں ہے ۔ آج ملک میں 500000سے زیادہ طلباء فاصلاتی نظامِ تعلیم سے جڑے ہیں۔ ایسے میں تعلیمی معیار کی وکالت کیا معنی رکھتی ہے۔ عالمی سطح پر اعلیٰ تعلیم میں داخلے کی شرح 27فی صد ہے جب کہ ہمارے ملک میں یہ شرح 16فی صد ہے۔ اس میں بھی شہری علاقہ میں داخلے کی شرح 30فی صد اور دیہی علاقے کے اداروں میں 11فی صد ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ داخلہ کی شرح دہلی میں 47.9فی صد ہے جب کہ آسام میں محض 9فی صد ہے۔اس رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ طبقاتی سطح پر بھی داخلے کی شرح پسماندہ طبقے میں 14.8فی صد ہے جب کہ دلت کی شرح 11.6اور آدیباسیوں کا 7.7ہے۔مسلمانوں کی شرح 9.6دکھایا گیا ہے ۔ مجموعی طورپر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں لڑکوں کا داخلہ شرح 19فی صد ہے جب کہ لڑکیوں کا 15.2فی صد ہے۔ اس رپورٹ میں اس حقیقت کوبھی اجاگر کیا گیا ہے کہ مرکزی یونیورسٹیوں میں 35فی صد اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں جب کہ ریاستی یونیورسٹیوں میں 40فی صد اساتذہ کی جگہیں برسوں سے خالی پڑی ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ اساتذہ کی کمیوں کی وجہ سے کئی ریاستوں میں اعلیٰ تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ متزلزل ہو کر رہ گیا ہے۔ مثلاً ریاست بہار میں 250سرکاری کالجز ہیں ان میں 5000سے زیادہ اساتذہ کی جگہیں ایک دہائی سے خالی پڑی ہیں۔ سینکڑوں کالج ایسے ہیں جہاں کسی کسی سبجکٹ میں ایک بھی لکچرار نہیں ہے لیکن وہاں اس سبجکٹ میں طلبا داخلہ بھی لے رہے ہیں اور امتحان بھی دے رہے ہیں۔ ریاست کی ایک تاریخی یونیورسٹی پٹنہ یونیورسٹی میں بھی سینکڑوں اساتذہ کی جگہیں خالی ہیں ۔ا سی طرح دوسری یونیورسٹیوں کا حال بھی بے حال ہے لیکن اس کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کی بلندی پر فکری مندی کیا معنی رکھتی ہے۔ کسی بھی ملک کی شناخت کا ضامن وہاں کا تعلیمی معیار ہوتا ہے ۔ ریسرچ کے معاملے میں بھی نہ صرف ریاستی یونیورسٹیوں میں ماحول نہیں ہے بلکہ ملک کی نامور یونیورسٹیوں کا حال بھی دیگر گوں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں روزگار کے مواقع کا نہ ہونا۔ کیوں کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں دہائیوں تک کوئی بحالی نہیں ہوتی نتیجہ ہے کہ اب اچھی لیاقت والے لوگ اس پیشے کو اپنا مستقبل بنانا نہیں چاہتے۔ قومی سطح پر نظر دوڑائیے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد 80فی صد طلباء ووکیشنل یا پروفیشنل کورسز کی طرف چلے جاتے ہیں۔ 10فی صد طلباء گریجوٹ کے بعد مختلف مقابلہ جاتی امتحان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور بقیہ 10فی صد ماسٹر ڈگری یا پھر پی ایچ ڈی تک کا سفر طے کرتے ہیں لیکن جو لوگ پی ایچ ڈی یا یو جی سی نیٹ کر لیتے ہیں انہیں بھی یقینی طورپر روزگار نہیں مل پاتا۔ ریاستی یونیورسٹیوں کی بات تو چھوڑئیے مرکزی یونیورسٹیوں میں بھی گیسٹ فیکلٹی کے سہارے کام چلائے جاتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول کو دیکھ کر ویسے با صلاحیت نوجوان جو تعلیمی شعبے میں جانا چاہتے ہیں انہیں مایوسی ہوتی ہے  مثال کے طورپر ریاست بہار میں 1996ء میں لکچرار کی بحالیاں ہوئی تھیں اس کے بعد 2003ء میں یعنی ایک دہائی سے کوئی بحالی نہیں ہو سکی ہے۔ ایسے میں کوئی با صلاحیت نوجوان آخر کس طرح شعبۂ تعلیم کو اپنا مستقبل بنائے۔یہ ایک اہم سوال ہے اور یہی سوال ہے جو اعلیٰ تعلیم کی پستی کا ضامن ہے۔اگر واقعی ملک اس بات پر فکر مند ہے کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا معیار بلند ہو اور ہم بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت مستحکم کریں تو ہماری حکومت کو تما م تر ازم سے اوپر اٹھ کر اس پر سنجیدگی سے نہ صرف غوروفکر کرنا ہوگا بلکہ کوئی ٹھوس قدم بھی اٹھانا ہوگا۔
 
واضح ہو کہ 1962ء میں سروپلّی رادھا کرشنن کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ ملک میں کس خطے میں یونیورسٹیوں کے قیام کی ضرورت ہے اور اعلیٰ تعلیم کو کس طرح با مقصد اور معیاری بنایا جائے۔ اس کمیٹی کی سفارش پر ملک میں کئی یونیورسٹیاں وجود میں آئیں اور یہ کوشش بھی کی گئی کہ معیاری تعلیم کا ماحول سازگار بنایا جائے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ سفارش بھی سیاست کی نذر ہو گئی اور ملک کی یونیورسٹیوں میں جس طرح کا تعلیمی معیار بلند ہونا چاہئے وہ نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد تعلیم کے سلسلے میں جتنی بھی کمیٹیاں یا کمیشنیں تشکیل پائیں سب میں بس اسی بات پر زور دیا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر تعلیم کا جو معیار ہے اس پر پورا اترنے کے لئے نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ پرائمری سطح کی تعلیم کے لئے بھی بنیادی ڈھانچوں کو مزید مستحکم کرنا ہوگا۔کوٹھاری کمیٹی اور پروفیسر یشپال کمیٹی نے بھی بہتیری ایسی سفارشیں اور تجاویز حکومت کو پیش کی تھی جس پر اگر عمل کیا جاتا تو شاید آج جس طرح کی مایوسی سامنے ہے وہ نہیں ہوتی۔ سند رہے کہ آنجہانی راجیو گاندھی نے 1986ء میں نئی تعلیمی پالیسی کا جو خاکہ تیار کیا تھا اس میں بھی اس بات کی وکالت کی گئی تھی کہ سائنس وٹکنالوجی کے شعبے میں بہت کچھ کیا جانا ابھی باقی ہے ۔انہوں نے یونیورسٹی سروس گرانٹ کمیشن کو بھی اس سلسلے میں ٹھوس اقدام اٹھانے کے حکم دئیے تھے۔ جس کی روشنی میں ہی نیٹ اور جے آر ایف کے امتحان کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ اگر نیٹ اور جے آر ایف پاس کرنے والے امیدواروں کے لئے لکچرار شپ یقینی بنایا جاتا تو شاید اعلیٰ تعلیم کے معیار میں تبدیلی واقع ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت میں بھی ’’نالج کمیشن‘‘ کی تشکیل ہوئی تھی جس کے سربراہ سیم پترودا بنائے گئے تھے انہو ںنے بھی اعلیٰ تعلیم میں انقلاب لانے کی ضرورت بتائی تھی اور خصوصی طورپر ریسرچ کے شعبے کو معیاری بنانے کے لئے ٹھوس اقدام اٹھانے کی وکالت کی تھی۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کمیشن اور کمیٹیاں تو بنتی رہتی ہیں لیکن ان کی سفارشوں پر جب عمل کا سوال آتا ہے تو خواہ کوئی بھی حکومت ہو ٹال مٹول کی پالیسی اپناتی رہی ہے۔ نتیجہ ہے کہ ملک میں اب تک تعلیمی شعبہ تجربے کے دور سے گزر رہا ہے اور ہم اب تک کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ پائے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج جب دنیا کی 200یونیورسٹیوں کی فہرست میں ہماری جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، بنارس ہندو یونیورسٹی ، دہلی یونیورسٹی، ممبئی یونیورسٹی ، مدراس یونیورسٹی اور کلکتہ یونیورسٹی جیسے تاریخی تعلیمی ادارے کو بھی کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے ۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔
 
اب جب کہ عہدِ گلوبلائزیشن میں ڈگری کی اہمیت ثانوی رہ گئی ہے اور صلاحیت کواولیت دی جا رہی ہے ایسے وقت میں ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ با صلاحیت طلباء کو ہی فراغت کی ڈگری دیں تاکہ وہ جس شعبے میں جائیں اپنی شناخت مستحکم کر سکیں کیوں کہ حال ہی میں ایک رپورٹ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ملک کے مختلف
 انجیرنگ کالجوں سے جو انجنیر ڈگری لے کر نکل رہے ہیں ان میں 80فی صد اس لائق نہیں ہیں کہ وہ اپنے پیشہ وارانہ تقاضوں کو پورا کر سکیں۔ ایسے حالات میں اگر بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے تعلیمی اداروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سنجیدگی سے طرزِ تعلیم اور معیارِ تعلیم کا محاسبہ کریں اور اصلاح کی کوئی صورت نکالیں۔ کیوں کہ یہی ہمارے ملک وقوم کے مفاد میں بہتر ہوگا۔صدرِ جمہوریہ اور وزیر اعظم نے پرائیوٹ سکٹر کو اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں آگے آنے کی وکالت کی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ پرائیوٹ سکٹر کے کالجوں میں بھی ظاہری چمک دمک پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور معیارِ تعلیم پر کم۔چوں کہ نجی اداروں میں فیکلٹی ممبر کو کم تنخواہ دی جاتی ہے اس لئے وہاں ہمیشہ مستقل فیکلٹی ممبر کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے ۔ مثلاً ہندوستان کی کئی نامور پبلک اسکولوں کا جائزہ لیجئے تو یہ حقیقت خود بخود عیاں ہو جائے گی ۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی خلاصہ ہوا ہے کہ ملک میں جتنے اساتذہ تربیتی کالج واسکول ہیں اس کا معیار بھی بہت ہی پست ہے اور صرف دس فی صد ادارے ہی نشانۂ معیار پر پورے اترتے ہیں۔ ایسی صورت میں جب اساتذہ ہی تعلیم کے مقصد ومنہاج سے ناآشنا ہوں گے تو پھر معیارِ تعلیم کا سوال ہی کہاں اٹھتا ہے ۔ اس لئے اگر واقعی حکومت پستیٔ معیارِ تعلیم کے تئیں فکر مند ہے تو اسے جلد از جلد کوئی پائلٹ پروجیکٹ تیار کرنا ہوگا اور خصوصی طورپر بنیادی تعلیم کے ڈھانچوں کو مستحکم کرنا ہوگا اور اس حقیقت کو ہمیشہ مد نظر رکھنا ہوگا کہ اگر بنیاد کی اینٹ ہی کج ہو جائے تو پھر عمارت کا حشر کیا ہوگا؟
************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 812