donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Taqat Ho Deed Ki To Taqaza Kare Koyi


طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

موبائل 9431414586

ای میل  rm.meezan@gmail.com


    ان دنوں قومی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث زوروں پر ہے کہ ’’وندے ماترم‘‘ کہنے والے محب وطن ہیں اور جو اس نعرے کے منکر ہیں وہ وطن دشمن نہیں تو کم سے کم وطن کی محبت کے معاملے میں مخلص نہیں ہیں۔ در اصل حال ہی میں آر ایس ایس کے سپریمو نے یہ بحث چھیڑی تھی کہ ہمیں ’’وندے ماترم‘‘ کے نعرے کو عام کرنا چاہئے کیونکہ اس ’وندنا‘ میں ’بھارت ماتا ‘کے تئیں ہماری وفاداری جھلکتی ہے۔ سنگھ پریوار کے ذریعہ اس طرح کی وکالت پہلی بار نہیں کی گئی ہے۔اس طرح کے بیانات اکثر جاری ہوتے رہے ہیں اور جہاں کہیں سنگھ پریوار یا ان کے نظرئے کے حامیوں کے اجلاس ہوتے رہے ہیں وہاں اس طرح کے نعرے گونجتے رہے ہیں۔ ہاں ، اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ہندوتو کے ان تمام آلات کو اولیت دی جارہی ہے جو سناتن دھرم کے فروغ میں معاون ہوں اور اس کے لئے منصوبہ بند طریقے سے کام کئے جارہے ہیں۔ البتہ سنگھ پریوار یا آر ایس ایس نے حال میں جو بیانات جاری کئے ہیں ان میں یہ نہیں کہا گیاتھا کہ ملک کے ہر شہری کو ’’وندے ماترم‘‘کا نعرہ لگانا ہوگا۔ پھر اسد الدین اویسی جیسے عوامی نمائندے کو اس نعرے سے متعلق متنازعہ بیان دینے کی ضرورت کیا تھی؟اگر آر ایس ایس کے ذریعہ یہ کہا جاتا کہ ملک کے تمام شہری کو لازماً اس نعرے کا ورد کرنا ہوگا یا پھر یہ کہا جاتا کہ مسلمانوں کو ’’وندے ماترم‘‘کہنا ہوگا تو اس کی مخالفت کی جاتی کیونکہ ہمارا آئین کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی شہری پر اپنے نظرئے کو جبراً تھوپ سکے۔ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور ہمارا آئین سیکولرزم کی وکالت کرتا ہے اور یہ یقین بھی دلاتا ہے کہ مذہب ، لباس، کھان پان، رہن سہن اور لسانی معاملے میں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کی آزادی میں مداخلت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی آئین کے منافی کوئی متنازعہ بیان سامنے آتا ہے تو ہماری عدلیہ بھی اس پر نکیل کستی ہے۔ اس لئے خواہ مخواہ ہر معاملے کو متنازعہ بنایا جانا بھی ہمارے سماجی تانے بانے کو متاثر کرتا ہے اور ان لوگوں کو بھی فکر مندکرتا ہے جو جمہوری تقاضوں اور آئین کی روح کے پاسدار ہیں۔ اسد الدین اویسی کا حالیہ بیان بھی غیر معقولیت پر مبنی ہے۔ اس طرح کا غیر دانش مندانہ بیان سیاسی اعتبار سے وقتی بھونچال تو پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح کے لوگ اخباروں کی سرخیاں تو بن جاتے ہیں لیکن اس کے مضر اثرات دیرپا ثابت ہوتے رہے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کی مذہبی شناخت کے تحفظ کا مسئلہ ہے تو اس کو مسخ کرنے کی تو ہمیشہ سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ ان سازشوں کو ناکام کرنے میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ اس ملک کے اکثریت طبقے کے سیکولر ذہن کے لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ عصر حاضر میں بھی گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی، ملک میں مبینہ دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں اور مسلمانوں کو بے جاذہنی اذیت پہنچانے کی کوششوں کے خلاف اکثریت طبقے کے لوگ ہی آگے بڑھ کر آئے ہیں اور مسلسل ہماری لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    جہاں تک سوال ہندوانہ رسم و رواج اورطرز زندگی کو اپنانے کا ہے تو آج ہمارے مسلم طبقے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خود کو مبینہ طور پر سیکولر ثابت کرنے کے لئے اور ارباب اقتدار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جان بوجھ کر اس طرز عمل کو اپناتے ہیں جس کی اجازت ہمارا مذہب اسلام نہیں دیتا۔ مثلاً ہاتھ جوڑ کر آداب بجا لانا یا پھر پائوں چھو کر ’پرنام‘ کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ اسی طرح اجتماعی جلسوں میں پیشانی پر ٹیکا لگوانا اور ہولی وغیرہ میں خوب جم کر رنگ کھیلنے کی اجازت بھی ہمارا مذہب نہیں دیتا۔مثلاً  ماہ رمضان المبارک میں ایسے لوگوں کے ساتھ افطار کرنا جو طہارت کی پابندی نہیں کرتے ۔مگر اب تو اجتماعی افطار کی دعوت عام ہو گئی ہے اور اس میں عام لوگوں کی تو بات چھوڑئے ، ہمارے مذہبی رہنما قدرے زیادہ ہی فعال نظر آتے ہیں کہ وہ سیاسی رہنمائوں اور اعلیٰ عہدیداروں کی بغل میں بیٹھ کر افطار کرنے کو فخر تصور کرتے ہیں۔ ہم آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارا افطار ایک عبادت ہے اور ہم اس حقیقت سے انجان نہیں کہ ہماری بغل میں جو غیر مسلم بیٹھے ہیں ، وہ طہارت کی پابندی نہیں کرتے۔ بہرکیف، جب ہم خود ہی اپنی شناخت کو گم کرنے کا سامان پیدا کرتے رہتے ہیں تو پھر غیروں سے یہ توقع کیوں کر کریں کہ وہ ہماری شریعت کی پاسداری کریں۔ جب قومی میڈیا میں ’’وندے ماترم‘‘ پر گرما گرم بحث ہورہی تھی ، عین اسی وقت دہلی میں صوفیا کانفرنس چل رہی تھی۔ اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد کیا تھے یہ تو جگ ظاہر ہے لیکن اس کانفرنس میں جس طرح ’’وندے ماترم‘‘ کی گونج سنائی پڑی ، اس سے تو ایسا لگا کہ ’’وندے ماترم‘‘پر جو تنازعہ چل رہا ہے ، وہ فضول ہے کیونکہ اس اجلاس میں بھی وہی علمائے کرام تھے جن کا دین اسلام ہے اور وہ بھی اللہ کی مقدس کی کتاب قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث پر ایمان رکھتے ہیں۔ شریعت کے تقاضے کی پاسداری کا احساس انہیں بھی ہے اور لفظ ’’وندے ماترم‘‘کے مفہوم سے وہ بھی بخوبی واقف ہیں۔’وندنا ‘کے معنی پوجا ہے اور ہم کسی کی پوجا کے قائل نہیں۔جہاںتک مادر وطن سے عشق کا سوال ہے تو حب الوطنی تو ہمارے ایمان کا ایک لازمی جز ہے۔ ایسی صورت میں صوفیا کانفرنس میں ’’وندے ماترم‘‘ کی گونج کی مجبوری کیوں؟

    قصہ مختصر یہ کہ اس طرح کی روش عام ہوتی جارہی ہے کہ ہماری ایک جماعت دوسری جماعت اور ایک مکتب فکر دوسرے مکتب فکر کی نہ صرف مخالفت کر رہے ہیں بلکہ کچھ اس طرح کا شیوہ اختیار کر رہے ہیں جس کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔ حال ہی میں ہمارے کالج کے ایک ٹیچر نے مجھ سے کہا کہ سر آپ کے مذہب میں بھی تو پائوں چھوکر پرنام کرنے کی اجازت ہے ۔ میں نے جواباً انہیں سمجھایا کہ نہیں ہمارے مذہب میں پائوں چھو کر پرنام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر انہوں نے تفصیل بیان کی اور کہا کہ فلاں مسلم شخص ہمارے ساتھ تھے اور انہوں نے فلاں غیر مسلم کا پائوں چھو کر پرنام کیا۔ انہوں نے ایک دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ پائوں چھو کر تو مجھے پرنام کرنا چاہئے تھا لیکن میں نے نہیں کیا بلکہ ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔ اتنا ہی نہیں جب بعد میں اس مسلم شخص کو اس غیر مسلم ٹیچر نے کہا کہ آپ کے مذہب میں پرنام کرنے کی اجازت نہیں ہے تو انہوں نے دلیل دی کہ بڑوں کو کیا جاسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس طرح کے فرد مصلحت پسندی کے تحت اس طرح کے مشرکانہ عمل کو انجام دیتے ہیں اور خود کو نام نہاد سیکولر بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ ان کا یہ انفرادی عمل ہماری شرعی شناخت کو مجروح کرتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمانوں کو اس طرح کے مشرکانہ عمل کے خلاف بھی بیداری پیدا کرنی چاہئے۔ بالخصوص نئی نسل کو شرعی طرز زندگی سے واقف کرانے کی ذمہ داری تو ہماری ہی ہے۔ اگر ہم خود مصلحت پسندی یا پھر وقتیمفادکے مد نظر غیر شرعی فعل کو اپناتے رہیں گے تو اس کے مضر اثرات ہمارے معاشرے پر لازماً پڑیں گے۔ ان دنوں سرکاری یا بڑے نجی تعلیمی اداروں میںہولی ملن کی رسم عام ہو گئی ہے اور اس کا اعلان اسکول انتظامیہ کی جانب سے ایک دو روز قبل ہی کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم اس دن بھی اپنے بچوںکو اسکول بھیجتے ہی ہیں۔ظاہر ہے کہ وہ بچہ بھی رنگ اور عبیر میں شرابور ہوکر گھر لوٹتا ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کو اس ایک دن اسکول ناغہ نہیں کراسکتے؟ جبکہ عام دنوں میں بھی ہمارے بچوں کی حاضری دوسرے مقابلے میں کم ہی رہتی ہے۔ غرض کہ شرعی اور غیر شرعی طرز زندگی کے تئیں ہمیں خود سنجیدہ ہونا ہوگا۔ میں قطعی سماجی سروکار اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یگانگت کا مخالف نہیں۔ میں خود اپنے احباب اور ہم پیشہ دوستوں کو ہولی یا دیگر تہواروں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اورچند خاص کے گھر بھی جاتا ہوں لیکن ان سے میری یہ شرط ہمیشہ رہتی ہے کہ وہ رنگ عبیروں سے میرا استقبال نہیں کریں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ ا یسے احباب جو نظریاتی طور پر آر ایس ایس کی فکر کے حامل ہیں، وہ بھی اس بات کا پاس رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی ہدایت کرتے ہیں کہ ان کے اوپر عبیر اور رنگ نہیں پڑنا چاہئے۔ غرض کہ اگر آپ خود رنگ میں رنگنے کی خواہش نہیں رکھتے تو دوسرے کبھی آپ کو رنگ میں شرابور نہیں کر سکتے۔ مگر سچائی تو یہ ہے کہ اب سوشل میڈیا میں اس طرح کی تصویریں عام کی جاتی ہیں جن میں ہماری شناخت معدوم ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ بھی خبر ملتی ہے کہ فلاں جگہ غلطی سے رنگ پڑنے کی وجہ سے فساد کی نوبت آگئی ۔ جبکہ اسلام یہ سبق دیتا ہے کہ کسی بھی عمل کو جب تک دل سے قبول نہ کیا جائے اس وقت تک وہ ہمارے لئے شرعی مسئلہ نہیں بنتاکیونکہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو توازن کی وکالت کرتا ہے اور لٹریچر سے زیادہ کیرکٹر کا تقاضا کرتا ہے۔ حکیم الامت علامّہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے  ؎

 اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے، بھلا طور پر کلیم
 طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 656