donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Woh Intezar Tha Jiska, Yeh Woh Sahar To Nahi


وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں


 ٭ڈاکٹر مشتاق احمد، دربھنگہ

 موبائل: 09431414586

Email:rm.meezan@gmail.com

 

    اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صبحِ آزادی کے سورج طلوع ہونے کے بعد ہم نے جو سفر شروع کیا تھا اس میں ہمیں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں۔ ہم نے چاند پر جا کر بہ بانگِ دُہل یہ کہا ہے کہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ تو ’وکرانت ‘ کے ذریعہ سمندروں کی تہوں تک اپنی پیٹھ بنائی ہے لاکھوں میل کی پگ ڈنڈیوں کوکولتار کی سڑکوں میں تبدیل کیا ہے ، مہینوںکی مسافت کو دنوں میں اور دنوں کی مسافت کو گھنٹوں میں تبدیل کرنے کا سہرا بھی ہمارے سر ہے۔آج دنیا میں سب سے بڑے جمہوری نظامِ حکومت کا تمغہ بھی ہمیں ہی حاصل ہے۔لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ آزادی کے بعد ہم نے جو خواب دیکھا تھا وہ 70برسوں بعد بھی ادھورا ہے۔آج بھی ملک میں ایک طرف کچھ ایسے شہری ہیں جو 200کمروں کی آسمان چھوتی بلڈنگ میں زندگی گذار رہے ہیں تو دوسری طرف لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں شہری کھلے آسمان میں فٹ پاتھ پر زندگی گذار نے پر مجبور ہیں۔ملک کی تقدیر بدلنے کا جس جگہ یعنی دارالسلطنت دہلی میں لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے اس کی فٹ پاتھوں پر دو لاکھ سے زیادہ افراد زندگی گذار رہے ہیں۔ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو بوتل بند پانی پر زندگی بسر کر رہا ہے تو دوسری طرف کروڑوں لوگوں کو ندیوں اور تالابوں کے آلودہ پانی پر گذاراکرنا پڑ رہا ہے۔لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اپنے کتوں کو روزانہ کیلو دو کیلو دودھ اور قیمتی کیک کھلاکر بھی مطمئن نہیں ہیں تو دوسری طرف کروڑوں بچے عدم ِ تغذیہ کے شکار ہیں۔ ملک کی 20فی صد آبادی اقلیت اپنے ہی ملک میں دلت سے بھی بد تر زندگی گذار رہی ہے اور جب سچر کمیٹی و رنگ ناتھ مشرا کمیشن اپنی سفارش میں یہ کہتا ہے کہ ملک کے اقلیت طبقے بالخصوص مسلمانوں کو سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی شعبے میں مستحکم بنانے کے لئے ریزرویشن کی ضرورت ہے تو اس ملک میں اس پر طرح طرح کی سیاست ہو رہی ہے ۔کیا اس ملک کی بیس کروڑ کی آبادی کو با عزت شہری بن کر جینے کا حق حاصل نہیں ہے؟ 

                        ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم جس یومِ آزادی کے جشن کی70ویں سالگرہ پرجشنِ آزادی کا اہتمام کر رہے ہیں اور ہمارے آئین میں ہندوستان کے ہر شہری کو جینے کے مساوی حقوق دینے کی وکالت کی گئی ہے۔ اسی آئین میں اس ملک کو سیکولر ملک ہونے کا اعلان بھی کیا گیا ہے ، اسی آئین میں یہ بھی کہا گیاہے کہ بغیر کسی تعصب وتحفظ کے ملک کے ہر شہری کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ ملک کے ہر شہری کو آزادیٔ اظہار حاصل ہوگا۔ ملک کا ہر شہریاپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کو قائم رکھے گا۔لیکن اسی ملک میں بابری مسجد منہدم کی گئی تو گودھرا کے حوالے سے گجرات میں مسلم کشی کا مظاہرہ ہوا تھا اور اس وقت ایک طرف مرکز میں براجمان واجپئی حکومت گجرات فسادات پرگھڑیالی آنسو بہاتی رہی تو دوسری طرف نریندر مودی فسادات کے بعد پورے ملک میں جشنِ فخر منانے کے لئے دورہ کرتے رہے۔سیکولرزم کی دہائی دینے والی حکومت بھی سیاست کی شطرنجی بساط پر اپنے مہرے چلتی رہی اور ملک کی 20کروڑ کی آبادی کو طرح طرح سے ہراساں اور اس کی مذہبی شناخت کو مسخ کرنے کی سازشیں ہوتی رہیں۔آج بھی ملک کی مختلف جیلوں میںہزاروں بے قصور نوجوان مبینہ طورپر انتہا پسندی کے الزام میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے لیکن یہ سلسلہ ہے کہ ہنوز جاری ہے۔ آئے دن اخبارات کی سرخیوں میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے کی خبریں آرہی ہیں۔ ریاستی حکومت نے بے قصور نوجوانوں کو معاوضہ بھی دیا ہے لیکن کیا ان بے قصور خاندان کے دامن پر جو داغ لگا ہے وہ اس معاوضہ سے دُھل جائے گا؟ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ خواہ وہ کسی بھی ذات یا دھرم کا ہو اگر وہ ملک میں کسی طرح کے تخریبی اور بدامنی کے کام میں ملوث ہے تو اسے سخت سے سخت سزاملنی چاہئے لیکن کسی خاص ایجنڈے کے تحت کسی خاص فرقے کی شناخت کو مسخ کرنے کی سازش نہ صرف ہماری جمہوریت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے بلکہ ملک کی سا  لمیت کے لئے بھی خطرناک ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے وقارکو بلند کرنے اور سا  لمیت کو مستحکم کرنے کے لئے تمام تر تحفظات اورتعصبات سے اوپر اٹھ کراتحاد کے ساتھ جانبِ منزل رواں دواں رہیں۔تاکہ ان شہیدوں کی روح کو اطمینان ملے جن کی شہادت کی بدولت ہمیں یہ آزادی ملی تھی اوردنیا کے نقشے پرہمارا ملک ہندوستان سب سے بڑا ایک جمہوری ملک وجود میں آیا تھا۔

    آج جب ہم اپنی آزادی کی 70ویں سالگرہ منا رہے ہیں توآنکھوں میں ایک طرف ان شہیدوں  کا چہرہ ہے جنہوں نے اس ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے اپنی جانیں گنوائیں تودوسری طرف جموں وکشمیر کے کشتوار اور ریاست بہار کے نوادہ اور بتیا کا دھواں دھواں منظر ہے کہ وہاں چند فرقہ پرستوں کی کارستانیوں کی وجہ سے پر امن ماحول میں زہر گھولنے کی کوشش کی گئی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام امن پسند شہری ان شرارت پسندوں کے منصوبوں کو ناکام کرنے کے لئے آگے بڑھ کر آئیں جو ہمارے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔کیوں کہ دنیا میں ہماری شناخت ایک امن پسند کی رہی ہے ۔ آئیے ہم سب مل کر ایک بار پھر عہد کریں کہ ہم اپنی شناخت کو مسخ ہونے نہیں دیں گے اور درسِ انسانیت کا چراغ روشن کرتے رہیں گے کہ ابھی تاریکیوں کا دور گیا نہیں ہے بقول فیضؔ     

یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر    وہ انتظار تھا  جس کا ، یہ  وہ سحر  تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر    چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں


٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 775