donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Jamhuri Qadron Ki Ahmiyat



ڈاکٹر سید احمد قادری

 موبائل : 09934839110

جمہوری قدروں کی اہمیت

 

           اس بات ہم بخوبی واقف ہیں کہ بڑی جد و جہد اور قربانیاں دے کر ہم نے آزادی حاصل کی ہے ۔ آزادی کے بعد ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ دستور سازی کا تھا ۔ اس کے لئے طویل بحث و مباحثہ اور بڑے غور و خوض کے بعد ۲۶ی؍ جنوری ۱۹۴۹ء کو دستور بنا کر اسے قانونی شکل دی گئی اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کو اسے نافذ کیا گیا ۔ اس نافذ کردہ دستور میں سات بنیادی حقوق دئے گئے، جیسے ۔۔۔۔۔۔

       (۱) حق مساوات (۲) حق آزادی (۳) استحصال سے حفاظت کا حق (۴) مذہبی آزادی کا حق (۵) تعلیمی اور ثقافتی حقوق (۶) جائداد کے حقوق  اور (۷) دستوری معاملات مین محافظت کے حقوق دئے گئے۔  گویا اس دستوری اس دستور مین سماجی ، معاشی اور سیا سی انصاف کے حقوق ملے۔ اظہار خیال ، یقین ، اعتماد ، اعتقاد اور مذہب کی آزادی ملی۔ ہر شخص کو مساوی اور مقام حاصل ہوئے ۔ قوم کے اتحاد اور ہر فرد کی عزّت و توقیر کا سامان  فراہم کرایا گیا ۔

       اب دیکھنا یہ ہے کہ دستور ہند نے ہمیں جو جمہوری حقوق دئے ہیں ، ہم ان پر کتنا عمل کرتے ہیں  ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ جمہوری قدروں کے منافی ایسا کوئی ہمارا عمل  تو نہیں ، جن سے یہ قدریں مجروح و پامال ہو ری ہیں۔

        دستور ہند میں حق مساوات کو اولّیت حاصل ہے ، لیکن آج ہم اپنے ارد گرد ، ذات پات ، امیری غریبی  اور اونچ نیچ کی اتنی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں کہ ہمارے اس عمل سے بلا شبہہ ہماری جمہوری قدر نہ صرف یہ کہ پامال ہو رہی ہے ، بلکہ ہمیں شرم سار بھی کر رہی ہے۔

      آج گاؤں اور شہروں میں حق مساوات کا خوب خوب مزاق اڑایا جا رہا ہے۔ آج لوگ اتنے خانوں میں منقسم ہو گئے ہیں کہ گاندھی، نہرو اور آزاد کے خواب  ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں ۔ ہم اس تلخ حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ آ ہمارے ارد گرد  اونچ نیچ اور امیری غریبی کی خلیج کو اپنے مفاد کے لئے سیاست داں بڑھاتے جا رہے ہیں ۔ جس کے سد باب کے لئے ابھی سے اگر سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کیا جا تا ہے تو مستقبل میں بہت زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔

       اب دوسری جمہوری قدر یعنی حق آزادی کو دیکھیں ۔ اس دستور میں دی گئی مراعات بظاہر سبھوں کو میسر ہے ۔ لیکن عملی  شکل اس کی بہت زیادہ  خوش آئند نہیں ہے۔ جس طرح سے اس جمہوری حق کی پامالی ہو رہی ہے، وہ لمحۂ فکریہ ہے ۔ جس پر ہر مکتبئہ فکر کے دانشوروں کو بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

     دستور میں دئے گئے تیسرے حق یعنی’ استحصال سے حفاظت‘ ۔ یہ ایسا حق ہے جو بہت لوگوں کے حصّے میں نہیں ہے۔ آج ہمارے سامنے مختلف قسم کے استحصال ہو رہے ہیں  ۔ خواہ وہ مزدوروں کو کم اجرت کی شکل میں ہو، جہیز کی صورت میں ہو یا پھر ذات پات کا ، ظلم و استبداد ہو ، یہ تمام استحصال بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں ۔ ایسے استحصال سے حفاظت کی ذمّہ داری نہ صرف حکومت  وقت کی ہے ، بلکہ سماجی تنظیموں کی بھی ہے ۔ بعض سیاسی اور سماجی تنظیمیں ان استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں ، لیکن یہ استحصا ل آج کے زمانے کی ایسی بدّت ہے ، جو عام ہوتی جا رہی ہے ۔ ہمیں کامیابی اسی وقت  مل سکتی ، جب حکومت سخت قدم اٹھائے اور سماجی برائیوں کو ختم کرنے کا عہد  کرے۔

    دستور کا چوتھا حق مذہبی آزادی کا ہے، اس میں ہر فرد کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کی عزت و احترام کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آج حالات اس کے ٹھیک بر عکس دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ دوسرے مذاہب کو برا کہنا ، ان مذاہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کرنا ، نفرت انگیز نعرے لگانا ، آج فیشن سا بنتا جا رہا ہے۔ اس سے جہاں منافرت ، بد دلی اور فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے ، وہیں ہماری تہذیبی اور یکجہتی کی روایات بھی بہت شدّت سے مجروح ہورہی ہیں ۔ ان امور پر نہایت سنجیدگی سے غور  وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پہلے وزیراعظم اور معمار ہند  پنڈت جواہر لال نہرو نے ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر ایک بار کہا تھا ۔۔۔۔۔

    ’’  ہم کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے ، ہم سب مادر وطن کے فرزند ہیں ۔ ہم عملاََ اور قولاََ تنگدلی اور مذہبی جنون کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔ ‘‘

    بابائے قوم نے بھی اپنی کئی تقاریر میں منافرت اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن عجب اتفاق ہے کہ ایسے مذہبی جنون دن بہ دب بڑھتے جا رہے ہیں اور ہمارے جمہوری نظام کا ایک اہم ستون کمزور ہو رہا ہے۔

     دستور کا پانچواں حق ’ تعلیمی اور ثقافتی حق ‘ سے متعلق ہے۔ جس میں ہم نے خاطر خواہ کامیابی  حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ لیکن آج ایسا کئی طبقہ ہے جو ناخواندہ ہے ۔ خاس طور پر گریب زدہ افراد کے بچّے، تعلیم سے بے بہرہ ہیں ، حالانکہ حکومت نیں کافی مراعات دے رکھی ہیں ۔ عام طور پر غربت زدہ لوگوں کے بچے دس سال کی عمر میں ہی روزگار میں لگ جاتے ہیں ، جس سے کہ ان کے گھر والوں کی دو وقت کی روٹی نصیب ہو جاتی ہے۔ یہ بڑا المیہ ہے۔ اس پر بھی حکومت وقت کو خصوصی توجّہ دینی چاہیے۔

       دستور ہند نے اپنے عوام کو جائداد کا حق بھی دیا ہے ۔ جس سے لوگ مستفیذ بھی ہو رہے ہیں ۔ لیکن موجودہ عہد میں ایسا طبقہ بڑی تیزی سے ابھر رہا ہے ، جو لوگوں کے اس جمہوری حق کو سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یعنی بزور طاقت اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ ایسی طاقت کے خلاف حکومت کو سخت تدابیر کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ لوگ اپنے اس جمہوری حق سے محروم نہ رہیں ۔

    اپنے آخری جمہوری دستور میں جو حق دیا گیا ہے ، وہ ہے ’ دستوری معاملات میں محافظت ‘ یہ حق بے حد اہم ہے ۔ اس پر عمل ان دنوں کس طرح کیا جا رہا ہے ، اس کا تجزیہ آئے دن اخبارات میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے حرکانات سکنات سے بہر حا ل ہمارا جمہوری وقارپامال اور مجروح ہو رہا ہے۔ ہزاروں سال کی ہماری گنگا جمنی تہذیب ، جس کی دوسرے ممالک میں مثالیں دی جاتی ہیں،  اسے ختم ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ایسے لوگ جو ہمارے اس جمہوری قدروں کو پامال اور مجروح کر رہے ہیں وہ ملک کی سالمت ، یکجہتی اور اس کی شاندار روایات کے دشمن ہیں ۔ جن سے نہ صرف حکومت کو بلکہ مختلف تنظیموں اور اداروں کو ایسے لوگوں سے سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 715