donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Fazil Husain Parwez
Title :
   Jaisi Teri Shan Hai Maula

کیسی تیری شان ہے مولا


ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

چیف ایڈیٹر ’’گواہ‘‘ اردوویکلی

حیدرآباد۔

09395381226


10؍ فروری کو انقلاب آگیا۰۰۰

جھاڑو کا جادو چل گیا۰۰۰

کچھ سکتے میں ہیں ۰۰۰ بعض حیراں ہیں۰۰۰ مگر اکثریت مسرور ہے۰۰۰ ایک نئے دور کی تاریخ کے آغاز پر۰۰۰

موضوع گفتگو تو بس یہی ہے۰۰۰ وہ کیسے جیتا۰۰۰ وہ کیسے ہارا۰۰۰ سونامی کے آگے لہریں بے بس ہوگئیں۰۰۰

سات مہینے میں جادو کا اثر ختم ہوگیا۰۰۰

اب پورے ہندوستان پر اس کا اثر ہوگا یا نہیں۰۰۰ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۰۰۰
میری آنکھیں ٹیلی ویژن اسکرین پر ہیں۰۰۰ کانوں میں کچھ مبصرین کی آوازوں اور کچھ رائے زنی کرنے والوں کے خیالات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۰۰۰ مگر ذہن کہیں اور ہے۰۰۰ عجیب سے خیالات ٹکرارہے ہیں۰۰۰ اچانک ٹی وی کا ’’والیوم‘‘ کسی نے بڑھایا اینکر کی بلند آواز نے میرے خیالات کی لڑیوں کو بکھیرکر رکھدیا۰۰۰  ٹی وی اینکر مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں سے دلی کے نتائج پر ان کی رائے طلب کررہے تھے۔ اور قائدین اپنی اپنی جماعت کے موقف کی دفاع کررہے تھے۔ میں سوچ رہا ہوں ۰۰۰ یہ وہی ٹیلی ویژن چیانلس ہیں، جنہوں نے ایک آواز ہوکر ہندوستان  کی سیاسی تاریخ کو بدل دیا تھا۔ جو ایک ایسی ہستی کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہے تھے جو روئے ارض پر سب سے زیادہ قابلِ نفرت تھی۔ جنہوں نے ’’پیکجس‘‘ کے عوض ہندوستانی سیاست کے ’’ویلن‘‘ کو ہیرو بناکر پیش کیا، اور اس کی تعریف میں اتنا جھوٹ کہا کہ وہ سچ لگنے لگا تھا اور اس جھوٹے سچ نے ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھدی۔

سات مہینے گزرے۰۰۰ اس دوران بہت سے واقعات پیش آئے۔ سہراب الدین، کوثر بی، عشرت جہاں اور کئی نوجوانوں کے فرضی انکائونٹر میں ملوث عناصر آزاد ہوگئے، عدالت نے انہیں باعزت رہا کیا۔ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی نے اس کا مقام بلند کردیا تھا، اس کی ایک ایسی امیج بنادی گئی کہ وہ سیاسی دنیا کا ’’شاہ ‘‘ کہلانے لگا، فرضی انکائونٹرمیں بری ہونے کے بعد اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ میرے ایک ساتھی نے مجھ سے کہا بھی تھا کہ یہ اللہ کا کیسا انصاف ہے۰۰۰ میں نے اس سے کہا تھا میاں اس کے انصاف میں دیر ہے اندھیر نہیں۰۰۰ دنیا میں بعض گناہگاروں ، مجرمین کو ان کی خطائوں ، گناہوں کے باوجود اعلیٰ مقام و منصب ملتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نظر انداز کردیا ہے۰۰۰ بلکہ وہ تو اپنی رسی کو ڈھیل دیتا جارہا ہے۔ جس دن وہ شکنجہ کسے گا۰۰۰ دنیا اس کا عبرتناک انجام کو دیکھے گی۰۰۰

دہلی کے الیکشن ہوئے۰۰۰ نتائج نکلے۰۰۰ جو شہرت کے آسمان پر پہنچ گئے تھے ایک ہی دن میں خاک لوٹنے لگے۰۰۰اور آسمان کو چھونے والا غبارہ فضائوں ہی میں پھٹ کر رہ گیا۰۰۰ شہرت کا سحر ایک ہی دن میں ختم ہوگیا۰۰۰ اور ان کی پشت پناہی کرنے والی طاقتیں ، جو اپنے سے بڑی طاقتوں کے ساتھ اترااترا کر، اکڑکر، گھوم پھر رہی تھیں، جو ہندوستان کی سیاست کی ناقابل تسخیر ہستی سمجھی جارہی تھی۰۰۰ ان کا غرور اور اثر سب خاک میں مل گیا۔

وہی میڈیا چیانلس جو کل تک زمین و آسمان کے قلابے ملارہے تھے اب وہی انہیں خاک میں ملانے کی کوشش کررہے ہیں۰۰۰ اور ہمارے کانوں میں ارشاد ربانی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
تم زمین پر اکڑ کر نہ چلو ۰۰۰

اور غرو ر سے اپنے گال نہ پھلائو۰۰۰نہ تم ۰۰۰

غرور و تکبر جس سر میں سما جائے، وہ سر زمانہ کی ٹھوکر وں میں آجاتا ہے۰۰۰ غرور تو شیطان کی پہچان ہے، اور اسی غرور کی وجہ سے اسے جنت سے نکالا گیا۰۰۰ مغرور اور متکبر لوگ اس کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا انجام بھی اپنے ’’گرو‘‘ جیسا ہی ہوتا ہے۔ وہ جنت سے نکالا گیا ۰۰۰ اس کے چیلے دنیا میں دھتکارے جاتے ہیں۔ ہر مغرور ظالم بھی ہوتا ہے اور ہر ظالم کا انجام عبرتناک ہی ہوتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں جس کسی نے ہم پر ظلم کیا، اس کا انجام بھی برا ہوا۔ وہ تاریخ میں تصویر عبرت بن کر رہ گئے۰۰۰

نئی نسل اگرچہ واقف نہ ہو، موجودہ نسل تو واقف ہوگی، ہندوستانی مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم سے۔ اور ان ظالموں کے عبرتناک انجام سے۔تقسیم وطن کے دوران ایک طبقہ نے مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم ڈھایا، ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے، ان کی عورتوں کو اپنی عورت بناکر رکھ لیا۔ وقت گزرگیا، گھائو نہ بھر سکے۰۰۰ مسلمان قدرت کے انصاف کا انتظار کرتے رہے، قدرت نے کئی دہائیوں بعد انتقام لیا ایسا بھیانک ۰۰۰ جنہوں نے ظلم ڈھایا ان کی ایک نسل ختم ہوگئی۰۰۰

 ایمر جنسی اور اس سے پہلے ’’نس بندی‘‘ کے نام پر مسلمانوں کی نسل روکنے کی کوشش کی گئی، اس کے ذمہ داروں کی نسل کیسے ختم ہوگئی آپ نے دیکھا۰۰۰ قدرت کا ان سے یہ انتقام نہیں تو اور کیا ہے کہ کل تک جن کی آرتی اتاری جاتی تھی، جن کے بغیر ہندوستانی سیاست کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، اب ان کا وجود مٹ چکا ہے۰۰۰ جو باقی رہ گیا ہے ، اسے بھی دھرتی کا بوجھ سمجھا جارہا ہے۰۰۰ انہیں اپنوں نے بھی دھتکار دیا اور اب ان کا یہ حال ہے کہ وہ سونے کو ہاتھ لگاتے ہیں تو مٹی بن جاتاہے۰۰۰ اور ان کی وقعت مٹی سے بھی کم ہوچکی ہے۔

آپ کو اس بدبخت کا انجام بھی یاد ہے نا۔؟ جس نے ہمارے مذہبی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی ، جس نے ہمارے مقاماتِ مقدسہ کو شہید کرنے میں اہم رول ادا کیا۰۰۰ اس کے بدلے اسے اقتدار تو ملا، مگر اس کا انجام کیا ہوا۰۰۰ جب زندہ رہا تو اس کے اپنوں نے لاتعلقی اختیار کرلی، اور جب مرگیا تو کتوں کا نوالہ بن گیا۔ یہ تو ایک دو مثالیں ہیں۰۰۰ ابھی ہمیں بہت ساروں کے عبرتناک انجام دیکھنے ہیں۰۰۰ 10؍ فروری کو پہلی جھلک دیکھی۰۰۰ رسوائی اور ذلت ۰۰۰ موت سے بدتر ہوتی ہے۰۰۰ کوئی انسان شہرت کی بلندیوں پر پہنچتا ہے تو اس کا عادی ہوجاتا ہے۰۰۰ تعریف کے نشہ کی لت پڑجاتی ہے۔ اگر اس میں رتی برابر بھی فرق آجاتا ہے تو وہ برداشت نہیں کرپاتا۔ یہ اللہ رب العزت کا انصاف ہے۔

دلی کے انتخابی نتائج سے ہم خوش ضرور ہیں، اس لئے نہیں کہ اروند کجریوال کامیاب ہوئے! بلکہ اس لئے کے نفرت کی آندھی روک دی گئی۔ کجریوال نے بلاشبہ شاندار کامیابی حاصل کی تاہم لوک سبھا انتخابات میں ہندوتوا طاقتوں کی کامیابی کے لئے وہی بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔ اگر وہ چار سو سے زائد پارلیمانی حلقوں میں اپنے امیدوار نہ اتارتے تو سیکولر اور مسلم ووٹ تقسیم نہ ہوتے، بھگوا طاقتیں اتنی اکثریت سے کامیاب نہ ہوتیں۔ پارلیمانی انتخابات کے دوران ہمارا یہی گمان رہا کہ کجریوال بھی بی جے پی کے آلہ کار ہیں، جانے انجانے میں انہوں نے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا۔ خیر جو بھی ہو ہندوستان کے سیکولر عوام کو ایک موقع ملا ضرور خوش ہونے کا۔ ہندوستان کے سیکولرزم کی برقراری کا خدا کرے کہ میرے مہان بھارت کا مہا سیکولر کردار قائم و دائم رہے۔ ترنگا عالمی نقشہ پر پورے فخر کے ساتھ لہراتا رہے۰۰۰ اس پر کبھی بھگوا سایہ نہ پڑے۔ آمین۔

(یو این این)

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 535