donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Tanweer Hasan
Title :
   Modi Hukumat Ke Aik Saal


مودی حکومت کے ایک سال

 

 

ڈاکٹرتنویرحسن

(سابق رکن  قانون سازکونسل،بہار)

 


فلم کرانتی کاایک مشہور مکالمہ جوشتروگھن سنہا پر فلم آیاگیاتھا کہ آخیر’’کرانتی کب آئے گی‘‘ٹھیک اسی طرح ملک میں اب لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ بقول مودی ہمارے اچھے دن کب آئیںگے۔جس کاوعدہ گذشتہ پارلیمانی انتخاب میںنریندرمودی نے خودکیاتھا۔یہ سوال اس لئے بھی موذوں ہے کہ گذشتہ ایک سال میں مہنگائی بدستور جاری ہے۔بدعنوانی کابراحال ہے،غیرممالک سے کالے دھن کولاکر ہندوستانیوںمیں تقسیم کرنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔یہاںتک کے نوجوانوںکومرکزی حکومت سے ملنے والے روزگارپر بھی پابندی لگ گئی۔ لیکن پھربھی مرکزی حکومت اپنے پہلے سوال کاجشن سال گرہ کافی دھوم دھام سے منارہی ہے،اور پورے ملک میںتقریب منعقد کرکے مرکزی وزراء اپنی پیٹھ تھپ تھپارہے ہیں۔اگرچہ کچھ لوگوںکاخیال ہے کہ کسی بھی حکومت کیلئے ایک سال کی مدت اس کے گارگزاریوںکے محاسبہ کیلئے کافی نہیںہے۔لیکن دوسری طرف یہ بھی کہاجاتاہے کہ پوت کے پائوںپالنے ہی میںدیکھے جاتے ہیں۔آخرایک سال میںکئے گئے وعدوںکی کچھ توجھلک ملنی چاہئے تھی۔تاکہ لوگوںکابھروسہ قائم رہتا۔فی الحال حکومت کے پاس ایک ہی حصولیابی ہے۔ہمارے وزیراعظم گذشتہ ایک سال کے دوران 18ملکوںکادورہ کرچکے یعنی ہرماہ ڈیڑھ ممالک کے دورہ پررہے ہیں۔جوایک ریکارڈہے۔صرف امریکہ کے دورہ پرتقریباً9کروڑروپیہ خرچ کئے گئے ہیں۔جبکہ کوئی اہم سمجھوتہ دونوںملکوںکے درمیان عمل  نہیںآیاہے۔مکمل اکثریت والی کسی حکومت کاپہلاایک سال اس کی پالیسی ۔پروگرام اورترجیحات کابہترین آئینہ ہوتاہے۔کیونکہ اس دوران نہ توکسی انتخاب کا دبائوہوتاہے اور نہ ہی عوامی رجحان بدلنے کااندیشہ لہذاحکومت عوام کے حق میں اپنے مضبوط ارادوںکوعملی جامہ پہناسکتی ہے۔

اردومیڈیاکے معرفت ہم عموماًحکومت کے فرقہ ورانہ رجحانات نسلی ولسانی اورمذہبی تفریق وامتیازکاہی جائزہ لیتے رہے ہیں۔لیکن یہ موضوع توعام فہم ہے کہ سنگھ خاندان کے ریمورٹ پرسنگھ پرچارک وزیراعظم کے نشانے پربالخصوص مسلمان ان کے گجرات کے دوراقتدارکے زمانے سے ہی ہے اس معاملے میںذرابھی مبالغہ نہیںہوناچاہئے کہ وزیراعظم نریندرمودی جی کسی بھی طرح کی رواداری کامظاہرہ کرنے والے ہیں۔اگرچہ وقفہ وقفہ سے رواداری کے عہدکاوہ اعادہ کرتے رہتے ہیں۔لیکن اس کاکوئی اثربھاجپاکے ذیلی تنظیموںپرنہیںپڑتاہے ۔اور آج مسلمانوںکی عزت وحرمت دولت وثروت جتنی خطرے میںہے آزادی کے بعداتنی کبھی نہیںتھی۔لیکن پھربھی ہم اگر صرف اپنی مسائل کیلئے ہی سینہ کوبی کرتے رہے توبرادران وطن کے مختلف طبقوںسے ہماراسروکارکمزورہوگا۔لہذاچلیںاور دیکھیںکہ موجودہ مرکزی حکومت خوداپنے برادران وطن کے ساتھ کیساسلوک کررہی ہے۔حکومت کے اقدامات اورترجیحات سے دلت ۔کمزورطبقہ اورعام ہندوستانی کس طرح پریشان ہیں۔اور رفتہ رفتہ یہ بے چینی بڑھ رہی ہے۔اس صورت حال میں ہمیں ان کواپناہمنوابناناہوگا۔ لہذامرکزی حکومت کی کارگزاریوںکامحاسبہ مجموعی نقطہ نظرسے ہوناچاہئے۔

مودی نے کہاتھاکہ وہ حکومت چلانے سے زیادہ دیش چلانے میںدلچسپی رکھتے ہیں۔یعنی حکومت توآئین کے مطابق چلاناپڑے گا۔لیکن دیش چلانے کیلئے ان کے پاس منوادی دستورموجودہے۔ بظاہرتوانہوں نے آئین کاحلف اٹھایاہے لیکن درپردہ وہ اپنے منوادی ہندوتواکے نظریہ کی پیروی کرتے رہیںگے۔یہی کام ان کے رفقاء کھلے عام کررہے ہیں۔کبھی تبدیلی مذہب کاشوشا۔توکبھی لوجہادکاخودساختہ معاملہ مسلمانوںسے کم بچہ پیداکرنے کی اپیل اور ہندئوںسے زیادہ بچہ پیداکرنے کاہدایت جیسی متضادباتیںکہتے پھررہے ہیں۔کہیںمسجدوںکی تعمیرپر روک توکہیںتعمیر شدہ مسجدوںسے بے دخلی یہ روزمرہ کی باتیں ہوگئی ہے۔دراصل یہ لوگ حکومت کی ناکامیوںپرپردہ ڈالنے کیلئے فرقہ واریت کاایجنڈہ آگے لاناچاہتے ہیں۔تاکہ عوام ذہنی طورپرمنتشراورنفاق کی شکار رہے۔اورحکومت غریب اورکمزورطبقہ جیسے عام آدمی مخالف سماجی اورمعاشی پالیساںملک میںرائج کرکے قومی وسائل کوکارپوریٹ گھرانوںکے حوالے کرتے رہیں۔

ایک عام شہری خواںوہ ہندوہویامسلمان سکھ ہویاعیسائی اپنے حکومت سے کیاچاہتاہے!بے شک ایسی پالیساںمرتب ہوجسے روز مرہ کی زندگی میںپیش آنے والے جدوجہدکم سے کم ہواورزندگی آسان خطوط پررواںدواںرہے۔روزگارکے مواقع بڑھے تاکہ معاش کامعاملہ حل ہو۔بنیادی سہولیات میںاضافہ ہوتاکہ ترقی کے راستے کھل جائیں۔غیربرابری کم سے کم ہوتاکہ زندگی کی مشکلیںآسان ہوجائے اور قومی وسائل کامنصفانہ تقسیم ہوتاکہ امیری کاپہاڑاورغربی کی کھائی جیسی تفریق نہ رہے۔مودی حکومت کے پہلے سال کا محاسبہ مذکورہ کسوٹیوںپر ضرور کیاجاناچاہئے۔یعنی سماجی اورمعاشی شعبوںمیں حکومت کے اقدامات اورترجیحات کیاہیںاس کاجائزہ اہم ہے۔

تشویش کی بات تویہ ہے کہ سماجی اورمعاشی معاملوںمیں حکومت کی پالیسی اور اقدامات امید افزاںتونہیںہی ہیںبلکہ خطرناک اندیشے پیداکرنے والے ہیں۔گذشتہ مرکزی حکومت نے اپنی سماجی ذمہ داری پوری کرنے کاجوقدم اٹھایاتھا۔ٹھیک اس کے برعکس موجودہ حکومت ان ذمہ داریوںسے ہاتھ کھینچتی نظرآرہی ہے۔مہاتماگاندھی دیہی روزگاریوجناکوہی ہم مثال کے طورپرلیںتوموجودہ حکومت میںبڑی مشکل سے اس اسکیم کوجاری کرنے کافیصلہ کیاہے۔لیکن ایسی حکمت عملی اختیارکررہی ہے کہ یہ اسکیم کچھ دنوںبعدخود بہ خود بند ہوسکتی ہے۔رواںمالی سال کہ 263کروڑروپئے مزدوری کے بقائے  کی ادائیگی سے موجودہ حکومت نے انکارکردیاہے۔اور475کروڑیومیہ مزدوری کومستردکردیاہے۔تاکہ مزدوروںمیں بے چینی پیداہواورررفتہ رفتہ مزدور اس اسکیم میںروزگارمانگناہی چھوڑدے۔اور ایسی صورت حال پیداہوجائے کہ اسکیم خودبخود ناکام ہوجائے۔

جہاںتک کسانوںکامعاملہ ہے وہ بھی روزبروزسنگین ہوتاجارہاہے۔مغرب اورجنوب کے صبوںکوترقی یافتہ بتانے والی مودی سرکارگجرات ،مہاراشٹر،اندھرا پردیش اور کرناٹک کے کسانوںکی خودکشی کاجوازبتانے میںناکام ہے جبکہ مقابلتاًغریب شمال مشرقی صبوںمیں کسانوںکی خودکشی کارجحان مرکز میں مودی سرکارکے آنے کے بعددیکھاجارہاہے۔ہندوستان کے 70فیصدآبادی آج بھی کاشتکاری پرمنحصرکرتی ہے۔اورملک کی پوری آبادی کیلئے خوراک کاانتظام کرتی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی موجودہ حکومت کسانوںسے زمین چھین کرکارپوریٹ گھرانوںکے حوالہ کرناچاہتی ہے۔تاکہ صنعتی ترقی کوتیز کیاجاسکے۔جبکہ قبل سے ہی ہزاروںایکڑزمین کارپوریٹ گھرانوںکودی جاچکی ہے۔جس پر اب تک کوئی صنعت یاکل کارخانہ قائم نہیںکیابلکہ یہ گھرانے سستے قیمت پرحاصل کی گئی زمین کامہنگاکاروبار کررہے ہیں۔کسانوںکے متعلق حکومت کامنفی رویہ یہاںتک بڑھاہواہے کہ 2013کااتفاق رائے سے بنایاگیاتحویل اراضی قانون کوبدل کرایک نیاقانون تھوپناچاہتی ہے۔جس میںکسانوںکے اختیارات کوصلب کرنے کی سازش ہے۔کارپوریٹ گھرانوںکوکسانوںسے چھینی ہوئی زمین حوالے کرنے کی یہ جلدبازی شایدمودی جی کے الیکشن کے دوران ان سے کئے گئے وعدوںکاحصہ ہو۔فسطائی اورآمرانہ حکومت عوامی مخالفت کے پرواہ کئے گئے بغیر قانون نہیںبن پانے کی صورت میںآرڈیننس پرآریننس جاری کرتی جارہی ہے۔جبکہ آزادی کے اتنے سالوںبعدبھی بے گھروںکیلئے رہائشی آراضی کاانتظام حکومت نہیںکرسکی۔اگریہی ضدمرکزی حکومت کسانوںکی پیداواری صلاحیت بڑھانے میںاورکھیتی کے خسارہ کوپوراکرنے میں کیاہوتاتوملک کی زرعی پیداواربھی بڑھتی کسانوںکامنافع بھی بڑھتااور وہ خودکشی پرمجبورنہیںہوتے۔

موجودہ حکومت نے اپنے 2015-16کے بجٹ میںکارپوریٹ اورتجارتی گھرانوںکولاکھوںکروڑروپئے کی رعایت دے کرامیرپرستی کامظاہرہ کیاہے۔جبکہ اسی بجٹ میں سماجی فلاح کے شعبوںمیں بڑے پیمانہ پربجٹ کی کٹوتی کی گئی ہے۔جس سے غریب کمزورطبقہ متاثرہوگا۔اورحکومت کاغریب مخالف چہرہ واضح ہواہے۔سماجی فلاح کے شعبوںسے تعلق رکھنے والے بیشتروزارت کے بجٹ میں کٹوتی کے طورپر ہم دیکھ سکتے ہیںجواعدادوشماراس طرح ہیں۔شعبہ تعلیم کے بجٹ میں20.3فیصد کی کٹوتی صحت عامہ کے وزارت کی بجٹ میں19.8کی کٹوتی وزارت محنت روزگارکی بجٹ میں13.8فیصد کی کٹوتی وزارت دیہی ترقیات کے بجٹ میں12.9فیصد کی کٹوتی وزارت شہری ترقیات کے بجٹ میں 6.1کی کٹوتی یہاںتک کہ وزارت صاف صفائی کے بجٹ میں59فیصد کی کٹوتی اورعورتوںاوربچوںکی فلائی بجٹ میں52فیصد کی کٹوتی کرکے حکومت نے یہ واضح کردیاہے کہ وہ غریبوںکے نہیںبلکہ کارپوریٹ گھرانوںکی زیادہ فکر کررہی ہے۔اوروزیراعظم کاملک کے سواکروڑہندوستانیوںکے نمائندگی کادعویٰ صرف ایک کھوکھلانعرہ ہے۔اوراس پرہونے والے اشتہارپرکروڑوںروپئے کااخراجات عوامی روپئے کی لوٹ ہے۔

موجودہ حکومت کے قول وفعل میںآسمان زمین کافرق نمایاںہے۔جہاںایک طرف وہ محنت کی جیت یعنی (شرم موے جیتے) کانعرہ دیتی ہے وہیں دوسری طرف اقتصادی سدھارکے نام پرمالکوںکے اختیارات کولامحدوداورمزدوروںکے اختیارات کومحدود کررہی ہے۔مزدوری کے قانون میںایسے ایسے ترمیم کئے جارہے ہیں۔جس سے نہ صرف مزدوروںکے اختیارات چھینے جارہے ہیںبلکہ اس کے استحصال کادروزہ کھول دیاگیاہے۔

موجودہ حکومت متوسط طبقہ کوخوش کرنے کیلئے کچھ ایسی اسکیموںکومشتہرکررہی ہے جس سے حکومت کاکوئی لینادینانہیںہے بلکہ عوامی پہل پراس کی کامیابی کادارومدارہے۔جیسے صاف صفائی مہم ۔بیٹی بچائو۔ بیٹی پڑھائوکانعرہ یہ سب صرف کھوکھلے نعرے ہیں۔کیونکہ جب ان سے متعلق وزارت کے بجٹ میںہی بھاری کٹوتی کی جارہی ہوتوپھراس کی عمل آوری کویقینی کیسے بنایاجاسکتاہے۔وزیراعظم کے جن دھن یوجنا کی ہوابھی نکلتی نظرآرہی ہے۔اس یوجناکے تحت کروڑوںکھاتے کھول کرعوامی حصہ کے پریمیم جمع کروائے جارہے ہیںلیکن عوام سے کہاجارہاہے کہ انہیں اس کافائدہ بعدازمرگ ہوگا۔لیکن ابھی جوعربوںروپے بینک میںجمع کئے جارہے ہیں۔اس سے کارپوریٹ گھرانے کواس کی زندگی میںہی ترقی کئے جانے کی اسکیم ہے۔مرکزی حکومت کے سماجی اوراقتصادی معاملوںمیں جواقدامات اورترجیحات سامنے آرہے ہیںاس سے صاف ظاہرہے کہ سرمایہ داروںکیلئے مواقع کے سارے دروازے کھول دئے گئے ہیں۔اورغریبوں۔عام ہندوستانیوںخواہ وہ ہندوہویامسلمان ان کے لئے مواقع محدود کئے جارہے ہیں۔یہی مودی حکومت کاجشن سال گرہ کاتحفہ ملک کے کروڑوںعوام کیلئے ہے۔  

 

فاسیزم یافسطائت ایک سیاسی نظریہ ہے اس نظریہ کے تحت چلنے والی حکومت اقتدارکی سیڑھیاںتوجمہوریت کے طریقہ سے ہی چڑھتی ہے۔لیکن جیسے ہی اقتدارکُل ہاتھ میںآجاتاہے توسب سے پہلے وہ جمہوریت کاہی گلاگھوٹناچاہتی ہے۔اس نظام حکومت میں اقتدارپرقابض سپریموںکی مخالفت خواہ وہ پارٹی کے اندرہویاباہر ممکن نہیںہے۔اس طرح کی حکومت کا سرغنہ شخص بھی ہوسکتا ہے۔اورتنظیمی ڈھانچہ بھی فاسسٹ حکمراںہوسکتاہے۔ذرائع ابلاغ مکمل طورپراقتدارکے آگے سرنگوںہوجاتے ہیں۔اوراظہارخیال کی آزادی مفقودہوجاتی ہے۔حکومت شروع میںتوکچھ ایسے اقدامات کرتی ہے۔جوبظاہرتوعوام کے مواقف ہوتے ہیں۔لیکن آخرکارشہریوںکے بنیادی مسائل نظراندازکرتے ہوئے ملک کوایک اندھے کنواںکی طرف گامزن کردیاجاتاہے۔فرقہ واریت۔نفرت۔قوم پرستی کے اندھے تصوراورخودکودوسری قوموںکے مقابلے میںاعلیٰ سمجھ کرباقی قوموںپرحکمرانی کاحق مسلم رکھناہی وہ سارے علامات ہیںجو فسطائت کی خوراک ہیں۔اورپھرعوام کے خاص طبقہ میںہجانی کیفیت پیداکرکے اپناالوسیدھاکرناہی حکمرانی کاشیوہ بن جاتاہے۔

دراصل مذکورہ صورت حال رفتہ رفتہ ہندوستان کامقدربنتاجارہاہے۔لہذاکسی فسطائی طاقت کاملک میںحاوی ہوجانے کاجواندیشہ اب یقین میںبدلتاجارہاہے۔کسی خاص طبقہ کے آئینی حقوق کوپامال کرتے ہوئے انتظامیہ اورقانون کاجانبدارانااستعمال کرتے ہوئے اس طبقہ کوحاشیہ پرڈالنے کی کوشش اس ملک میںجاری ہے۔چونکہ نریندرمودی کی حکومت اسی راہ پرچل رہی ہے ۔وزیراعظم بننے کامودی کاخواب توپوراہوگیالیکن عوام کی امیدیںپوری ہوتی نظرنہیںآرہی ہیں۔جبکہ دوسری طرف وزیراعظم اپنی پیٹھ خود تھپتھپارہے ہیں۔ اورمودی میڈیااسی دھن پررقص کررہاہے۔ایک خودسروزیراعظم کی کسی بھی مخالفت کی پرواہ کئے بغیرخودمختاری کی اٹکھیلیاںدیکھ کرخودبھاجپاکے لیڈران بھی حیران ہے۔گذشتہ ایک ہی سال میں پوری بھاجپاکانعم البدل بن جانے والے مودی کی حکومت نے جوکچھ کیاہے اگرآئندہ چار سال تک یہی اندازاوررفتارجاری رہاتو2019تک غریبوںکی جھوپڑیوںتک پہنچنے والے سماجی فلاح کے سارے سونتے سوکھ جائیںگے اورکچھ پسندیدہ کارپوریٹ گھرانوںاور ان کے لواحقین کی جھولیاںمال ودولت سے بھرجائیںگی۔

نریندرمودی نے انتخاب کے دوران ملک کوکانگریس سے آزادکرانے کااعلان کیاتھاجوایک مضحکہ خیزنعرہ تھا۔بھلاآپ تصورکرسکتے ہیں کہ جس کانگریس نے ملک کوبرطانوی شکنجہ سے آزادکرایاآج وہ لوگ اسے ملک بدرکرناچاہتے ہیں۔ جن کاجنگ آزادی میں کوئی نام ونشان نہیںتھا۔بلکہ یہ کہناچاہئے کہ انہوں نے انگریزوںکی دلالی کی ۔جنگ آزادی کے رہنمائوںکے خلاف انگریزوںکی مخبری کی۔آزادی کے بعد کانگریس اوردوسری سیکولرجماعتوںنے ملک کوویلفیئراسٹیٹ بناکرسماجی فلاح کے اسکیموںکے ذریعہ جس سماجی سروکار کومضبوط کیامودی کی موجودہ حکومت اس کی جڑوںمیں مٹھّاڈالنے کاکام کررہی ہے۔یہی وجہ کے موجودہ مرکزی حکومت کوتمام قومی شخصیات ۔علامتوں۔اداروں۔رویات اورپالیسی پروگرام کے ساتھ ساتھ مختلف قوموںکے درمیاں باہمی اتفاق ورواداری کوختم کرناچاہتی ہے۔یاپھرمکاری سے ان کانام بدل کربھگوارنگ میںڈھالناچاہتی ہے۔ بنیادی مسائل کوحل کرنے کی پیش قدمی کے بجائے قوم کوبے تکی بحثوںمیںالجھائے رکھ کرملک کے قومی وسائل کواپنی پسند کے کارپوریٹ گھرانوںکے حوالے کرناچاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی نہرواورسردارپٹیل کے درمیانی چھپقلیش پرچرچاہورہی ہے کبھی سوبھاش چندرباس سے متعلق ایسی خبریںاوربحثیںچلائی جارہی ہیںجس کایاتوکوئی تاریخی وجودنہیں ہے یاپھرتاریخ کوتوڑمڑورکرپیش کیاجارہاہے۔یہاںتک کہ گاندھی کے خلاف بھی سنگھ خاندان کے بے لگام گھوڑے اورگھوڑیاںہتک آمیزجملے بازی کررہے ہیں۔یہ تومودی کی مجبوری ہے کہ گاندھی جی کے یوم پیدائش کے موقع پرصاف صفائی کی مہم کاڈرامہ کرتے نظرآرہے ہیں۔ورنہ اگر گاندھی جی گجرات کے نہیںہوتے توان کا حشروہی ہواہوتاجودوسرے قومی رہنمائوںکاہورہاہے۔مودی کی نظرمیںگاندھی کی شہادت کی کوئی قیمت نہیںہے۔لیکن انگریزوںسے معافی مانگ کرقیدوبندسے رہاہونے والے ساورکران کی نظرمیں بہادرہیں۔نہروخاندان کے شہادت سے زیادہ شیامہ پرسادمکھرجی کی موت ان کیلئے اہم ہے۔ جوخودنہروکی وزارت کے وزیرتھے۔

مذکورہ تمام بحثوںکاایک مقصدہے کے عوام بے سربے پیرکی بحثوںمیں مبتلارہے اورحکومت غریبوںکی حق ماری کرتی رہے۔اسی طرح مودی میڈیاکی مہم بھی حکومت کے سیاح چہرے پررنگ وروغن لگاکرپیش کرتی رہے۔تاکہ نقلی چہرہ سامنے آئے اصلی صورت چھپی رہے۔دراصل نریندرمودی سنگھ پرچارک رہے ہیںسنگھ(آرایس ایس)کاقیام عمل میںاس لئے آیاتھاکہ جنگ آزادی سے ایک علیحدہ ایک ایسی مہم چلائی جائے جوہندوستان کے مختلف قوموںبالخصوص ہندومسلمانوںکے درمیان نفرت کی دیوارے کھڑی کرتی رہے تاکہ دونوںقومیںکبھی متحد نہ ہوںاوربرطانوی حکومت ہندوستان پرقابض رہے۔ لہذان کے پاس کوئی بڑالیڈرنہیںہے۔اور جوبھی ہے آزادی کے بعدکاہے اور وہ بھی کانگریس سے نکلاہواابلیس ہے۔یہی وجہ ہے کہ مودی احساس جرم کے شکارہیں اور یہ احساس انہیںکھائے جارہاہے۔

مودی حکومت کے سماجی سروکارکے معاملات کس طرح سے متاثرہوئے ہیں اس کااندازہ صرف ایک بات سے ہوتاہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران سماجی فلاح سے متعلق اسکیموںکے َمدمیںپونے دولاکھ کروڑروپئے کی کٹوتی مرکزی بجٹ میںکردی گئی ہے۔گذشتہ یوپی اے حکومت نے غریبوںکے بے وقارزندگی کوباوقاربنانے کیلئے جتنی بھی اسکیمیں چلائی موجودہ حکومت اسے یاتوبندکررہی ہے یاپھربجٹ کٹوتی سے اسے بے اثرکرناچاہتی ہے۔پسماندہ اوردیہی علاقوںکی ترقی کیلئے مختلف اسکیمیںخواہ بی آرجی ایف ہودیہی روزگارگارینٹی اسکیم ہویاپھرمشہورزمانہ خوراک گارینٹی اسکیم ہوسب کی سب مرکزی حکومت کی ترچھی نظرکی زدمیںہیں۔پسماندہ علاقوںکی ترقی کے اسکیم سے چھ ہزارکروڑروپئے کی کٹوتی کرنااورخوراک گارنٹی اسکیم کے مد میںمختص ایک لاکھ کروڑروپئے کوروکنے دیہی روزگارگارنٹی اسکیم کے گذشتہ سال کے بقایہ کے آدھی رقم کوروکنااسی بات کی نشاندہی کرتاہے۔ یادرہے کہ مذکورہ غریب موافق اسکیم کومنظورکرنے پرہی کارپوریٹ گھرانوںنے یوپی اے حکومت کی تنقیدشروع کردی تھی۔اورنریندرمودی کے حاشیہ بردارہوگئے تھے۔

ملک میںابتداء سے ہی زراعت کی اہمیت رہی ہے اورملک کی آدھی آبادی اس پرمنحصر کرتی ہے۔ملک کے کل گھریلوپیداوارکا بیس فیصدحصہ زراعت سے آتاہے۔لیکن پھربھی اس کے فروغ کے اسکیموںکے مدمیں ساڑھے ساتھ ہزارکروڑکی کٹوتی کی گئی ہے۔زراعت سے ہی منسلک کئی ذیلی شعبے ہیںجیسے سینچائی ،مویشی پروری،مچھلی پروری،ہارٹی کلچر، لیکن اس میںبھی بجٹ مدسے حکومت نے بھاری رقم کاٹ لیاہے۔یعنی آٹھ ہزارکروڑروپئے سینچائی کے بجٹ سے اور مویشی پروری کے مدسے آٹھ سوکروڑروپئے کی کٹوتی کی گئی ہے۔آپ اندازہ کرسکتے ہیںکہ مویشی پروری میںہی گائے کامعاملہ آتاہے جس کی اہمیت ان بھاجپائیوںکی نظرمیںانسانوںسے زیادہ ہے۔یہاں تک گائوکشی کے خلاف تعزیرات ہندکے تحت  وہی دفاعت بھاجپاکے لوگ تجویزکرتے ہیںجس دفعہ میںانسانوںکے قتل کامقدمہ چلتاہے۔ اگرآپ مویشی پروری کے مدمیںبجٹ کٹوتی کرتے ہوتوگائے کاچارہ کہاںسے لائوگے۔حکومت ایک سازش کے تحت کسانوںکے سامنے ایسا حالات پیداکرناچاہتی ہے تاکہ کھیتی لگاتارغیرمنافع بخش ہوجائے اورکسان خودبخودکھیتی سے دستبردارہوجائے اورساری زمین کارپوریٹ گھرانوںکوسونپ دی جائے۔

مذکورہ خدشات کے کچھ آثاربھی نظرآنے لگے ہیں۔آپ موازنہ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ یوپی اے حکومت کے آخری سال میں زراعت کاشرح نموپانچ فیصدتھاجبکہ مودی حکومت کے ایک سال میںزراعت کاشرح نموصرف ایک فیصدریکارڈکیاگیاہے۔یہی نہیںکھیتی کے لائق زمین کارقبہ بھی کم ہورہاہے۔اوراس کے نتیجہ میںاناج کے برآمدات میںایک چوتھائی کمی آگئی ہے۔کسانوںکایہ ساراخسارہ اچھے نصیبوںوالے وزیراعظم کے گدی نشیںہونے کے بعدہواہے۔آپ کویہ جان کربہت حیرانی ہوگی کہ جس یوپی اے حکومت کومودی جی نے پانی پی پی کرگالیاںدی اس حکومت نے اپنی لگاتارکوششوںسے اناج کے برآمدات کوساڑھے سات عرب ڈالرسے بڑھاکر42عرب ڈالرکردیا۔جومودی جی کے صرف ایک سال کی حکومت میں ایک چوتھائی کم ہوگیا۔اب یہ واضح ہوچکاہوگاکہ مودی جی کسانوںسے زمین چھننے کیلئے کیوںآرڈیننس لاتے جارہے ہیں۔

موجودہ وزیراعظم کتنے بہادرہیںیاحکومت میںکتنی شفافیت ہے اس کااندازہ صرف ایک بات سے لگایاجاسکتاہے کہ محض اپنے لئے ایک پرنسپل سکریٹری بحال کرنے کیلئے انہیںآرڈیننس لاناپڑا۔لیکن گذشتہ حکومت کے ذریعہ لایاگیاآرڈیننس التواء کاشکارہوگیاہے۔جس میں درج فہرست ذات کے تحفظ ووقارکے حفاظت کی ضمانت دی گئی تھی۔جب معمولی سی غلطی پربھی دلت طبقہ کے لوگوںپرعطاب نازل کیاجاتاہے یہاںتک ان کے گلے میںجوتے کے ہارپہناکرگائوںمیںگھومایاجاتاہے۔انہیںحرکتوںپرسخت سزاکی تجویزاس قانون میںکی گئی تھی لیکن برہمن وادی سنگھ کے اشارے پرچلنے والی حکومت دلتوںکی بھلاکیاحفاظت کرے گی۔بلکہ اس نے تودلتوںکے سماجی فلاح کے بجٹ میں 13ہزارکروڑروپئے اورآدی واسی کے فلاحی بجٹ میںساڑھ سات ہزارکروڑکی کٹوتی کردی۔

کسی بھی حکومت میںآئندہ نسلوںکی نشونماء کیلئے خاص توجہ دی جاتی ہے۔خاص کرکے مائوںپربھی ان کے حفظان صحت کیلئے حکومت کا خاص دھیان ہوتاہے لیکن صحت کے بجٹ میں 10ہزارکروڑروپئے کی تخفیف کی گئی ہے۔پھرباری آتی ہے بچوںکی تعلیم کی وہ بھی ملک کے 80فیصدبچے جوسرکاری اسکولوںمیں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔لیکن موجودہ حکومت نے ان بچوںکونظراندازکرتے ہوئے ایک ہی سال میںپرائمری تعلیم کے بجٹ میں 10ہزارکروڑروپئے ۔ثانوی تعلیم اوراعلیٰ تعلیم کے مدمیںبتدریج ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کروڑروپئے کی کمی کردی ۔یہاں تک کہ سب کاساتھ سب کاوکاس کانعرہ دینے والی حکومت نے پینے کے صاف پانی کاانتظام کرنے والے محکمہ کے بجٹ میںبھی 9ہزارکروڑروپئے کی کٹوتی کردی ہے۔

گذشتہ ایک سال کے دورحکومت میںمذکورہ بجٹ کٹوتی سے عوام کافی متاثرہوئی ہے۔جس کاخمیازہ رفتہ رفتہ لوگوںپراثراندازہوگا۔لیکن سنگھ خاندان کے ذریعہ نفرت پھیلانے کی مہم میںملک کے روایتی بھائی چارہ اورسیکولرزم کوکافی نقصان پہنچایاہے۔ اوراس درمیان کئی معاملے کاپردہ فاش ہواہے جس سے ہمارانصاب تعلیم حکومت کے چھیڑچھارکاشکارہورہاہے۔بچوںکی ذہن سازی نفرت کے خطوط پرہورہی ہے۔نصاب میںتہوم پرستی کواس کاحصہ بنایاجارہاہے۔ یوگ کے ذریعہ کسی خاص مذہبی عقیدوںکو دوسرے مذاہب پرمسلط کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔تاریخ چاک پرگڑھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔تاکہ عوام کو ایک خاص خطوط پرگمراہ کیاجاسکے۔مسلم نوجوانوںکودہشت گردی کے طرف مائل بتاکرشکوک پیداکیاجارہاہے اوران تمام معاملوںمیں وزیراعظم کی مصلحت اندیش خاموشی اس بات کاثبوت ہے کہ وزیراعظم کے اشارہ پرہی سب کچھ ہورہاہے۔یہی وہ سارے علامات ہیںجوگذشتہ ایک سال میں ملک میںفسطائت مسلط کرنے کی سازش کاپتہ دیتے ہیں۔اب آگے آگے دکھئے ہوتاہے کیا۔

 

 

موبائل نمبر:9431017410

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 550