donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   BJP Ke Liye Shikast Ka Sal Hoga 2016


بی جے پی کے لئے شکست کا سال ہوگا

2016


بہار کے بعد مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو، کیرل ،اترپردیش ،اتراکھنڈاورپنجاب میںہار کے آثار


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی



    بہار کے بعد اب بی جے پی کا کیا ہوگا؟ کیا دوسری ریاستوں میں بھی وہ بہار کی طرح ہاریگی؟ کیا اگلے چند مہینوں میں اسے مزید جھٹکے لگنے والے ہیں؟ کیا مغربی بنگال اسمبلی چنائو میں وہ اپنا کھاتا کھول پائے گی؟ کیا آسام میں وہ لوک سبھا الیکشن کی جیت کو دہراپائیگی؟ کیا تمل ناڈو میںجے للیتا اسے گھاس ڈالیںگی؟ کیا کیرل میں وہ اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوسکے گی؟ کیا۲۰۱۶ء کے بعد ۲۰۱۷ء میں ہونے والے اترپردیش، اتراکھنڈ،پنجاب، گوا اور منی پورکے اسمبلی انتخابات میں بھی اسے شدید دھکا لگنے والا ہے؟ آج یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ دلی کے بعد بہار کے اسمبلی انتخابات میں بھی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کادعویٰ کرنے والی بی جے پی کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بہار میں ہار کے بعد ملک کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہورہاہے اور کل تک جو پارٹیاں اس کے ساتھ تھیں یا اس کی جانب جھکائو رکھتی تھیں، اب کنی کاٹنے لگی ہیں۔ عوام کا موڈ اس وقت مرکزی سرکار کے خلاف نظر آرہاہے اور جن ریاستوں میں ۲۰۱۶۔۲۰۱۷ء میں انتخابات ہونے ہیں وہاں بی جے پی کی حالت ابھی سے پتلی محسوس ہورہی ہے۔ دلی کی تمام اور بہار کی بیشتر لوک سبھا سیٹوںپر بی جے پی کا قبضہ ہے مگر لوک سبھا الیکشن کے چند مہینے بعد ہی وہ اسمبلی انتخابا ت ہارنے لگی ہے، ایسے میں آگے بھی اس کی راہیں کانٹوں بھری نظر آنے لگی ہیں۔ بہار میں ہار کے بعد وزیراعظم نریندر مودی اپنی ہی پارٹی میں تنقیدیں جھیل رہے ہیں اور آگے اگر ان کی پارٹی ہاری تو ان کے لئے مزید مشکلیں پید اہوسکتی ہیں۔

آسام میں مہاگٹھبندھن کی آہٹ

    آسام میں لوک سبھا کی ۱۴سیٹیں ہیںجن میں سے ۷سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ اسے امید تھی کہ ۲۰۱۶ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں وہ جیت سکتی ہے مگر بہار کے بعد یہاں کے سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ بہار انتخابات کے رزلٹ آنے سے پہلے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے کانگریس کے ۹ممبران اسمبلی نے بی جے پی میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا مگراب حالات بدل رہے ہیں اور یہ لوگ سش وپنج میں نظر آرہے ہیں۔یہاں کانگریس کی سرکار ہے ۔اس بیچ کانگریس نے یہاں بھی مہاگٹھبندھن کے امکانات پر غور کرناشروع کردیا ہے اور وہ بہار کے تجربوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ترون گگوئی وزیر اعلیٰ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو آئندہ وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لئے امیدوار بنایا جائے۔ آسام میں کانگریس کی سرکار ہے اور مولانا بدرالدین اجمل کی اے آئی یوڈی ایف ایک اہم سیاسی قوت ہے۔ یہاں بی جے پی بنگلہ دیشی گھس پیٹھ کا معاملہ اٹھاتی رہی ہے اور ہندووں،مسلمانوں کے بیچ نفرت کی دیوار کھڑی کرتی رہی ہے۔ اس بار بھی وہ ایسے ہی حالات بنانا چاہتی ہے ۔ اب وزیراعلیٰ ترون گگوئی کا امتحان ہوگا کہ وہ ماحول کو کمیونل ہونے سے کیسے بچاتے ہیں۔  

مغربی بنگال میں نہیں گلنے والی دال

    آسام کی طرح مغربی بنگال سے بھی بی جے پی کو امیدیں تھیں۔ اس نے پہلی بار لوک سبھا انتخابات میں ۱۸فیصد تک ووٹ پایا تھا اور آسنسول ودارجلنگ کی سیٹوں پر قبضہ جمایا ۔جب کہ وہ ضمنی انتخابات میں ایک اسمبلی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی مگر اس کے بعد میونسپلٹی اور پنچایت انتخابات میں اسے کامیابی نہیں ملی۔یہاں مسلم ووٹ۲۷فیصد ہے جس کی اکثریت ترنمول کانگریس کے ساتھ ہے۔ ہندو ووٹ بھی اسے مل رہاہے، ایسے میں بی جے پی کو جیتنے کے لئے پچاس فیصد ہندووں کو اپنے ساتھ لانا ہوگا۔ اسی حکمت عملی کے تحت اس نے یہاں بنگلہ دیشی گھس پیٹھ، لوجہاد، بیف جیسے متنازعہ ایشوز کو اٹھایا مگروزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے انتہائی دانشمندی سے اس کی ہوا نکال دی۔ یہاں بی جے پی اگر اپنا کھاتا کھولنے میں کامیاب ہوگئی تو اسے اس کی جیت مانا جائے گا۔بنگال میں پیرجمانے کابی جے پی کا دیرینہ خواب فی الحال پوراہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ممتابنرجی ان دنوں نتیش کمار سے دوستی کرنے میں لگی ہوئی ہیں ۔ انھوں نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ان کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس بات کے پورے امکانات نظر آتے ہیں کہ مغربی بنگال کے آئندہ انتخابات میں نتیش کمار اور لالوپرساد یادو کی طرف سے ترنمول کانگریس کی حمایت کا اعلان کیا جائے۔  

کیرل میں بی جے پی کاکھاتا کھلنا مشکل

     مغربی بنگال کی طرح کیرل میں بھی بی جے پی کے راہیں انتہائی مشکل ہیں۔ یہاں روایتی طور پر کانگریس، کمیونسٹ اور انڈین یونین مسلم لیگ کے اثرات رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ’’مودی لہر‘‘کے باوجود یہاں بی جے پی اپنا کھاتا نہیںکھول پائی ہے۔ اب اسمبلی الیکشن میں کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہاں اس کے لئے ایک آدھ سیٹ جیتنا بھی بڑی بات ہے۔کیرل میں عام طور پر پانچ پانچ سال کے لئے کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیاں اقتدار میں آتی رہتی ہیں۔ فی الحال کانگریس کی حکومت ہے۔

جے للیتا گھاس نہیں ڈالیںگی

    تمل ناڈوبھی ان ریاستوں میں شامل ہے، جہاں بی جے پی کے اثرات برائے نام ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کے حق میں ماحول تھا پھر بھی وہ ۳۹میں سے صرف ایک سیٹ ہی جیت پائی تھی۔ اس بار اس کی کوشش تھی کہ ریاست کی وزیر اعلیٰ جے جے للیتا کے ساتھ اتحاد قائم کرے اور جے للیتا بھی اس کی جانب جھکتی نظر آرہی تھیں مگر بہار میں بی جے پی کی شکست کے بعد اس بات کے امکانات کم ہیں کہ بی جے پی اور اے ڈی ایم کے میں اتحاد قائم ہوسکے کیونکہ جے للیتا ہمیشہ اس پارٹی کے ساتھ جانا پسند کرتی ہیں جس کے اچھے دن ہوں۔ ویسے بھی انھیں اپنی ریاست میں جیت کے لئے کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں بس دو ہی سیاسی پارٹیاں بااثر ہیں۔ ایک ڈی ایم کے اور دوسری اے ڈی ایم کے۔ یہاں سیدھے طور پر انھیں دونوں پارٹیوں میں ٹکرائو ہوتا ہے۔ بی جے پی نے گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں پی ایم کے سے اتحاد قائم کیا تھا اور دونوں پارٹیوں کو ایک ایک سیٹیں ملی تھیں۔ باقی تمام جے للیتا کی پارٹی اے ڈی ایم کے نے جیت لی تھیں۔

 ۲۰۱۷ء بھی بی جے پی کے لئے مشکل سال ہوگ

ا

    اگلے چھ مہینوں میں جن ریاستوں میں انتخابات ہیں ان میں ایک پانڈیچری بھی ہے۔ یہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے اور اسمبلی کے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہیں لہٰذا یہاں ہار جیت سے زیادہ فرق نہیں پڑنے والا ہے مگر ۲۰۱۷ء میں کئی ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں جن میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش بھی شامل ہے۔ یہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست بھی ہے جس کا مرکز کی سرکار کے قیام میں بڑا رول رہتا ہے۔ یوپی کی ۸۰ میں سے ۷۱لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ یہاں سے خود وزیر اعظم نریندرمودی منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔ یہاں جیت اور ہار کے کچھ خاص معنی ہیں۔ بی جے پی ابھی سے یوپی میں اسمبلی الیکشن کی تیاری کررہی ہے۔ وہ کبھی رام مندر کا معاملہ اٹھاتی ہے تو کبھی بیف کے بہانے ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے کئی ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی متنازعہ بیانات دے کر عوام میں اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔ ریاست کی اکھلیش سرکار بھی اپنی مقبولیت کھوچکی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کو امیدیں نظر آرہی تھیں مگر اب جب کہ بہار اسمبلی کے نتائج سامنے آچکے ہیں اور حالیہ پنچائت الیکشن میں بی جے پی کو کراری ہار کا منہ دیکھنا پڑ چکا ہے، ایسے میں ریاست میں کیا ہوگا؟ یہ سوال بہت اہم ہوچکا ہے۔ چندروز پہلے تک بی جے پی کے اندر جو خوداعتمادی تھی وہ اب مفقود ہوچکی ہے۔دوسری طرف بی ایس پی ایک بار پھر توانا ہوکر ابھر رہی ہے۔

    یوپی کے ساتھ ہی اتراکھنڈ اور پنجاب میں بھی اسمبلی الیکشن ہے۔ اتراکھنڈ کی ۷۱رکنی اسمبلی میں کانگریس کے ۳۶اور بی جے پی کے ۲۸ممبران ہیں۔ کانگریس اقتدار میں ہے اور ہریش راوت وزیر اعلیٰ ہیں۔ بی جے پی کو امید تھی کہ آئندہ وہ یہاں کانگریس سے اقتدار چھین لے گی مگر اب بہار کے نتائج نے جس طرح سے ملک کے حالات پر اثر ڈالا ہے،اس میں بی جے پی کی راہیں مشکل ہوگئی ہیں۔ اتراکھنڈ سے قبل مغربی بنگال، آسام، کیرل اور تمل ناڈو کے انتخابات ہونگے جہاں بی جے پی کی جیت کے امکانات معدوم ہیں، ایسے میں تب تک بی جے پی کے لئے حالات مزید خراب ہوجائینگے۔ اسی کے ساتھ پنجاب میں بھی الیکشن ہوگا۔ جہاں بی جے پی اور اکالی دل کی ملی جلی سرکار ہے۔ یہاں ماحول ان دونوں پارٹیوں کے حق میں بالکل نہیں ہے۔ ریاست کے عوام میں زبردست مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور نشہ کی لت میں نوجوان ڈوبتے جارہے ہیں۔ بے کاری اور بیروزگاری میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے۔ اسی کے ساتھ ریاست میں ایک بار پھر علاحدگی پسندی کی تحریک دھیرے دھیرے اپنے بازو پھیلانے میں لگی ہوئی۔ ایسے میں بی جے پی اور اکالی دل کی واپسی کے امکانات بالکل نہیں ہیں۔جن دنوں یہاں اسمبلی انتخابات ہونگے انھیں ایام میں گوا اور منی پور میں بھی چنائو ہونگے۔           


۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 436