donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Farzi Degree Mamle Me BJP Aur AAP Dono Be Neqab


فرضی ڈگری معاملے میں بی جے پی اور ’’آپ‘‘ دونوں بے نقاب


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    دلی کے وزیر قانون کے بعد اب کیا اسمرتی ایرانی کا نمبر ہے؟ کیا فرضی ڈگری کے معاملے میں نریندر مودی کی انتہائی قریبی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کی کرسی جانے والی ہے؟ کیا اسمرتی ایرانی کو بچانے کے لئے مودی خود سامنے آئیں گے؟کیا جتیندر تومر کے خلاف قانونی کارروائی اور اسمرتی ایرانی کو بچانے کی کوشش سنگھ پریوار کے دوہرے معیار کی غماز نہیں ہے؟اس وقت مرکزی سرکار اسمرتی ایرانی کو بچانے میں لگی ہے حالانکہ دہلی کی ایک عدالت نے مانا ہے کہ اسمرتی کا معاملہ پہلی نظر میں سماعت کے لائق لگتا ہے کیونکہ انھوں نے الگ الگ وقت میں الگ الگ ڈگریوں کا ذکر اپنے حلف ناموں میں کیا ہے۔ مرکزی انسانی وسائل کی ترقی کی وزیر اسمرتی ایرانی کی طرف سے پیش انتخابی حلف نامے کے معاملے میں دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے درخواست قبول کرتے ہوئے اگلی سماعت کے لئے 28 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔ الزام ہے کہ انتخابی حلف نامے میں ایرانی نے تعلیم سے متعلق جھوٹی معلومات دی تھی۔ درخواست گزار کے وکیل کے مطابق اپریل 2004 میں لوک سبھا انتخابات کے لئے اپنے حلف نامے میں ایرانی نے کہا تھا کہ انہوں نے 1996 میں دہلی یونورسٹی کے ا سکول آف کارسپونڈینس سے بی اے کیا ہے جبکہ 11 جولائی 2011 کو گجرات سے راجیہ سبھا چناؤ کے لئے ایک دوسرے حلف نامے میں انہوں نے کہا کہ ان کی سب سے زیادہ تعلیمی قابلیت اسکول آف کارسپونڈینس سے بی کام پارٹ ون ہے۔

بی جے پی اور ’’آپ‘‘ ایک حمام میں بے لباس

    ڈگری تنازعہ میں گھری مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کے گھر کے باہر عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے پرزور احتجاج کیا ۔وہیں خواتین کانگریس نے بی جے پی دفتر کے باہر مظاہرہ کیا۔ دانوں جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ اسمرتی کا استعفی لیا جائے۔ اس سے پہلے بی جے پی کے لوگ عام آدمی پارٹی سرکار کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں کہ وزیر قانون جتیندر تومر سے استعفیٰ لیا جائے لہٰذا اب باری تھی بی جے پی کے خلاف مظاہرے کی۔تومر کے خلاف جس پولس نے کارروائی میں جلد بازی دکھائی وہ مرکزی سرکار کے تحت ہی آتی ہے۔ فرضی ڈگری معاملے میں مودی سرکار کا دوہرا رویہ ہے۔سوال یہ ہے کہ دلی کے وزیر قانون کو تو گرفتار کرلیا گیا اورمودی کے وزیروں کو ایسے ہی الزامات میں کیوں بخشا جارہا ہے؟ کیا اروند کجریوال کو پھنسانے کے لئے یہ سب کھیل کھیلا جارہاہے؟اسی کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہوگیا ہے کہ اروند کجریوال جو نظر آتے ہیں وہ ہیں نہیں؟ انھوں نے ایمانداری کی جو ڈھونگ رچی تھی ،اس کی سچائی اب بے نقاب ہورہی ہے؟ حال ہی میں ان کی سرکار کے وزیر قانون کی گرفتاری ہوئی اور باوجود اس کے کجریوال نے جس طرح سے ان کا ساتھ دیا، وہ سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ وزیر قانون کی فرضی ڈگریوں کا معاملہ اب پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے ۔باوجود اس کے کجریوال اب بھی انتہائی ڈھیٹ بن کر سچائی کو جھٹلانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ادھر فرضی ڈگری کے الزام میں گرفتار کئے گئے دہلی کے سابق وزیر قانون جتیندر سنگھ تومر کی مشکل بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ تومر نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے رام منوہر لوہیا اودھ یونیورسٹی، فیض آباد سے گریجویشن کیا ہے لیکن یونیورسٹی نے اس بات سے انکار کر دیا کہ اس کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ ہے۔حالانکہ پہلے ان پر صرف ایل ایل بی کی فرضی ڈگری رکھنے کا الزام تھا جو بہار کی بھاگلپور یونیورسٹی کی ہے مگر اب تو بی اے کی ڈگری بھی فرضی نکلی ہے۔ڈاکٹر رام منوہر لوہیا یونیورسٹی کے رجسٹرار کے چیمبر میں تومر کی ڈگری اور باقی دستاویزات کی جانچ دہلی پولیس کی ٹیم نے کی، اور یونیورسٹی نے ان کے ریکارڈ کو سیل کر کے محفوظ رکھ لیا ہے۔ اس پوری جانچ کو سیکریٹ رکھا گیا ہے۔ڈاکٹر رام منوہر لوہیا یونیورسٹی کے میڈیا انچارج ڈاکٹر ایس این چرن شکل نے صحافیوں کو بتایا کہ قانونی پابندیوں کی وجہ سے ہم جانچ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن یونیورسٹی اب بھی آر ٹی آئی کے جواب میں دی گئی 22 جنوری کی اپنی رپورٹ پر قائم ہے۔ اس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ جتیندر سنگھ تومر کی ڈگری اور مارکشیٹ کے جو دستاویزات اس کے ساتھ لگے تھے، وہ فرضی تھے اور یونیورسٹی میں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ 1988 میں بی ایس سی کی مارکشیٹ پر جتیندر سنگھ تومر کا رول نمبر 333331 چھپا تھا، جو یہاں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔جس ساکیت پی جی کالج، ایودھیا کا طالب علم جتیندر سنگھ تومر کو بتایا گیا تھا، اس کے پرنسپل ڈاکٹر سریندر ناتھ دوبے اور کالج کے انفارمیشن فسر ڈاکٹر اودے سنگھ نے بتایا کہ 1988 سے 1992 تک کے سارے ریکارڈ جانچ کرنے کے بعد پایا گیا کہ جتیندر سنگھ تومر نام کے کسی طالب علم کا رجسٹریشن ہی نہیں ہوا ہے۔آر ٹی آئی کے جواب میںکہا گیا کہ جب اسٹوڈنٹ کا نام ہی یہاں نہیں لکھا گیا ہے، تو اس کے سرٹیفکیٹ کیسے جاری ہوسکتے ہیں۔

سخت دفعات کے تحت گرفتاری

    فرضی ڈگری کے معاملے میںدہلی کے وزیر قانون اور ممبر اسمبلی جتندر سنگھ تومر کو گرفتار کرکے پہلے حوض خاص تھانے میں پوچھ تاچھ کی گئی تھی۔تومر کے خلاف دھوکہ دہی، مجرمانہ سازش سمیت آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا تھا۔تومر پر آئی پی سی کی دفعہ 420، 467، 468، 471، 120 بی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ جعل سازی، دھوکہ دہی اور مجرمانہ سازش سے جڑی دفعات ہیں۔اس کے بعد انھیں جانچ کے لئے ان سبھی جگہوں پر لے جایا گیا جہاں کی ڈگری ہونے کی بات انھوں نے کی تھی۔

گرفتاری پر سیاست

    عام آدمی پارٹی (آپ) نے تومر کی گرفتاری کو بدلے کی کارروائی قرار دیا ہے۔ پارٹی لیڈر سنجے سنگھ نے کہا کہ مودی حکومت پارٹی کے لیڈروں کو جیل سے ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے۔'آپ' لیڈر سنجے سنگھ نے اس پر کہا ہے کہ، جتیندر تومر کا پورا معاملہ کورٹ میں ہے۔ مودی حکومت ہمیں مقدمے اور تھانے سے ڈرا رہی ہے، جسے ہم کچھ بھی نہیں سمجھتے نہیں۔ وہ تھانے میں ہمیں ایک بار نہیں ہزار بار بھیجیں۔ ہماری جنگ بدعنوانی کے خلاف جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کسی نوٹس کے جتیندر تومر کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے۔انہوں نے مرکزی حکومت پر بدلے کی کارروائی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی اورمودی کے وزیر مملکت رام شنکر کٹھیریا پر بھی فرضی ڈگری کے الزامات ہیں، کیا دہلی پولس میں ہمت ہے کہ انہیں تھانے لے جائے ۔ غور طلب ہے کہ اسمرتی ایرانی پر حلف نامہ میں اپنی تعلیم کے بارے میں غلط معلومات دینے کا الزام ہے اور یہ معاملہ بھی عدالت میں پہنچ چکا ہے۔دوسری طرف، دہلی کے پولیس کمشنر بی ایس بسسی نے وزیر قانون تومر کی گرفتاری پر کہا کہ ساری کارروائی قانونی عمل کے مطابق ہوئی ہے۔ دہلی پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں قانونی کارروائی مکمل کر لی گئی تھی۔ الزام ہے کہ وزیر قانون کے خلاف ثبوت ہونے کے باوجود وہ پوچھ گچھ میں تعاون نہیں کر رہے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ دہلی بار کونسل نے 11 مئی کو دہلی پولیس کے پولیس نے بتایا کہ دہلی بار کونسل نے 11 مئی کو دہلی پولیس کے سامنے جتیندر تومر کے گریجویشن اور ایل ایل بی کی ڈگری کے جعلی ہونے کے شک کی شکایت درج کرائی تھی۔اس کے بعد دہلی پولیس نے بار کونسل کی شکایت پر الگ الگ ٹیمیں بھیج کر متعلقہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اس کی جانچ کرائی۔ جانچ سے پتہ چلا کہ تومر کے سرٹیفیکٹ کے نمبر کسی دوسرے طالب علم کو الاٹ کئے گئے تھے۔دہلی پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں تومر کی گریجویشن اور ایل ایل بی دونوں ہی ڈگریوں کے فرضی ہونے کی بات سامنے آئی اور اسی وجہ سے آگے کی جانچ کے لئے انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ متعلقہ یونیورسٹیوں نے بھی تومر کی ڈگری کے فرضی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

ڈگری فرضی سے ہے؟

    بہار کی بھاگلپور یونیورسٹی، نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا تھاکہ جتیندر سنگھ تومر کا سرٹیفکیٹ جعلی ہے اور اس ادارے کے ریکارڈ میں اس کا وجود نہیں ہے۔جب کہ تومر نے اسی یونیورسٹی سے لا کی تعلیم حاصل کرنے کا دعوی کیا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی ڈگری 100 فیصد صحیح ہے۔یونیورسٹی نے عدالت کے سامنے اپنی جانچ رپورٹ رکھ کر کہا کہ عبوری سرٹیفکیٹ میں دیا گیا سیریل نمبر ریکارڈ میں تومر کی جگہ کسی دوسرے شخص کا نام ظاہر کرتا ہے۔حالانکہ اسی سرٹیفکٹ کی بنیاد پر انھوں نے بارکونسل میں اپنا رجسٹریشن کرایا تھا اور اب تک پرکٹس کرتے رہے ہیں۔

کجریوال کی ایمانداری پر سوال

    خود کو ایمانداری کا ٹھیکیدار سمجھنے والے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال فرضی ڈگری تنازعہ میں پھنسے اپنے سابق وزیر قانون جتیندر سنگھ تومر کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ کیجریوال نے تومر کو کلین چٹ دیتے ہوئے معصوم قرار دیا۔ایک ویب سائٹ کو دیئے انٹرویو میں کیجریوال، فرضی ڈگری پر گزشتہ دنوں دی گئی تومر کی صفائی سے پوری طرح مطمئن نظر آئے ۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ان کا جواب پڑھے، تو انہیں معصوم ہی مانے گا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ تومر کچھ دنوں میں ثبوت سب کے سامنے رکھ دیں گے۔کیجریوال نے کہا کہ یہ تنازعہ اٹھتے ہی انہوں نے تومر سے صفائی مانگی تھی۔ ہم نے سوچا تھا کہ اگر تھوڑی بھی گڑبڑ ہوگی، تو ہم انہیں چھوڑنے کے لئے کہہ دیں گے، لیکن ان کا جو جواب ہے، اسے پڑھ کر آپ بھی کہیں گے کہ وہ بے قصور ہیں۔کیجریوال نے کہا کہ تومر کے خلاف سازش چل رہی ہے۔ ان کے پاس دو ڈگریاں ہیں۔پہلے ایک ڈگری کے اوپر سوال اٹھایا گیا اور جب انہوں نے حقیقت ثابت کی تو ان کی دوسری ڈگری پر تنازعہ کھڑا کیا جا رہا ہے۔کیجریوال نے تومر کے جواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا،  بی جے پی کے جس شخص نے آر ٹی آئی داخل کی ہے، اس کی کاپی اور جواب تومر نے مجھے دکھائے۔آر ٹی آئی میں سوال کیا گیا ہے کہ کیا اس رول نمبر پر تومر کو ڈگری ملی ہے؟ جب جواب نہ میں ملا، تو میڈیا نے تومر کی ڈگری کو جعلی قرار دیا۔کیجریوال نے اس دوران ان کی حکومت کے کاموں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے میڈیا پر جم کر بھڑاس نکالتے ہوئے کہا کہ، میڈیا کے ایک بہت بڑے حصے نے عام آدمی پارٹی کو ختم کرنے کے لئے سپاری لے رکھی ہے۔ ان ٹی وی والوں نے انتخابات سے پہلے آپ کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اب بھی ہمیں برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ عوام بہت سیانے ہیں۔ اس بار 66 سیٹیں آئی ہیں، اگلی بار 70 نشستیں آئیں گی۔حالانکہ کجریوال جس قسم کی باتیں کہہ رہے ہیں ،انھیں سن کر تو بس یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

نیتائوں کی ڈگریاں سوالوں کے گھیرے میں

    دہلی کے وزیر قانون جتیندر تومر فرضی ڈگری کیس کوئی نیا نہیں ہے۔ ماضی میں بی جے پی لیڈر ورون گاندھی نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس لندن کے کسی کالج کی ڈگری ہے مگر یہ دعویٰ صحیح ثابت نہیں ہوا۔ اسی طرح مغربی بنگال کی موجودہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی بھی دعویٰ کرتی تھیں کہ انھوں نے ایسٹ جارجیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے اور اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر بھی لکھتی تھیں مگر اس نام کی کسی یونیورسٹی کا وجود نہیں پایا گیا۔ بنگال کے کمیونسٹ لیڈروں نے جب انھیں اس کے لئے نشانہ بنانا شروع کیا توا نھوں نے خود کو ڈاکٹر لکھنا بند کردیا۔حالانکہ نریندر مودی کابینہ کے دو وزیروں کی ڈگریاں بھی سوالون کے گھیرے میں ہیں۔ مودی کی انتہائی قریبی مانی جانے والی اسمرتی ایرانی خود کو بی اے پاس بتاتی رہی ہیں جب کہ انھوں نے جس اسکول میں پڑھا ہے اس سے ملی جانکاری میڈیا میں آئی کہ وہ ہائی اسکول فیل ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ وزارت تعلیم انھیں کے ماتحت آتا ہے۔ اسی طرح مرکزی سرکار میں وزیر مملکت رام شنکر کٹھیریا کی ڈگری کو بھی فرضی بتایا جارہا ہے اور یہ معاملہ کورٹ میں ہے۔۲۰۱۰ء میں بی ایس پی لیڈر کنور چند نے رام شنکر کٹھیریا کے مبینہ فرضی سرٹیفکیٹ کے معاملے میں دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ راجستھان کے بی جے پی ایم ایل اے امرتلال مینا کی بیوی شانتا دیوی پر الزام ہے کہ انہوں نے حال ہی میں فرضی ڈگری دکھا کر گاؤں کی سرپنچ کا انتخاب لڑا تھا۔راجستھان میںجو 1872 سرپنچ منتخب گئے ہیں، ان میں سے 746 کے خلاف فرضی ڈگری اور مارکشیٹ لگانے کے الزام ہیں۔ ’’آپ‘‘ کی طرف سے بجا طور پر سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مودی کے منتریوں کو اسی طرح کیوں نہیں گرفتار کیا جارہاہے جس طرح دہلی کے وزیر قانون کو گرفتار کیا گیا۔ حالانکہ اسی کے ساتھ اروند کجریوال کی ایمانداری اور سیاست میں شفافیت لانے کے دعوے کی پول بھی کھل رہی ہے ۔ ان کے ایک اور ایم ایل اے سریندر سنگھ پر فرضی ڈگری رکھنے کا الزام ہے اور پولس کمشنر ولفٹننٹ گورنر کو شکایت کی گئی ہے۔ادھر ایک نیا تنازعہ مہاراشٹر کے وزیرآبپاشی ببن رائو سونیکر کا بھی کھڑا ہوگیا ہے جو ہر الیکشن میں اپنی تعلیمی لیاقت مختلف لکھواتے رہے ہیں۔یہ سوال بار بار اٹھ رہا ہے کہ فرضی ڈگری کے معاملے میں بی جے پی سرکار کا رویہ دوہرا کیوں ہے؟ اسے کجریوال کے منتری تو نظر آگئے مگر اپنے منتری کیوں دکھائی نہیں دے رہے ہیں؟ آخر جیسا برتائوتومر کے ساتھ کیا گیا ویسا ہی اسمرتی ایرانی کے ساتھ کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟ مہاراشٹر کے وزیر آبپاشی کو بھی اسی طرح سے کیوں گرفتار نہیں کیا جارہا ہے؟کیا مودی اور کجریوال دونوں ’’ایمانداری‘‘ کے سکے کے دورخ ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 524