donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Ikhlaqi Jung Harte Ja Rahe Hain Arvind Kejriwal


اخلاقی جنگ ہارتے جارہے ہیںاروند کجریوال


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    اروند کجریوال کے وزیر قانون جعلی ڈگری معاملے پھنس چکے ہیں۔انھیں کی پارٹی کے ایک سابق ممبر اسمبلی کا کہنا ہے کہ ایسی ڈگریاں تو ان مزید آٹھ دس ممبران اسمبلی میں کے پاس بھی ہیں۔ ادھر دلی پولس عام آدمی پارٹی کے ۲۱ممبران اسمبلی کے خلاف کیس دائر کرنے جارہی ہے۔ظاہر ہے کہ تمام باتیں محض الزام کی حد تک نہیں ہیں بلکہ درست ہیں اور اس کجریوال کی غلطیوں کا نتیجہ ہیں جو پورے ملک کو کرپٹ اور خود کو ایماندار بتاتے رہے ہیں۔انھوں نے اپنی پارٹی میں ٹکٹ بانٹنے میں بھی اصولوں کو بالائے طاق رکھا تھا اور اسی وجہ سے ان کے جیتے ہوئے ممبرا اسمبلی اصلیت اب عوام کے سامنے آرہی ہے۔ حالانکہ ان نیتائوں کے حلقے کے لوگ ان کی اصلیت سے پہلے ہی واقف تھے۔ اسی کے ساتھ کجریوال نے لیفٹننٹ گورنر کے بہانے مرکزی سرکار سے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔حالانکہ اب دلی میں وزیر اعلیٰ سے زیادہ لفٹننٹ گورنر کی چلے گی، یہ واضح ہوچکا ہے دلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے اور کجریوال بھی سمجھ چکے ہیں کہ ان کی حدیں کیا ہیں؟ مگر لگتا نہیں کہ وہ خاموش بیٹھنے والے ہیں اور گورنر کے بہانے مرکزی سرکار کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ان کا الزام تھا کہ دلی میں ’’ٹرانسفر انڈسٹری چل رہی ہے۔ یہاں ملائی دار عہدوں پر فائز ہونے کے لئے لاکھوں اور کروڑوں کی رشوت دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف دلی کی بات نہیں ہے بلکہ پورے بھارت میں ایسا ہی چلتا ہے مگر اس انڈسٹری میں گورنر کو کھینچنا غیر مناسب ہے۔ یقینا یہ سب افسران کی سطح پر ہوتا ہے۔ نیتا بھی اس دھندے میںملوث ہوتے ہیں مگر گورنر جیسے عہدے کو اس سے دور ہی رکھنا چاہئے۔ کجریوال نے گورنر کو مکیش امبانی کا دلال بھی کہا تھا  اور اس کا سبب صرف یہ تھا کہ نجیب جنگ کچھ مدت کے لئے ریلائنس کے ملازم رہ چکے ہیں اور کمپنی کے مشیروں میں شامل رہ چکے ہیں۔ حالانکہ ملازمت کرنا اور ایجنٹ رہنا ،دو الگ الگ باتیں ہیں۔ کجریوال کی زبان درازی یہاں تک بڑھی کہ انھوں نے کہہ دیا ہے کہ ایل جی کو اپنے عہدے پر رہنے کے لئے کروڑوں دینے پڑتے ہیں۔انھوں نے چیف سیکریٹری کی بحالی کو لے کر بھی ایشو کھڑا کیا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دلی کے وزیر اعلیٰ نے جو کچھ بھی کیا اس کے لئے کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، جب کہ اگر ان کے یا ان کی پارٹی کے خلاف کسی قسم کا الزام لگتا ہے تو وہ فوراً ثبوت مانگتے ہیں۔ ان کے لیڈر کمار وشواس پر امیٹھی کی کسی عورت کے ساتھ جنسی رشتے کا الزام لگا تو کیجریوال کو ثبوت مانگتے دیکھا گیا۔ ظاہر ہے کہ اب ان کا دوہرا چہرہ سامنے آنے لگا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پچھلے دنوں پارٹی کے اندر جو گھماسان تھا  مچا تھا اس سے باہر آنے کی کوشش میں انھوں نے لفٹننٹ گورنر کے ساتھ جنگ چھیڑ دی ہے۔ اگر وہ کرپشن کے خلاف لڑتے ہیں اور دلی کے حالات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو اچھی بات ہے اور اس کی تعریف کی جانی چاہئے مگر قانون کا ایک دائرہ ہے اور اس دائرے میں رہ کر ہی انھیں اپنا کام کرنا ہوگا۔ ویسے بھی دلی ایک غیر مکمل ریاست ہے اور اس میں گورنر کی زیادہ چلتی ہے۔ ایسے میں کورٹ نے بھی ان کا دائرہ واضح کردیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ بڑے فیصلے لیتے وقت انھیں گورنر کا اعتماد میں لینا ہوگا۔

کورٹ کا فیصلہ

     افسران کی تقرری اور منتقلی کے حقوق کو لے کر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ کے درمیان چل  رہی جنگ میں فی الحال لفٹننٹ گورنر کی ہی چلے گی۔ تقرری اور منتقلی میں حتمی فیصلہ انھیں کا  ہوگا۔ہائی کورٹ اوراس سے پہلے سپریم کورٹ سے بھی کیجریوال حکومت کو جھٹکا لگا۔دہلی حکومت ہائی کورٹ کے جس تبصرہ کو بنیاد بنا کر مرکز پر نشانہ ساتھ رہی تھی، اسے سپریم کورٹ نے فوری طور پر کیا گیا تبصرہ قرار دیا ہے۔ معلوم ہو کہ ہائی کورٹ نے گزشتہ 25 مئی کے فیصلے میں حکومت دہلی کے حقوق میں کمی کرنے والی مرکز کی اطلاع کو مشکوک بتایا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے دہلی کی انسدادبدعنوانی شاخ کو حق دینے والے ہائی کورٹ کے حکم پر فی الحال روک لگانے سے انکار کر دیا۔غور طلب ہے کہ 25 مئی کو دہلی ہائی کورٹ نے رشوت خوری کے الزام میں جیل گئے دہلی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل کی ضمانت عرضی مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے دہلی پولیس کے ملازمین کو گرفتار کرنے کا حق ہے۔ تنازعہ اس پربڑھا کہ مرکزی حکومت نے 21 مئی کو نوٹیفکیشن جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دلی کی انسداد بدعنوانی ٹیم کو مرکزی حکومت کے ملازمین کے خلاف کارروائی کا حق نہیں ہے۔ ایسے میں مرکز نے ہائی کورٹ کے 25 مئی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج دے دی تھی۔

سپریم کورٹ میں یوں چلا معاملہ

    سالیسٹر جنرل رنجیت کمار نے سپریم کورٹ کی ایک بنچ کے سامنے دلی ہائی کورٹ کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہائی کورٹ نے مرکز کی بات سنے بغیر ہی فیصلہ دے دیا۔اتنا ہی نہیں، مرکز کی 21 مئی کی اطلاع پر بھی تبصرہ کیا جبکہ وہ مسئلہ اس کے سامنے تھا ہی نہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگنی چاہئے۔اس بنچ نے فوری طور پر روک کاحکم دینے سے منع کرتے ہوئے، دہلی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ اب دہلی کا جواب آنے کے بعد ہی اس پر سماعت ہوگی۔فی الحال کورٹ کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت کسی بھی تجویز کو ایل جی کے پاس بھیجے گی اور وہی آخری فیصلہ کریںگے

     اروند کیجریوال حکومت کو دہلی ہائی کورٹ سے بھی جھٹکا لگا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ دہلی میں نوکر شاہوں کی تقرریوں پر آخری فیصلے کا حق لیفٹننٹ گورنر کے پاس ہے، مقامی حکومت تقرری کے لئے ایل جی کو مشورہ دے سکتی ہے جبکہ آخری فیصلے کا حق ایل جی کے پاس ہے۔ کورٹ نے حکم نوکر شاہوں کی تقرریوں پر وزارت داخلہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیے ہیں۔کورٹ نے کہا کہ ایل جی اگر حکومت کی تجویز سے مطمئن نہیں تو وہ تجویز واپس سرکارکو بھیج سکتے ہیں۔ دہلی حکومت تقرری سے متعلق تجویز گورنر کو بھیج سکتی ہے لیکن مشورہ ماننا یا نہ ماننا ایل جی کی مرضی ہے۔ کورٹ نے مرکز کی اطلاع پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دہلی حکومت کو تقرری کے لئے ایل جی سے مشورہ لینا ہو گا۔اس سے پہلے سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگانے کا مطالبہ کرنے والی مرکز کی درخواست پر دہلی حکومت سے تین ہفتوں کے اندر اندر جواب مانگا ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے میں ’’آپ‘‘ حکومت کے اختیارات کو کم کرنے والی نوٹیفکیشن کو مشتبہ کہا گیا تھا۔ 21 مئی کی اپنی نوٹیفکیشن میں مرکز نے دہلی حکومت کی اینٹی کرپشن شاخ کو اپنے حکام کے خلاف فوجداری مقدمات میں کارروائی کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ گورنر اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔

اب کجریوال کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

    حقوق کو لے کر جاری جنگ میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے ڈبل جھٹکا کھانے کے بعد اروند کیجریوال اپنے قدم پیچھے ہٹالیںگے، اس میں سیاسی تجزیہ کاروں اورماہرین کو شک ہے۔سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اروند کیجریوال کی فطرت ہار ماننے والوں کی نہیں ہے۔ وہ کورٹ سے ملے ڈبل جھٹکے سے بھی جلدباہر آجائینگے اور اپنی آگے کی حکمت عملی طے کریں گے۔اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے اقتدار میں آنے پر دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلوانے کا وعدہ کیا تھا، جسے لیکر وہ جھکنے کو تیار نہیں دکھ رہی ہے۔ایل جی نجیب جنگ سے کیجریوال حکومت کا مسلسل الجھنا یا مرکزی وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کو لے کر اسمبلی کا دو روزہ ہنگامی اجلاس بلانا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مرکز اور دہلی حکومت میں تکرار جاری رہے گی۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق لوک سبھا انتخابات میں محض 4 سیٹیں جیتنے والی عام آدمی پارٹی کی نظر اب دلی کے اقتدار کے ذریعے پورے ملک میں جڑیں جمانے کی ہے۔’’آپ‘‘ کنبے میں پڑی پھوٹ اور اس دوران ہوئی پارٹی کی فضیحت کے بعد دہلی کے وزیر اعلی اب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں۔ دہلی اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں مودی حکومت پر شدید حملہ ان کی دور رس حکمت عملی کا ہی حصہ تھا۔اس دوران انھوں نے نجیب جنگ کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک تیر سے دو نشانے پورے کرنے کی کوشش کی۔ایک طرف جہاں انہوں نے جنگ کے ذریعے نریندر مودی حکومت کو گھیرا، وہیں دیگر غیر بھاجپا حکومت والی ریاستوں سے اتحاد کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس دوران مرکزی حکومت پر تانا شاہی والا رویہ اپنانے کا الزام بھی لگایا۔ماہرین کا خیال ہے کہ ہوم سکریٹری والے معاملے کو بدعنوانی سے جوڑنا بھی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھا، جس کے ذریعے سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ مودی حکومت بھی تبادلہ پالیسی میں پھیلی بدعنوانی سے اچھوتی نہیں ہے اور ایسے ہی بدعنوان انتظامیہ سے آپ کی حکومت دلی والوں کو نجات دلانا چاہتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دلی والوں کے حقوق کوبہانہ بنا کیجریوال آنے والے وقت میں مرکز پر مسلسل حملہ آور رہیں گے۔

    انسدادبدعنوانی شاخ  کے دائرہ اختیار کے معاملے میں دہلی حکومت کو سپریم کورٹ سے کرارا جھٹکا لگنے کے بعد عام آدمی پارٹی کی جانب سے آئے رد عمل میں کہا گیا ہے کہ ہم اس فیصلے سے قطعی مایوس نہیں ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی حکومت میں نقل و حمل کے وزیر گوپال رائے نے کہا کہ اس فیصلے سے ہم مایوس نہیں ہیں،اگر ہم سے جواب مانگا گیا ہے ، تو ہم اپنا موقف ضرور رکھیں گے۔ادھردہلی حکومت اور گورنر کی جنگ میں اب جسٹس کاٹجو بھی کود گئے ہیں۔حالانکہ ان کا بیان ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ‘‘ جیسا ہے۔سابق جج کا کہنا ہے کہ دہلی کے گورنر نجیب جنگ مرکزی حکومت کے چمچے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گورنر کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دینا چاہئے۔ ان کے مطابق دہلی حکومت کاموقف ایک دم صحیح ہے۔گورنر پوری طرح سے مرکز کی شہہ پر کام کر رہے ہیں، جو غلط ہی نہیں پوری طرح سے غیر آئینی ہے۔ایسے حالات میں ایک منتخب حکومت کو کام کرنا مشکل ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 490