donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Jaton Ko Kota Mila To Poore Mulk Me Baghawat Phoot Padegi


پٹیل، جاٹ، گوجر، مراٹھے،ہندوستان میں بغاوت کے نئے آتش فشاں


جاٹوں کو کوٹا ملا توپورے ملک میں بغاوت پھوٹ پڑے گی


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    بھارت میںاب ریزرویشن کے نام پر بغاوت پھوٹ سکتی ہے؟ کیا ریزرویشن کے بہانے خانہ جنگی کی تیاری چل رہی ہے؟ کیا یہ مسئلہ مودی سرکار کے لئے دردسر بننے والا ہے؟یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ ہریانہ میں جس طرح سے جاٹوں نے ریزرویشن کے نام پر پورے شمالی ہند کو معطل کرکے رکھ دیا ویسا ہی آندولن اگر پٹیل، گوجر اور مراٹھے شروع کریں تو ہندوستان ایک آتش فشاں بن سکتا ہے۔یہ تمام برادریاں وہ ہیں جو ماضی میںچرواہوں جیسی زندگی گزارتی رہیں، پھر زراعت پیشہ بن گئیں اور اس کے بعد ان کے افراد فوجیوں کے کردار میں نظر آئے مگر باوجود اس کے انھیں اعلیٰ ذات والوں نے نیچ سمجھا۔ آج ان کے پاس دولت کی کمی نہیں مگر سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ ہیں اور سرکاری وغیر سرکاری سیکٹر میں دوسروں کا مقابلہ نہیں کرپارہے ہیںلہٰذا ریزرویشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یہ تمام برادریاں ماضی میں پرتشدد تحریک چلاچکی ہیں اور اگر ایک ساتھ ان کی تحریک شروع ہوجائے تو ملک میں عوامی بغاوت کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ پچھلے دنوںاو بی سی میں ریزرویشن کی مانگ کو لے کر جاٹوں نے ہریانہ میں کہرام مچایا۔ ریاست کے بیشتر ضلعے فوج اور پولیس کے حوال کر دئے گئے۔ مختلف شہروں میں بھڑکے تشدد میں ۱۸افراد کی جانیں گئیں۔ دس خواتین کی عصمت دری ہوئی جبکہ سینکڑوں لوگ ہسپتالوں میں زخمی پڑے ہیں۔ جاٹ تحریک کا اثر ایسا ہوا کہ شمالی ہندوستان کا ایک بڑا حصہ آہستہ آہستہ ملک کے باقی حصے سے کٹ گیا۔حالات اس دقت مسئلہ مزید سنگین ہوگئے جب یوپی اور دیگر ریاستوں کے جاٹوں نے بھی ہریانہ کے جاٹوں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ریزرویشن کو لے کر ملک کو پہلی بار اس طرح کی پریشانی سے گزرنا پڑ ۔ گزشتہ چند برسوں میں مختلف برادریوں نے ریزرویشن کی مانگ کو لے کر حکومتوں کی ناکوں میں دم کیا ہے۔ راجستھان میں کچھ دن پہلے گوجروں نے وسندھرا راجے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے تو چند ماہ پہلے گجرات کے پاٹیدار بھی ایک 22 سالہ نوجوان ہاردک پٹیل کی قیادت میں ریزرویشن کی مانگ کو لے کر سڑکوں پر اتر آئے تھے۔اس سے پہلے مراٹھے بھی آندولن چلا چکے ہیں اور آندھرا پردیش میں بھی ریزرویشن کی تحریک پورے جنوبی ہند کو متاثر کرچکی ہے۔ ان برادریوں کے علاوہ برہمن اور راجپوت بھی غربت کی بنیاد پر ریزرویشن کی مانگ کر رہے ہیں۔

جاٹوں کی خونیںتحریک

    ہریانہ میں جاٹوں نے ایسی تحریک چھیڑی کہ ہریانہ اور مرکز کی حکومتیں ہی نہیں بلکہ عوام الناس کا جینا بھی دوبھر ہوگیا۔اس جنگ کا آغاز تب ہوا جب گزشتہ سال جولائی میں ہریانہ اور پنجاب ہائیکورٹ نے جاٹوں کو ہریانہ میں او بی سی کوٹے میں دیے جا رہے خاص ریزرویشن کو ختم کر دیا تھا۔ کورٹ کے اس فیصلے نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا کیونکہ اس سے پہلے مارچ کے مہینے میں ہی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی نوکریوں میں یو پی اے حکومت کی طرف سے جاٹوں کو او بی سی میں ریزرویشن دینے کے حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔ لوک سبھا انتخابات سے کچھ وقت پہلے ہی یو پی اے حکومت نے جاٹوں کو مرکزی سروسیز میں ریزرویشن دینے کا راستہ صاف کیا تھا لیکن انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے آنا فانا میں کیا گیا یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی دہلیز پر پہلی بار میں ہی دم توڑ گیا۔ ایسے میں ہریانہ میں جاٹوں کو ڈبل جھٹکا لگا ریاست میں ریزرویشن کا فائدہ تو ان کے ہاتھوں سے گیا ہی مرکز میں بھی او بی سی میں ریزرویشن کی امید ٹوٹ گئی۔اب وزیر اعلی منوہر لال کھٹر جاٹوں کے مطالبات پر غور کرنے اور انہیں اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینے کا وعدہ کر چکے ہیں لیکن جاٹوں کو ان کی بات پر یقین نہیں ہے۔

 پٹیلوں کا ریزرویشن کامطالبہ

    گزشتہ اگست میں گجرات کی پاٹیدار کمیونٹی کا ایک 22 سالہ نوجوان ہاردک پٹیل اپنی برادری کے لئے ریزرویشن کی مانگ کو لے کر تحریک کے راستے چلا تو اسے گجرات کی آنندی بین حکومت بہت سنجیدگی سے لینے کے موڈ میں نہیں تھی لیکن احمد آباد میں 25 اگست کی ریلی میں جب 20 لاکھ سے زیادہ پٹیل کمیونٹی کے لوگ پہنچے تو پورے ملک کی نگاہیں اس جانب اٹھ گئیں۔ہاردک نے گجرات کے پٹیلو ںکو الگ سے ریزرویشن دینے کی مانگ کو لے کر پوری پٹیل کمیونٹی کو متحرک کر دیا تھا۔ ہاردک اور دیگر پٹیل نیتائوں نے دو ٹوک مطالبہ کیا کہ یا تو انہیں بھی او بی سی کی طرح سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن دیا جائے یا دیگر برادریوں کو او بی سی سے باہر کیا جائے۔اگرچہ پہلی نظر میں یہ بات کسی کے گلے نہیں اتری کہ گجرات کا سب سے خوشحال اور بیس فیصد کی آبادی والی پٹیل طبقہ  بھی ریزرویشن کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ پاٹیدار کمیونٹی سڑکوں پراتری تو ریاست میں تشدد کا دور شروع ہو گیا۔ دیگر ریاستوں کے مقابلے وزیر اعلی آنندی بین پٹیل نے اس تحریک کو زیادہ سمجھداری اور سختی کے ساتھ نمٹایا۔آج ہاردک پٹیل غداری کے کیس میں جیل میں بند ہے تو پاٹیدار تحریک کی چنگاری اندر اندر سلگ رہی ہے اور کسی بھی وقت شعلہ زن ہوسکتی ہے۔ممکن ہے گجرات اسمبلی انتخابات سے قبل یہ تپش دینے لگے اور اس کی گرمی بی جے پی سرکار کو پگھلنے پر مجبورکردے۔

راجستھا ن کاگوجر آندولن

     ریزرویشن کی مانگ کو لے کر کس طرح پورے ملک میں ہلچل پیدا کی جا سکتی ہے اس کی ایک جھلک دکھائی تھی راجستھان کی گوجر تحریک نے۔ جس نے ایس ٹی کوٹے میں ریزرویشن کی مانگ کو لے کر راجستھان میں ریل کی پٹریوں پر قبضہ جما لیا تھا۔ راجے رجواڑے والے راجستھان میں گوجرخود کو اقتصادی اور سماجی طور سے پسماندہ مانتے ہیں۔ راجستھان کی آبادی میں گوجر تقریبا 11 فیصد ہیں۔ یوں تو راجستھان میں گوجر او بی سی میں آتے ہیں لیکن سرکاری ملازمتوں میں ان کی تعدادتناسب سے کم ہے۔ اس کے پیچھے گوجر او بی سی میں مینا اور جاٹ برادریوں کی موجودگی کو مانتے ہیں۔ جو انہیں ان کے حصے کا حق ملنے نہیں دیتیں۔ اس لئے آرمی کے ریٹائرڈ کرنل کروڑی سنگھ بیسلا کی قیادت میں گوجر راجستھان میں کئی بار آندولن کر چکے ہیں۔ گوجروں کی تحریک کی تپش ایسی ہوتی ہے کہ اس سے پورا ملک جھلسنے لگتا ہے۔ دہلی ممبئی ریلوے لائن پر قبضہ جمائے گوجر اپنی ہر تحریک سے حکومت کو اربوں کی چوٹ پہنچا دیتے ہیںاورکروڑوں کی آبادی پریشان ہوتی ہے ۔ گوجر تحریک کا آغاز ویسے تو 2006 میں ہوا تھا جب ریاست میں ایس ٹی کوٹے میں ریزرویشن کی مانگ کو لے کر ہزاروں گوجروں نے دوسہ سے بھرت پور تک ریل کی پٹریوں پر ڈیرہ جما لیا تھا۔ پولیس نے سختی دکھائی تو گوجر تشددپر اتر آئے اور پولیس فائرنگ میں 40 افراد کی موت ہو گئی۔ اس وقت کی وسندھرا راجے حکومت نے گوجروں کو الگ سے پانچ فیصد ریزرویشن کی یقین دہانی کراکر معاملے کو ٹھنڈا کر دیا تھا لیکن کورٹ میں یہ فیصلہ بدل گیا جس کے بعد اگلے سال 2007 میں یہ چنگاری پھر سلگ اٹھی اور گوجر پھر پٹریوں پر بیٹھ گئے۔ 23 مارچ 2007 میں پولیس کی کارروائی میں 26 لوگوں کی موت ہو گئی۔ 2008 میں بھی یہ تحریک شروع ہوئی تو وسندھرا حکومت کی مشکلیں بڑھ گئیں۔گزشتہ سال 2015 میں بھی ایک بار پھر یہ تحریک شروع ہوئی اور گوجروں نے پٹریوں پر قبضہ جما لیا۔ اس بار پھر وسندھرا سرکار اور بزرگ کروڑی سنگھ بیسلا آمنے سامنے تھے لیکن اس بار معاملہ پہلے کے مقابلے کچھ امن کے ساتھ نمٹا۔ حکومت اور گوجروں میں سمجھوتہ ہو گیا۔ وسندھرا حکومت نے قانون بنا کر گوجروں کو خصوصی پسماندہ طبقے کے طور پر دوسروں سے الگ 5 فیصد ریزرویشن دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسے ریاستی اسمبلی میں پاس کرکے بل کی شکل دیا جانا ہے۔

جنوبی ہند تک پہنچی ریزرویشن کی آگ

    عام طور پر ذات پر مبنی ریزرویشن کی چنگاری شمالی بھارت کی ریاستوں میں ہی سلگتی رہتی تھی لیکن کچھ دن پہلے ہی آندھرا پردیش میں کاپو کمیونٹی نے اچانک اس وقت پورے ملک کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی جب گوداوری ضلع میں پرتشدد ہجوم نے رتناچل ایکسپریس کے پانچ کمپارٹمنٹ کو آگ کے حوالے کر دیا۔ ہجوم نے پولیس پر بھی حملہ کیا جس میں 15 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے مشرقی گوداوری ضلع میں قومی شاہراہ نمبر 16 کو بھی بند کردیا۔ آندھرا پردیش کی کاپو برادری او بی سی کا درجہ دیے جانے کی مانگ کو لے کر طویل مدت سے تحریک چلا رہی ہے۔ اسمبلی انتخابات سے پہلے تیلگودیشم پارٹی کے رہنما چندرابابو نائیڈو نے بھی کاپو برادری سے ریزرویشن کاوعدہ کیا تھا مگر اب تک اس پر عمل نہیں ہواہے۔چند مہینے قبل کاپو مظاہرین ٹرین کو آگ لگاچکے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن میں توڑ پھوڑ کرچکے ہیں اور پولس پر حملے کرچکے ہیں۔

مراٹھا ریزرویشن

    ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کی آگ کی آگ مہاراشٹر تک بھی پہنچ چکی ہے۔ یہاں بھی مراٹھا برادری نے الگ ریزرویشن کی مانگ کو لے کر حکومت کی پریشانی بڑھا دی ہے۔ جھگڑے کی وجہ یہ ہے کہ مہاراشٹر میں گزشتہ کانگریس ۔این سی پی حکومت نے ریاست میں مراٹھا برادری کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں 16 فیصد ریزرویشن کا انتظام کیا تھا۔ اب کچھ دن پہلے ہائیکورٹ نے اسے رد کر دیا ہے۔ اس کے توڑ کے لئے مہاراشٹر حکومت آرڈیننس لائی تو بامبے ہائیکورٹ نے اس پر بھی روک لگا دی۔ ویسے مراٹھا کوئی ایک قوم نہیں کئی نسلوں کا گروپ ہے، جس میں راجپوت، چھتریہ وغیرہ آتے ہیں۔یہ آگ بھی اندر اندر سلگ رہی ہے اور کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہے۔

اعلیٰ ذاتوں کو بھی ریزرویشن چاہئے

    پہلے تو پسماندہ برادریاں ہی ریزرویشن کا مطالبہ کرتی تھیں مگر اب اعلیٰ ذاتوں کی طرف سے بھی اس قسم کے مطالبے سامنے آرہے ہیں۔ آل انڈیا سرو برہمن سبھا کے قومی صدر سریش مشرا نے کہا کہ ریزرویشن میں اقتصادی بنیاد لاگو ہونا چاہئے۔ ذات پر مبنی ریزرویشن سے کچھ ہی قومیں اور اس میں بھی کچھ ہی لوگ ریزرویشن کا فائدہ لے رہے ہیں۔ ضرورت مندوں کو آج بھی ریزرویشن کا فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔ مشرا نے کہا کہ حکومت نے جلد کوئی فیصلہ نہیں لیا تو ہم بھی تحریک کے لئے سڑکوں پر اتریں گے۔ مشرا نے پریس مذاکرات میں کہا کہ برہمن گزشتہ 15 سال سے ریزرویشن کی مانگ کر رہے ہیں، لیکن حکومتوں نے کمیشن قائم کرنے اور یقین دہانی  سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم 27 مارچ کو جے پور میں ریزرویشن سے محروم قوموں کے ملک بھر سے آئے نمائندوں کے ساتھ مل کر آگے کی حکمت عملی طے کریں گے۔ 2009 سے ہی راجستھان کی حکومتوں نے 14 فیصد ریزرویشن اعلی ذات کو دینے کے لئے کہا ہے۔ حکومتیں ہمیں ریزرویشن دینے کی بات پر 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دینے کے آئین کا حوالہ دیتی ہیں۔ مشرا نے کہا کہ ریزرویشن کا جائزہ لیا جانا چاہئے یا آئین میں ترمیم کرکے ریزرویشن سے محروم قوموں کو بھی ریزرویشن دینا چاہئے۔ حکومت نے اعلی ذات قوموں کو ریزرویشن دینے کے لئے آئینی ترمیم کی جانب قدم نہیں بڑھا تو ہم بھی مجبورا ہریانہ کے جاٹ اور گجرات کے پاٹیداروں کی طرح آندولن کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 517