donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Congress Sarkar Ki Ghaltiyon Ko Durust Karenge Narender Modi


بے گناہ مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات


کیا کانگریس سرکار کی غلطیوں کو درست کریںگے نریندر مودی؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    کسی کا خاندان تباہ ہوگیا تو کسی کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا۔ کسی کا روزگار چلا گیا تو کسی کے گھر میں پریشانیوں نے ڈیرا ڈال دیا۔ ان نوجوانوں پر الزام تھا کہ وہ ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ (سیمی) سے وابستہ ہیں اور ملک وسماج مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے خلاف کریک ڈائون کانگریس اور بی جے پی دونوں کی سرکاروں نے کیا تھا مگر آج کورٹ نے یہ انھیں باعزت بری کرکے یہ بتادیا کہ ان پرلگائے گئے الزامات سراسر جھوٹے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان مسلم نوجوانوں کی زندگی جس طرح حکومت، انتظامیہ اور پولس نے تباہ کی ہے اسے واپس کیا جاسکتا ہے؟ ان کی زندگی کے قیمتی ماہ وسال جو سلاخوں کے پیچھے گزرے ہیں انھیں لوٹایا جاسکتا ہے؟ حال ہی میں کرناٹک کی ایک عدالت نے سیمی سے وابستگی کا الزام جھیل رہے ۱۷مسلم نوجوانوں کو بری کردیا اور انھیں قصووار ماننے سے انکار کردیا۔ یہ سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جن کہ زندگیاں بری طرح برباد کی گئیں۔ حالانکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ جب مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات سے رہائی ملی ہے بلکہ پہلے بھی وہ بری ہوتے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر میں بہت سے نوجوان بری ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے اکثر پر کئی کئی جھوٹے کیس ڈال دیئے گئے ہیں جن کے سبب ان کی رہائی نہیں ہوپائی ہے اور انھیں ضمانت ملنے میں بھی اڑچن آرہی ہے۔

۱۷مسلم نوجوان بری ہوئے  

    ہبلی کی ایک عدالت نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مبینہ طور پر شامل رہے کالعدم تنظیم سیمی کے 17 مشتبہ ارکان کو گزشتہ دنوںباعزت بری کر دیا۔ بری ہونے والوں میں احمد آباد میں دہشت گردانہ حملوں کے مبینہ اہم سازشی اور سابق سیمی سربراہ صفدر ناگوری بھی شامل ہے۔ مارچ 2008 میں اندور سے گرفتار ناگوری کو کئی دیگر دہشت گردانہ معاملات سے تعلق بتایا گیا تھا اور فی الحال وہ جیل میں ہے۔ بری ہونے والے دیگر مسلم نوجوان میں شامل ہیں یحیٰ کاموکٹی جوکہ کیرل کے ملاپورم کا رہنے والا ہے،اللہ بخش یداوت،سید صادق سمیر،قمرالدین ناگوری، شبلی اور رضی الدین ناصر۔ ہبلی کے ڈی سی پی (قانون نظام) نے بتایا کہ ناگوری سمیت سیمی کے مشتبہ ارکان کو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی عدالت نے بری کر دیا کیونکہ پراسیکیوشن ان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ ان ارکان کو 2008 میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش کے مختلف حصوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔ سات سال پرانے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے ضلع سیشن جج گوپال کرشن نے معاملے کی تحقیقات کرنے والے جرم کی تحقیق کے سیکشن (سی آئی ڈی) کے خلاف سخت تبصرہ بھی کیا۔ عدالت نے حکم میں کہا کہ پراسیکیوشن ،ملزمان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے میں قابل رحم طریقے سے ناکام رہا ہے۔ غور طلب ہے کہ پولیس نے ریاست کے مختلف اضلاع سے 2008 میں ان لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان لوگوں کی گرفتاری کو اس وقت بی جے پی کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی کامیابی بتایا تھا۔ سی آئی ڈی نے ان لوگوں کی گرفتاری کے بعد کہا تھا کہ یہ تمام سیمی کے سلیپر سیل کے رکن ہیں اور ان کے تار پاکستان سے بھی منسلک ہیں۔ پولیس نے ان لوگوں کے پاس سے بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد، ڈیٹونیٹر اور جہادی ادب بھی وغیرہ برآمد کئے جانے کا دعوی کیا تھا۔ پولیس نے کہا تھا کہ یہ لوگ ریاست کے شمالی اور ساحلی علاقوں میںو اردات انجام دینے کی کوشش میں لگے تھے۔ سی آئی ڈی نے 7 سال بعد اس معاملے میں چارج شیٹ داخل کیا تھا۔ کیس کے تمام 17 ملزم اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں سے تین ڈاکٹر ہیں جبکہ ایک ایم بی بی ایس کے آخری سال کا طالب علم ہے۔ دو ملزم انجینئر ہیں۔

اپیل پر غور کرے گی حکومت

    ایک سینئر سرکاری افسر نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کی کاپی ملنے کے بعد حکومت اس کے قانونی پہلوؤں پر گفتگو کرے گی۔ اس کے بعد فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے پر غور کیا جائے گا۔ ان لوگوں کی گرفتاری کے وقت سی آئی ڈی کے افسر رہے آلوک کمار نے عدالت کے فیصلے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ یہ مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے تبادلے کے بعد اس معاملے کو صحیح طریقے سے نہیں دیکھا گیا جس کی وجہ سے استغاثہ عدالت میں اپنا موقف نہیں رکھ پایا۔ کمار اب بنگلورمیں اضافی پولیس کمشنر ہیں۔

بے گناہی کے باوجود سلاخوں کے پیچھے

    حالانکہ عدالت کے اس فیصلے کے بعد بھی صرف دو ملزم ہی رہا ہو پائیں گے جبکہ باقی 14 کی رہائی گجرات اور مدھیہ پردیش  کے  دوسرے زیر التوا کیسوں کے سبب نہیں ہوپائے گی۔ جبکہ ایک ملزم سید صادق گزشتہ تین سال سے ضمانت پرہے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد صادق نے کہا کہ اس کیس میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب ان کا وکیل عدالت میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ پولیس نے مبینہ گرفتاری کے دن، وقت اور جگہ میں تبدیلی کی۔ پولیس نے فون کر مجھے سی آئی ڈی کے دفتر بلایا تھا لیکن عدالت کو بتایا کہ مجھے کافی دور تک پیچھا کرنے کے بعد بنگلورمیں ٹاؤن ہال کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔غور طلب ہے کہ ملزموں کے دفاع کے حق کو بھی متاثر کرنے کی کوشش ہوئی اور ایک وکیل اسماعیل جگلر کے دفتر کو فروری 2008 میں کچھ لوگوں نے جلا دیا تھا۔ اس معاملے میں اب تک کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ان میں کچھ لوگ پہلے بھی پولس کے الزامات سے بری ہوچکے ہیں مگر ان لوگوں کی رہائی ممکن نہیں ہوئی ہے کیونکہ پولس کی طرف سے بہت سے جھوٹے مقدمات ان پر ڈال دیئے گئے ہیں۔مدھیہ پردیش کے راج گڑھ ضلع کے نرسنگ گڑھ میں ایک عدالت نے صفدر ناگوری سمیت اسٹوڈنٹ اسلامی موومنٹ آف انڈیا( سیمی) کے5ارکان کو نرسنگ گڑھ شہر اور ارد گرد کے دیہات میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے معاملے میں پہلے ہی بری کرچکی ہے۔ نرسنگ گڑھ کے ایڈیشنل سیشن جج ڈی کے ناگلے نے اپنے ایک فیصلے میں سیمی کے کارکنان صفدرناگوری ، عامل پرویز ، شبلی، محمد علی اور قمرالدین کو نرسنگ گڑھ شہر اور ارد گرد کے دیہات میں2008میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے معاملے میں بری کردیا تھا۔پولیس نے ان پانچوں سیمی ارکان کے خلاف ماحول خراب کرنے اور مختلف طبقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے الزامات لگائے تھے لیکن نرسنگ گڑھ کے ایڈیشنل سیشن کورٹ میں پیشی اور سماعت کے دوران8میں سے کسی بھی گواہ کی طرف سے ان کے خلاف بیان نہ دییے جانے کے وجہ سے عدالت نے انہیں بری کردیا۔ پبلک پراسکیوٹر دنیش شرما کاکہنا تھا کہ استغاثہ نے اس معاملے میں8لوگوں کو گواہ بنایا تھا۔ شرما نے کہا کہ مبینہ طور پر ان لوگوں پر الزام تھا کہ انہوں نے نرسنگ گڑھ شہر اور ارد گرد کے دیہات میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو طول دینے کیلئے میٹنگیں کی تھیں۔ لیکن سماعت کے دوران گواہوں نے اس طرح کی کسی بھی معلومات سے انکار کردیا۔

مسلم نوجوانوں پرجھوٹے الزامات کی بھرمار

    ملک میں اب تک جن لوگوں کو سیمی سے تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ان میں بہت سے کورٹ کے ذریعے بری کئے جاچکے ہیں کیونکہ ان پر پولس کے ذریعے لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ سال 2014میں کئی نوجوانوں کو کورٹ نے بری کیا تھا۔ ان میں سیمی پر پابندی عائد کئے جانے کے وقت جن لوگوں کو مختلف الزامات میں پکڑا گیا تھاان میں حیدرآباد کے بھی کچھ نوجوان تھے جو گزشتہ 30۔ ستمبرکو بری کئے گئے۔ اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) پر مرکزی حکومت کی جانب سے امتناع عائد کرنے کے بعد درج کئے گئے مقدمات میں سابق سیمی صدر اطہر قریشی اور جنرل سکریٹری احمد حسین کو یہاں کی مقامی عدالت نے بری کردیاتھا۔ 28 ستمبر 2001 ء میں سیمی پر امتناع کے بعد ملک بھر میں سیمی ارکان پر مقدمات درج کئے گئے تھے اور اس سلسلہ میں حیدرآباد پولیس نے بھی تنظیم کے ارکان پر مقدمہ درج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔ 29 ستمبر2001 ء کو چادر گھاٹ پولیس نے اس وقت کے سیمی کے صدر اطہر قریشی، احمد حسین جنرل سکریٹری اور مولانا محمد نصیرالدین کے فرزند مقیم الدین یاسر کے علاوہ جاوید امین کو گرفتار کیا تھا، اس کیس میں صرف اطہر قریشی اور احمد حسین پر مقدمہ چلایا گیا جبکہ مقیم الدین یاسر طویل عرصہ تک اندور مدھیہ پردیش جیل میں محروس رہنے اور جاوید امین مفرور رہنے کے باعث ان دونوں کو مقدمہ سے علحدہ کردیا گیا۔ نامپلی کریمنل کورٹ کے 14 ویں ایڈیشنل چیف میٹرو پولیٹن نے وکیل دفاع مسٹر عظیم الدین ایڈوکیٹ اور خالد سیف اللہ کی پیروی کے بعد اپنے فیصلہ میں دونوں ملزمین کو الزامات سے بری کردیاتھا۔ واضح رہے کہ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پولیس ساؤتھ زون مسٹر ایس اوما پتی نے اس کیس میں شکایت درج کروائی تھی۔

اس رات کی صبح کب ہوگی؟

    پولس کی مسلم دشمنی اور جھوٹے الزامات کے سبب بہت سے مسلم خاندان بر باد ہوچکے ہیں جن میں حیدرآباد کے مولانا نصیرالدین کا خاندان بھی شامل ہے جس کے چھ ممبران کو پولس نے جھوٹے الزامات میں پھنسایا تھا۔ مولانا نصیرالدین اور ان کے تین بیٹوں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا نیز ان کی بہن کا ایک پوتا بھی گرفتار کیا گیا اور اسے پہلے بنگلور کے ایک کیس میں پھنسایا گیا اور پھر دہلی کے ایک کیس کا الزام بھی اس پر ڈال دیا گیا۔ حال ہی میں جن نوجوانوں کو ہبلی کی عدالت نے بری کیا ہے ان میں مولانا کا بیٹا رضی الدین یاسر بھی شامل ہے۔ مولانا کا خاندان مظلومیت اور پولس دشمنی کی ایک مثال بن گیا ہے۔ حالانکہ پورے ملک میں اس قسم کے بے شمار معاملات سامنے آرہے ہیں جہاں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا تھا اور اب وہ رہائی پارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی ملک میں اقلیتوں کے ساتھ اس قسم کا برتائو ملک کے نظام قانون وانصاف کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ایسے میں اقلیتی طبقات ملک کے صاحبان اقتدار اور پولس وانتظامیہ پر کیسے بھروسہ کریں؟بات صرف سیمی تک محدود نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں مسلمانوں کو پھنسایا جانا اور پھر دس پندرہ سال جیلوں میں گزارنے کے بعد ان کی رہائی عام بات ہے۔یہی سبب ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہمارے سسٹم پر انگلی اٹھائی جارہی ہے۔اس صورت حال کے لئے بی جے پی سے زیادہ کانگریس کی سرکار ذمہ دار رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا اور چکی کے دوپاٹوں کے بیچ مسلم نوجوان کب تک پستے رہیں گے؟


رابطہ

Email:ghaussiwani@gmail.com
Facebook/Ghaus Siwani

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 452