donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Kamiyab Hoga BJP Ka Beef Card


کیا کامیاب ہوگا بی جے پی کا بیف کارڈ؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا گجرات کی گائے بی جے پی والوں کی ماں ہے اور ناتھ ایسٹ کی گائے سوتیلی ماں ہے؟ یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ بی جے پی کی گجرات سرکار نے پچھلے دنوں ایک قانون بنایا کہ اگر ریاست میں کسی نے گائے کو ذبح کیا تو اسے عمر قید کی سزا ہوگی جب کہ نارتھ ایسٹ میں بی جے پی کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ یہاں کی ریاستوں میںاگر بی جے پی کی سرکار بنی تو گوکشی بند نہیں کی جائے گی اور بیف کھانے کی عام چھوٹ ہوگی۔ یہاں یہ بتانا بھی برمحل ہے کہ ناگالینڈ، منی پور اور گوا میں بی جے پی کی سرکاریں ہیں، جہاں حکومت کی سرپرستی میں گئوکشی جاری ہے اور حکومت کی جانب سے گوشت کی سپلائی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔اسی طرح کیرل کے ضمنی چنائو میں بی جے پی کے ایک امیدوار نے اعلان کیا کہ اگر اس کی جیت ہوئی تو وہ بیف کی حصول یابی کو یقینی بنائے گا۔سوال یہ ہے کہ آخر یہ دوہرا رویہ کیوں؟ گجرات ، مہاراشٹراوراترپردیش کی گایوں سے عقیدت ہے تو نارتھ ایسٹ اور گوا کی گایوں سے محبت کیوں نہیں؟ کیا گائے اب بی جے پی کے لئے محض ووٹ دینے والی ایک جانور ہے جس کے ذبیحے کی مخالفت کرکے وہ کچھ ریاستوں میں اقتدار حاصل کرتی ہے اور بعض ریاستوں میں اس کے قتل کی حمایت کرکے ووٹ حاصل کرتی ہے؟

کیا کہتے ہیں بی جے پی کے لیڈران؟  

    بھارتیہ جنتا پارٹی نے کھلم کھلااعلان کیا ہے کہ اگر نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں وہ اقتدار میں آئے گی تو گائے کاگوشت بند نہیں کرے گی۔ واضح ہوکہ نارتھ ایسٹ کی تین ریاستوں میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ عیسائی یا قبائلی ہیں جو بیف کھانا پسند کرتے ہیں۔ میگھالیہ، میزورم اور ناگالینڈ میں عیسائیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ تمام لوگ گوشت کھاتے ہیں۔ بی جے پی نے اتر پردیش میں حکومت بنانے کے بعد وہاں مذبحوں پر کارروائی شروع کی ہے، جہاں گائے نہیں بلکہ بھینسوں کے ذبیحے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے پارٹی کی امیج گوشت مخالف بن گئی ہے۔ بی جے پی پہلے سے بھی گئو کشی اور بیف کی مخالفت میں رہی ہے۔اس کی وجہ سے شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی قائدین کو اپنی پارٹی کے دفاع میں بیان بازی کرنی پڑ رہی ہے۔ ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق، بی جے پی کی میگھالیہ یونٹ کے سیکرٹری جنرل ڈیوڈ کھارستی نے ایک بیان جاری کرکے کہاکہ ،اگر ہماری پارٹی حکومت بناتی ہے تو یوپی میں گوشت پر لگی پابندی کا ناگالینڈ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ یہاں حالات کچھ الگ ہیں۔دوسری طرف میزورم بی جے پی کے ریاستی صدر جی وی ہلونا نے کہا کہ، اس علاقے میں زیادہ تر آبادی عیسائیوں کی ہے تو یہاں پر گئو کشی پر پابندی نہیں لگے گی۔ اس کے علاوہ میگھالیہ میں بی جے پی سربراہ سیبون لنگوہ نے کہا کہ یوپی میں بھی ان مذبحوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے جو غلط طریقے سے چل رہے ہیں، وہاں بھی گئو کشی پر پابندی نہیں ہے۔ واضح ہوکہ میگھالیہ اور میزورم میں کانگریس کی حکومت ہے۔اس بیچ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کے اعزاز میں منعقدہ ڈنر کے بعد پی ایم مودی نے حیران کرنے والا بیان دیتے ہوئے کہاکہ ملک میں گوشت کی دستیابی سستے اور بڑی مقدار میں یقینی کرائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آخر گوشت بھی کھانے کی اشیاء میں سے ایک ہے، اسے لے کر کسی طرح کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ وزیراعظم کے اس بیان سے قبل یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔

 گوکشی کی مخالفت میں مسلمان

    جہاں ایک طرف بی جے پی بیف کارڈ کھیل رہی ہے اور کہیں بیف کی مخالفت کرکے ہندو ووٹ حاصل کررہی ہے تو کہیں گوکشی کی حمایت کرکے عیسائی ووٹ لینے کے لئے کوشاں ہے ،وہیں دوسری طرف مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی گوکشی کی مخالفت میں اتر آیا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ گوکشی کا پوری طرح بند ہونا ہی مناسب ہے کیونکہ اکثر وبیشتر اسی بہانے سے مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں اور سیاست کی جاتی ہے۔ چنانچہ خانقاہ برکاتیہ ، ماہرہ شریف،ایٹہ کے سجادہ نشیں مولانا سید نجیب حیدر نوری کا ایک بیان میڈیا میں آیا ہے کہ جس میں مسلمانوں سے گائے کا گوشت نہ کھانے کی اپیل کی گئی ہے۔مبینہ طور پر انھوں نے کہا کہ اللہ گوشت کھانے سے خوش نہیں ہوتا،وہ تو نماز، روزے اور زکوۃ چاہتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ آپ کا پڑوسی جس کی عبادت کرتا ہے، اس کا گوشت نہ کھائیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں زائرین عرس کے لئے گوشت اور روٹی کا اہتمام کیا جاتا تھا مگر اس بار سبزی اور روٹی کا انتظام کیا گیا کیونکہ یوگی حکومت کی طرف سے مذبحوں کے بند کرانے سے گوشت دستیاب نہیں ہورہا ہے۔اس سے پہلے اجمیر شریف درگاہ کے دیوان سید زین العابدین نے بھی ایک بیان میں مسلمانوں سے گائے کا گوشت نہ کھانے کی اپیل کی تھی اور حکومت ہند سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک قانون بناکر پورے ملک میں گوکشی پر پابندی عائد کرے۔ گزشتہ دنوں شیعہ پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے بھی بیف بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ’’شیعہ گئورکھشا دل‘‘ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔  

یہ عقیدت ہے یا سیاست؟

    بی جے پی اور بھگوا جماعتوں کی طرف سے بیف پر سیاست ہوتی رہی ہے،اس بیچ یہ خبر بھی آئی کہ پورے بھارت میںمرکزی سرکار گائے، بیل اور بچھڑے کے گوشت پر پابندی لگانے کے لئے بل لانے کی تیاری میں ہے مگر جس طرح سے وہ اس مسئلے پر سیاست کرتی رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ وہ کسی قانون کے ذریعے اس پر مکمل پابندی کا اعلان کرے گی۔ اصل میں اس مسئلے پر مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں کے اندر تشویش پائی جارہی ہے اور وہ گوکشی کو ملک مخالف ہی نہیں بلکہ عوام پر بوجھ کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ زیادہ مدت نہیں بیتی جب مہاراشٹر اور ہریانہ میں گائے، بیل اور بچھڑے کے ذبیحے اور گوشت کی فروخت وغیرہ پر پابندی لگادی گئی ہے جس کی مسلمانوں کی طرف سے کچھ خاص مخالفت نہیں کی گئی مگر عیسائیوں، دلتوں اور آدیباسیوں کے ساتھ ساتھ ہندووں کے روشن خیال طبقے نے مخالفت کی۔ کیرل میں سیاسی لیڈروں اور عام لوگوں نے بیف کھاکر اپنا احتجاج درج کرایا اور حکومت کو انتباہ دیا کہ وہ بیف پر پابندی نہ لگائے کیونکہ لوگ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں، یہ فیصلہ کرنا اس کا کام نہیں ہے۔ وہ عوام پر کھانے پینے کی عادات کو چھوڑ دے۔ اسی طرح بی جے کی حکومت والی گوا میں عیسائیوں کا احتجاج اس قدر بڑھا کہ خود حکومت کو پڑوسی ریاستوں سے گوشت منگواکر کولڈ اسٹوریج کے ذریعے فروخت کرانا پڑا۔ 

معیشت کے لئے نقصاندہ

    بھارت میں بیف کھانے والوں کا طبقہ بہت بڑا ہے۔ بیف میں گائے، بیل اور بچھڑے کا گوشت شامل ہے۔ بھارت کی پندرہ سے زیادہ ریاستوں میں اس وقت بھی اِس گوشت پر پابندی ہے۔ ان میں اترپردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، دلی ،ہریانہ اور مہاراشٹرشامل ہیں۔گوکشی پر ہریانہ میں دس سال اور مہاراشٹر میں سات سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔  حالانکہ کرناٹک، کیرل، بہار، مغربی بنگال اورناتھ ایسٹ کی ریاستوں میں اب بھی گائے کے گوشت پر پابندی نہیں ہے۔کیرل میں بیف کا مطلب گائے اور بھینس دونوں کا گوشت ہے اور یہاں بیف کھانا کوئی مذہب سے منسلک مسئلہ بھی نہیں ہے۔کیرل میں بہت سے ہندو ایسے ہیں جو نہ صرف بیف کھاتے ہیں بلکہ یہ ان کا پسندیدہ میٹ بھی سمجھا جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت بنگال کی بھی ہے۔کیرالہ سی پی ایم یوتھ ونگ کے اجیت پی کا کہنا ہے کہ ، میں ایک ہندو ہوں۔میں بھی بیف کھاتا ہوں۔ مجھے اپنی پسند کی چیزیں کھانے کی آزادی ملنی چاہئے۔ 

    گوکشی کو بند کرنے کے حکومت کے ممکنہ فیصلے سے مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائیوں، آدیباسیوں، دلتوں اور ہندووں کے بعض طبقات میں مایوسی ہے۔ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ملک میں بیروزگاری بڑھے گی کیونکہ بھارت میں لاکھوں افراد کی روزی، روٹی کا تعلق بیف کے کاروبار سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت گوشت اکسپورٹ کرنے والے ملکوں میں سر فہرست ہے۔ علاوہ ازیں ملک کے غریب لوگوں کو کم قیمت میں ایسی غذا حاصل ہوجاتی ہے جس میں متعدد قسم کے وٹامنس پائے جاتے ہیں۔ ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ اترپردیش میں گوشت بندی کے بعد کیا صورت حال ہے۔ حکومت کے گوشت بندی کے قدم کو دلت ، او بی سی اور غریب مخالف بھی مانا جارہا ہے کیونکہ جانوروں کو پالنے کا کام یہی طبقے کرتے ہیں۔ اگر جانوروں کے ذبیحے بند ہوگئے تو جانور پالنے والے دلتوں، پچھڑوں اور غریبوں سے جانور کوئی کیوں خریدے گا؟یہاں یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ راجستھان ملک کی پہلی ایسی ریاست ہے جہاں گائے کے تحفظ اور گئو سیواکے لئے ٹیکس لگایا گیا ہے۔ راجستھان ملک ہی نہیں دنیا میں اپنی طرح کی پہلی ریاست ہے۔ جس صوبے میں ہزاروں بچے قلت تغذیہ کے سبب مرجاتے ہیں، جہاں بہت سی زندگیاں کم سنی میں شادی کے سبب برباد ہوجاتی ہیں، جہاں عوام کے لئے اب تک پانی کا ٹھیک طریقے سے انتظام نہیں ہوپایا ہے وہاں ’’گئو سیواٹیکس‘‘ بوالعجبی نہیں تو کیا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 525