donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Khatam Ho Jayegi Congress

 

کیا ختم ہوجائے گی کانگریس؟

 

مگر اس کا متبادل کیا ہے؟

 

 غوث سیوانی، نئی دہلی

کیا اب ٹوٹ جائے گی کانگریس؟ کیا اب اس کی کبھی واپسی نہیں ہوگی؟ گاندھی جی جو کانگریس کو ختم کئے جانے کی بات کرتے تھے ،اب عوام نے ان کا یہ سپنا پورا کردیا ہے؟ آج یہ سوال اس لئے پوچھے جارہے ہیں کیونکہ کانگریس کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی ہار سے ہمکنار ہونا پڑا ہے۔ جس قدرسیٹیں اسے اب ملی ہیں پہلے کبھی نہیں ملی تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب اس کے کرتوتوں کی سزا ہے ۔ وہ جب اقتدار میں رہتی ہے تو اسے ملک کے غریبوں اور مڈل کلاس کا خیال نہیں رہتا۔

اس کے وزیر لوٹ مار اور گھوٹالوں میں لگے رہتے ہیں۔ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھول جاتی ہے۔ مہنگائی اور غریبی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ وہ عوام اور ان کی مجبوری کا مذاق اڑاتی ہے۔ اس کے وزیر کہتے ہیں کہ چھ سو روپئے ،میں ایک خاندان کا مہینے بھر کا خرچ چل سکتا ہے اور دس روپئے میں ایک شخص پیٹ بھر کر تین وقت کھاسکتا ہے۔ جہاں منتریوں کے ماہانہ چائے کا خرچ کروڑوں روپئے بنتا ہو وہاں اس قسم کی باتوں کا کیا مطلب ہے؟ عوام نے اسے اسی کی سزا دی ہے۔ جب کرپشن کے خلاف تحریک چلتی ہے تو کانگریس کے منتری مذاق اڑاتے ہیں اور سب سے بڑے کرپٹ کو بڑی وزارت دی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی کے نام پر جس طرح سے کانگریس کے دور میں ستایا گیا اس طرح کسی دوسری سرکار میں ستایا گیا۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں کانگریس کا خراب مظاہرہ کیا کانگریس کے خاتمے کی جانب قدم ہے یا وہ اگلے الیکشن میں مزید طاقتور ہوکر ابھرے گی؟ سونیا اور راہل گاندھی کے خلاف پارٹی میں بغاوت ہوگی یا کانگریسی اب بھی ان کے وفادار بنے رہیں گے؟ پارٹی کو راہل چلاتے رہیں گے یا اسے طاقتور بنانے کے لئے اب پرینکا گاندھی سامنے آنے والی ہیں؟ جو خاندان کانگریس کو بار بار اقتدار تک پہنچاتا رہا ہے اور بغیر کام کئے وہ پارٹی امیدواروں کو ووٹ دلاتا رہا ہے ، کیا اب اس کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے یا وہ مزید قوت حاصل کرسکتا ہے؟ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کانگریسی تب ہی تک اس خاندان کا احترام کرتے ہیں جب تک کہ انھیں اقتدار دلاتا رہے اور بغیر محنت ووٹ دلانے کا کام کرتا رہے لیکن جیسے ہی اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے ان کی وفاداری بھی شک کے دائرے میں آنے لگتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کانگریسی جو سونیا اور راہل کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لئے بے چین رہتے ہیں ایسا محبت میں نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ یہ خاندان انھیں اقتدار دلاتا ہے اور ووٹ دلانے کا کام کرتا ہے۔ کانگریسیوں کے دل میں اس خاندان کا کوئی احترام نہیں کیونکہ جب جب کسی نیتا کو اس خاندان سے فائدہ ہونا بند ہوا ہے اس نے بغاوت کی ہے۔ اس کی پوری تاریخ موجود ہے۔ 


کانگریس کا قیام ملک کی آزادی کے لئے ہوا تھا۔ جب ملک آزاد ہوگیا تو گاندھی جی کا مشورہ تھا کہ اب اسے تحلیل کردیا جائے مگر نہرو نے ان کے خیال سے اتفاق نہیں کیا۔ اس طرح کانگریس بچ گئی مگر اس پر نہرو کی اولاد کا قبضہ ہوگیا۔ اس کی قیادت ہمیشہ اسی خاندان کے ہاتھ میں رہی۔ اب تک کی تاریخ میں بہت کم ایسے مواقع آئے جب اس خاندان کے باہر کے لوگوں نے پارٹی کی قیادت کی۔ ویسے اس کاندان نے پارٹی کے لئے دو اہم کام کئے ہین۔ ایک تو پارٹی کو متحد رکھنے کا کام کیا ہے اور دوسرے بغیر کسی محنت کے پارٹی کو ووٹ دلانے کا کام کیا ہے۔ عوام کے ذہن میں جب تک خاندانی راج کا خیال رہا تب تک کانگریس اس ملک پر بغیر کسی شرکت غیرے حکومت کرتی رہی۔ لیکن جیسے جیسے ملک کے سیاسی حالات میں تبدیلی آئی اور عوام مین تعلیم و بیداری آئی ویسے ویسے کانگریس کے اثرات بھی کم ہوئے ہیں۔ کل تک تو ملک کے سیدھے سادے اور ان پڑھ لوگوں کو لگتا تھا کہ اس خاندان کے لوگ اس لئے حکومت کرنے کے حقدار ہیں کیونکہ وہ نہرو کی اولاد ہیں مگر اب اس قسم کی سوچ بدل رہی ہے۔ اس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے اندر بہت سی سیاسی پارٹیاں ابھر رہی ہین اور راہل و سونیا بھی کانگریس کی دوبتی نیا کو بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پہلے اس خاندان کی طرف کسی کو انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں نہیں تھی مگر اب رابرٹ واڈرا کے زمین کا معاملہ الیکشن ایشو بن چکا ہے۔ 


آج جب نہرو خاندان نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اب ووٹ دلانے کی پوزیشن مین نہین ہے تو یہ کانگریس کے لئے ایک مشکل گھڑی ہے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جب جب اس خاندان نے خود کو کمزور طاہر کیا ہے پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہوا ہے۔ جب اندرا گاندھی کے دور میں کانگریس ہاری تھی تو کانگریسیوں نے ان کا ساتھ چھوڑنا شروع کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اندرا گاندھی مزید طاقتور ہوکر دوبارہ ابھریں اور جو لوگ ان کا ساتھ چھوڑ کر بھاگے تھے وہی واپس ان کے پاس آنے لگے تھے۔ کانگریسیوں کو لگتا ہے کہ اس خاندان کی وفاداری انھیں کرسی دلاسکتی ہے لہٰذا وہ اس خاندان کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور جب کسی شخص کو لگتا ہے کہ اس کا فائدہ نہیں ہورہا ہے تو پھر وہ کانگریس کو چھوڑ کر اس سے دور ہوجاتا ہے۔ ماضی کی تاریخ دیکھیں تو موجودہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کسی دور میں اپنی الگ سیاسی پارٹی بنا چکے ہیں۔ ارجن سنگھ اور نرائن دت تیواری بھی کسی دور میں ایک الگ سیاسی پارٹی بنا چکے ہیں مگر ان لیڈروں کو اپنی کوئی زمین نہیں تھی ۔ یہ کانگریس اور نہرو خاندان کے سبب اہم وزارتیں پاتے رہے تھے لہٰذا جب اچھے دن آئے تو دوبارہ کانگریس میں چلے آئے اور اونچے عہدے پاتے رہے۔ پرنب مکھرجی کو صدر جمہوریہ اور نرائن دت تیواری و ارجن سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا کام اسی خاندان کی وفاداری کا صلہ تھا۔ پی چدمبرم اور اے کے انٹونی کو ہمیشہ اس پریوار سے وفاداری کا صلہ ملا۔ آج یہ دیکھنے کا وقت آچکا ہے کہ سبز شاخوں پر آشیانہ بنانے والے کانگریسی اس خاندان سے وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں یا بغاوت کرتے ہیں۔ نہرو خاندان نے پارٹی کو متحد رکھنے کا کام کیا ہے اور جب جب اس کی گرفت کمزور پڑی ہے اس میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے۔ جنتا دل اسی کمزوری کا نتیجہ تھی جس نے کئی پارٹیوں کا جنم دیا۔ اسی طرح مگربی بنگال میں ترنمول کانگریس ،جنوب میں وائی ایس آر کانگریس اور مہاراشٹر میں این سی پی کی پیدائش کانگریس کے ہی کوکھ سے ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں کئی دوسری پارٹیان بھی اس کے بطن سے پیدا ہوئیں اور اپنی موت آپ مرگئیں۔ کانگریس کے اندر الگ الگ طرح کے خیال رکھنے والے لوگ ہیں مگر نہرو خاندان سب کو جوڑ کر رکھتا ہے اور پارٹی کا شیرازہ منتشر نہیں ہونے دیتا۔


اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ راہل گاندھی فیل ہوچکے ہیں اور اب پارٹی کا کیا ہوگا؟ کیا پارٹی ان کا بوجھ ڈھوسکے گی؟ کیا پارٹی ۲۰۱۹ء کا انتظار کرے گی یا پھر راہل کے خلاف بغاوت ہوجائیگی۔ پارٹی کے اندر ایک طبقہ شروع سے ایسا رہا ہے جس کاماننا ہے کہ راہل بہت سیدھے سادے ہیں اور سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہیں لہٰذا ان کی جگہ پرینکا کو سیاست میں آنا چاہئے۔ خود ایک موقع پر رابرٹ واڈرا نے کہا تھا کہ ابھی راہل کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد پرینکا کا زمانہ آئے گا اور پھر میرا دور آئے گا۔ طاہر ہے کہ کانگریس کے سامنے ابھی متبادل موجود ہیں ۔ ایک کارڈ فیل ہوتا ہے تو وہ دوسرا استعمال کرسکتی ہے اور دوسرا فیل ہو اتو تیسرا استعمال کرسکتی ہے مگر ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت اگر ایک علاقائی پارٹی کی ہوگئی ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اس کی کمر توٹ چکی ہے اور اب اسے ٹھیک کرنے کے لئے پلاسٹر کی ضرورت ہے۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 616