donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Nitish Kumar Agle Wazeer azam Honge


کیا نتیش کمار اگلے وزیر اعظم ہونگے؟


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    جے ڈی یو،آر جے ڈی اورکانگریس کی شاندار جیت اور بی جے پی کی کراری ہار کے بعد اب بہت سے سوالات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ کیا ملک کی سیاست میں بہار انتخابات کے نتائج مودی کے کمزور ہونے کی علامت ہیں؟ کیا یہ انتخابات ملک کی سیاست میں نئی تبدیلی لے آئینگے؟ کیا دیگر ریاستوں میں بھی مستقبل میں انتخابات ہونے پر بہار جیسے ہی نتائج آئیں گے؟ کیا اس انتخاب کے نتائج کو مودی کے تئیں لوگوں کی رائے کے طور پر بھی لیا جائے گا؟ کیا یہ بی جے پی اور نریندر مودی کی شکست ہے؟ کیا یہ نریندر مودی اور این ڈی اے حکومت کے خلاف ریفرنڈم ہے؟ ان تمام سوالات کے درمیان یہ طے ہے کہ اس انتخاب کے نتائج کے بعد غیر بی جے پی جماعتوں کا بھروسہ اور پختہ ہوگا کہ بی جے پی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ غیر بی جے پی پارٹیاں اب زیادہ خوداعتمادی محسوس کرنے لگیں گی کہ تمام وسائل سے لیس ہونے کے باوجود بی جے پی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن اب یہ محسوس کرنے لگے گا کہ بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ ایسے میں قومی سیاست میں بی جے پی کے لئے آگے کی انتخابی راہ اتنی آسان نہیں رہے گی۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو سخت چیلنج ملنے لگے۔

نتیش بن گئے ’’سپر ہیرو‘‘

    بہار میں بی جے پی کی ہار مودی کے کمزور ہونے کی کسی حد تک عکاسی کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نتیش کمار اب ’سپر ہیرو‘ بن کر ابھرے ہیں اور مستقبل میں ان کے قومی سطح پر ایک قابل قبول لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے کے آثار بننے لگے ہیں۔ اس انتخاب میں ان کی صاف ستھری تصویر سے مہاگٹھبندھن کو بھرپور فائدہ ملا۔واضح ہے کہ نتیش کمار نے اپنے دورحکومت میں بہار کو ترقی کی پٹری پر لانے کا کام کیا اور ریاست کی تصویر کو بھی درست کیا۔ ایسے میں عوام نے ایک بار پھر ان پر بھروسہ کیا۔ جو یہ ثابت کرتا ہے کہ بہار کے انتخابات کے نتائج ملک کی سیاست میں نئی تبدیلی لائیں گے۔اب یہ بھی قیاس لگائے جانے لگے ہیں کہ نتیش کمار آنے والے وقت میں بی جے پی کے خلاف تیسرے محاذ کو متحرک کرنے والی طاقت ہوں گے۔ مہاگٹھبندھن کی جیت دراصل ریاست میں نتیش کمار کی جانب سے کئے گئے ترقیاتی کام کو عوام کی طرف سے ملی منظوری ہے۔ صوبے میں بی جے پی اتحاد کو ہوئے بھاری نقصان کی کئی وجوہات ہیں اور پارٹی کو اس کی وجوہات پر غوروفکر کرنا چاہئے۔

بہار کے اثرات

    بہار میں فیصلہ کن مینڈیٹ کو اب ہر اپوزیشن پارٹی اپنے مطابق سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں ہے تاکہ بی جے پی کے خلاف اس کا مضبوطی سے استعمال کیا جاسکے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی مخالف محور اب کچھ زیادہ مضبوط ہونے کی طرف گامزن ہوگا۔ یہ جیت ملک کی دیگر ریاستوں میں بی جے پی مخالف جماعتوں کے لئے سنجیونی کا بھی کام کرے گی۔آئندہ چند مہینوں میں پانچ ریاستوں میں انتخابات ہیں جب کہ سال بھر بعد اتر پردیش اور پنجاب میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ایسے میں بہارانتخابات کے نتائج ان ریاستوں پر بھی ضروراثر ڈالیںگے۔مہاگٹھبندھن کی فتح میں نتیش کمار کی مقبولیت کاخاص رول رہا ہے۔ ان کی صاف تصویر اور ترقی کے ایجنڈے نے بہار کے عوام کا اعتماد جیتا ہے۔ اب مستقبل میں انھیں ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے پورے ملک میں قبول کیا جاسکتا ہے اور اس میں ان کی امیج اہم کردار نبھائے گی۔

بی جے پی کے خلاف بنتا ماحول

    بہار انتخابات کے دوران قومی سطح پر عدم برداشت کا مسئلہ چھایا رہا۔ بڑی تعداد میں فنکاروں، مصنفین اور دیگر حلقوں کی نامی شخصیات نے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی مخالفت میں اپنے انعام لوٹائے۔ اس کاانتخاب پر اثر پڑا۔ سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا ذات پات پر مبنی ریزرویشن پر نظر ثانی کرنے سے متعلق بیان بھی انتخابات کے دوران بڑا مسئلہ رہا۔ اس سے پسماندہ ذاتیں این ڈی اے اتحاد کے خلاف متحد ہوئیں۔پسماندہ اور دلتوں کے درمیان ایک خدشے نے جنم لیا۔ انتخابی مہم اور انتخابی تقریروں میں گائے، گوشت اور پاکستان کا مسئلہ چھایا ہوا تھا۔ اقلیتی ووٹروں کے خلاف پولرائزیشن کی پرزور کوشش کی گئی لیکن یہ تمام ہتھیارناکام ثابت ہوئے۔ ایک طرح سے دیکھیں تو فرقہ وارانہ سیاست کو عوام نے مسترد کر دیاہے۔بی جے پی کے کئی رہنماؤں کی جانب سے بیان بازی کا انتخاب کے نتائج پر خاصا اثر پڑا۔ بیف تنازعہ اور فرقہ واریت کو بھڑکانے والے بیانات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقلیتی ووٹ نہیں بٹے اور اس کا فائدہ نتیش اور لالو کو ہوا۔مہنگائی نے بھی اس انتخاب پر بہت اثر ڈالا۔ دال کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ووٹروں میں ایک طرح سے غصہ بھر دیا۔ اگر مستقبل میں بی جے پی نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو اس کے خلاف پورے ملک میں ماحول بنے گا اور یہ نتیش کمار کے حق میں ہوگا۔ نتیش کمار آج ایسے لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں جو بی جے پی مخالف پارٹیوں کے لئے اتحاد کا محور بن سکتا ہے۔ بی جے پی اگر اس ملک میں لمبی دوڑ کی سیاست میں باقی رہنا چاہتی ہے تو اسے اپنا رویہ بدلتے ہوئے سب کے لئے قابل قبول بننا ہوگا۔ اسے اپنے نعرے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کو عملی شکل دینا ہوگا۔

مودی کے خلاف اعلان جنگ

    آخر نتیش نے پھر سے اپنی حکمت عملی کا لوہا منوا لیا ہے اور اسمبلی انتخابات میں بھاری جیت حاصل کر وہ پھر سے ریاست کے ’’سپر اسٹار‘‘ بن گئے ہیں۔ نتیش نے لوک سبھا انتخابات میں بھاری شکست کا سامنا کرنے کے بعد اپنے سخت مخالف لالو پرسادیادو کے ساتھ ہاتھ ملا کر تمام سیاسی پنڈتوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا لیکن نتیش نے مسلسل تیسری کامیابی حاصل کر یہ پیغام دے دیا کہ ابھی ملک کی سیاست میں بہت کچھ باقی ہے۔ ان سیاسی حالات میں اب این ڈی اے کو شکست کی وجوہات کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا ہوگا، کیونکہ مستقبل میں کئی محاذوں پر بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو تگڑے چیلنج ملنے کے آثار ابھی سے بننے لگے ہیں۔ جہاں ایک طرف نتیش کمار کے گرد ملک کی تمام سیکولرسیاسی پارٹیوں کے لیڈران جمع ہونے لگے ہیں وہیں دوسری طرف ان کے حلیف لالوپرساد یادو نے بی جے پی کے خلاف جنگ کا بگل پھونک دیا ہے۔ مہا گٹھبندھن میں شامل جنتادل (یو) ، راشٹریہ جنتادل اور کانگریس نے نتائج کے اعلان کے بعد مشترکہ طور پر پریس کانفرنس کی جس میں اگرچہ تینوں پارٹیوں کے لیڈروں نے اپنے خیالات رکھے مگر لالو پرساد خاص طور پر اپنے پرانے فارم میں نظر آئے۔ راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرسادیادو اور نتیش کمار نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ان کااتحاد جاری رہے گا ۔ اس سے قطع نظر کہ کس پارٹی کو کتنی سیٹیں ملی ہیں، نتیش کمار بہار کے وزیر اعلی بنے رہیں گے اور لالوپرساد فرقہ پرست مودی حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے۔مہاگٹھبندھن بہار کی تیز رفتار ترقی کے لئے کام کرے گا اور اسے ملک کی اقتصادی ترقی کے نقشے پر کھڑا کرے گا۔جے ڈی یو، راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کی مشترکہ پریس کانفرنس میں نتیش کمارنے کہاکہ میں اس جیت کے لئے بہار کے ووٹروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہمیں تمام طبقات کی حمایت ملی ہے۔ تمام طبقوں نے مہاگٹھبندھن کی حمایت کی ہے۔ ہم مل جل ایک مثبت سوچ کے ساتھ کام کریں گے۔ کسی کے تئیں بدنیتی نہیں رکھیں گے۔ ہم اپوزیشن کا احترام کریں گے۔ راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو پرساد یادو نے کہا، اتنا شاندار مینڈیٹ دینے کے لئے میں بہار کے تمام طبقات کے سامنے جھکتا ہوں۔

لالو کے تیور

    جے ڈی یو،آر جے ڈی اور کانگریس اتحاد کو بھاری اکثریت سے جیت ملنے کے بعدلالو نے کہا کہ نریندرمودی کا اقتدار میں رہنا ملک کے لئے خطرے کی بات ہے اور اس سے ملک ٹکڑوں میں بنٹ جائے گا۔ مخالف سے اتحادی بنے نتیش کمار مسکراہٹ کے ساتھ یہاں موجود تھے اور لالو نے کہا، ہم اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔کارکنوں اور حامیوں کے خوشی سے بھرے شور کے درمیان انھوں نے اپنے ہی انداز میں کہا، اگر کوئی ہمارے درمیان تقسیم کے بیج بونا چاہتا ہے تو ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ہم اگلے دس جنم تک تو نہیں بٹنے والے۔ اب ہم مرکزی حکومت کے لئے چیلنج پیش کریں گے۔ اس جیت کے بعد ہم دلی پر چڑھائی کریں گے۔ سب سے پہلے ہم بنارس میں جائیں گے۔ بہار کو لے کر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے والے ہیں۔لالو نے کہا، بہار میں جیت پر مودی نے نتیش کو مبارک باد دی ہے۔ یہ اچھے آداب ہیں لیکن انہوں نے مبارک باددل سے دی ہے کہ نہیں، یہ پتہ نہیں۔

لالو کی واپسی

    لالوپرساد یادو کے بارے میں سمجھا جارہاتھا کہ ان کا سیاسی طور پر خاتمہ ہوچکا ہے مگر بہار میں شاندار جیت سے واپسی کرنے والے لالو نے مودی سرکار کے خلاف جنگ کا نقارہ بجادیا۔ملک گیر تحریک کے بارے میں آر جے ڈی سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ فرقہ پرست مودی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے کسانوں، مزدوروں اور محروم طبقے کو ساتھ لیں گے۔ اسی کے ساتھ بہار کے اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے مہاگٹھبندھن کی شاندار جیت نے ملک کے سیاسی منظرنامے پر ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ مہاگٹھبندھن کی جیت کو اگر اپوزیشن اتحاد کی علامت کے طور دیکھیں تو آنے والے وقت میں ملک کی سیاست کے ایک نئی سمت میں بڑھنے کے اشارے ملنے لگے ہیں جو بی جے پی پر بھاری پڑتی نظر آرہی ہے۔ وہیں، لالو نتیش کی جوڑی کی شاندار فتح کے بعد ملک کی کئی ریاستوں میں بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کو اب امید کی ایک نئی کرن نظر آنے لگی ہے۔ معلوم ہو کہ لوک سبھا انتخابات کے بعد ملک میں ہر طرف ’مودی لہر‘ کی بات کی جا رہی تھی، لیکن بی جے پی کے رتھ کو مہاگٹھبدھن نے بہار میں روک دیا جوابتدائی طور پر یہ ملک کی سیاست میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اگرچہ اس تبدیلی کے پیچھے دیگر کئی وجوہات بھی ہیں، لیکن اس کا کریڈٹ تو مہاگٹھبندھن کو ہی جائے گا۔حالانکہ اس اتحاد کے سامنے مستقبل کا بڑا چیلنج ہوگا خود کو متحد رکھنا۔ لالو پرساد کی پارٹی بہار میں سب سے بڑی پارٹی کے روپ میں ابھری ہے اور اس لحاظ سے نتیش کمار پر ان کا دبائو بھی ہوسکتا ہے۔ آج دونوں ہی متحد رہنے کی باتیں کہہ رہے ہیں مگر سیاست میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 514