donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Maghrabi Bangal Ko Khako Khoon Me Nahlane Ki Taiyar Me Sangh Pariwar


مغربی بنگال کو خاک وخون میں نہلانے کی تیاری میں سنگھ پریوار


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مغربی بنگال میں بہت دن سے دنگے نہیں ہوئے ہیں اسی لئے یہاں بی جے پی کو زمین بھی نہیں مل پائی مگر اب وہ امن و مان کی اس دھرتی کو خاک وخون میں نہلانا چاہتی ہے۔ جس کی فضائوں میں کبھی ٹیگور اور نذرالاسلام کے محبت بھرے نغمے گونجے تھے آج وہیں ماحول کو مسموم کرنے کی سازش چل رہی ہے تاکہ فرقہ پرستی کی کیچڑ میں کنول کھلایا جاسکے۔

      ممتا بنرجی ہوشیار ہوجائیں ! مغربی بنگال پر سنگھ پریوار کی بر ی نظر ہے۔ یہاں کا امن وامان اور فرقہ وارنہ یکجہتی کا ماحول فرقہ پرستوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے۔ جس طرح یوپی میں جاٹوں کو مسلمانوں نے سے الگ کیا گیا اسی طرح بنگال میں ہندووں اور مسلمانوں کے بیچ دوری پیدا کرنے کی کوشش چل رہی ہے۔ ۲۶فیصد مسلم ووٹ کو تب ہی بے کار کیا جاسکتا ہے جب یہاں کی ہندو اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف متحد کردیا جائے۔ اس کے لئے ماحول سازگار کیا جارہا ہے اور ہندووں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ انھیں میڈیا کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش چل رہی ہے کہ بنگال کے مسلمانوں کے تار بنگلہ دیشی دہشت گردوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیامغربی بنگال میں دہشت گردی کی فصل پنپ رہی ہے اور یہاں سے دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہتھیار بھیجے جارہے ہیں؟یا بردوان دھماکے کے بہانے عوام میں بھرم پھیلانے کی کوشش چل رہی ہے؟ ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف کیوں اکسایا جارہا ہے؟ کیا اس کے پیچھے سنگھ پریوار کا ہاتھ ہے یا ممتا بنرجی کے سیاسی مخالفین کوئی سازش رچ رہے ہیں؟ کیا ایک واقعے کو بہانا بناکر بی جے پی مسلم دشمنی کا کھیل کھیل رہی ہے؟ یا ممتا بنرجی کے کچھ دوسرے سیاسی مخالفین اس کے پسِ پشت ہیں؟ ریاست کے موجودہ سیاسی ماحول کو ممتا بنرجی کے سیاسی زوال کی ابتدا سمجھا جائے یا بی جے پی کے اثرات کی شروعات؟ کیا بنگال میں کوئی بڑا سیاسی اتھل پتھل اسی واقعے کی کوکھ سے جنم لینے والا ہے؟ جس خطے میں فرقہ پرستی کی سیاست کو عوام نے کبھی پسند نہیں کیا وہاں آج کچھ نیتائوں اور میڈیا کے ذریعے لوگوں میں بھرم پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟ کیا موجودہ حالات کو آئندہ ودھان سبھا انتخابات تک قائم رکھنے کی کوشش ہوگی تاکہ اسے بہانہ بناکر ممتا بنرجی سرکار کے خلاف ہندووں کو متحد کیا جائے جس طرح گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں پورے ملک میں مودی لہر کے نام پر کیا گیا؟ ان سوالوں کی تہہ میں جانے کی ضرورت ہے اور مغربی بنگال کے حالات کے گہرے جائزے کی ضرورت ہے۔ ان دنوں دلی سے کلکتہ تک ہر جگہ یہ تاثر دینے کی کوشش ہورہی ہے کہ مغربی بنگال دہشت گردی کا گڑھ بن چکا ہے اور یہاں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں القاعدہ اپنا نیا ٹھکانہ بنا رہی ہے اور عوام کی زندگی خطروں سے دوچار ہے۔ اسی کے ساتھ سنگھ پریوار نے اپنی پوری طاقت مغربی بنگال میں جھونک دی ہے اور ابھی سے وہ ۲۰۱۶ء کے اسمبلی الیکشن کی تیاری میں لگ گیا ہے۔ یہاں وشوہندو پریشد کا کنونشن ہورہا ہے اور موہن بھاگوت جیسے لیڈران دورے کر رہے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں بی جے پی کے اثرات پہلے ہی بڑھے ہوئے تھے مگر اب تو دوسرے علاقوں میں بھی اس کے اثرات میں اضافہ کی کوشش ہورہی ہے۔ میڈیا کی فرضی اور گمراہ کن خبروں کو بہانہ بناکر بنگال کے اس پر امن علاقے میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں اور ان کے پھولنے پھلنے کا انتظار کیا جارہاہے۔ معاملہ صرف اتنا سا تھا کہ ضلع بردوان کے کھاگڑا گرھ میں ایک واقعہ پیش آیا کہ بم بناتے ہوئے دو لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ بنگال کے لئے یہ معمولی بات ہے اور اس قسم کے واقعات یہاں عام طور پر ہوتے رہتے ہیں مگر اسی تل کو تاڑ بنایا گیا اور جس دھرتی سے ٹیگور  نے پیار اور محبت کے گیت گائے تھے اسی پر اب نفرت کی کھیتی شروع ہوگئی ہے۔ یہاں نفرت کے کھلاڑیوں نے اپنا کام شروع کردیا ہے ۔ اب ممتا بنرجی سرکار کا بھی امتحان ہے کہ جس طرح سے حالات خراب کئے جارہے ہیں اور ذہنوں کو زہر آلودہ کیا جارہا ہے ، اس سے وہ کس طرح لڑتی ہے۔

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

    معاملہ ۲، اکتوبر کا ہے ، جب بردوان کے کھاگرا گڑھ میں ایک مقام پر دستی بم بناتے ہوئے دو افراد کی موت ہوگئی تھی۔ اس معاملے کی انکوائری پہلے بنگال پولس نے اپنے ہاتھ میں لی ، پھر سی آئی ڈی نے تفتیش شروع کی مگر جب مرکزی سرکار نے اس میں مداخلت کرنا چاہا تو این آئی اے کو لگا دیا گیااور اب اس کی انکوائری مرکزی جانچ ایجنسی کے ہاتھ میں ہے۔ ایجنسی اپنا کام کر رہی ہے مگر اسی کے ساتھ خطرناک طریقے سے میڈیا ٹرائل بھی چل رہا ہے جس کے اثرات زبردست طریقے سے لوگوں کے ذہنوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ جس مقام پر دھماکے ہوئے اسے میڈیا مدرسہ کہہ رہا ہے اور باقاعدہ مدرسوں کے خلاف مہم چلا رہا ہے، حالانکہ یہاں کے لوگ اس پر معترض ہیں۔ یہ مہم اس قدر مضر اثرات چھوڑ رہی ہے کہ حال ہی میں ایک مدرسہ کے چودہ سالہ طالب علم کو کچھ سماج دشمن عناصر کی طرف سے زندہ جلاکر مارنے کی کوشش بھی ہوئی۔ان حالات سے ریاست کے مسلمانون کے اندر شدید بے چینی ہے اور دیہی علاقے کے مسلمانوں میں خوف ودہشت کا ماحول ہے۔ تفتیش کے سلسلے میں یہاں این آئی اے کے تمام بڑے افسران آچکے ہیں اور این آئی اے ڈائرکٹر جنرل شرد کمارخود بھی حالات کا جائزہ لینے کے لئے جائے واقعہ پر پہنچے نیز نیشنل سیکیورٹی اڈوائزراجیت ڈوبھال بھی یہاں آئے۔ اسی کے ساتھ دیگرخفیہ ایجنسیوں کے افسران ان سبھی خبروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو تفتیش میں سامنے آرہی ہیں۔ میڈیا کے نامہ نگار بڑی تعداد میں بنگال کے اس دور افتادہ گائوں میں پہنچ رہے ہیں جس سے یہ گمنام گائوں اچانک سرخیوں میں آگیا ہے۔ اب تک کی تفتیش میں جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ بنگلہ دیشی دہشت گرد تنظیم جماعت المجاہدین کے کچھ افراد یہاں بم اور ہتھیار بنانے کی تربیت دے رہے تھے اور یہ دہشت گردانہ سرگرمیاں بھارت کے خلاف نہیں تھیں بلکہ بنگلہ دیش کے خلاف تھیں۔ گویا اب تک بنگلہ دیش کی سرزمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جارہا تھا مگر اب الٹا ہوگیا ہے اور بھارت کی زمین کو بنگلہ دیش کے خلاف استعمال کیا جانے لگا ہے۔یہان سے بہت سے دستی بم برآمد ہوئے ہیںجو بنگلہ دیش بھیجے جانے تھے۔اطلاعات کے مطابق یہاں بننے والے اسلحے کو بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کے خلاف استعمال کیا جانا تھا کیونکہ عوامی لیگ پارٹی کے بعض فیصلے یہاں اسلام پسند لیڈروں کے خلاف ہورہے ہیں اور یکے بعد دیگرے انھیں پھانسی کی سزا دی جارہی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بہت سے اسلحے اور بم بنگلہ دیش بھیجے جاچکے تھے اور سرحد پر بی ایس ایف کے جوانوں نے رشوت لے کر اس کام میں مدد کی تھی۔ یہ وہی جوان ہیں جن پر ہمارے ملک کے تحفظ کی ذمہ داری ہے لیکن اس سے قبل بھی اس قسم کی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ یہ لوگ سرحد پررشوت لے کر کسی بھی دہشت گرد کو ملک میں آنے جانے کی چھوٹ دے دیتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان فوجی جوانوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی ہوگی جو سرحد پر بیٹھے ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں یا انھیں اس لئے انکوائری کے دائرے میں نہیں لایا جائے گا کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں؟ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بردوان معاملے کی تفتیش میں اب تک جو چیزیں ملی ہیں ان میں کوئی بھی چیز زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ جس قسم کی لید مشین کو پکڑا گیا ہے ویسی مشینیں یہاں گھر گھر میں مل سکتی ہے اور مغربی بنگال کا ضلع ہوڑہ تو ایسی ہی مشینوں کے لئے جاناجاتا ہے جہاں لوہے کا کام بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ یونہی جس قسم کے بم دستیاب ہوئے ہیںویسے بم یہاں سیاسی پارٹیوں کے لوگ آئے دن بناتے ہیں اور ان کا استعمال ایک دوسرے کو خوفزدہ کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ میڈیا جن کتابوں کو جہادی لٹریچر کہہ رہا ہے وہ اصل میں کوئی جہادی لٹریچر نہیں بلکہ قرآن کریم کے کچھ نسخے ہیں اور بچوں کے پڑھنے کی کچھ عربی کتابیں ہیں جیسے بغدادی قاعدہ وغیرہ۔ 

سیاسی کھیتی کے لئے ماحول تیار کرنے کی سازش؟

    مغربی بنگال کے موجودہ ھالات پر وزیر اعلیٰ ممتابنرجی خاموش ہیں اور کچھ بھی کہنے سے گریز کررہی ہیں۔ اصل میں لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو یہاں ۱۴فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور کلکتہ، نارتھ چوبیس پرگنہ، ندیا، جنوبی دیناجپور، جلپائی گوڑی اوردارجلنگ میں تو اسے بہت زیادہ ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے اس نے یہاں پورا زور لگا رکھا ہے اور آرایس ایس  ہی نہیں بلکہ اس کی تمام ذیلی جماعتیں بھی یہان زمینی سطح پر سرگرم ہوگئی ہیں اور بی جے پی کے حق میں ماحول سازگار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔  حال ہی میں ضلع ندیا کے ایک گائوں میں دو بی جے پی ورکروں کی سیاسی رنجش میں ہوئی موت کا معاملہ یہاں گرم رہا اور بی جے پی نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی برپور کوشش کی۔ بی جے پی کے مرکزی لیڈران بھی یہاں آئے یہ الگ بات ہے کہ دفعہ ۱۴۴ ہونے کے سبب وہ جائے واردات تک نہ پہنچ سکے ۔یہاں کے حالات پر نظر رکھنے والے کلکتہ ہائی کورٹ کے وکیل انوار عام خاں کہتے ہیں کہ بنگال میں اگر اگلی سرکار بی جے پی کی بن جائے تو کوئی تعجب نہیں ہونی چاہئے۔ یہاں عوامی سطح پر اس کے لئے ماحول تیار ہورہا ہے اور اس سے مقابلے کے لئے سیکولر جماعتوں کی طرف سے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ ریاست میں کانگریس ختم ہوچکی ہے اور کمیونسٹ بے حد کمزور ہوچکے ہیں۔ یہاں اپوزیشن کا کوئی وجود نہیں بچا ہے جس کا فائدہ بی جے پی لینا چاہتی ہے۔ کمیونسٹ تو اپنے پارٹی ممبران پر ہونے والے حملوں کا بچائو نہیں کرپارہے ہیں ایسے میں میدان میں آکر مقابلہ کیا کرینگے۔ ویسے بردوان واقعے کے بعد یہاں کے مسلمان بھی دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ وہ اس پورے معاملے کو ایک سیاسی سازش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں کلکتہ پریس کلب میں مسلمانوں کی طرف سے ایک پریس کانفرنس ہوئی جس میں کلکتہ کے سماجی رہنما اور ملی اتحاد پریشد کے صدر عبدالعزیز کے ساتھ ساتھ آل انڈیامجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر  ظفرالاسلام خان شریک تھے۔ ان لیڈران کی طرف سے کہا گیا کہ بردوان دھماکے کے بہانے سے جو کچھ کیا جارہا ہے وہ ایک سیاسی سازش کے طور پر کیا جارہا ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں تھا کہ اس کی جانچ کے لئے این آئی اے اور این ایس جی کو بلایا جاتا مگر ایسا کیا گیا تاکہ ماحول کو بی جے پی کے حق میں سازگار کیا جاسکے۔ مقامی مسلمانوں نے ان جانچ ایجنسیوں کی نیت پر شبہہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب مرکز میں قائم بی جے پی کی سرکار کے اشارے پر کیا جارہا ہے تاکہ یہاں اس کی جڑیں مضبوط کی جاسکیں اور آئندہ الیکشن میں اسے فائدہ پہنچایا جاسکے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ کوئی بھی مدرسہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے اور ہی کوئی مسلم تنظیم اس قسم کے کھنائونے کام میں شامل ہے مگر ایک خاص مقصد سے مدرسوں اور مسلم تنظیموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ غور طلب ہے کہ مغربی بنگال کی جماعت اسلامی ہند شاخ نے بھی پچھلے دنوں کہا تھا کہ وہ جماعت کو بدنام کئے جانے کے خلاف کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔

(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر ہیں)


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 593