donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Maghribi Bangal Assembly Intekhabat 2016 Ki Taiyari


 مغربی بنگال اسمبلی انتخابات۲۰۱۶ء کی تیاریاں


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال آئی ایس آئی ایس کے نشانے پر ہے۔ یہاں نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور یہ دہشت گرد تنظیم یہاں اپنی جڑیں جمانے میں لگی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کہیں اس خبر کے پیچھے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی آہٹ تو نہیں ہے؟ کیا یہ خبر دانستہ طور پر یہاں ہندووںاور مسلمانوں کے بیچ شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لئے میڈیا کو دی گئی ہے؟اصل میںمغربی بنگال اسمبلی انتخابات ۲۰۱۶ء کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں اور سبھی سیاسی پارٹیاں یہاں اپنی اپنی بساطیں بچھانے میں لگ گئی ہیں۔ حکمراں ترنمول کانگریس خوداعتمادی سے بھری نظر آرہی ہے جس کی قوت کم نہیں ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ اصل اپوزیشن سی پی آئی ایم کی قوت میں اضافہ بھی نہیں ہوا ہے اور دن بدن کمزور پڑتی جارہی ہے۔ کانگریس کی حالت جوں کی توں ہے اور کسی قسم کا سدھار اس کی حالت میں دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف بی جے پی ہے جس نے لوک سبھا انتخابات میں کثیرووٹ حاصل کرنے کے بعد یہاں دم خم دکھانا شروع کردیا تھا اور اس کے قومی لیڈروں نے مغربی بنگال میں دورے بھی شروع کردیئے تھے مگر جلد ہی مودی لہر کی قلعی کھل گئی اور یہاں امکانات ڈھونڈتی بھاجپا زمین پر آرہی۔ حالانکہ بہار انتخابات کے اختتام کے بعد اب اس کے قومی لیڈران کی پوری توجہ مغربی بنگال پر ہے مگر یہاں ان کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔ یہاں کی زمین ہمیشہ سے فرقہ پرستی کے لئے بنجر ثابت ہوئی ہے ۔ یہاں ماضی میں وہ ہندتو کا ایشو اٹھاتی رہی ہے مگر اسے عوامی حمایت نہیں مل پائی۔ ریاست میں مسلمانوں کاتناسب ۲۷فیصد ہے ،جن کی اکثریت ماضی میں سی پی آئی ایم کے ساتھ رہی ہے اور اسی ووٹ کی بنیاد پر اس نے لمبے وقت تک راج کیا ہے مگر آج یہ ترنمول کانگریس کے ساتھ ہے۔ اسے منتشر کرنے کے لئے کئی مسلم جماعتیں بھی سامنے آرہی ہیں مگر اب تک سیندھ ماری میں کوئی جماعت کامیاب نہیں دکھائی دیتی۔ اب جو یہاں آئی ایس آئی ایس کا شوشہ چھوڑا گیاہے،اس کے پیچھے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں ہندووں اور مسلمانوں کے بیچ تفریق پیدا کی جائے۔ بی جے پی یہاں ماضی میں بھی فرقہ وارانہ ایشوز کو ہوا دیتی رہی ہے اور دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کرتی رہی ہے مگر وہ اپنے مقصد میں آج تک کامیاب نہیں ہوسکی۔

ترقیاتی کام نہیں خوشامد

    مغربی بنگال کے مسلمان انتہائی پسماندہ ہیں اور ترنمول کانگریس سرکار نے یہاں کے مسلمانوں کے لئے کوئی ایسا بڑا قدم نہیں اٹھایا ہے ،جس سے پوری قوم کے حالات بہتر کرنے میں مدد ملے ۔ البتہ جزوی طور پر اس نے کچھ کام کئے ہیں۔ خاص طور پر اس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہاں کی سرکاری بحالیوں میں مسلمان بھی آئے ہیں۔ اس نے ائمہ مساجد اور مدرسوںکی امداد کے لئے بھی کچھ چھوٹے موٹے کام کئے ہیں مگر مجموعی طور پر کوئی بڑا کام کرنے کے بجائے اس نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش زیادہ کی ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل اردواکیڈمی کی طرف سے طلبہ سے اسکالرشپ کے لئے درخواستیں مانگی گئی ہیں۔ اکیڈمی کے سکریٹری کی طرف سے مقامی اردو اخبارات میں جو اشتہار شائع کیا گیا تھا اس میں زبان تک درست نہیں تھی ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے فروغ کے نام پر کس قسم کے لوگوں کو یہاں رکھا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ اردو اکیڈمی کی طرف سے اردوکے فروغ کے لئے کوئی کام کرنے کے بجائے اہل اردو کو خوش کرنے کی کوشش بھر چل رہی ہے۔ باوجود اس کے اب تک یہاں کے مسلمان ممتابنرجی سرکار کے ساتھ نظر آرہے ہیں اور آئندہ انتخابات میں اس کی واپسی ایک بار پھر پکی لگتی ہے۔   

مسلمان کے نام پر سیاست

    جس طرح اردو بولنے والے مسلمانوں کو اردو اکیڈمی مشاعروں اور چند نمائشی کاموں سے خوش کرنے میں لگی ہے، اسی طرح بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو بھی معمولی معمولی باتوں سے خوش کیا جارہاہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے لیڈر مولانا صدیق اللہ چودھری ماضی میں کانگریس کے ٹکٹ پر کئی بار الیکشن لڑچکے ہیں، اب وہ مولانابدرالدین اجمل کی اے آئی یوڈی ایف میں شامل ہوگئے ہیں اور بنگلہ بولنے والے مسلمانوں پر خاصا اثر رکھتے ہیں۔ اس بار ممتابنرجی کی کوشش ہے کہ ان کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ کرے۔ حالانکہ اسی کے ساتھ کچھ دوسرے مسلمان لیڈران بھی ابھی سے ترنمول کانگریس سربراہ ممتا بنرجی پر اثر ڈال کر اسمبلی سیٹیں حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں قمرالزماںکے آل بنگال مانئوریٹی یوتھ فیڈریشن نے کلکتہ میں بیس چھوٹی چھوٹی مسلم تنظیموں کو جمع کر ایک جلسے کا انعقاد کیاجس میں مجلس اتحادالمسلمین کی بنگال اکائی کے لوگ بھی شامل تھے۔ ان جماعتوں نے ممتا سرکار سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کی خوشامد کے بجائے ، ان کی ترقی کے لئے کچھ کام کریں۔ ظاہر ہے کہ اس حرکت وعمل کو بھی الیکشن سے جوڑ کر ہی دیکھا جارہاہے۔ قمرالزماں ماضی میں بھی اسمبلی الیکشن لڑچکے ہیں اور اس وقت بھی کسی جماعت کی طرف سے ٹکٹ چاہتے ہیں۔ وہ مدرسہ طلبہ یونین کے جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں اور بنگلہ بولنے والے مسلمانوں میں ان کا اثر ہے۔

 گورنر پر حملہ

     بنگال میں اسمبلی انتخابات کی سگبگاہٹ کے طور پر دیکھا جارہاہے ترنمول کانگریس کے لیڈران کی طرف سے گورنر پر زبانی حملوں کو۔حکمراں ترنمول کانگریس نے حال ہی میں گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی پر الزام لگایاہے کہ وہ ممتا بنرجی حکومت کو پریشان کر رہے ہیں اور راج بھون بی جے پی کے ریاستی دفتر میں تبدیل ہو چکا ہے۔حالانکہ گورنر نے اس الزام کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ترنمول کے ترجمان ڈیریک او برائن نے ایک بیان میں کہا کہ مسٹر ترپاٹھی کی وجہ سے راج بھون سازش کا مرکزبن چکا ہے اور حقیقت میں یہ بی جے پی کا ریاستی ہیڈکوارٹر بن گیا ہے۔تقریبا ہر روز، پارٹی کے لیڈر ان، ممتا حکومت کو پریشان کرنے کے نئے نئے اقدامات پر بحث کرنے کے لئے یہاں ملاقات کرتے نظر آتے ہیں۔غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں مغربی بنگال کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی ترنمول کانگریس سرکار کو بلدیاتی انتخابات کے دوران تشدد کے لئے تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

بیف کی سیاست

    حا ل ہی میں مغربی بنگال کی راجدھانی کلکتہ کے مرکزی علاقے وکٹویہ ہائوس کے سامنے جمع بنگالی ہندووں نے گائے کا گوشت کھاکر مرکزی سرکار کے خلاف احتجاج کیا۔ اس عجیب وغریب مظاہرے کا ایک مقصد ملک میں تیزی سے پھیلتی عدم برداشت کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔ اس احتجاج کو دلی سے قریب دادری میں بیف کی افواہ پر ایک شخص کے قتل سے جوڑ کر دیکھا جارہاہے۔  اس دوران سی پی ایم کے رہنما اور کولکاتا میونسپل کارپوریشن کے سابق میئر اور پیشے سے وکیل وکاس رنجن بھٹاچاریہ اور سابق وزیر عبدالرزاق ملا نے باہمی طور پر بیف کھا کر اور کھلا کر مبینہ طور پر عدم برداشت کی مخالفت کی۔ اس موقع پر بنگلہ کے شعرائ، ادیب اور فنکاروں کے ساتھ ساتھ بایاں محاذ کے کئی رہنما اور حامی بھی موجود تھے جنھوں نے بیف کھایا۔ حالانکہ بھگواوادیوں کی طرف سے اس مظاہرے کی مخالفت کی جارہی ہے اور اسے 2016 کے اسمبلی انتخابات میں اقلیتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش قرار دی جارہاہے۔ ان کا کہناہے کہ یہ حرکت کمیونسٹوں نے کی ہے جن سے مسلم ووٹ دور ہوگیا ہے اور ترنمول کانگریس کی طرف مائل ہوگیاہے۔ اب اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے وہ ایسا کر رہے ہیں۔حالانکہ بی جے پی بھی یہاں آئندہ انتخابات میں بیف کو بھی موضوع بنانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

بی جے پی کا مشن بنگال

    بہار اسمبلی انتخابات ختم ہوچکے ہیں ااور اب بی جے پی مشن بنگال کا آغاز کرنے کی تیاری میں ہے۔ مغربی بنگال میں پارٹی ذرائع کے مطابق پارٹی صدر امت شاہ نے ریاستی یونٹ کے رہنماؤں کو واضح ہدایت کی ہے کہ وہ 2016 میں ہونے والے ریاستی انتخابات کی تیاری میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے۔ پارٹی کی ریاستی یونٹ سے آنے والے ایک سینئر لیڈر کی مانیں تو پارٹی نے 294 رکنی بنگال اسمبلی میں پارٹی کی موجودگی اور اس کی مضبوطی کے مطابق سیٹوں کی درجہ بندی کرنا شروع کر دیا ہے۔سیٹوں کی درجہ بندی کا کام تقریبا مکمل ہو چکا ہے اور پارٹی کی ریاستی یونٹ کے انچارج قومی صدر کے ساتھ مل کر درجہ بندی کے عمل کو حتمی شکل دیں گے۔ دراصل لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی مودی لہر کے باوجود بہت زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب تو نہیں ہو سکی تھی لیکن ووٹ فیصد کے لحاظ سے پارٹی کو زبردست فائدہ ہوا تھا۔ بی جے پی کے لئے خشک ریاست مانے جانے والے مغربی بنگال میں ووٹ فیصد میں آئے اچانک اچھال سے پارٹی کی امیدوںکو ایک نئی پرواز ملی لیکن لوک سبھا انتخابات کے بعد ہوئے شہری باڈی اور پنچایتوں کے انتخابات میں پارٹی کو بری طرح شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ پارٹی ان انتخابات میں دوسرے نمبرسے کھسک کر چوتھے نمبر پر پہنچ گئی۔ میونسپل انتخابات میں لگے جھٹکے کے بعد پارٹی نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے اوراس کی بھرپائی کی کوشش میں لگ گئی ہے۔ پارٹی کی ریاستی یونٹ سے آنے والے ایک سینئر لیڈر کی مانیں تو تنظیمی سطح پر پارٹی سے کوئی بہت بڑی چوک نہیں ہوئی تھی۔ان کے مطابق ان انتخابات میں بی جے پی کو شکست کی اصل وجہ حکمراں ترنمول کانگریس کا انتخابات میں اقتدار کا غلط استعمال اور بی جے پی کارکنوں کے پر ہورہے حملے ہیں۔ سینئر لیڈر کی مانیں تو ریاست کے عوام ترنمول کے کام کاج سے خوش نہیں ہیں۔ وہ اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن وہ بایاں محاذ پر دوبارہ یقین نہیں کرنا چاہتے۔ وہ متبادل کی تلاش میں ہیں۔ ایسے میں ہمارے لئے یہ ریاست سیاسی امکانات کے پہلو سے کافی زرخیز ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 439