donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Ke Hath Ki Safai Sonam Gupta Ki Be Wafayi Aur Nankon Ki Line Me Razayi


مودی کے ہاتھ کی صفائی ، ’’سونم گپتا ‘‘کی بے وفائی

 

اور بینکوں کی لائن میں رضائی


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    نوٹ بندی منصوبے کا کوڈ ورڈ تھا ’’سونم گپتا بے وفا ہے‘‘ سونم سے مراد ’’سورن مدرا‘‘ اور گپتا کا مطلب’’ گپت مال‘‘ یعنی پوشیدہ رکھی گئی رقم بے وفا ہے۔ یقینا عوام نے جو کچھ اپنی ضرورتوں سے بچا کر رکھا ہوا تھا وہ باہر آگیا مگر نیتائوں کا کچھ بھی باہر نہیں آیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دونمبر مال اس ملک میں سب سے زیادہ نیتائوں کے پاس ہی ہے اور آئے دن جو گھوٹالے ہوتے رہتے ہیں،ان میں یہی نیتا شامل ہوتے ہیں مگرنوٹ بندی نے کسی نیتا کچھ نہیں بگاڑا۔ عام لوگ پریشان ہوئے اور اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بینکوں کی قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ رات رات بھر رضائیاں لے کر بینکوں کے سامنے جمے رہے مگر کوئی نیتا، کوئی منتری اور کوئی ایم پی، ایم ایل اے لائنوں میں کھڑا ہوا نہیں دکھائی دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ نیتائوں کے پیسے کہاں گئے؟ کیا انھیں نوٹ بدلوانے کی ضرورت نہیں پڑی؟ جواب آپ خود ہی سمجھ لیجئے کہ ضرور بالضرور اندر کوئی ڈیل ہوئی تھی جس کی وجہ سے سبھی پارٹیوں کے نیتائوں نے اپنے اپنے مال ٹھکانے لگادیئے اور عوام کو لائنوں میں کھڑا کیا اور درجنوں افراد کو مرنے پر مجبور کیا۔گویا’’ سونم گپتا‘‘ نے عام آدمی سے بے وفائی کی ہومگر نیتائوں کی لئے اس کی وفاداری پکی رہی۔ پارلیمنٹ کا پورا سشن ختم ہوگیا ،سنسد میں کوئی کام نہیں ہوا اور عام آدمی یہ سمجھتا رہا ہے کہ اپوزیشن اس کی آواز اٹھا رہا ہے مگر ایسا بالکل نہیں تھا۔ عوام کی فکر کسی کو نہیں تھی۔ نوٹ بندی جیسا معاملہ اگر کانگریس کے عہد حکومت میں سامنے آتا اور بی جے پی اپوزیشن میں ہوتی تو پورے ملک میں آگ لگ جاتی، بینک جلادیئے جاتے، منتریوں اور ممبران پارلیمنٹ کا گھیرائو ہوتا مگر نوٹ بندی پر کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں محض نمائشی مخالفت کرتی رہیں۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کہتے پھر رہے تھے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے گھوٹالوں پر ’’بلٹ پروف‘‘ ثبوت رکھتے ہیں مگر انھوں نے کوئی ثبوت نہیں دیا ،الٹا مودی کے پاس اپنے ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ملنے چلے گئے اور اب ان کی زبان گنگ ہے۔ ان کا یہ رویہ بتاتا ہے کہ دونوں کے بیچ کوئی ڈیل ہوئی ہے ورنہ وہ ملک کوضرور بتاتے کہ مودی نے کونسا جرم کیا ہے۔ دلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے حال ہی میں اشارہ دیا ہے کہ حکومت اور کانگریس کے بیچ میں کوئی ڈیل ہوئی ہے مگر اس بات کو انھیں کی پارٹی کے ایک دوسرے لیڈر کمار وشواس نے واضح کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کانگریسی لیڈروں کا پی ایم مودی سے ملنا اور جاتے وقت ہنس کر نکلنا ایک بڑی ڈیل ہے جو کہ بی جے پی  اور کانگریس کے بیچ ہوئی ہے۔ اب نوٹ بندی کو لے کر کانگریس اور آگسٹا ہیلی کاپٹر معاملے میں بی جے پی چپ رہے گی۔ بلیک میل کرنے کا پی ایم کا پرانا اسٹائل ہے، اسی لئے سابق فضائیہ کے سربراہ کی گرفتاری سمیت دیگر معاملات چل رہے ہیں۔

کیا حکومت اور اپوزیشن کے بیچ ڈیل ہوئی ہے؟

    اروند کجریوال نوٹ بندی پر زیادہ زور دار حملے کر رہے ہیں اور سخت بیان دے رہے ہیں اور ان کی باتوں کو ہم سرے سے مسترد بھی نہیں کرسکتے۔500 اور 1000 روپے بند کئے جانے پر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ بی جے پی اور پی ایم مودی نے  پہلے ہی اپنے مال کو ٹھکانے لگا دیا ہے۔کیجریوال نے لزام لگایا ہے کہ بی جے پی کے لوگوں نے نوٹ بندی سے دودن قبل ہی  ٹوئٹر پر 2000 کے نوٹ کی تصویر دکھا دی تھی۔ انہوں نے یہ بات کہتے ہوئے ٹوئٹر پر ڈالی گئی بی جے پی لیڈر کی تصویر بھی دکھائی۔ ان کا الزام ہے کہ نوٹ بندی کے پیچھے ایک بڑا اسکینڈل ہے۔ وزیر اعلی کیجریوال نے آگے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اعلان سے پہلے اپنے دوستوں کا روپیہ ٹھکانے لگوا دیا تھا۔یہ بھی الزام ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نوٹ بندی کے اعلان سے آٹھ دن پہلے، مغربی بنگال بی جے پی کی طرف سے ایک بینک میں 3 کروڑ روپے  جمع کرائے گئے تھے۔ یہ الزام سی پی آئی ایم کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ تین کروڑ روپے میں سے 40 لاکھ روپے تو پی ایم کے اعلان سے چند منٹ پہلے ہی جمع کرائے گئے تھے۔تاہم بی جے پی اصرار کر رہی ہے کہ ان دونوں باتوں کو آپس میں جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے،یہ محض اتفاق ہے کہ اس نے آخری وقت میں یہ روپئے جمع کرائے۔ ا س کا کیا مطلب لیا جائے؟ کیا نیتائوں کو سونم گپتا کی بے وفائی کے بارے میں پہلے ہی سے جانکاری تھی اور بی جے پی ، کانگریس اور دوسری کچھ پارٹیوں کے نیتائوں نے اپنا سب بلیک پہلے ہی سفید کرلیا تھا؟

راہل گاندھی یاد کریں وہ بیان

    راہل گاندھی کہہ رہے تھے کہ وہ زبان کھولیں گے تو زلزلہ آجائے گا مگر اب وہ زبان کھولنے کو تیار نہیں، حالانکہ انھوں نے پہلے الزام لگایاتھا کہ نوٹ بندی اصل میں ایک اسکینڈل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ اپوزیشن چاہتا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) قائم کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اعلان سے پہلے اپنے قریبی دوستوں کو اس کی اطلاع دے دی تھی۔ کئی صنعت کاروں اور بی جے پی کے ارکان کو نوٹ بندی کے فیصلے کے بارے میں کافی پہلے سے پتہ تھا۔ فیصلہ لینے سے پہلے وزیر اعظم نے کسی سے بھی نہیں پوچھا، یہاں تک کہ وزیر خزانہ اور مرکزی اقتصادی مشیر سے بھی نہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا کانگریس اور راہل گاندھی کو بھی پہلے سے سب کچھ معلوم تھا اور انھوں نے اپنے کالے دھن کو سفید کرلیا تھایا اب ڈیلنگ کے بعد حکومت نے انھیں کالے کو سفید کرنے کا موقع فراہم کیا؟ یہ بات سب جانتے ہیں کہ سیاست کے حمام میں کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی ایک جیسی ہیں۔

 نیتائوں پر کوئی اثر نہیں

    نوٹ بندی کا نیتائوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے، اس کا بڑا ثبوت ہے کہ ایک سابق بی جے پی منتری کے گھر میں شادی۔نوٹ بندی کے بعد کرناٹک میں بی جے پی کے سابق وزیر اور مائنس کنگ جے. ریڈی کی بیٹی برہمانی ریڈی کی شادی ہوئی جس میں اطلاعات کے مطابق 500 کروڑ روپے کا خرچ آیا۔ اس شادی میں بی جے پی کے ریاستی لیڈر یدی یورپا بھی شریک ہوئے۔ اس شادی میں 50 ہزار سے زیادہ مہمان آئے۔شادی کے لئے کسی میگابجٹ فلم جیسا سیٹ تیار کیا گیا اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، دلہن نے شادی کے لئے 17 کروڑ کی ساڑی پہنی تھی جس میں بھاری ہیرے جڑے ہوئے تھے جبکہ زیورات کی قیمت 90 کروڑ سے زیادہ تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی کے لوگوں کو پہلے سے جانکاری نہیں تھی تو اس شاہی شادی کے لئے رقم کہاں سے آئی؟ کیا ہر جگہ پرانی نوٹوں سے ہی پے منٹ کیا گیا؟ حالانکہ مرکزی وزیر خزانہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت کے فیصلے کی پیشگی جانکاری کسی کو نہیں تھی صرف وزیراعظم سمیت صرف دوچار لوگوں کو تھی۔حال ہی میں وزیرخزانہ سے مدھیہ پردیش کے ایک بی جے پی نیتا نے سوال کیا کہ کیا اس کی جانکاری کچھ لوگوں کو پیشگی تھی تو انھوں نے کہا کہ یہ احمقانہ سوال ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت دو چار لوگوں کے علاوہ یہ بات کسی کو نہیں پتہ تھی۔جب کہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم نے اپنا اعلان 6نومبر کو رکارڈ کرایا تھا اور دور درشن کی اس رکارڈنگ ٹیم میں کم از کم دس لوگ ضرور رہے ہونگے،جنھوں نے کان بند کرکے کام نہیں کیا ہوگا۔

اپوزیشن کی غیرسنجیدگی

    چونکہ اپوزیشن اور سرکار میں ملی بھگت تھی لہٰذا اپوزیشن لیڈروں نے نوٹ بندی پر کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی۔ ان کے بیان بدلتے رہے۔ وہ صبح کو کچھ کہتے ہیں تو شام کو کچھ اور بیان دے دیتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں اس ایشو پرشروع سے بنٹی ہوئی نظر آرہی ہیں۔کسی کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی پوری طرح غلط ہے تو کسی کو لگتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے مگر بغیر تیاری کے نافذ کئے جانے کے سبب عوام کو پریشانیوں کا سامنا ہے۔ کانگریس نے ابتدا میں اس کی پوری طرح مخالفت کی مگر جلد ہی راہل گاندھی نے کہنا شروع کردیا کہ بغیر تیاری کے نوٹ بندی کی گئی لہٰذا عوام کو پریشانی ہے۔ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی راجیہ سبھامیں کی گئی تقریر بھی اسی سمت اشارہ کرتی ہے۔ ادھر ممتابنرجی اور اروند کجریوال نے اسے پوری طرح غلط بتاتے ہوئے ،اس کی مخالفت شروع کردی ہے اور جہاں ممتا پورے ملک میں گھوم گھوم کر اس کے خلاف پروگرام کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف اروند کجریوال اس کی آڑ میں گھوٹالے کا الزام لگا رہے ہیں۔ بہار میں لالو پرساد کبھی نوٹ بندی کی تعریف کر رہے ہیں تو کبھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے برعکس نتیش کمار نے اس ایشو پر کھل کر مودی سرکار کی حمایت کی ہے اور بے نامی دولت پر بھی کارروائی کی مانگ اٹھائی ہے، حالانکہ انھیں کی پارٹی کے نیتا شرد یادو نوٹ بندی کے معاملے پر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ نظر آرہے ہیں ۔ این سی پی کے شردپوار نے نوٹ بندی کی پہلے تعریف کی اور پھراس کی مخالفت میں بیان دیا۔ انھیں کے ممبرپارلیمنٹ طارق انور کا بیان بھی نوٹ بندی کی حمایت میں آگیا۔یوپی میں اکھلیش اور ملائم مخالفت تو کر رہے ہیں مگر صرف بیان کی حد تک جب کہ مایاوتی کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ گویا اس معاملے میں اپوزیشن میں زبردست اختلاف رائے ہے۔ 

کیا عوام سبق سکھائیںگے؟

    اترپردیش ،پنجاب، اتراکھنڈ اور گوا میں اسمبلی انتخابات ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام مودی سرکار کو نوٹ بندی کی سزا دیںگے؟ یوپی اسمبلی انتخابات سے پہلے ایس پی اور بی ایس پی کی نظر بی جے پی کے خلاف لوگوں کے غصے پر ہے۔ لکھنؤ میں ایک ریلی میں تقریر کرتے ہوئے مایاوتی نے لوگوں سے کہا کہ وہ قطار میں جھونک دینے کے لیے بی جے پی کو سبق سکھائیں۔ یوپی کے وزیر اعلی اکھلیش یادو اور ایس پی صدر ملائم سنگھ یادو نوٹ بندی پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں۔ اکھلیش نے تو بینکوں کے سامنے قطار میں مرنے والوں کے لواحقین کے لئے 2 لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان بھی کیا ہے، جو اب تک کسی ریاستی حکومت نے نہیں کیا ہے۔ کانگریس نے اکھلیش کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے، وہیں بی جے پی اس کو ’’تشٹی کرن‘‘ کی سیاست بتا رہی ہے۔ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے نوٹ بندی کے اعلان سے یوپی کے عوام انتہائی پریشان ہیں۔ مرکز کے آمرانہ فیصلے سے غریبوں اور دہاڑی مزدوروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ تاجروں کا دھندہ چوپٹ ہو گیا ہے۔آج بھی بینکوں اور اے ٹی ایم کے سامنے لوگوں کی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ بھی اپنے علاقوں میں جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔

ghaussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 535