donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Ko KahaN Le Jayega Taqat Ka Yeh Nasha


مودی کو کہاں لے جائے گا طاقت کا یہ نشہ؟


کانگریس ختم ہورہی ہے مگر متبادل کیا ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا کانگریس دھیرے دھیرے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے؟کیا اب ہریانہ اور مہاراشٹر میں کانگریس کا وہی حال ہونے والا ہے جو بہار اور اترپردیش میں ہوچکا ہے؟کیا اب کانگریس کبھی نہیں سنبھل پائے گی اور اسے اپنی ان غلطیوں کی سزا ملے گی جو وہ گزشتہ ۶۶ برسوں سے کرتی رہی ہے؟الیکشن نتائج میں کچھ بھی نیا نہیں تھا اور جو کچھ سامنے آیا سب حسب توقع تھا۔ راہل اور سونیا گاندھی کی امیدیں خاک میں مل گئیں اور اب کانگریس کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ وہ مستقبل میں اٹھنے کے لائق نہیں بچی ہے۔ البتہ سیاسی ماہرین ان نتیجوں کو مودی کی جیت سے زیادہ کانگریس کی ہار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مودی نے کہا تھا کہ وہ کانگریس سے ملک کو آزادی دلائینگے اور اور اسے جھاڑ پونچھ کر ختم کردینگے اور اب ملک میں ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کانگریس نے جو پاپ کئے تھے اسے انھیں کی سزا مل رہی ہے مگر ایک بڑا سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا نریندر مودی کا اس طرح ابھرنا اور اپوزیشن کا ختم ہوجانا ملک کے حق میں ہے؟ اس کے اثرات جمہوریت پر کیا مرتب ہونگے؟ نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور انھوں نے یہاں ڈکٹیٹر جیسا رویہ اپنا رکھا تھا۔ انھوںنے تمام مخالفین کو ختم کردیا تھا اور ان کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی بھی نہیں بچا تھا، سوال یہ ہے کہ کیا مرکز میں بھی وہی ہونے والا ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے الیکشن نتائج نے انھیں طاقتور بنایا ہے اور ان کی بڑھتی قوت خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔انھیں لوک سبھا میں اکثریت کے باوجود راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ملی تھی اور اب ریاستی اسمبلیوں میں جیت سے وہ دھیرے دھیرے اکثریت کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جھارکھنڈ اور جموں وکشمیر کی اسمبلیوں کے لئے بھی الیکشن کا اعلان ہوچکا ہے اور عنقریب دلی میں بھی الیکشن کا امکان ہے اور اب تک کے تمام اندازے کہتے ہیں کہ یہاں بھی بی جے پی کی سیٹیں بڑھینگی۔ مودی کی بڑھتی قوت سے جہاں دوسری سیاسی پارٹیاں خوفزدہ ہیں وہیں آرایس ایس امید وبیم کی حالت میں ہے۔ وہ جیت چاہتی تھی کیونکہ اقتدار سے ہی اس کی قوت ہے مگر جس طرح سے یکے بعد دیگرے جیت کے سبب نریندرمودی کی قوت بڑھ رہی ہے اس سے اسے بھی خوف ہونے لگا ہے کہ کہیں مودی ہاتھ سے نہ نکل جائیں اور منمانی نہ کرنے لگیں، حالانکہ وہ اب تک سنگھ سے ٹکرانے کے موڈ میں نہیں دکھائی دیتے۔

فرازؔ  اس کو  کوئی  قاتل کہے  کوئی مسیحا
جدا اِک دوسرے سے ہرکسی کے تجربے ہیں

مودی کی بڑھتی طاقت سے خطرہ؟

    ہریانہ میں بی جے پی کی کبھی سرکار نہیں بنی تھی مگر اب بن گئی ہے اور وزیر اعلیٰ کی کرسی پر آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والا شخص بیٹھا ہے۔ وہ مودی کا قریبی دوست ہے اور خیرخواہ ہے۔جہاں بی جے پی بہت کم سیٹیں حاصل کرپاتی تھی وہاں چمتکار ہوگیا اور اس نے تنہا اکثریت پا لیا۔ مہاراشٹر،میں وہ تنہا الیکشن لڑنے کی ہمت نہیں جٹا پاتی تھی اور پچھلے پچیس برسوں میں اس نے کبھی بھی شیو سینا کے بغیر انتخابی میدان میں ااترنا قبول نہ کیا آج ریاست کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔ یہاں بھی کرسی پر مودی کا قابل اعتماد شخص ہی بیٹھا ہے۔ یہ جیت بی جے پی کے بجائے نریندر مودی کی جیت ہے کیونکہ انھوں نے دونوں صوبوں میں پورا وقت دیا اور لوگوں کی امیدیں جگانے میں کامیابی پائی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گویا ہریانہ اور مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ انھیں کو بننا ہے۔ انھوں نے اپنے انتخابی جلسوں میں اِدھراُدھر کی باتیں کرنے کے بجائے ترقی کی بات کی اور ریاست کو آگے لے جانے کے وعدے کئے۔ عام طور پر اس قسم کے وعدے سیاسی پارٹیان کرتی رہتی ہیں مگر عوام سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتے مگر ان دونوں صوبوں کے ووٹروں نے اس وعدے پر بھروسہ کیا ہے اور بی جے پی کے امیدواروں کو جی کھول کر ووٹ دیا ہے۔ اب نئی سرکار ،کے لئے عوام کی امیدوں پر کھراا ترنے کی ذمہ داری ہوگی۔ جن لوگوں نے اس کا انتخاب کیا ہے وہ آئندہ اسے ریجکٹ بھی کرسکتے ہیں۔ نریندر مودی نے اسی حربے کو اسمبلی الیکشن میں بھی آزمایا جو لوک سبھا میں وہ آزماچکے تھے۔ اتفاق سے میڈیا کے ساتھ بھی ان کی دوستی چل رہی ہے اور صنعت کاروں کی حمایت بھی انھیں مل رہی ہے اور ان کی قوت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر بھارت کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو ایسا صرف اندرا گاندھی کے ساتھ ہوتا تھا کہ وہ ان کے نام پر کانگریس اسمبلی الیکشن بھی جیت لیتی تھی۔

کانگریس حوصلہ ہار چکی ہے

    کہیں خوشی ،کہیں غم ، یہ زندگی کا دستور ہے اور اس کی اچھی مثال الیکشن نتائج کے وقت دیکھنے کو ملتی ہے۔جہاں ایک طرف بی جے پی کے خیمے میں دیوالی سے قبل دیوالی کا سماں دیکھا گیا وہیں کانگریس کے خیمے میں ماتم کا ماحول تھا۔ جو اسمبلی رزلٹ دونوں صوبوں میں آیا اسی کی امید بھی کی جارہی تھی۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ کانگریس نے لڑائی سے پہلے ہی ہار مان لیا تھا اور وہ ہتھیار ڈال چکی تھی۔ ہریانہ میں وہ دس سال سے اقتدار میں تھی تو مہاراشٹر میں وہ پندرہ برسوں سے حکمرانی کر رہی تھی۔جس پارٹی کی سرکار ہوتی ہے اس کے خلاف ماحول بھی بنتا ہے اور عوام کا غصہ اسی پر اترتا ہے۔ ہریانہ میں سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کو غلط طریقے سے زمین دے کر فائدہ پہنچانے کا معاملہ سرخیوں میں آیا۔مہاراشٹر میں کئی گھوٹالے سامنے آئے اور کانگریس کے ساتھ ساتھ شریک حکومت جماعت این سی پی پر بھی بدعنوانی کے الزامات لگے۔ ظاہر ہے کہ اس سے عوام میں ناراضگی تھی خود کانگریس کو بھی معلوم تھا کہ وہ ہارنے والی ہے۔ البتہ اگر کانگریس ۔این سی پی ایک ساتھ مل کر الیکشن لڑتیں تو شاید ان کی سیٹوں میں معمولی اضافہ ہوجاتا۔ حالات کا پہلے ہی سے اندازہ ہونے کے سبب راہل اور سونیا گاندھی ان ریاستوں سے دور رہے اور چند ریلیوں میں ہی حصہ لیا۔ دوسری طرف نریندر مودی نے صرف مہاراشٹر میں ۲۳ ریلیاں کیں اور ان کی پارٹی کے صدر امت شاہ ہی نہیں بلکہ کئی بڑے لیڈروں نے دونوں صوبوں میں ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ اسی کے ساتھ آر ایس ایس کی طاقت بھی بی جے پی کے ساتھ تھی اور پورا سنگھ پریوار اسے جتانے میں لگا ہوا تھا۔ میڈیا اور صنعت کاروں کی طاقت بھی نریندر مودی کی قوت کو بڑھانے میں آگے آگے رہی۔ کانگریس کی پیشگی شکست خوردگی نے اس کا بیڑا غرق کرنے میں زیادہ اہم کردار نبھایا۔ وہ چند مہینے قبل ہی لوک سبھا الیکشن ہاری ہے اور اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ مہاراشٹر اور ہریانہ سے بھی اسے کوئی اچھی خبر نہیں ملے گی۔ سونیا اور راہل کی اس حرکت کی تعریف نہیں کی جاسکتی کہ ایک مشکل گھڑی میں انھوں نے اپنی فوج کو تنہا مرنے کٹنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ایک طرف پھوپندر سنگھ ہڈا تھے تو دوسری طرف پرتھوی راج چوان،جو کسی طرح میدان میں ڈٹے ہوئے تھے مگر جب انھیں اپنی ہی پارٹی کا تعاون نہیں مل رہاتھا تو کب تک لڑتے۔ کانگریس لوک سبھا الیکشن سے پہلے ہی شکست تسلیم کرچکی تھی اور اس کا یہ انداز فکر اب تک نہیں بلا ہے۔ میداں کی جیت ہار تو چلتی رہتی ہے مگر حوصلہ ہارجانا سب سے بڑی شکست ہے اور کانگریس ابھی اسی دور سے گزر رہی ہے۔     
کیا سیکولر راگ کانگریس کو بچاپائے گا؟  

    کانگریس اپنی تاریخ کے سب سے مشکل دورسے گزر رہی ہے۔ اس کے سامنے اس وقت جس قدر چیلنج ہیں پہلے کبھی نہیں رہے۔ وہ ہمیشہ ہی ہارکے وقت سیکولرزم کا راگ الاپتی ہے اور اس کی دہائی دے کر کہتی ہے کہ ملک خطرے میں پڑ جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسے اب سیکولرزم کا راگ بچا پائے گا؟ بنگال، بہار، اترپردیش اور تمل ناڈو میں کبھی کانگریس حکومت کیا کرتی تھی مگر اب یہاں اس کا کوئی وجود نہیں رہا۔ ایک مدت ہوا اسے ختم ہوئے اور دوبارہ ابھرنے کی اس کی ہرکوشش ناکام ہوچکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہریانہ اور مہاراشٹر میں بھی اب اس کا یہی حشر ہونے والاہے؟ہم نے دیکھا کہ ان دونوں ریاستوں میں وہ کس مقام پر پہنچ گئی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ جس طرح وہ پہلے بہار، یوپی، بنگال اور تمل ناڈو سے ختم ہوئی ہے اسی طرح اب ان دونوں ریاستوں سے بھی اس کا خاتمہ ہوگیا ہے۔وہ پہلے اقلیتوں اور سیکولر عوام کا ووٹ سیکولرزم کے نام پر حاصل کرلیتی تھی اور علاقائی پارٹیوں کو بھی اسی راگ پر اپنے ساتھ جوڑ لیتی تھی مگر اب اس کا کھیل ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کانگریس اس ملک پر سب سے زیادہ مدت تک راج کرنے والی پارٹی ہے اور اس بیچ اس نے کئی بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں جن میں سب سے بڑی غلطی تو اس کی یہ تھی کہ اس نے نہ صرف گھوٹالے کئے اور اس کی چھوٹ اپنے منتریوں کو دی بلکہ ان کے خلاف شکایتوں کو نظر انداز بھی کیا۔ اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔ گزشتہ بیس سال کی تاریخ اگر اٹھا کر دیکھیں تو اس بیچ بڑے بڑے گھوٹالے نظر آئیں گے۔اناہزارے اور اروند کجریوال نے اس ایشو پر تحریک شروع کی تو کانگریسیوں نے انھیں چڑانا شروع کردیا ۔ یہ معاملہ دھیرے دھیرے پورے ملک میں لوگوں کی نظروں میں آیا اور عوام کو محسوس ہونے لگاکہ ان کے ٹیکس کی رقم کو کس طرح یہ نیتا لوٹ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس حمام میں بی جے پی بھی کوئی دودھ کی دھلی ہوئی تو تھی نہیں مگر نریندر مودی کے اوپر گھوٹالوں کا کوئی الزام نہیں تھا اور انھوں نے عوام کو سپنے دکھانے کا جو کام کیا وہ کام آگیا۔ جس کام کی شروعات پہلے کجریوال نے کی تھی اس لائن کو مودی نے اپنالیا اور آج وہ ملک کے ایک بااثر لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ان کی قوت ملک کے مفاد میں ہے یا مفاد کے خلاف ، یہ سوال اہم ہوگیا ہے۔ عوام نے انھیں اکثریت دے کر ملک کے مفاد میں کام کیا ہے یا ملک کے خلاف کام کیا ہے،اس کا جواب عنقریب قوم کے سامنے آئے گا۔

یہ قوت مودی کو کہاں لے جائیگی؟

    قوت کا نشہ بہت خراب ہوتا ہے۔ یہ کسی کو نمرود تو کسی کو فرعون بنا دیتا ہے۔ کسی کو ہٹلر تو کسی کو جارج بش بنا دیتا ہے۔ یہ نشہ نریندر مودی کو بھی ہوتا جارہا ہے اور اس وقت حالات ان کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے لوک سبھا اور پھر ودھان سبھا انتخابات میں جس طرح سے نریندر مودی طاقت ور ہوکر ابھرے ہیں اس سے بی جے پی کا دوسری پارٹیوں پر انحصار کم سے کم ہوتا جائے گا اور اہم فیصلے لینے میں مرکزی سرکار زیادہ سے زیادہ بااختیار ہوتی جائیگی۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا مودی منمانی نہیں کرینگے؟ ان کا رویہ کسی تانا شاہ جیسا نہیں ہوجائے گا؟ جس طرح اندرا گاندھی نے قوت حاصل کرنے کے بعد جمہوریت کے لئے خطرات کھڑے کردیئے تھے کہیں ویسا ہی مودی تونہیں کرینگے؟ اسی کے ساتھ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آرایس ایس اور بی جے پی کے کچھ متنازعہ ایجنڈے بھی ہیں جیسے یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ، اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر، جموں وکشمیر سے دفعہ ۳۷۰ کا خاتمہ، ملک کے آئین پر نظر ثانی، تاریخ کو سنگھ کے نکتہ نظر کے مطابق لکھنا ، نصاب تعلیم کو آرایس ایس کے نظریے کے مطابق بنانا اور بھارت کو ہندو راشٹر بنانا وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ مودی اس راستے پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور بے لگام بھی ہوسکتے ہیں مگر یہ راستہ بھی خطرناک ہے اور اگر انھوں نے اصل ایجنڈے یعنی ترقی سے ہٹنے کی کوشش کی تو جو لوگ انھیں اقتدار دے سکتے ہیں وہ اقتدار چھیننے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملک کے عوام کو مودی سے بہت زیادہ امیدیں ہیں اور اب تک ان کی ایک امید بھی پوری نہیں ہوئی ہے۔ اب تک وہ خواب دکھا رہے ہیں اور تعبیر کا عوام کو انتظار ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اس کی تعبیر اچھی ہوتی ہے یا بری۔  


اپنا لہو،  تیری رعنائی،  تاریکی  اس  دنیا  کی
میں نے کیا کیا رنگ چنے ہیں دیکھوں کیا تصویر بنے


(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ ر ائٹر ہیں)  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 618