donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Raj Me Aakhir Yeh Kya Ho Raha Hai


مودی راج میں آخر یہ کیا ہورہا ہے؟


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    گائے کے نام پر اشتعال انگیزی! جانوروں کو بچانے کے نام پر انسانوں کا قتل! آزاد خیال ادیبوں پر حملے! اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کی کوشش! شدت پسندی میں اضافہ! تاریخ کو بھگوا رنگ دینے کی کوشش! تعلیمی نظام کو ہزاروں سال پیچھے لے جانے کی سازش اور قومی یکجہتی کو دیش نکالا دینے کا گیم پلان! آخر یہ سب کیا ہورہاہے ہندوستان جنت نشان میں؟ کیا یہی ہے ہمارے خوابوں کا ہندوستان؟ کیا یہی دن دیکھنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا تھا؟ اب تک ہم غفلت میں تھے کہ ایسے حالات صرف پاکستان میں ہیں جہاں مذہب کے نام پر خون خرابہ ہوتا ہے۔ جہاں مسلک کے نام پر خونریزیاں ہوتی ہیں۔ جہاں آزاد خیال قلمکاروں کو برداشت نہیں کیا جاتا مگر آج ہمارے ملک میں بھی یہی حالت پیدا ہوچکی ہے۔ اگر یہی سب کرنا تھا تو ملک کا بٹوارہ کیوں کیا گیا؟ تقسیم وطن نہ ہوا ہوتاتو خون خرابہ اور دہشت گردی کے لئے ہمیں بڑا میدان مل جاتا۔ پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض کی ایک نظم یاد آتی ہے ، جس کا عنوان ہے ’’تم باالکل ہم جیسے نکلے‘‘ ذرا آپ بھی اس نظم پر ایک نگاہ ڈالتے چلیں۔   

تم بالکل ہم جیسے نکلے
تم بالکل ہم جیسے نکلے ، اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے ، ارے بدھائی بہت بدھائی

پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کرو گے ؟
سارے الٹے کاج کرو گے ؟
اپنا چمن تاراج کرو گے ؟

تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا ، پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے ، تم بھی کرو گے فتویٰ جاری ؟
ہوگا کٹھن یہاں بھی جینا ، دانتوں آجائے گا پسینہ
جیسی تیسی کٹا کرے گی ، یہاں بھی سب کی سانس گھٹے گی
بھاڑ میں جائے شکشا وکشا ، اب جاہل پن کے گن گانا
آگے گڑھا ہے یہ مت دیکھو ، واپس لاؤ گیا زمانہ
مشق کرو تم آجائے گا ، الٹے پاؤں چلتے جانا
دھیان نہ دوجا ،من میں آئے ، بس پیچھے ہی نظر جمانا
ایک جاپ سا کرتے جاؤ ، بارم بار یہی دہراؤ
کیسا ویر مہان تھا بھارت ، کتنا عالی شان تھا بھارت
پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے ، بس پرلوک پہنچ جاؤ گے
ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر ، تم بھی سمے نکالتے رہنا

اب جس نرک میں جاؤ وہاں سے
چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا

 

    ہندوستان میں کہا جاتا ہے کہ پیار اور پاکستان کب دھوکہ دیدیں کوئی بھروسہ نہیں جب کہ پاکستان میں کہاوت ہے کہ ہسپنڈ اور ہندوستان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ہندستانیوں کی بات کو درست مانیں یا پاکستانی کہاوت کو دونوں صورتوں میں نشانہ ہم پر ہی ہوگا کیونکہ دونوں ملکوں کے عوام کا ڈی این اے ایک ہے۔ پاکستان بنا تو یہاں کے قائداعظم جناح نے کہا کہ سیکولر ملک رہے گا اور یہ جتنا مسلمانوں کا ہوگا اتنا ہی غیر مسلموں کابھی ہوگا۔ اسی طرح بھارت کے دستورکی بنیاد بھی سیکولرازم پر رکھی گئی مگر ہم آج دیکھ رہے ہیں کی سیکولرازم اور قومی یکجہتی کی دونوں ملکوں میں یکساں حالت ہے۔ جس طرح پاکستان میں اقلیتوں پر حملے ہوتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کو تہس نہس کیا جاتا ہے ،اسی طرح ہمارے ملک میں بھی فرقہ پرست طاقتیں قتل عام کراتی ہیں اور عبادت گاہوں کو نیست ونابود کرتی ہیں۔ جس طرح غیر سماجی عناصر کی پاکستان میں حکومت سرپرستی کرتی ہے، اسی طرح بھارت میں بھی ان کی پشت پناہی حکومت کرتی ہے۔جہاں پاکستان کو اسلامی ملک بنانے کے نام پر دہشت کا کھیل کھیلا جارہاے وہیں ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔جہاں پاکستان میں دہشت گردی کو اچھے اور برے کے خانے میں تقسیم کیا جارہاہے اور ایک دہشت گردی سے حکومت لڑ رہی ہے تو دوسری کی پشت پناہی کر رہی ہے، اسی طرح ہندستان میں بھی جہاں ایک طرف سیمی، انڈین مجاہدین وغیرہ پر قدغن ہے ،وہیں وشوہندو پریشد، بجرنگ دل، ابھینو بھارت اور سناتن سنستھان کو خون خرابہ کی مکمل آزادی ملی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان میں حافظ سعید اور ذکی الرحمٰن لکھوی حکومت کے پسندیدہ دہشت گرد ہیں تو ہندوستان میں بھی سوامی اسیمانند، کرنل پروہت اور ساددھوی پرگیہ سنگھ پر سرکار کی نظر عنایت ہے۔ سوا ل یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے الگ کہاں ہیں؟ پاکستان کی شناخت ایک ایسے ملک کے طور پر کی جاتی ہے جہاں آزاد خیالی جرم ہے ۔ جہاں بلاگ لکھنے کے جرم میں ایک نوعمر بچی ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے تو ہمارے یہاں بھی اس جرم میں نریندر دابھولکر، گوندپانسرے اور ایم ایم کلبرگی کا قتل ہوچکاہے۔ اگر پاکستان میں قلم کار آزاد نہیں تو ہمارے ملک میں بھی ادیب گھٹن محسوس کر رہے ہیں اور اپنے اعزاز واپس کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر عالمی برادری پاکستان سے کہتی رہی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے تو اب ہندوستان کو بھی یہی نصیحت دی جارہی ہے۔ اگر پاکستان کے مسائل میں بے کاری، بیروزگاری ،غربت، بھکمری، پانی کی قلت، انصاف کا فقدان ہے تو ہمارے ملک کے بڑے مسائل یہی ہیں۔اگر پاکستان کے سیاست داں اپنے ملک کی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک لے جاتے ہیں تو بھارت کے لیڈر بھی ان سے پیچھے نہیں۔ سوئز بینک کی رونق ہمارے کالے دھن والوں کے سبب ہی قائم ہے۔اگر پاکستان میں بدعنوانی ہے تو بھارت بھی بھرسٹاچار میں عالمی قوت ہے۔ جس طرح پاکستان میں عام لوگ پریشان ہیں اسی طرح بھارت میں عام شہری مجبوری اور بے بسی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ آخر ہم کہاں پیچھے ہیں مملکت خداداد سے؟ سچ ہے

ہندوبھی چین سے ہے مسلماں بھی چین سے
انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاں بھی

    بھارتیوں اور پاکستانیوں کی ذہنی بناوٹ یکساں ہے اور اس کی ایک بہترین مثال پاکستان ہی کے ایک صحافی حفیظ چاچڑ کی تحریر میں یوں ہے:

’’جب ہم جالندھر پہنچے تو دیکھا کہ ٹول پلازہ کی جس لائن میں ہم کھڑے ہوئے تھے وہاں ٹریفک جام ہو گیا تھا اور ایک پرائیویٹ گاڑی والاجس کی گاڑی پر نیلے رنگ کی لائٹ لگی ہوئی تھی، وہ ٹول پلازہ کے کاؤنٹر پر موجود لوگوں سے بحث کر رہا تھا۔قریب 20 منٹ کی بحث اور ٹول پلازہ انتظامیہ کے لوگوں کی مداخلت کے بعد جب ہم کاؤنٹر پر پہنچے اور میں نے کاؤنٹر والے لڑکے سے پنجابی میں پوچھا کہ بھائی صاحب کیا ہوا؟ وہ کیوں بحث کر رہا تھا؟ تو کہنے لگا کہ وہ ہم کو ٹول ٹیکس نہیں دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ فوج میں ہے اور ہم نے کہا کہ آپ چاہیں کہیں بھی ہوں لیکن ٹیکس تو دینا پڑے گا۔ ان کے مطابق انہوں نے 50 روپئے کا ٹیکس کار والے سے لے لیا ۔
    بھارت میں اس طرح کے واقعات کہیں کہیںہوتے ہوں گے اور لوگوں کو پتہ بھی ہوگا اور ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن میرے لئے واقعی یہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ میں اس ملک کا شہری ہوں جہاں فوج ہی سب کچھ ہے۔ اسلام آباد سے لے کر کراچی تک تقریبا 1200 کلومیٹر کا سفر کرنے والے شخص کو کئی بار ٹول ٹیکس دینا پڑتا ہے لیکن فوج کے کسی افسر یا جوان سے کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا ہے۔‘‘

    بھارت اور پاکستان دومختلف ملک ہیں۔جب سے یہ دونوں الگ الگ ہوئے ہیں، کسی نہ کسی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کھائی بڑھتی جا رہی ہے، لیکن باہمی اختلافات کو ہم اگر تھوڑی دیر کے لئے بھول جائیں تو پائیں گے کہ دونوں ممالک میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں جگہ ایک سے مسائل، ایک سی پریشانیاں ہیں۔ان دنوں بھارت کی شناخت ایک ایسے ملک کے طور پر ہورہی ہے جہاں عدم برداشت کا ماحول ہے۔ ملک کی یہ تصویربنانے میں کئی وجوہات کارفرما ہیں۔ ماضی میں یہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں اور اقلیتوں کو قتل کیا جاتا رہاہے ۔ اس بات کی سچائی سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا مگر حالیہ دور میں جو ماحول تیار ہو اہے وہ زیادہ تشویشناک ہے ۔ ان دنوں سوائے مظفرنگر کے کوئی بڑا فساد نہیں ہوا مگر عدم برداشت کا ماحول پورے ملک میں بنا ہے۔ کبھی لوجہاد کے نام پر تو کبھی تبدیلی مذہب کے نام پرحالات خراب کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ کہیں گائے کے گوشت کے نام پر پیار ومحبت کی فضا میں نفرت کا زہر گھولاگیا تو کہیںبیان بازیوں سے امن وامان کو نقصان پہنچایا گیا۔ حالات کو خراب کرنے کی کوشش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے مگر یہ پہلا موقع ہے، جب فسادیوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ کہنے کو تو ’’سب کا ساتھ ،سب کا وکاس‘ کا نعرہ لگایا جارہاہے مگر حقیقت میں وکاس اور ترقی تو صرف فسادات اور اشتعال انگیزیوں کی ہورہی ہے۔   


 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 636