donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Sarkar Ka Naya Farmaan : Sabzi Khor Banega Hindustan


مودی سرکار کا نیا فرمان، سبزی خور بنے گا ہندوستان


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    گئو کشی کے نام پر واویلا،گائے کی عقیدت میں نہیں بلکہ اقتدار پانے کی سیاست کے چلتے مچایا گیا۔ غنڈے گئو رکھشکوں کو، قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت محض اس لئے دی گئی تاکہ پورے ملک میں گائے کے نام پر سیاسی ماحول سازی ہوسکے۔ اس کے بعد اترپردیش میں یوگی سرکار کے آتے ہی بھینس کے گوشت پر بھی پابندی لگادی گئی۔اب مودی سرکار کی طرف سے پورے ملک کے لئے حکم آیا ہے کہ کسی بھی مویشی بازار میں ،مویشیوں کو سلاٹر ہائوس کے لئے فروخت نہ کیا جائے۔ اس حکم سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی حکومت ،ہندوستانیوں کو دھیرے دھیرے سبزی خوری پر مجبور کر رہی ہے کیونکہ سلاٹر ہائوسیز کے لئے 60فیصد جانور، مویشی منڈیوں سے ہی آتے ہیں۔ ایسا کرنے سے جہاں ہندوستانی بازار میں گوشت کی قلت ہوگی ،وہیں دوسری طرف گوشت اکسپورٹ میں بھی کمی آئے گی۔واضح ہوکہ بھارت گوشت اکسپورٹ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اورہمارے ملک کو اس کے ذریعے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اس معاملے میں چین ہمارے ملک سے پیچھے ہے۔ بھارت ڈیری کی صنعت اور جانوروں کی افزائش کرنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں کی تقریباًستر فیصد آبادی گوشت کھانے والی ہے۔ اگر ملک میں بھینس کا گوشت بند ہوجائے تو فطری طور پر گوشت کھانے والے مٹن ، چکن اور مچھلی کی طرف مائل ہونگے اور قیمت میں اضافہ ہوگا۔ اس سے سبزی کی قیمت بھی بڑھے گی۔ علاوہ ازیںابھی تو سڑکوں پر صرف بوڑھی گائیں آوارہ پھرتی دکھائی دیتی ہیں مگر بھینس کے گوشت پر پابندی یا انھیں سلاٹر ہائوسیز کو فروخت کرنے کی ممانعت سے مستقبل میں بھینسں اور بھینسے بھی سڑکوں پر آوارہ پھرتے نظر آئیںگے۔حکومت نے اب تک یہ نہیں بتایا ہے کہ بوڑھے جانوروں کا کیا کیا جائے؟ جو جانور دودھ دینے کے لائق نہیں رہتے، ان کا کیا کیا جائے؟حکومت نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ہمارے ملک میں جو بڑی تعداد میں لوگوں کے اندر وٹامن اور پروٹین کی کمی ہورہی ہے،اسے کہاں سے پورا کیا جائے؟ سوال یہ بھی ہے کہ گوشت پر قسطوں میں پابندی لگانے کے بجائے ایک بار ہی میں کیوں نہیں لگائی جاتی؟ 

قانون کی ضرورت؟

    ہمارے ملک میں تقریباً70 فیصد شہری گوشت خور ہیں جب کہ 9 فیصد وہ لوگ ہیں جو گوشت تو نہیں کھاتے مگر انڈے کھاتے ہیں۔ صرف 31 فیصد ہی خالص ویجیٹیرین ہیں جب کہ گوشت خوروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کی کوئی ریاست ایسی نہیں ہے، جہاں گوشت نہیں کھایا جاتا۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک کے شہری عموماً331 روپئے ماہانہ گوشت مچھلی اور انڈے پر خرچ کرتے ہیں۔ نان ویج کی خریداری پر سب سے زیادہ کیرل والے خرچ کرتے ہیں۔ یونہی ملک کی کئی ریاستوں میں گئو کشی کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے اور اگر کوئی شخص انھیں ذبح کرتا ہے تو قانونی طور پر ممانعت نہیں ہے۔ بہار، کیرل اور نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں اس کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔ جب کہ مغربی بنگال، تمل ناڈو اور آسام نے باقاعدہ قانون بناکر اس کی اجازت دی ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک بار معاملہ گیا تھا مگر اس نے بھی یہاں روک لگانے سے منع کردیا البتہ یہ حکم بھی جاری کیا کہ جو گائیں دودھ دینے کے لائق ہیں انھیں ذبح نہ کیا جائے بلکہ عمر رسیدہ گایوں کو ذبح کیا جائے۔ گجرات، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور راجستھان میں گئو کشی پر پابندی ہے مگر یہاں بھینسوں کے ذبح کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ 2013-14ء  میں بھارت نے 32,288.57کروڑروپئے کا گوشت اکسپورٹ کیا ہے جس میں 26,457کروڑروپئے کا بھینسوں کاگوشت بھی شامل تھا۔ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جانوروں کی پوجا کی جاتی ہے اس کے باوجود اور ان کا گوشت کھایااور بیچا جاتا ہے۔ اس کے اکسپورٹرس میں مسلمان بہت کم ہیں بیشتر غیر مسلم ہیں۔     

گائے پر سیاست کی پرانی تاریخ

    بھارت میں پرانے زمانے سے ایک طبقہ ایسا رہا ہے جو سبزی خور رہا ہے مگر اسی کے ساتھ گوشت خوری کی بھی اپنی روایت رہی ہے۔ یہاں کی قدیم مذہبی کتابوں میں دیوتائوں کے سامنے جانوروں کی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔بدھ ازم کے زیر اثر بھارت میں اہنسا کی تحریک شروع ہوئی اور جانوروں کو ذبح کرنے کی مخالفت ہوئی۔اسی تحریک کے زیر اثر گائے نے تقدس کا درجہ پایا اور یہ تقدس بڑھ کر عبادت کے مقام تک پہنچ گیا۔یہاں بنارس کے پنڈتوں میں سبزی خوری کو فروغ ملا اور ملک کے کچھ دوسرے حصوں میں بھی برہمنوں اور جینیوں نے گوشت کھانا سے پرہیز کیا مگر کشمیر، مغربی بنگال اور دوسرے ساحل سمندر پر رہنے والے برہمنوں میں گوشت خوری کا رواج رہا اور انھیں آج بھی اس سے پرہیز نہیں ہے۔ حالانکہ جہاں ایک طرف گجرات اور راجستھان میں ہندووں کا ایک بڑا طبقہ اور جینی گوشت سے اجتناب کرتے ہیں ،وہیں دنیا کے کئی ممالک میں بدھسٹ بھی گوشت ،مچھلی کھاتے ہیں۔بھارت میں جب سیاست کی بات آتی ہے تو پھر کسی بھی عام بات کو بہانہ بناکر سیاست کی جاسکتی ہے۔ گوشت خوری اور گئو کشی بھی ایسا ہی ایک معاملہ ہے۔ اس پر قدیم دور سے سیاست کا سلسلہ چل رہا ہے۔ بھارت میں مغل شہنشاہیت کے بانی بابر نے ہمایوں کو نصیحت کی تھی کہ گئوکشی نہ کرنا اور ہندووں کے جذبات کا لحاظ کرنا، جب کہ ہمایوں کے جانشیں اکبر کے زمانے میں گئو کشی پرمکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مسلم اکثریتی کشمیر میں راجہ کے عہد میں گئو کشی پر پابندی تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ یہاں آج بھی لوگ بکرے اور بھیڑوں کا گوشت کھاتے ہیں۔ مہاتما گاندھی گئو کشی کو پسند نہیں کرتے تھے مگر اس کے لئے کسی زور زبردستی کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ اپنی مرضی سے ہی اسے ترک کردیں۔ آریہ سماج کی شدھی تحریک کے زمانے میں گئوکشی کو بھی ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے خلاف تحریک چلائی جاتی تھی۔سنگھ پریوار گئو کشی پر سیاست کرتا رہا ہے اور اس کو بہانہ بناکر اکثر دنگے فساد کرائے جاتے رہے ہیں۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لوگ ہر سال عیدالاضحی سے قبل سرگرم ہوجاتے ہیں اور جہاں کہیں بھی کوئی ٹرک جانوروں سے بھرا ہوا ملتا ہے، اسے پکڑ کر جانوروں کو ادھر ادھر ہانک دیتے ہیں۔ وہ لوگ کئی مقامات پر گئو کشی کو بہانہ بناکر اشتعال انگیزی بھی کرتے ہیں اور اس کے خلاف تحریک ان کے ایجنڈے کا خاص حصہ ہے۔ دوسری طرف نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ اگر اس کی سرکار بنتی ہے تو وہ یہاں گوکشی پر پابندی نہیں عائد کرے گی۔ اس کے اس اعلان سے سمجھا جاسکتا ہے کہ گوکشی اس کے لئے عقیدت نہیں سیاست کا مسئلہ ہے۔ 

آرایس ایس اور گوشت خوری

     آر ایس ایس تو سبزی خوری کی حمایت کرتا رہا ہے اور گوشت خوری کی مخالفت کرتا رہا ہے مگر اس کے ایک چیف بالا صاحب دیورس کے بارے میںبعض لوگوں نے لکھا ہے کہ وہ گوشت خور تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے موجودہ چیف موہن بھاگوت نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ گوشت کے اکسپورٹ پر پابندی لگنی چاہئے اور گئو کشی تو مکمل طور پر بند ہونی چاہئے۔ان کی یہ تقریر دور درشن سے نشر کی گئی جس پر تنازعہ بھی اٹھا۔ ان سے پہلے ایک مرکزی وزیر منیکا گاندھی کہہ چکی ہیں کہ اس کے اکسپورٹ سے ہونے والی آمدنی کا استعمال دہشت گردی کے فروغ میں ہورہا ہے۔ وزارت کامرس کا کہنا ہے کہ گوشت کے کاروبار پر پابندی عائد کرنے سے ملک کا معاشی نقصان ہوگا، جبکہ دو قسم کے بیانوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لئے وزیرفروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار کے پاس اس معاملے میں کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ1960ء میں مرکزی سرکار نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا مقصد گئو کشی پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں غوروفکر کرنا تھا۔ اس کمیٹی کے سربراہ تھے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈچیف جسٹس اے کے سرکار۔ سرکار کمیٹی کے ممبران میں تب کے آر ایس ایس چیف ایم ایس گولوالکر، پوری کے شنکر آچاریہ، ڈاکٹر وارگھیس کورین وغیرہ تھے۔ باوجود اس کے آج تک ہندوستان میں گوکشی پرمکمل پابندی نہیں لگ پائی۔

گوشت خوری پر پابندی؟

    بھارت میں گوشت خوری اور گئو کشی دونوں سے زیادہ مستفید ہونے والے بیشتر ہندو ہیں۔ اس وقت بیشتر ہندو گوشت کھاتے ہیں اور ان کا ایک طبقہ گائے اور بھینس کا گوشت بھی کھاتا ہے۔ دلت ، آدیباسی اور بعض دوسری برادریوںکے لوگ صدیوں سے گائے، بھینس کا گوشت کھاتے ہیں۔ نیپال دنیا کی واحد ہندو ریاست ہو اکرتی تھی مگروہاں بھی بھینسوں کو ذبح کرنے کی اجازت ہے۔ حالانکہ سائنسی نقطۂ نظر سے وہ بھی گایوں کے ہی کنبے سے ہیں۔ گوشت سے ہماری خوراک کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور اس کے کاروبار سے پورے ملک کو فائدہ ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ گئو سیوا کے نام پر چندہ کرتے ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ کے نام پر دولت جمع کرتے ہیں مگر سیاست کا نشانہ ہمیشہ مسلمان بنتے ہیں۔ آج مرکز اور کئی ریاستوں میں آر ایس ایس کی پشت پناہی والی بی جے پی کی سرکار ہے اور اس کے پاس اکثریت بھی ہے لہٰذا وہ چاہے تو پابندی بھی عائد کرسکتی ہے اور بھارت کو ایک سبزی خور ملک بنا سکتی ہے اور کچھ حد تک وہ اسی راستے پر چل رہی ہے۔ حالیہ ایام میں مرکزی سرکار کی طرف سے جو نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے، وہ اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ممکن ہے، اس کا مقصد مسلمانوں کو پریشان کرنا ہو یا ہندووں کو یہ باور کرانا ہوکہ مودی سرکار گائے اور بھینس کے قتل کے خلاف ہے مگر اس کے اس اقدام سے مسلمانوں کو کم ہندووں کو زیادہ نقصان ہوگا۔ اصل میں جانور پالنے کا کام بیشتر دلت، پسماندہ، کسان اور غریب کرتے ہیں۔ مودی سرکار کے تازہ حکم نامے سے ان طبقات کو  نقصان ہوگا اور ان کی معیشت کمزور ہوگی۔ اسی طرح گوشت کے اکسپورٹ سے ملک کو ملنے والے زرمبادلہ میں بھی کمی آئیگی جس سے ملک کی معیشت کو بھی نقصان ہوگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 483