donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Sarkar Ke Teen Saal Ghair To Ghair Apne Bhi Behaal


مودی سرکار کے تین سال، غیرتو غیر،اپنے بھی بے حال


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    لیجئے ،دیکھتے ہی دیکھتے مودی سرکار کے تین سال پورے ہوگئے۔ ان تین برسوں میں ملک بے حال ہے۔ کسان آج بھی خودکشی کر رہے ہیں۔ روزگارکے مواقع، بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں۔ مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے مگر باوجود اس کے میڈیا کا دعویٰ ہے کہ مودی کا جادو اب بھی قائم ہے اور اگر آج الیکشن ہوئے تو نریندر مودی پھر اقتدار میں آجائینگے۔ نریندر مودی سے ملک کا کوئی طبقہ خوش ہونہ ہو مگر قومی میڈیا خوش ہے اور حکومت کے خلاف خبریں دکھانے سے گریز کر رہا ہے۔ حکومت کے تمام کام ہوا میں چل رہے ہیں مگر اسی کے ساتھ ایک حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم پر اب تک اقرباء پروری کے الزام نہیں لگے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے شادی کے فوراً بعد بیوی، گھر اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی ان کے رشتہ دار ان سے دور ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواہ امبانی، اڈانی اور بابا رام دیو کی’’ سلطنت‘‘ کی سرحدیں وسیع ہوگئی ہوں مگر وزیراعظم کے بھائی، بھتیجے آج بھی غربت کی زندگی جی رہے ہیں۔یہ بات بہتوں کو حیران وششدر کردیگی مگر سچ ہے۔ اسے آپ نریندر مودی کی خود غرضی کہیں یا ’’دیانتداری‘‘ کہ انھوں نے کبھی لوٹ کر اپنے گھروالوں کی طرف نہیں دیکھا۔وہ ملک کی ان خواتین کی فکر کرتے رہے جنھیں ’’تین طلاق‘‘ہوجاتی ہے مگر کبھی یشودابین مودی کا خیال نہیں آیا جو شادی کے چند دن بعد ہی سے’’ بیوگی‘‘ کی زندگی جینے پر مجبور ہوگئیں۔ گزشتہ اکتوبر کی بات ہے کہ پونے میں ایک این جی او کے پروگرام میں 75 سالہ سوم بھائی مودی اسٹیج پر موجود تھے۔ تبھی اعلان کیا گیا کہ وہ وزیر اعظم کے سب سے بڑے بھائی ہیں۔ اس انکشاف سے سامعین  چونگ پڑے۔اس اعلان کے بعد سوم بھائی، صفائی دینے آگے آئے۔ انہوں نے کہاکہ ’’میرے اور وزیر اعظم مودی کے درمیان ایک پردہ ہے۔ میں اسے دیکھ سکتا ہوں مگر آپ نہیں دیکھ سکتے۔ میں نریندر مودی کا بھائی ہوں، وزیر اعظم کا نہیں۔ وزیر اعظم مودی کے لئے تو میں 123 کروڑ ہم وطنوں میں سے ہی ایک ہوں جو تمام ان کے بھائی بہن ہیں۔‘‘یہ کوئی انکسار نہیں تھا۔ واقعی سوم بھائی ایک مدت سے  وزیر اعظم مودی سے نہیں ملے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے درمیان کبھی کبھی بس فون پر بات ہوتی ہے۔ ان سے چھوٹے پنکج اس معاملے میں تھوڑا قسمت والے ہیں۔ گجرات کے انفارمیشن سیکشن میں افسر پنکج کی وزیراعظم سے کبھی کبھی اس لئے ملاقات ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی ماں ہیرابین سے ملنے گاندھی نگر میں ان کے گھر آجاتے ہیں اور ماں، پنکج کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ ماں دلی کے پی ایم ہائوس میں بھی جاچکی ہیں۔بہرحال وزیراعظم پر خواہ کئی سنگین الزامات لگتے رہے ہوں مگر اچھی بات یہ ہے ان پر کبھی اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو فائدہ پہنچانے کا الزام نہیں لگا۔

    وزیراعظم مودی کے بارے میں کچھ دن قبل تک لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کنوارے ہیں۔ انھوں نے گجرات میں جب جب اسمبلی کا الیکشن لڑا تو اس خانے کو خالی چھوڑ دیا جس میں شادی سے متعلق جانکاری دی جاتی ہے مگر گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں جب انھوں نے بنارس سے پرچہ بھرا تو خود کو شادی شدہ بتایا۔ البتہ بیوی کی کوئی تفصیل نہیں دی۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ شادی شدہ ہوکر بھی کنوارے ہیں۔ ابتک بھارت کے جتنے بھی وزیراعظم ہوئے ہیں وہ عموما خاندان اور بال بچے والے تھے۔ان کے ساتھ ان کا خاندان بھی رہتا تھا۔پنڈت نہرو کے ساتھ ان کی بیٹی اندرا رہتی تھیں۔ ان کے جانشین لال بہادر شاستری ،1نمبر موتی لال نہرو مارگ پر اپنے پورے کنبے کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے ساتھ بیٹا بیٹی، پوتا،پوتی تمام رہتے تھے۔ اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو اور سنجے اور ان کا خاندان، ایک ساتھ رہتا تھا۔ یہاں تک کہ غیر شادی شدہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ بھی ایک خاندان تھا۔ وہ 1998 میں جب 7، ریس کورس روڈ میں رہنے پہنچے تو ان کی گود لی ہوئی بیٹی نمرتا اور ان کے شوہر رنجن بھٹاچاریہ کا خاندان بھی ساتھ رہنے آیا مگر موجودہ وزیراعظم اپنے تمام رشتہ داروں کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی بیوی بھی ابتدائی دنوں سے ہی ان سے الگ رہ رہی ہیں۔ وزیراعظم مودی کے تمام رشتہ دار آج بھی گمنام زندگی جی رہا ہے اور اس خاندان کے لوگ بہت معمولی کام کرکے اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔ مودی نے 1971 میں خاندان سے دوری بنانی شروع کی تھی۔ وہ آرایس ایس کے کام پر زیادہ توجہ دینے لگے اور برہمچاری کی زندگی جینے لگے۔حالانکہ دوری کے باجود ان کے رشتہ دار انہیں فخر سے یاد کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کو بھی اس بات پر فخر رہتا ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کی طرفداری کے الزام سے بچے ہوئے ہیں۔وزیر اعظم مودی کہتے ہیںکہ سچ مچ میرے بھائیوں اور بھتیجوں کو اس کا کریڈٹ دیا جانا چاہئے کہ وہ عام زندگی جی رہے ہیں اور کبھی مجھ پر دباؤ بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ آج کی دنیا میں یہ واقعی نایاب ہے۔

    پی ایم نریندر مودی اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے کتنے کٹے ہوئے ہیں اس کا اندازہ ان کے خاندان کے لوگوں کی حالت کودیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم کے ایک بڑے بھائی 72 سالہ امرت بھائی ایک پرائیویٹ کمپنی میں فٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ 2005 میں ان کی تنخواہ محض 10ہزار روپے تھی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تب نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے وہ چاہتے تو اپنے بھائی کو بہت کچھ دے سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا۔ امرت بھائی اب احمد آباد کے گھاٹلودیا علاقے میں چار کمرے کے ایک فلیٹ میںریٹائرمنٹ کی زندگی جی رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا، 47 سالہ سنجے، اس کی بیوی اور دو بچے رہتے ہیں۔ سنجے چھوٹا موٹا کاروبار چلاتا ہے۔ سنجے کا بیٹا نیرو اور بیٹی نرالی دونوں انجینئرنگ پڑھ رہے ہیں۔ سنجے اپنی لیتھ مشین پر چھوٹے موٹے کل پرزے بناتے ہیں اور ٹھیک ٹھاک زندگی جی رہے ہیں۔ 2009 میں انھوں نے کارخریدی تھی جوگھر کے باہر کھڑی رہتی ہے۔ اس کا استعمال خاص موقعوں پر ہی ہوتا ہے کیونکہ پورا خاندان زیادہ تر دو پہیا گاڑیوں پر ہی چلتاہے۔ان لوگوں کو اب تک کسی ہوائی جہاز کو اندر سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ وہ لوگ مودی سے صرف دو بار ملے ہیں۔ ایک بار 2003 میں بطور وزیر اعلی ،انھوںنے گاندھی نگر کے اپنے گھر میں پورے خاندان کو بلایا تھا اور دوسری بار 16 مئی، 2014 کو جب بی جے پی نے لوک سبھا میں تاریخی جیت درج کی تھی۔اس خاندان کے پڑوس میں رہنے والے جانتے ہیں کہ یہ خاندان وزیراعظم کے بھائی کا خاندان ہے مگر سنجے کا جس بینک میں اکاؤنٹ ہے، اس کے افسر اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ سنجے کے بیٹے کو بینک سے پیسہ نکالنے کے لئے لمبی لائن میں کھڑے دیکھا گیا۔ سنجے کے پاس سب سے قیمتی امانت ایک یادگار آئرن ہے۔شاید مودی اس آئرن کا استعمال امرت بھائی کے ساتھ احمد آباد میں 1969 سے 1971 کے درمیان رہنے کے دوران کیا کرتے تھے۔ سنجے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو 1984 میں اسے ردی میں فروخت کرنے سے روکا تھا۔ اگر کاکا (مودی) آج اس آئرن کو دیکھیں تو انہیں ایسا لگے گا جیسے ٹائٹینک کی باقیات ہو۔اس گھر میں مودی کی دوسری نشانی ایک پنکھا ہے۔یہ وہ پنکھا ہے جسے مودی گرمی میں استعمال کیا کرتے تھے۔

    نریندر مودی کے سب سے چھوٹے بھائی پرہلاد مودی ہیں۔وہ سستے غلے کی ایک دکان چلاتے ہیں ۔ وہ عوامی تقسیم کے نظام میں شفافیت لانے کے معاملے میں وزیر اعلی مودی کی پہل سے ناراض رہتے ہیں اور دکان کے مالکان پرچھاپا ڈالنے کے خلاف مظاہرہ کر چکے ہیں۔وزیراعظم کا باقی کنبہ، ان کے بھائی، بھتیجے، بھتیجی یا دوسرے رشتہ داروں کی زندگی مشکلات سے دوچار ہے۔ کچھ تواپنی زندگی بے حد غربت میں کاٹ رہے ہیں تو کچھ لوگوں کی آمدنی بے حد کم ہے۔ 

    پی ایم کے سگے بھائیوں سے زیادہ بری حالت ان کے چچیرے بھائیوں کی ہے جو یقینا غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔مودی کے چچا زاد بھائی اشوک بھائی مودی واڈنگر میں ایک ٹھیلے پر پتنگیں، بسکٹ اور کچھ کھانے پینے کی چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرتے تھے مگر اب انہوں نے پانچ ہزار روپئے  مہینے میں 8-4 فٹ کی چھوٹی سی دکان کرایہ پر لے لی ہے۔ اس دکان سے انھیں تقریبا سات ہزار روپئے ماہانہ آمدنی ہوجاتی ہے۔ان کی بیوی وینا ایک این جی او میں کام کرتی ہیں جہاں ان کا کام برتن مانجھنا ہے۔ انھیں یہاں سے تین ہزار روپئے ملتے ہیں۔ یہ خاندان تین کمروں کے ایک خستہ حال مکان میں گزر بسر کرتا ہے۔وزیراعظم مودی کے ایک اور چچیرے بھائی 55 سالہ بھرت بھائی بھی ایسی ہی مشکل زندگی جیتے ہیں۔ وہ واڈنگر سے 80 کلومیٹر دور پالن پور کے پاس لالواڑا گاؤں میں ایک پٹرول پمپ پر 6ہزار روپے ماہانہ پر کام کرتے ہیں اور ہر 10 دن میں گھر آتے ہیں۔ واڈنگر میں ان کی بیوی رمیلابین پرانے بھوج شیری علاقے میں اپنے چھوٹے سے گھر میں ہی کچھ سامان بیچ کر 3ہزار روپے ماہانہ کی کمائی کر لیتی ہیں۔وزیراعظم کے تیسرے چچیرے بھائی 48 سالہ چندرکانت بھائی، احمد آباد کے ایک مویشی گھر میں معاون کا کام کرتے ہیں اور گوبر وغیرہ صاف کرتے ہیں۔ ان کے دوسرے بھائی  61 سالہ اروندبھائی کباڑی کا کام کرتے ہیں۔ وہ واڈنگر اور ارد گرد کے دیہاتوں میں پھیری لگا کر پرانے تیل کے ٹن، اور ردی خریدتے ہیں۔ اس سے انہیں 6-7ہزار روپے ماہ کی کمائی ہو جاتی ہے جو ان کے لئے اوران کی بیوی رجنی بین کے لئے کافی ہے کیونکہ ان کا کوئی بچہ نہیں ہے۔وزیراعظم کے تمام چچیرے بھائیوں میں بھرت بھائی اور رمیلابین ہی سب سے زیادہ کمائی کرتے ہیں۔ ان کی کمائی کئی بار مہینے میں 10ہزار روپے تک ہو جاتی ہے۔ان بھائیوں میں سب سے بڑے 67 سالہ بھوگی بھائی بھی واڈنگر میں ایک دکان سے چھوٹی موٹی کمائی کر لیتے ہیں۔ اتفاق سے ان پانچ بھائیوں میں سے کوئی بھی میٹرک سے اوپر نہیں پڑھ پایاہے۔واضح ہوکہ وزیراعظم کے والد اور چچا واڈنگر ریلوے اسٹیشن کے قریب چائے کی دکان چلایا کرتے تھے۔ ان دونوں کااب انتقال ہو چکا ہے۔ مودی خاندان کے جانکار  بتاتے ہیں کہ 1969 میں مودی خاندان احمد آباد میں گیتا مندر کے پاس گجرات ٹرانسپورٹ کے ہیڈ کوارٹر میں ایک کینٹین چلایا کرتے تھا۔ تبھی موجودہ وزیراعظم مودی ان کے ساتھ رہنے آئے۔آرایس ایس کے ایک مقامی کارکن امرت بھائی یاد کرتے ہیں کہ کینٹین کے پاس میرا ایک کمرے کا  بہت چھوٹا مکان تھا، اور نریندر مودی کینٹین میں ہی سویا کرتے تھے۔

    وزیراعظم نریندر مودی پر گزشتہ دنوں الزام لگاتھا کہ امریکی صدر براک ابامہ کی آمد پر انھوں نے دس لاکھ کا سوٹ پہناتھا۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ وہ انتہائی ٹھاٹ باٹ کی زندگی جیتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی چھترچھایا میں ان کمپنیوں کے وارے نیارے ہوئے جنھوں نے گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں ان کا ساتھ دیا تھا مگر یہ بھی سچائی ہے کہ وزیراعظم اب تک اپنے رشتہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے الزام سے دور ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 611