donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Punjab Me Kaun Jeetega Manshiat Ki Jung


پنجاب میں کون جیتے گا ’’منشیات‘‘ کی جنگ؟


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    پنجاب میں آئندہ ۴فروری کو اسمبلی انتخابات ہیںاور اس بار انتخابات کا سب سے بڑا ایشو منشیات کا کاروبار ہے۔ الزام ہے کہ بادل سرکار میں بیٹھے کچھ لوگ اس کالے دھندے میں ملوث ہیں۔کانگریس اور عام آدمی پارٹی اس بار اقتدار کے دعویدار ہیں اور دونوں پارٹیوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر انھیں سرکار بنانے کا موقع ملا تو وہ منشیات کے کاروبار کو ختم کرکے دم لیںگی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ریاست میں ڈرگس کا کاروبار ایک دن میں نہیں پھیلا ہے۔ اس کی ابتدا کانگریس کے دور حکومت میں ہی ہوگئی تھی۔ اس وقت عام آدمی پارٹی بھی منشیات کو ختم کرنے کی بات کر رہی ہے جس کا ریاستی چہرہ ہیں ممبرپارلیمنٹ بھگونت مان۔ مان صاحب، وہ ذات شریف ہیں جو خود نشیڑی کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ اکثر نشے میں دھت رہتے ہیں اور عوامی جلسوں سے لے کر جنازے تک میں نشے کی حالت میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ’’ آپ ‘‘ کی جیت ہوتوبھگونت مان کو ہی سی ایم کی کرسی پر بٹھایا جائے۔اسی مقصد کے پیش نظر وہ ایم پی ہوتے ہوئے بھی موجودہ نائب وزیراعلیٰ کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بہرحال پنجاب میں اس وقت منشیات کا کاروبار ایک بڑا انتخابی ایشو ہے ،اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہاں کے زمینی حالات کیا ہیں؟

پنجاب کیسے بنا منشیات کی جنت؟

       پنجاب کو کبھی اس کے بہادر اور جنگ جو جوانوں کے لئے جانا جاتا تھا مگر اب منشیات کے لئے جانا جارہا ہے۔ یہاں ایک طرف نئی نسل نشے کی لت میں گرفتار ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف ایسے خاندانوں کی بھی کمی نہیں جنھوں نے نشیلی دوائوں کی اسمگلنگ کو اپنا کاروبار بنا رکھا ہے۔ نوجوانوں میں بے کاری اور بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے اور انھیں ذہنی الجھن سے نجات کا صرف یہی راستہ دکھ رہا ہے کہ وہ نشیلی دوائوں کا استعمال کریں اور اپنے مسائل سے وقتی طور پر چھٹکارا پالیں۔ بھارت ۔ پاکستان بارڈور پر واقع گائووں منشیات کی غیر قانونی تجارت کا مرکز بن چکے ہیں اور اس کے سامنے پولس و حکومت لاچار نظر آرہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں وہ لوگ بھی جو سرکار میں بیٹھے ہوئے ہیں یا جن کے رشتہ دار ریاستی سرکار کا حصہ ہیں۔ بربادی کا یہ دھندہ کئی خاندانوں کا کاروبار بن چکا ہے اور اسے پشتینی کاروبار کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ اس پر لگام لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوچکا ہے اور پنجاب کے رستے یہ پورے ملک میں پھیلتا جارہا ہے۔ نشے کی لت میں گرفتار ہوکر اب تک نہ جانے کتنے لوگ موت کی آغوش میں جا چکے ہیں اور کئی گھر برباد ہوچکے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دو طرفہ بات چیت پر کبھی کبھی آگے بڑھتے  ہیں اور بہت سے مسائل ان کے ایجنڈے میں رہتے ہیں مگر سرحد پر ہورہا موت کا یہ دھندہ ان کے ایجنڈے میں کبھی شامل نہیں رہا۔ منشیات کا غیر قانونی کاروبار کہاں تک جائے گا کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر فی الحال اس پر کنٹرول کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ساٹھ کی دہائی میں بھارت کی سرحد ،سونے کی اسمگلنگ کے لئے جانی جاتی تھی مگر اب حالات بدل چکے ہیں اور قانون بھی۔ اب سونا قانونی طور پر لایا جاسکتا ہے لہٰذا اس کی جگہ منشیات نے لے لی ہے۔ اس میں زبردست کمائی کے مواقع ہیں۔ جو ہیروئن افغانستان میں صرف ایک لاکھ روپئے کیلو ہوتی ہے وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پہنچتے پہنچتے پانچ کروڑ کی ہوجاتی ہے۔ اس کی یہی کشش اسمگلروں کو اس کی جانب مائل کرتی ہے۔

پنجاب میں سرحدی گائووں کا بزنس

       پنجاب میں بھارت ۔پاکستان سرحد پر واقع سو سے زیادہ گائووں کا فیمیلی بزنس بن چکا ہے منشیات کا کاروبار۔ راج کوٹ، بھیکھیونڈ، الکو کوٹھو، راجہ تال، پل کنجری، نوشیرا تلہ، نوشیراپنو، دوکے اور حویلیان ان گائووں میں شامل ہیں جن کا انحصار اب منشیات کے کاروبار پر ہے۔ فیروز پور کے کلبھوشن گپتا کہتے ہیں کہ اس خطے میں منشیات کا دھندہ بہت عام ہے اور لوگوں کا فیملی بزنس بن چکا ہے ،جو باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی اسمگلر ،ان خاندانوں کے ساتھ بزنس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جنھیں پرانا تجربہ ہے اور جس کے بزرگ اس کاروبار سے منسلک رہے ہیں۔خاندانی لوگوں کے ساتھ کاروبار کرنے میں انھیں اعتماد رہتا ہے جب کہ نئے لوگوں پر وہ مشکل سے بھروسہ کرتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ اس علاقے میں ایسے خاندانوں کی کمی نہیں جو اسی دھندے کے سبب کروڑپتی ہوگئے ہیں۔ جو کل تک غریبی کی زندگی جیتے تھے آج ان کی شان و شوکت دوسروں کے لئے قابل رشک ہے۔ 

ایک گائوں کی خوشحالی کاراز

    دائولی والاایک گائوں ہے جو موگا ضلع میں واقع ہے۔ اسے منی چنڈی گڑھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے باشندوں کی خوشحالی دیکھ کر بڑے بڑے امیروں کو حسد ہوسکتا ہے۔ ان کی امیری اور شان و شوکت کا راز وہی منشیات کا کاروبار ہے۔یہاں ہر روز چالیس لاکھ کی ہیروئن بکتی ہے اور اس دھندے میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔اس علاقے میں اگرچہ کھیتی باڑی بھی ہوتی ہے مگر خوشحالی کا راز منشیات کے کاروبار میں پوشیدہ ہے۔ یہاں کے باشندوں میں بیشتر وہ ہیں جو تقسیم ملک کے وقت پاکستان سے یہاں آئے تھے ۔ یہاں کل ۸۰۰ سو خاندان بستے ہیں جن میں سے ۵۹۰ کسی نہ کسی طرح ڈرگس کے دھندے سے وابستہ ہیں۔ پولس نے دائولی والا میں ایک متنازعہ سائن بورڈ لگایا تھا جس پر تحریر تھا کہ یہ علاقہ ’ڈرگس ہب ‘ہے۔اس بورڈ پر مقامی لوگوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ مقامی لوگ مانتے ہیں کہ یہاں یہ دھندہ چل رہا ہے مگر اسی کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہاں باہر کے لوگ بھی اس دھندے کے لئے آتے ہیں۔ 

منتری بھی ڈرگس کے دھندے میں

    منشیات کا کاروبار روکنے کے لئے سرکار نے ایک محکمہ بنایا ہے اور اس کی ذمہ داری افسروں کو دی گئی ہے مگر اس پر لگام کیسے لگ سکتی ہے جب خود سرکار میں بیٹھے افراد ہی اس کاروبار میں ملوث ہوں۔سرکار دعویٰ کرتی ہے کہ جیسے ہی کہیں اس کی جانکاری ملے گی فورا کارروائی کی جائی گی مگر ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یہ محکمہ محض نمائشی محکمہ بن کر رہ گیا ہے۔ پنجاب سرکار کے ایک منتری اور ایک ایم ایل اے پر بھی الزام ہے کہ وہ اس دھندے میں ملوث ہیں اور بڑے پیمانے پر وہ اس ناجائز دھندے سے کمائی کر رہے ہیں۔ سینکڑوں پولس افسران ایسے ہیں جو اس کالے کاروبار میں ملوث پائے گئے ہیں۔ لوک سبھا الیکشن میں یہ ایک اہم ایشو تھا اور اسی لئے بی جے پی و اکالی دل کی سرکار نے اسمگلروں اور ڈرگس بیوپاریوں کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کیا تھا۔ تقریباً دو ہزار افراد گرفتار بھی ہوئے مگر ان میں کوئی نیتا اور پولس والا شامل نہیں تھا۔ پنجاب میں نشے کی لت کیوں فروغ پارہی ہے اور اس کے کاروبار کو کیوں بڑھاوا مل رہا ہے اس سوال کا جواب اسی پس منظر میں ڈھوندا جاسکتا ہے۔مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ دھندہ اب پنجاب سے نکل کر پورے بھارت میں پھیلتا جارہا ہے ۔ خاص طور پر راجدھانی دلی اور این سی آر میں ملنے والی ہیروئن وہی ہوتی ہے جو پنجاب کے راستے پاکستان ہوتے ہوئے افغانستان سے آتی ہے۔  

افغانستان سے بھارت تک

    ہیروئن اور افیم کی کھیتی دنیا میں سب سے زیادہ افغانستان میں ہوتی ہے اور یہاں اس کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے بہت کم ہے۔ یہاں طالبان کے عہد حکومت میں اس کی کھیتی میں کچھ کمی آئی تھی مگر طالبان کے جاتے ہی اس پر لگی تمام روک ختم ہوگئی۔ اب باقی ملک کے ساتھ ساتھ ان خطوں میں زیادہ اس کی کھیتی ہوتی ہے جہاں طالبان کا قبضہ ہے۔ طالبان اس کی کھیتی سے کمائی کرتے ہیں جس کا استعمال ہتھیاروں کی خرید میں ہوتا ہے۔ یہ یہاں محض ایک لاکھ روپئے کیلو کے حساب سے مل جاتی ہے۔ یہاں سے اس کا سفر شروع ہوتا ہے اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں جاتی ہے۔ پاکستان کے راستے ہی یہ بھارت کی سرحد تک پہنچتی ہے اور پھر اسے اسمگلر پنجاب کے بارڈر کے راستے یہاں لاتے ہیں۔

    پاکستان میں ڈرگس کا کام سیدھے طور پر آئی ایس آئی کنٹرول کرتی ہے اور مانا جاتا ہے کہ نشیلی دوائوں کی سپلائی بھارت مخالف مہم کا ایک حصہ ہے۔ اس دھندے سے جڑے پاکستان میں کئی بڑے نام ہیں جو اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اس کام کو بڑے پیمانے پر چلا رہے ہیں۔ بی ایس ایف کے ذرائع کے مطابق پاکستان میں بدیع نامی شخص اس کا سب سے بدنام اسمگلر ہے جو اپنے گرگوں کے ذریعے بھارت کی سرحد تک یہ منشیات پہنچواتا ہے۔ علاوہ ازیں چودھری سخاوت، احمد دین، رفیق حاجی، بڈھا عاشق،مالک لمبا اور کالوجیسے نام شہرت کے حامل ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں آئی ایس آئی کی پشت پناہی حاصل ہے اور اسی کی مدد سے بھارت میں موت کا کاروبار پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھا جائے تو یہ سب کچھ پاکستان حکومت کی شہہ پر ہورہا ہے اور وہاں کی حکومت میں بیٹھے ہوئے کچھ لیڈر بھی اس دھندے میں شامل ہیں۔ ٹھیک اسی طرح اطلاعات کے مطابق بھارت میں واقع پنجاب کے کچھ نیتائوں کا بھی یہی دھندہ ہے اور وہ بھی اربوں روپئے اسی بزنس میں کما چکے ہیں۔ 

بارڈر پر رِسک کا کام

     ہیروئن کی سرحد پر اسمگلنگ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ الزام ہے کہ بعض اوقات تو بارڈر پر تعینات فوج کے جوانوں کو رشوت دے کر اسے لایا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جانب فوج کے جوان اسمگلنگ سے نظر چرانے کے لئے پیسے لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ لمبے لمبے پائپ کے ذریعے اسے بھارت کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ یہ پائپ ان کانٹوں کے بیچ ڈال دیئے جاتے ہیں جو سرحد پر لگے ہوئے ہیں۔ اسمگلنگ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سرحد کے پاس سرنگ کھود دی جاتی ہے اور تربیت یافتہ کتوں کے جسم میں ہیروئن کے پیکیٹ باندھ کر سرنگ کے اندر ہانک دیئے جاتے ہیں جو اسے پاکستان سے بھارت پہنچا دیتے ہیں۔ بارہا سیکوریٹی فورسیز نے اسمگلروں کے خلاف کارروائی بھی کی ہے اور کئی کو مار گرایا ہے مگر اس کے باوجود یہ دھندہ چل رہا ہے۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ بہت رسک لیتے ہیں اور عام طور پر سرحد پر اس دھندے کے لئے نوعمر لڑکوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو اپنی جان پر کھیل کر یہ کام انجام دیتے ہیں۔ انھیں بہت زیادہ پیسے نہیں ملتے جب کہ دوسرے لوگ زیادہ کمائی کرتے ہیں۔ یہ بات بی ایس ایف کے سابق ڈی جی جاگیر سنگھ سارن بھی قبول کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کم عمر لڑکے پیسے کی لالچ میں یہ رسک لیتے ہیں۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 871