donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Secular Partiyon Ki Dum Par Owaisi Beradran Ke Paon


سیکولر پارٹیوں کی دُم پر اویسی برادران کے پائوں


ایم آئی ایم کے پھیلائو سے خوفزدہ کیوں ہیں سیکولرزم کے ٹھیکے دار؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش حکومت اور الہ آباد انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ وہ ایم آئی ایم صدر اور رہنما محمد اسدالدین اویسی کو یہاںجلسے جلوس کی اجازت کیوں نہیں دے رہی ہے؟جسٹس راکیش تیواری اور جسٹس مختار احمد کی بنچ نے الہ آباد کے رہائشی افسر احمد کی درخواست پر یہ حکم دیتے ہوئے 17 اگست کو سماعت کرنے کی تاریخ طے کی ہے۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ سیاسی دباؤ میں اویسی کو جلسہ کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔حکمراں پارٹی کو ڈر ہے کہ مسلم ووٹ بینک اس سے دورہو جائے گا۔اویسی کے اجتماع کی اجازت رد کرنے کے معاملے میں اس وقت کے ڈی ایم بھوناتھ سنگھ کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے۔ الزام ہے کہ ریاست کے وزیربرائے شہری ترقیات اعظم خاں اور سماج وادی پارٹی سربراہ ملائم سنگھ نہیں چاہتے کہ اجتماع ۔اسی کے ساتھ قیاس آرائیاں ہیں کہ اتر پردیش میں 2017 کا اسمبلی انتخابات حکمراں سماج وادی پارٹی کے لئے مشکل بھرا ہو سکتا ہے۔ ایسا اس لئے کہا جا رہا ہے کہ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی پارٹی یوپی کا اگلا اسمبلی انتخاب لڑے گی۔ایسے میں ملائم سنگھ یادو سے مسلم ووٹروں کے ایک طبقے کے کٹنے کی پوری توقع ہے۔اویسی نے ایک افطار پارٹی میں کہاتھا کہ’’ میں اس وقت یہ نہیں بتا سکتا ہے کہ کتنی سیٹ پر اور کن کن نشستوں سے الیکشن لڑنا ہے، لیکن یہ صاف ہے کہ ہماری پارٹی اسمبلی انتخابات لڑے گی۔‘‘مانا جاتا ہے کہ AIMIM سربراہ کا یوپی کے نوجوانوں کے درمیان خاصا اثر ہے اور ان کے الیکشن لڑنے کے اعلان سے سماجوادی پارٹی کا پریشان ہونا لازمی ہے. سماج وادی پارٹی ریاست میں AIMIM کی موجودگی سے پریشان ہے، کیونکہ یہ پارٹی اس کے مسلم ووٹ بینک پر ڈاکہ ڈال سکتی ہے۔ حکمراں پارٹی نے اپنے کارکنوں اور مسلم لیڈروں سے اویسی کے گیم پلان کو فیل کرنے کے لئے میدان میں کمر کسنے کا اعلان کر رکھا ہے۔دوسری طرف اکھلیش سرکار جیسے جیسے مسلمانوں سے کئے ہوئے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہورہی ہے مسلمانوں کا ایک طبقہ ایم آئی ایم کی طرف راغب ہورہا ہے۔ مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات اور اورنگ آباد کے باڈی انتخابات میں ملے بہترین نتائج نے AIMIM کو یوپی اسمبلی الیکشن لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔ اویسی نے یوپی کو اس لئے اگلا پڑائو مقرر کیا ہے کیونکہ ریاست میں مسلم ووٹروں کی تعداد خاصی زیادہ ہے اور بعض سیٹوں پر تو مسلمان فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سماج وادی پارٹی اور دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں گھبراہٹ ہے اور اویسی کو بی جے پی سنگھ پریوار کا ایجنٹ قرار دے رہی ہیں۔

 سنگھ کا ایجنٹ کون؟

    ان دنوں ’’سیکولر‘‘ پارٹیوں کی طرف سے سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا آر ایس ایس حیدرآباد کی پارٹی ایم آئی ایم کو پیسے دے رہا ہے؟کیا اسے بی جے پی کی پشت پناہی حاصل ہے؟ کیا اس کے عروج سے سنگھ پریوار کو فائدہ ملے گا؟ کیا یہ پارٹی ملک دشمن ہے؟ کیا اس پر پابندی عائد کردینی چاہئے؟ کیا اویسی برادران کی تقریریں ملک وقوم کے لئے خطرناک ہیں؟ غرضیکہ آج کل، کل ہند مجلس اتحاد المسلمین موضوع بحث ہے اور اس کے لیڈر ان اسدالدین اویسی واکبرالدین اویسی  نشانے پر ہیں۔ حالانکہ یہی پارٹی جب تک یوپی اے کا حصہ تھی اور کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑتی تھی تب تک آرایس ایس کی ایجنٹ نہیں تھی۔ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں دو سیٹوں پر جیت اور کارپوریشن انتخابات میں اچھی کارکردگی نے ان سیاسی پارٹیوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں جو ،اب تک مسلم ووٹوں کے سبب عیش کر رہی تھیں۔جب سے ایم آئی ایم نے ملک بھر میں توسیع کا اعلان کیا ہے ،ان سبھی لیڈروں میں کھلبلی مچ گئی ہے جو مسلم ووٹوں کی دعویدار ہیں۔ سابق وزیر داخلہ اور کانگریس کے سینئر لیڈرسشیل کمار شندے کی بیٹی کی طرف سے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا گیاتوبہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالوپرساد یادو نے اسے آر ایس ایس کا ایجنٹ بتایا اور ملائم سنگھ یادو جن کے راج میں پروین توگڑیا، یوگی آدتیہ ناتھ ،ساکھشی مہاراج، ساھوی نرنجن جیوتی زہر اگلنے کے لئے آزاد ہیں ، وہاں اویسی برادران کو مٹینگ اور جلسے تک کی اجازت نہیں ہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ اچانک ان لیڈران کو ایم آئی ایم ملک دشمن اور آرایس ایس کی ایجنٹ نظر آنے لگی اور اویسی برداران سے ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا؟حالانکہ کل تک یہ بھی یو پی اے کی شریک جماعت تھی۔آخر ان الزامات کے پیچھے کچھ سچائی ہے یا مسلمانوں کے بیچ اس کی بڑھتی مقبولیت کے سبب اسے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ اس پارٹی کے پھیلائو سے سنگھ پریوار کوفائدہ پہنچے گا یا ان موقع پرست اور بے ایمان سیاسی پارٹیوں کو نقصان ہوگا جو مسلمانوں کے ووٹ لینے کے بعد کبھی ان کی خبر نہیں لیتی ہیں؟

 ایم آئی ایم سے خوفزدہ ’’سیکولر ‘‘پارٹیاں

     ان دنوں میں ابھرتی ہوئی ایم آئی ایم پر اس کے مخالفین کی جانب سے سخت حملے ہورہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس پر حملہ کرنے والوں میں جہاں دائیں بازو کی ہندتووادی جماعتیں ہیں وہیں وہ پارٹیاں بھی ہیں جو خود کو مسلمانوں کا ہمدرد بتاتی ہیں۔ مہاراشٹر میں دواسمبلی سیٹوں پر جیت اور خاصے ووٹ بٹورنے کے بعد اس نے پورے ملک میں اپنی توسیع کا منصوبہ بنا رکھا ہے ۔ ابھی بہار کا الیکشن سامنے ہے اور اس کے بعد بنگال اور پھر اترپردیش میں وہ قدم جمانے اور الیکشن میں اترنے کی کوشش کرسکتی ہے۔اس کے اس پروگرام نے مبینہ سیکولر پارٹیوں میں کھلبلی مچا رکھی ہے ،جو مسلمانوں کے ووٹوں پر انحصار کرتی ہیں مگر کبھی ان کے حق میں آواز نہیں اٹھاتی ہیں۔ان پارٹیوں کی طرف سے ایم آئی ایم کی راہوں میں کانٹے بچھائے جارہے ہیں اور طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد یادو الزام لگاچکے ہیں کہ آر ایس ایس اویسی کی پارٹی ایم آئی ایم کو فنڈ دے رہا ہے اوراس کے فروغ کے لئے کام کررہا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ ملک توڑنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ادھرراشٹروادی کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار نے کہا ہے کہ بی جے پی ،ایم آئی ایم کی حمایت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مہاراشٹر کے لئے ایم آئی ایم خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ سابق وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کی بیٹی پریتی شندے نے بھی ایم آئی ایم کے خلاف تیکھے تبصرے کئے تھے۔ انہوں نے ایم آئی ایم کو غدار پارٹی کہا تھا اور اس پرپابندی کی مانگ کی تھی۔ یہ بات انھوں نے اس وقت کہی تھی جب وہ شولہ پور سیٹ سے اسمبلی الیکشن لڑ رہی تھیں۔اس پر اویسی نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ معافی نہیں مانگتی ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ کریں گے۔ اویسی نے یہ سوال بھی کیا تھا کہ جب ایم آئی ایم ایک ملک دشمن پارٹی ہے تو کانگریس نے پارلیمنٹ اور آندھراپردیش اسمبلی میں اس کی مدد کیوں لی اور اسے اپنے محاذ میں شامل کیوں کیا؟مزے کی بات یہ ہے کہ کانگریس کی طرف سے کبھی شیوسینا، بی جے پی یا دائیں بازو کی ہندو جماعتوں پر پابندی کی بات نہیں کہی گئی۔بلکہ کانگریس کے دور اقتدار میں ہی انھیں بڑھنے اور پھیلنے کا موقع ملا۔

ہندتووادیوں کے نشانے پر اویسی برداران

    ایم آئی ایم صرف مبینہ سیکولر پارٹیوں کے نشانے پر ہی نہیں ہے بلکہ اس پر نشانہ سادھ کر شیوسینا، بی جے پی اور وشوہندو پریشد جیسی جماعتیں بھی شدت پسند ہندووں کو اکسانے میں لگی ہوئی ہیں۔انھیں لگتا ہے کہ اویسی بردران کا خوف دکھا کر ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں متحد کیا جاسکتا ہے۔ شیوسینا کے نشانے پر مجلس اتحادالمسلمین رہی ہے ۔وہ اپنے ترجمان ’سامنا‘ میں لکھ چکی ہے کہ اویسی برادران یہاںشہر پر سے بھگوا پرچم اتار کر ہرا جھنڈا لگانا چاہتے ہیں۔یہ باتیں ا نھوں نے مہاراشٹر میں ہونے والے کارپوریشن انتخابات کے دوران لکھی تھی۔شیوسینا اویسی برادران کے بہانے مسلمانوں پر بھی نشانہ سادھتی رہی ہے۔ وہ کہہ چکی ہے کہ ممبئی میں منی پاکستان بنایا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ شہر میں چوری، نقب زنی اور ڈکیتی کی وارداتوں کے لئے بھی مسلمانوں کو موردالزام ٹھہراچکی ہے۔مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں ایم آئی ایم کی جیت کا ذکر کرتے ہوئے وشو ہندو پریشد کے ورکنگ صدر پروین توگڑیا نے اسدالدین اویسی کو ’’کتا‘‘ تک کہہ ڈالا تھا۔ حالانکہ اس وقت اسٹیج پر وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی سرپرست اشوک سنگھل اور گورکھپور کے ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ بھی موجود تھے۔

اویسی کے گھر کے سامنے ہنگامہ

    آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی کی دہلی رہائش گاہ پر ہندو سینا کے ارکان احتجاج کرچکے ہیں۔انھوں نے یہاں خوب ہنگامہ مچایا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اویسی نے ہندووں کے دیوتائوں کے خلاف قابل اعتراض باتیں کہی ہیں۔ پولس اسٹیشن ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے اور اس علاقے میں ممبران پارلیمنٹ اور وزیروں کی رہائش گاہیں ہونے کے سبب پولس ہمیشہ مستعد رہتی ہے مگر باوجود اس کے وہاں پولس نہیں پہنچی۔ایم آئی ایم کے صدر کی رہائش گاہ اشوک روڈ پر ہے، جس میں مرمت کا کام چل رہا تھا۔ جس وقت ہندوسینا کے تقریبا 20 کارکنوں نے وہاں پہنچ کر ہنگامہ اور توڑ پھوڑشروع کیا وہاں صرف مزدور موجود تھے۔احتجاجیوں نے نعرے لگائے اور اویسی کی نیم پلیٹ اکھاڑدی۔پارٹی کے بورڈ پر انھوں نے سیاہی پوت دی اور بھاگ نکلے۔

کسے فائدہ اور کسے نقصان؟

    ایم آئی ایم کے توسیع پسندانہ عزائم سے کانگریس، راشٹریہ جنتا دل ، سماج وادی پارٹی یا این سی پی کیوں پریشان ہیں؟ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایم آئی ایم کی توسیع سے ہندو اور مسلم ووٹوں کا دو جگہ منقسم ہونا طے ہے اور ان حالات میں بی جے پی کو ہی فائدہ ہونا ہے۔بعض لوگوں کاخیال ہے کہ ایم آئی ایم کی بنیاد پرست سیاست لفظ بہ لفظ ویسی ہی ہے، جیسی بی جے پی کی ہندوتووادی سیاست۔اس کے برخلاف ایم آئی ایم مسلم ووٹروں کو اپنے گرد جمع کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کی مسلسل حق تلفی ہورہی ہے اور ہ ستائے جارہے ہیں، اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں پر سے ان کا بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ ایسے میں ایم آئی ایم ان کے لئے امید کی کرن ہے۔ صدر ایم آئی ایم اسدالدین اویسی پچھلے دنوں مہاراشٹر میں کہہ چکے ہیں کہ مرکز میں کانگریس اور ریاست مہاراشٹرمیں کانگریس این سی پی اور شیوسینا بی جے پی حکومتوں کے گزشتہ 50 سال کی حکمرانی ،اقلیتی فرقہ کے لوگوں کی پسماندگی کے لئے ذمہ دارہے۔انھوں نے قومی پس منظر میں اپنے ایک حالیہ انٹرویو میںکہا کہ جن لوگوں کو ہم نے اپنا لیڈر مانا، جنہیں ہم نے ووٹ دیا، انہوں نے ہم سے نہ تو کبھی سماجی طور پر انصاف کیا اور نہ ہی سیاسی طور پر۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کا ووٹ کے لئے استعمال ہوا ہے۔دوسری طرف ایم آئی ایم صدر کے بھائی اور حیدر آباد سے ایم ایل اے اکبرالدین اویسی نے کہاہے کہ، تمام مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لئے منظم ہو جانا چاہئے۔ اگر وہ ایک نہیں ہوتے تو مسلمانوں کی شناخت خطرے میں پڑنے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا۔انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی مغربی بنگال، بہار اور کرناٹک جیسی دیگر ریاستوں میں بھی پاؤں پھیلانے کی تیاری کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی دلتوں کی ترقی اور ان کے حقوق کے لئے بھی کام کرے گی۔واضح ہوکہ مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات میں ایم آئی ایم نے دلتوں کو بڑی تعداد میں ٹکٹ دئے تھے اور اسے دلت ووٹ کا بڑا حصہ حاصل ہوا۔

کہاں سے ابتدا ہوگی؟

    ایم آئی ایم مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی اتحاد کا خاصا نقصان کرچکی ہے اور جو مسلم ووٹ انھیں حاصل ہوتا تھا اسے وہ اپنی طرف پھیر چکی ہے۔ وہ دلی اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں بھی اترنا چاہتی تھی مگر یہاں بی جے پی کوفائدہ ہوتا دیکھ اس نے ارادہ ترک کردیا۔ اب بہار اسمبلی انتخابات سامنے ہیں۔ اگلے سال مغربی بنگال اسمبلی کے لئے چنائو ہونے والا ہے اور اس کے بعد اترپردیش اسمبلی کے لئے بھی الیکشن ہوگا۔ اب تک پارٹی کی سرگرمیوں کا مرکز بہار اور بنگال نہیں بن پایا ہے مگر یوپی میں وہ خاصی سرگرم نظر آرہی ہے۔ ملائم سنگھ یادو اس پارٹی سے اس قدر خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں کہ انھوں نے یہاں اویسی برداران کے جلسوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کے خلاف ایم آئی ایم کورٹ کی پناہ میں جارہی ہے۔ ایسے میں حالات کے جانکار محسوس کر رہے ہیں کہ ایم آئی ایم اگر انتخابی میدان میں اترتی ہے تو مسلم ووٹوں کا بٹوارہ ہوگا اور بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا۔ حالانکہ ایم آئی ایم کے حامیوں کی دلیل ہے کہ سنگھ پریوار کا خوف دکھاکر ہمیں کب تک ہمیںروکا جائے گا۔اس خوف میں مسلمان ایک مدت سے جی رہے ہیں۔ ایسے سیکولر لیڈروں کی جیت سے کیا فائدہ جن کے اقتدار میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے ، حق تلفی ہوتی ہے اوروہ تماشہ دیکھتے رہتے ہیں؟ظاہر ہے کہ ایم آئی ایم کے حق میںیہی بات جاتی ہے کہ مسلمان تمام سیاسی پارٹیوں سے مایوس ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 645