donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Seyasat Ka Yog, Musalmano Ke Liye Rog


سیاست کا یوگ،مسلمانوں کے لئے روگ


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    پہلاعالمی یوگا دیوس دھوم دھام سے منایا گیا ۔ راج پتھ پر ۳۷ہزار سے زیادہ لوگوںنے یوگا کرکے عالمی رکارڈ بنایا۔اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزراء بہ نفس نفیس موجود تھے۔بی جے پی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کے نیتا بھی تھے۔ جو تصویریں سامنے آئیں ان میں مسلمان بھی یوگا کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ خاص طور پر سری نگر سے ایسی تصویریں میڈیا میں آئیں جن میں باحجاب مسلمان لڑکیاں یوگا کرتی ہوئی نظر آئیں۔ حیدرآباد اور گجرات میں بھی مسلمانوں نے یوگا کرتے ہوئے میڈیا کو پوز دیا۔ مسلمان یوگ دیوس میں اس لئے موضوع بحث بن گئے تھے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یوگا ویوس کو غیر اسلامی کہا تھا اور بعض علماء کے فتوے بھی اس سلسلے میں آئے تھے۔ یہ تصویریں ظاہر کرتی ہیں کہ عام مسلمانوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کیا کہہ رہا ہے اور علماء کیسے کیسے غیر سنجیدہ فتوے جاری کر رہے ہیں۔ یوگ دیوس کی تیاریوں میں مسلمان غیر ضروری طور پر چلے آئے تھے،حالانکہ ہمارے ملک کی سیاست میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ جہاں مسلمان اور اسلام کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی وہاں مسلمانوں کو کھینچ لایا جاتا ہے۔ اس کے لئے کبھی بیگانے ذمہ دار ہوتے ہیں تو کبھی اپنے قصوروار ہوتے ہیں۔بھارت میں سینکڑوں سال سے یوگ کیا جاتا رہا ہے اور نئے دور میں اسے ایک مفید ورزش کے طور پر لیا گیا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو یوگا کیا کرتے تھے۔ ان کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی صحت کو ٹھیک رکھنے کے لئے یوگا کیا کرتی تھیں اور انھوں نے پہلی بار اسے دور درشن کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا کام کیا۔ انھوں نے دھرین برہمچاری کے ذریعے اسے دوردرشن پر پیش کیا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ریکھا سے مادھوری دکشت تک نے اپنے حسن اور صحت کو بنائے رکھنے کے لئے یوگا کا سہارا لیا۔ اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے دیوبند میں بھی یوگا کیمپ ہوئے اور علماء کے ایک طبقے نے بھی اسے اپنایا مگر کبھی بھی یہ بات نہیں اٹھی کہ یہ غیراسلامی ہے یا ہندو تہذیب کو لادنے کی کوشش ہورہی ہے اور جیسے ہی مودی نے اسے سیاست کا ہتھیار بنایا مسلم پرسنل لاء بورڈبھی اپنے ہاتھ میں شمشیر بے نیام لے کر میدان میں آگیا۔حالانکہ اس سے قبل علماء کی طرف سے یہ بیان بھی آیا کہ یوگا میں اگر سوریہ نمسکار نہ ہو اور مشرکانہ کلمات نہ کہے جائیں تو اسے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اب مسلم پرسنل لا بورڈر کی طرف سے مولانا ولی رحمانی کا بیان آرہا ہے جس میں شدید مخالفت کی جارہی ہے تو دوسری طرف ظفریاب جیلانی کہہ رہے ہیں کہ وہ اس معاملے کو کورٹ لے جائیںگے۔ حکومت اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے بعض طالع آزمائوں کے اس جھگڑے میں چکی کے دو پاٹ کے بیچ پس رہے ہیں عام مسلمان اورنشانہ بن رہا ہے اسلام۔ جہاں نریندر مودی یوگا کی سیاست کے بہانے اپنی حکومت کی ناکامیوں سے میڈیا اور عوام کی توجہ پھیرنا چاہتے ہیں وہیں ایسا لگتا ہے کہ برسوں سے سردخانے میں پڑے ہوئے مسلم پرسنل لا بورڈ کے سہارے کچھ لوگ اپنے سیاسی عزائم پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا ولی رحمانی سرخیوں میں آکر ایک بار اور ایم ایل سی بن جائیں اور ظفریاب جیلانی ملائم سنگھ یادوکی توجہ پاکر راجیہ سبھا تک پہنچ جائیں مگر اس سیاست میں عام مسلمانوں کا کیا بھلا ہوگا؟کیا ہی بہتر ہوتا کہ مسلم پرسنل لا بورڈکے ذمہ داران اس قسم کے غیرضروری تنازعات سے بچتے ہوئے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرتے جس میں ان کے تمام مسائل کا حل مضمر ہے مگر وہ ایسا نہیں کریں گے اور انھیں ایسی جگہوں پر الجھائے رہیں گے جہاں سے انھیں سیاسی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہو۔   

یوگا حلال یا حرام؟

    اس وقت یوگا کے بہانے کئی سوال اٹھ رہے ہیں،مثلاًمسلمان کو یوگا کرنا چاہئے یا نہیں؟ یوگا حلال ہے یا حرام؟ یہ محض ورزش ہے یاہندو عبادت؟ اگر یہ صرف ورزش ہے تو اسے سیاست سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟ کیا حکومت یوگا کی بحث کے بیچ اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتی ہے اور سنجیدہ مسائل پر بحث سے بچنا چاہتی ہے؟ کیا مسلمان یوگا کے بحث میں پھنس کر اپنے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹارہے ہیں؟ کیا علماء اس بحث کو طول دے کر مسلمانوں کا وقت ضائع کر رہے ہیں اور خود اپنے فتووں کا مذاق بنا رہے ہیں؟عالمی یوگا ڈے کے تناظر میں یہ بحث شدت اختیار کرگئی اور لفظی جنگ کا سلسلہ تیزدراز ہوگیا۔ مسلم پرسنل لابورڈ نے اس کے خلاف مہم چلانے اور کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے تو عالمی اسلامی ادارے دارالعلوم دیوبند کے بعض علماء اور مفتیون کی طرف سے پہلے یہ بیان آیا ہے کہ یوگا حرام ہے،پھر دوسرے ہی دن دارلعلوم کی طرف سے اس بیان کی تردید کردی گئی اور یوگ کو جائز قرار دے دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے جن علماء نے بیان دیاتھا ان کی جگہ دوسرے مفتی تردید کے لئے سامنے آئے۔ اُدھر دلی میںکل ہند تنظیم ائمہ مساجد کے صدر مولانا عمیر احمد الیاسی نے کہا تھا کہ وہ مودی کے یوگا پروگرام میں شامل ہوسکتے ہیں۔دوسری طرف بی جے پی کے فائر برانڈ لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ جنھیں یوگا پر اعتراض ہے وہ ملک چھوڑ دیں، سمندر میں ڈوب مریں۔اس قسم کی بحثوں نے عام آدمی کو خلجان میں مبتلا کردیا۔ جہاں عام مسلمان ادھیڑ بن میں پھنس گئے کہ یوگا جائز ہے یا نہیں، وہیں ملک کے سیکولر ہندو بھی سوچ رہے ہیں کہ کیا اسلام اس قدر تنگ نظر ہے کہ ورزش کی اجازت نہیں دیتا؟حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے جہاں یوگا پر سیاست چلی اور مسلمانوں کو اکسانے کا کام کیا گیا وہیں دوسری طرف سادہ لوح علماء بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔

دیوبند کے بیانات

    میڈیا کی خبروں کے مطابق دارالعلوم دیوبند نے ایک فتوے میں کہا کہ یوگا میں اوم کہاجاتا ہے اور سوریہ نمسکار کیا جاتا ہے، اس لئے یوگا حرام ہے۔دارالعلوم کے ترجمان اشرف عثمانی کے مطابق اس میں مشرکانہ الفاظ کا استعمال ہوتا ہے اسی لئے حرام ہے۔انھوں نے کہا کہ دیوی دیوتائوں کا نام لیا جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہے۔ حالانکہ اشرف عثمانی کا دوسرے ہی دن بیان بدل گیا اور انھوں نے کہا کہ سوریہ نمسکار اور مشرکانہ الفاظ کے بغیر یوگا قابل قبول ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے مسلمان یوگا کرتے ہیں۔ اسی طرح جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری اور ممبر پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی بھی مانتے ہیں کہ سوریہ نمسکار اور مشرکانہ الفاظ کے بغیر یوگا میں حرج نہیں ہے۔  جب کہ دارالعلوم دیوبند( وقف) کے مفتی عارف قاسمی کا کہنا ہے کہ مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور یوگا میں عبادت جیسی ہیئت بنتی ہے لہٰذا یہ حرام ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں پر یوگا کو تھوپ رہی ہے۔ پچھلے دنوں اسکولوں میں بھی سوریہ نمسکار کرایا گیا جس کی مخالفت کی گئی تھی۔غور طلب ہے کہ اشرف عثمانی کا بیان تو ایک دن بعد ہی بدل گیا تھا مگر مفتی عارف قاسمی نے اپنے بیان کی تردید اب تک نہیں کی ہے۔اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کے مختلف طبقات کی طرف سے یوگا کی حمایت اور مخالفت میں بیانا ت آئے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ حرکت میں

     بہت دن بعد مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی کوئی ایشو ملا ہے اور وہ یوگا کے موضوع پر سرگرم دکھائی دے رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی طرف سے ایک پینل تشکیل دیا جائے گا جو کہ مسلم کمیونٹی کے بچوں کو یوگا اور سوریہ نمسکار کے بارے میں بیدار کرے گا کہ کس طرح یہ اسلام کے خلاف ہے۔ بورڈکے ممبر مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہاکہ اسکولوں میں سوریہ نمسکار اور یوگا کو ضروری بنائے جانے کے خلاف ہم مہم چلائیں گے۔ مولانا ولی رحمانی اس مہم کی قیادت کریں گے۔ لکھنؤ میں بورڈ کے ایک دوسرے ممبر ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ،' 'یوگا ڈے غیر آئینی ہے۔ کس طرح ایک حکومت کسی مذہبی علامت یا روایت کو اسکول کے احاطے میں منظوری دے سکتی ہے۔ہم نے اس کے خلاف راجستھان کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے۔ بورڈ کی طرف سے لوگوں کو اس کے خلاف بیدار کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لینے کی تیاری ہے۔اپنا موقف پوسٹ کرنے کے لیے بورڈ سوشل میڈیا پر لوگوں کو جوڑیگا۔ ‘‘حالانکہ یوگا پر سرگرم دکھائی دینے والے بورڈ نے کبھی مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی غرض سے موثر تحریک نہیں چلائی،جو مسلمانوں کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے۔

حکومت کی طرف سے جواب

    مسلمانوں کے بعض حلقوں کی طرف سے سوریہ نمسکار پر اعتراض جتانے کے بعد مرکزی وزیر خارجہ سشما سوارج نے کہا ہے کہ دنیا کے ۴۷ مسلم ممالک میں یوگا ڈے منایاجارہا ہے لہٰذا اسے مسلمانوں کو قبو ل کرلینا چاہئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یوگا لازمی نہیں ہے اور نہ ہی یوگا دیوس پر سوریہ نمسکار کیا جائے گا۔جب کہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ یوگا کو مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ حالانکہ انھوں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس فیصلے پر گفتگو نہیں کی جس میں کہا گیا ہے کہ وہ سوریہ نمسکار اور اسکولوں میں گیتا کی تعلیم کے حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائے گا۔یوگا، سوریہ نمسکار اوراسکولوں میں گیتاکی تعلیم کے معاملے پردیوبند کے مفتیوں کے فتوے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے سخت اعتراض درج کرائے جانے کے درمیان اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ بغیر بات کے مسئلے کو لے کر مسلمانوں کو ان کے مذہبی ٹھیکیدار گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ سب لاعلمی میں ہورہاہے۔نقوی نے نامہ نگاروں سے بات چیت میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے یوگا کی مخالفت کئے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا، مجھے لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یوگا کی مخالفت کا مرض ہو گیا ہے۔ اس بیماری کا علاج بھی یوگا ہی ہے۔انھوں نے یوگا کو مذہب سے جوڑنے کی مخالفت کی۔انہوں نے کہا کہ، افسوس کی بات ہے کہ بغیر بات کے مسئلے کے جال میں ملک کی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے مذہبی ٹھیکیدار پھنسا رہے ہیں، اور ہمیں لگتا ہے کہ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ گمراہ کرنے کا چلن بہت دن تک نہیں چلے گا۔علماء سے میں بہت ادب کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ اگر وہ اس کی نصف فیصد طاقت بھی ملک کے مسلمانوں کی تعلیم، ان کے بااختیار بنانے اور ان کے بنیادی مسائل پر لگاتے تو ان کا بھی بھلا ہوتا اور ملک کا بھی بھلا ہوتا۔ یوگا کو حرام قرار دینے والے دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوے کے بارے میں پوچھے جانے پر مرکزی وزیر نے کہا کہ، فتوی تو ہندوستان میں ٹھیلے پر فروخت ہونے والی سبزی کی طرح ہو گیا ہے، جسے خریدنا ہو، خرید لے ۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سے فتوؤں کا احترام ختم کیا جا رہا ہے۔مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ سیکولرازم کے کچھ سیاسی سورما مسلمانوں کو بی جے پی کے خلاف بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔ اس کامودی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔سچائی یہ ہے کہ مسلمان گزشتہ پانچ چھ دہائی سے ترقی سے محروم کئے گئے۔مودی حکومت سب کو ساتھ لے کر چلے گی، جس کا فائدہ مسلمانوں کو بھی ہوگا۔

    بیان بازی کاسلسلۂ دراز   

       بی جے پی کے سینئر لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے کہا ہے کہ نماز کے دوران بھی یوگا سے مشابہ افعال کا حصہ دیکھنے کو ملتا ہے، اس لئے یوگا کو کسی مذہب یا فرقے سے نہیں جوڑا جانا چاہئے۔جوشی کا کہنا تھا کہ نبی محمد صاحب بھی یوگا کے افعال سے واقف تھے، جو لوگ اسے کسی مذہب سے جوڑتے ہیں وہ جاہل ہیں کیونکہ یوگا کسی مذہب یا فرقے سے وابستہ نہیں ہے۔ یوگا سے جسم صحت مند رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یوگا کو لے کر ہو رہی سیاست غلط ہے۔ یوگا کے بارے میں کئی مسلم ممالک نے اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تجویز کی حمایت کی تھی۔ادھر مودی حکومت کی مخالفت کے لئے مشہورشنکراچاریہ سوروپانند سرسوتی نے یوگا سے سوریہ نمسکار کو الگ رکھنے پر مودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے کہا، کہ ہر موقع پر ہم مسلمانوں کو ویٹو کیوں دے دیتے ہیں؟ اگر کسی مذہب کی کچھ اچھی بات ہے تو وہ ہر کسی کو اپنانے میں اعتراض کیا ہے؟ آخر نماز کے وقت ان کے سامنے دیوار ہوتی ہے، تو اس کا مطلب کیا وہ دیوار کے سامنے سر جھکا رہے ہیں؟ شنکرآچاریہ نے واضح کیا ہے کہ ہر کوئی یوگا نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ، '' بیف کھانے والے یوگا کس طرح کر سکتے ہیں۔ کچھ بھی کھا پی کر یوگا نہیں کیا جا سکتا۔جو شراب پیتے ہیں، صبح دیر سے اٹھتے ہیں، وہ کیا یوگا کرینگے۔وزیر اعظم نریندر مودی پر نشانہ لگاتے ہوئے شنکراچاریہ نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی الٹے راستے پر چل رہے ہیں۔ اسے لے کر سیاست ہو رہی ہے۔ جسے یوگا نہیں کرنا ہے، وہ نہ کرے، لیکن اسے لے کر اتنا شور شرابہ کیوں کیا جا رہاہے؟

یوگی اور اعظم خاں

     بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ نے سوریہ نمسکار کی مخالفت کرنے والوں پر شدید حملہ بولا ہے۔اس نے کہا کہ جو لوگ سوریہ نمسکار نہیں کرتے انھیں سمندر میں ڈوب مرنا چاہئے۔ جو لوگ یوگا کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ہندوستان کی سرزمین چھوڑ دینی چاہئے۔ جو لوگ یوگا، گیتا اور سوریہ نمسکار کو نہیں جانتے، وہ تنگ ذہنیت کے ہیں اور ہندوستان کی رشی روایت کی توہین کر رہے ہیں۔یوگی کے بیان کا اسی انداز میں جواب دیتے ہوئے، اترپردیش کے وزیر شہری ترقیات اعظم خاں نے کہا کہ یوگی اگر نماز پڑھیں تو ان کی صحت اور دماغ دونوں ٹھیک رہیں گے۔نماز پڑھنے والا کبھی بیہودہ بیان نہیں دیتا۔انھوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے والے بتائیں کہ وہ کس ملک میں جائیں؟ کونسا ملک انھیں لینے کو تیار ہے؟ انھوں نے ۱۹۴۷ء میں ہندوستان میں رہنا قبول کیا تھا اب سرکار کی پالیسی بدل گئی ہے تو اس کا اظہار بھی کریں۔ انھوں نے یوگا کو ورزش بتایا مگر اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی مذہب کا کلچر دوسرے مذاہب کے لوگوں پر نہیں تھوپا جانا چاہئے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی یوگی کے بیان کو بدقسمتی بتایا ہے۔سشما نے کہا کہ میں ان کے بیان سے متفق نہیں ہوں۔

یوگ کی بڑھتی مقبولیت

    جہاں ایک طرف یوگا کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کو اکسانے کا کام کیا جارہا ہے وہیں دوسری طرف اسے عالمی قبولیت بھی مل رہی ہے اور اسے بڑی تعداد میں مسلمان بھی اپنا رہے ہیں۔اس کی ایک مثال ہیں لاہور(پاکستان) کے شمشاد حیدرجو، ان دنوں پاکستانی فوج کو یوگا سکھا رہے ہیں۔فوج ہی نہیں، کلبوں، ہسپتالوں اور اوپن کیمپوں کے ذریعے وہ ہزاروں عام لوگوںکو بھی 11 سال سے یوگا کی تربیت دے رہے ہیں۔ان کی بیوی شمالہ اور قریب 68 شاگرد بھی اس میں مدد کر رہے ہیں۔اسی لئے پاکستان میں شمشاد اب 'یوگی' کہے جانے لگے ہیں۔ شمشاد بتاتے ہیں، کہ میں خالص ہندوستانی طریقوں سے یوگا سکھاتا ہوں۔ ہماری ہر صبح کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔شمشاد ہی بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان میں کئی درویش ہوئے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہ 15-16 سال پہلے کی بات ہے۔ کچھ وقت ہریدوار میں گزارا۔ پھر گھومتے ہوئے مہاراشٹر پہنچ گیا۔یہاں یوگا کی تین سال کی ٹریننگ کے بعد جب لاہور لوٹا تو دل میں چین اور سکون نے ڈیرہ جما لیا تھا۔ میں نے بھی 2004 سے یوگا سکھاناشروع کر دیا۔ پہلے پہل لوگوں نے اعتراض جتایا۔ کئی تو خلاف ہی ہو گئے لیکن جب ان لوگوں نے دیکھا کہ یوگا سے تو بیماریوں میں بھی راحت مل رہی ہے تو سب خاموش ہونے لگے پھر تو کارواں بنتا گیا۔

یوگا کو ’’مسلمان ‘‘بنایا جائے

    یوگا کی خواہ مخواہ کی بحث میں اسلام اور مسلمانوں کے کھینچے جانے کے برخلاف یہ یاددلانا بروقت ہوگا کہ چند سال قبل دیوبند میں یوگ گرو رام دیو کا پروگرام رکھا گیا تھا جس میں علماء بڑی تعداد میں شریک ہوئے تھے۔ اس پروگرا م میں تقریر کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا تھا کہ وہ بھی یوگا کرتے ہیں۔ایسے میں دیوبندی علماء کے فتوے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے بیان دونوں پر سوال اٹھنا لازم ہے۔ یوگا ،ورزش کا ایک قدیم ہندوستانی طریقہ ہے جس کی افادیت تحقیق کے ذریعے ثابت ہوچکی ہے ، اسی لئے اقوام متحدہ نے عالمی یوگا ڈے منانے کا اعلان کیا ہے اور اس کی حمایت میں سعودی عرب سمیت دنیا کے کئی مسلم ممالک ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں یوگا کرنے والے لاکھوں مسلمان کیا(معاذاللہ ) شرک میں مبتلا ہیں؟ اگر سوریہ نمسکار اور بعض الفاظ شرکیہ ہیں تو ان کے بغیر بھی یوگا ہوسکتا ہے۔ ان کے سبب تمام یوگ آسنوں کو مشرکانہ قرار دینا ویسا ہی جیسے کسی ایک دوا میں الکحل ہونے کے سبب تمام دوائیوں کو حرام قراردے دیا جائے۔ دودھ میں مکھی گرجائے تو مکھی نکالی جائے گی نہ کہ پورا دودھ پھینک دیاجائے گا۔ ادھر بہت دن سے مسلم پرسنل لا بورڈ بھی خالی بیٹھا ہوا تھا اور یوگا تنازعہ کی شکل میں لگتا ہے، اسے بھی کام مل گیا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے سامنے بڑے بڑے مسائل ہیں مگر ان میں سے کوئی مسئلہ کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔یونانی طب، یونانی منطق اور فلسفہ بھی دیوتائوں کی طرف منسوب تھے اور ان میں بھی بہت سی شرکیہ باتیں تھیں، جنھیں مسلمانوں نے خارج کرکے ان علوم کو اپنا لیا اب اگر یوگا میں کچھ ایسا ہے تو اسے چھوڑ کر باقی آسنوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔حالانکہ جس طرح سیاسی پارٹیاں اسے سیاسیانے کی کوشش کررہی ہیں وہ بھی درست نہیں کہا جاسکتا۔ نریندر مودی اسے میڈیا میں لاکر سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں تو کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں اس پر تنقید کر رہی ہیں اور مسلمانوں کو اکسانے کا کام کررہی ہیں۔ حالانکہ یوگا کا سب سے زیادہ فروغ کانگریس دور حکومت میں ہی ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 747