donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Shuru Ho Chuki Hai 2019 Ke Aam Intekhabat Ki Taiyyari


شروع ہوچکی ہے 2019ء کے عام انتخابات کی تیاری


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ملک میں کس کی سیاست چلے گی اور کون راج کرے گا؟ کس کے ہاتھوں میں ملک کی تقدیر ہوگی اور کون اقتدار کی کرسی پر بیٹھے گا؟ اس کا فیصلہ اترپردیش کے عوام کے ہاتھوں میں ہے، اسی لئے تمام سیاسی پارٹیاں 2019ء کے عام انتخابات سے پہلے 2017ء کے یوپی الیکشن میں دائو آزمانا چاہتی ہیں۔ نریندر مودی کو 73لوک سبھا سیٹیں دے کر وزیر اعظم بنانے کا کام اترپردیش نے ہی کیا ہے اور آئندہ ان کا اقتدار رہے گا یا انھیں کرسی چھوڑنی پڑے گی، یہ فیصلہ بھی اترپردیش کے عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ عوام کا فیصلہ جاننے کے لئے 2019تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے ہی 2017کے اسمبلی انتخابات بتا دیںگے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ یوپی اپنی تقسیم کے بعد بھی ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور جس وقت یہاں اسمبلی چنائو ہونگے ، ٹھیک اسی وقت اتراکھنڈ اور پنجاب میں بھی انتخابات ہونگے۔ حالانکہ اس سے قبل رواں سال میں مغربی بنگال ، آسام، کیرل، تمل ناڈو اور پانڈیچری میں بھی اسمبلی انتخابات ہیں مگر سبھی پارٹیوں کی نگاہیں ان انتخابات کے بجائے یوپی انتخابات پر ٹکی ہوئی ہیں۔بی جے پی کو جتانے کے لئے پورا سنگھ پریوارایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے سے لے کر ذات پات کی سیاست تک اور رام مندر سے لے کر دنگوں کی سازش تک تمام حربے آزمائے جارہے ہیں۔ وہیں سماج وادی پارٹی بھی اپنی کھسکتی زمین کو سنبھالنے میں لگی ہے کیونکہ ملائم سنگھ یادو کا پرانا سپنا ہے ملک کا وزیر اعظم بننا۔ سماج وادی پارٹی کے بزرگ نیتا عمر کی اس دہلیز پر ہیں جہاں ان کے پاس اپنے سپنے کو پوار کرنے کے لئے اب وقت بھی کم بچاہے۔ دوسری طرف مایاوتی بھی اپنی کھوئی ہوئی قوت کو حاصل کرنے کے لئے پورا زور لگائے ہیں اور یہاں کی ہوا بھی ان کی حمایت میں ہے۔ مایاوتی کا بھی خواب رہا ہے کہ وہ ملک کی پہلی دلت وزیر اعظم بنیں،اب مستقبل میں ایسا ہوگا یا وہ کنگ میکر بن کرا بھرینگی، یہ فیصلہ یوپی کے عوام کو کرنا ہے۔ نتیش کمار بہار میں بی جے پی کو دھول چٹانے کے بعد ملک کے سیاسی منظر نا مے پر ایک طاقت ور لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں اور وہ یوپی کی جیت وہار میں بھی اپنا کردار نبھانا چاہتے ہیں مگر اس کی نوعیت کیا ہوگی، یہ ابھی طے نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ کانگریس ایک بار پھر اس کوشش میں ہے کہ وہ قومی سطح پر دوبارہ زندہ ہوجائے اور اسے زندگی بخشنے کاکام اترپردیش کرسکتا ہے۔ جس ریاست میں کبھی اس کا قتدار تھا اور اسے مرکز میں اقتدار تک پہنچانے کا کام جہاں کے عوام کیا کرتے تھے ، آج اسی ریاست میں وہ سب سے نچلے پائیدان پر پہنچ چکی ہے۔ کانگریس پوری قوت لگا رہی ہے کہ یہاں سے اس کے احیاء نو کی شروعات ہوجائے۔

 ملائم کے پاس پی اپم بننے کا آخری موقع

    سال 2012 کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کی جیت کا سہرا اکھلیش یادوکے سر رہا تھا۔آج پھر اسمبلی انتخابات کو لے کر ریاست میں سرگرمی شروع ہو گئی ہے۔ اکھلیش یادو نے مکمل طور پر کمان اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ مخالفین کی طرف سے اس بات کی ہوا دی جاتی رہی ہے کہ ریاست میں اقتدار کے کئی مرکز ہیں لیکن اب تمام فیصلے وزیر اعلی خود لے رہے ہیں۔اس وجہ سے بھی پارٹی کے بہت سے پرانے لیڈر پریشان ہیں کہ ان کی نہیں سنی جا رہی ہے۔پارٹی ذرائع کے مطابق سال 2017 میں بھی اکھلیش یادو کئی وزراء اور ممبران اسمبلی کا پتہ صاف کرنے کی تیاری میں ہیں۔ پارٹی کے ذرائع کے مطابق موجودہ ممبران اسمبلی کے کام کاج کا اندازہ کیا جا رہا ہے اگر ان کا کام ٹھیک نہیں ہوا تو ٹکٹ کٹنا طے ہے۔اس لئے کئی وزراء اور ممبران اسمبلی میں گھبراہٹ کا احساس  ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی حکومت کی واضح تصویر لے انتخابی میدان میں اترنا چاہتے ہیں اور ان کی حکمت عملی ہے کہ ریاست میں جو ترقی کی رفتار ہے اسے ہی انتخابی ایشو بنائیں۔ میٹرو ریل اور آگرہ-لکھنؤ ایکسپریس وے حکومت کے لئے بڑی کامیابی ہے۔ ریاستی حکومت صنعتی ترقی کو اسمبلی انتخابات میں مسئلہ بنانے کی تیاری کر چکی ہے۔ معروف صنعت رتن ٹاٹا نے ریاست میں 500 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ سماج وادی پارٹی کے روایتی ووٹر اس سے دور ہوئے ہیں اور یادو برادری کے علاوہ تمام برادریوں کے ووٹرحکومت سے خفا نظر آرہے ہیں اور اس کا اثر آئندہ انتخابات کے رزلٹ پر صاف نظر آئے گا۔ ملائم سنگھ یادو بھی ان حالات کو اچھی طرح محسوس کر رہے ہیں مگر حالات ان کے کنٹرول سے باہر ہیں لہٰذا جو سال بھر کا وقت ان کے پاس ہے، اسے وہ عیش وعشرت میں گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ پچھلے دنوںانتخابی تیاریوں کی بجائے اپنے آبائی گائوںسیفئی میں فلم اسٹارس کے ٹھمکوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آئے۔

بی ایس پی تیاریوں میں سب سے آگے

    بہوجن سماج پارٹی انتخابی تیاریوں میں سب سے آگے نظر آرہی ہے۔ا س نے ایک سال پہلے ہی تقریباً تمام امیدوار طے کر لئے ہیں۔البتہ سوشل انجینرینگ پر نظر رکھنے والی بی ایس پی کو خوف ہے کہ کہیں عین انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ دنگے نہ شروع ہوجائیں۔ ایسا ہوا تواس کا سب بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔اسے لگتا ہے کہ بی جے پی کو دنگوں سے فائدہ ہوتا ہے مگر جب سماج وادی پارٹی اپنا نقصان ہوتا دیکھے گی تو وہ دنگے ہوجانے دیگی، تاکہ اگر وہ نہ جیتے تو کم از کم بی ایس پی کو بھی نہ جیتنے دے۔ اس کا مقابلہ بی جے پی کے بجائے بی ایس پی سے ہوتا ہے کیونکہ دونوں کے بیچ یادو اور دلت ووٹروں کے علاوہ باقی تمام برادریوں کے ووٹوں کے لئے مقابلہ ہوتا ہے۔  بی ایس پی نے الزام لگایا ہے کہ سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ریاست میں جس طرح سے فرقہ وارانہ فسادات کا دور چلا اسی طرح کے فسادات 2017 کے اسمبلی انتخابات کے قریب آنے پر ہوں گے۔ بی ایس پی نے یہ بھی کہا کہ ریاست کا ماحول بگاڑے جانے میں سماج وادی پارٹی اور بی جے پی دونوں ہی جماعتوں کی ملی بھگت ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کے رہنما سوامی پرساد موریہ کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور یہی وجہ رہی کہ دادری مسئلے میں گوشت کے نمونے کی فارنسک جانچ رپورٹ نہیں دی جا رہی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ 28 ستمبر کو دادری (نوئیڈا) میں گائے کا گوشت کھانے کی افواہ پھیلی اور مشتعل ہجوم کی طرف سے محمد اخلاق کا قتل کردیا گیا۔ سوامی پرساد موریہ نے کہا کہ ایودھیا میں ٹرکوں سے لادکر پتھر پہنچائے گئے لیکن ایس پی حکومت نے توجہ نہیں دی۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایس پی اور بی جے پی کی ملی بھگت ہے۔

 سوشل میڈیا پر مہم

    یوپی میں سال 2017 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو لے کر حامیوں کے درمیان ابھی سے سوشل میڈیا پر مہم کا دور شروع ہو گئی ہے۔ وزیر اعلی اکھلیش یادو کو لے کر ’’ دل سے اکھلیش پھر سے ‘‘مہم چل رہی ہے۔ وہیں، اب تک سوشل میڈیا سے دوری بنائے رکھی بہوجن سماج پارٹی کے حامی بھی میدان میں اتر آئے ہیں، جو بی ایس پی سپریمو مایاوتی کو ’’ ایکس سی ایم ، نیکسٹ سی ایم‘‘ کے طور پر پروجیکٹ کر رہے ہیں۔ یہ سوال الگ ہے کہ سوشل میڈیا پر چل رہی اس مہم سے پارٹی کا تعلق ہے یا نہیں؟ لیکن فیس بک پر چل رہی اس مہم میںہزاروں فالورس ضرور جڑ گئے ہیں۔فیس بک صفحہ بنانے والے نے لکھا ہے’’ دوستو! آج سے میں نے ایک مہم کی شروعات کی ہے، جس میں آپ سب کے تعاون کی ضرورت ہے۔یہ مہم ہے بہن جی محترمہ مایاوتی کو پھر سے اقتدار کے گلیاروں تک پہنچانے کی۔پہلے لکھنؤ تک، اس کے بعد 7RCR یعنی دہلی کے اقتدار تک۔ ‘‘

نتیش کمار کیا رول نبھائیںگے؟

    بہار اسمبلی انتخابات میں جنتا دل (متحدہ) اور راشٹریہ جنتا دل کے اتحاد مہاگٹھبندھن کو ملی کامیابی کے بعد اب یہ اتحاداتر پردیش میں دھاک جمانے کی کوشش میں ہے۔ مشن -2017 اتحاد کے قومی ایجنڈے میں ہے اور اس کے لئے زبردست تیاری چل رہی ہے۔ بہار میں جیت کے بعد نتیش کمار تمام بھاجپا مخالف پارٹیوں کے لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں اور یہ مانا جانے لگا ہے کہ وہ 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعظم کی کرسی کے دعویدار ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں خود نتیش کمار نے بھی کوششیں شروع کردی ہیں۔ جہاں رواں سال میں ہونے والے مغربی بنگال، آسام،کیرل اور تمل ناڈو اسمبلی انتخابات میں وہ غیر بی جے پی پارٹیوں کو متحد کرنے میں لگے ہیں وہیں وہ اگلے سال ہونے والے یوپی اسمبلی الیکشن میں بھی اپنا اثر دکھانا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ دلی پر قبضہ کے لئے یوپی پر قبضہ ضروری ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی سے ان کی کٹی ہوچکی ہے لہٰذا اب وہ بی جے پی وسماج وادی پارٹی کے علاوہ تمام پارٹیوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جے ڈی یو کے ریاستی صدر سریش نرنجن بھیا نے کہا ہے کہ سال -2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات جے ڈی یو مضبوطی کے ساتھ لڑے گی۔ پارٹی یوپی انتخابات میں کانگریس، آر ایل ڈی اور بی ایس پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کرنے کی کوشش میں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 562