donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   UP Ka Seyasi Naqsha Badal Sakta Hai Maya - Owaisi Ittehad


یوپی کا سیاسی نقشہ بدل سکتا ہے مایا۔اویسی اتحاد


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    ’’بی ایس پی کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی اور اپنے دم پریوپی اسمبلی الیکشن لڑیگی‘‘یہ بیان آیا ہے بہوجن سماج پارٹی کی طرف سے حالانکہ اس کے باوجود آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے ساتھ اس کے اتحاد کے امکانات اب بھی باقی ہیں کیونکہ اس نے اس سے انکار نہیں کیا ہے۔ اترپردیش اسمبلی چنائو۲۰۱۷ء کے لئے ابھی سے زمین تیار ہونے لگی ہے۔ کیا اکھلیش یادو کی حکومت کا جانا طے ہے؟ کیا مایاوتی کی ریاست میں واپسی ہوگی؟ کیا کانگریس کچھ بہتر کرپائے گی؟ کیا بی جے پی اترپردیش میں اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوگی یا بہار کی طرح یہاں بھی شکست فاش کا سامنے کرے گی؟ کس پارٹی کا کس کے ساتھ اتحاد ہوگا؟ کیا یہاں بھی بہار کی طرح مہاگٹھبندھن تیار ہوگا؟ اس قسم کے سوالات ان دنوں اترپردیش میں عام ہیں۔ حالانکہ اسمبلی انتخابات کو فی الحال ایک سال سے زیادہ کا وقت باقی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ سبھی پارٹیوں نے ابھی سے ملک کی سب سے بڑی ریاست میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔یہ چنائو اس لئے بھی اہم ہے کہ ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات سے قبل سب سے بڑا چنائو ہوگا اور اس الیکشن میں ہارجیت سے طے ہوگا کہ مرکزمیں آئندہ کونسی پارٹی حکومت بنائے گی۔یہاں کی بیشتر لوک سبھا سیٹیں بی جے پی کے پاس ہیںمگر حالیہ پنچایت چنائو میں اس کا صفایا ہوچکا ہے۔ اسی طرح اسمبلی میں اکثریت سماج وادی پارٹی کی ہے مگر پنچایت انتخابات میں وہ بھی کچھ اچھا نہیں کرپائی ہے۔ اس کے برعکس بہوجن سماج پارٹی اگرچہ اقتدار سے باہر ہے اور لوک سبھا انتخابات میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی مگر حالیہ دنوں میں اس کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ سماج وادی پارٹی نے یہاں بھی بہار کی طرح مہاگٹھبندھن بنانے کا اشارہ دیا تھا مگر کسی پارٹی نے اس میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہاں تک کہ کانگریس جس کی ریاست میں کوئی زمین نہیں ہے وہ بھی کہہ رہی ہے کہ تنہا الیکشن لڑے گی۔دوسری طرف بی جے پی اپنی بہار کی غلطیوں پر غور کر رہی ہے اور انھیں یہاں نہ دہرانے کی سوچ رہی ہے۔ ایسے میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ کہہ پانا مشکل لگتا ہے مگر بی ایس پی کا پلہ بھاری لگتا ہے جو مسلمان ووٹوں کو اپنے ساتھ کرنے کے لئے اسدالدین اویسی کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کی راستے پر چل رہی ہے۔

 مہاگٹھبندھن کا امکان ختم

    سماج وادی پارٹی کی طرف سے مہاگٹھبندھن کے شارے دیئے گئے مگر کسی پارٹی نے اس میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بڑے اتحاد کا اشارہ دیا تھا نیز ان کے چچا ، ایس پی جنرل سکریٹری اور اتر پردیش کے محکمہ تعمیرات عامہ کے وزیر شیو پال سنگھ یادو نے بھی مہا گٹھبندھن کی بات کی تھی مگر جب کسی پارٹی نے اس میں دلچسپی نہیں دکھائی تو پارٹی کو خاموش ہونا پڑا۔شیوپال یادو نے کہا تھا کہ ’’یوپی میں مہاگٹھبندھن بن سکتا ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کو نیست ونابود کرنے کے لئے ایس پی کسی سے بھی سمجھوتہ کر سکتی ہے، تاہم اس پر حتمی فیصلہ پارٹی صدر ملائم سنگھ یادو ہی کریں گے۔‘‘دوسری طرف، سیاسی تجزیہ کاروں کی مانیں تو اتر پردیش میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی بڑی سیاسی طاقت ہیں۔ بی ایس پی کو شامل کئے بغیر مہاگٹھبندھن کی کامیابی یقینی نہیں مانی جا سکتی۔غیربی جے پی اتحاد میں بی ایس پی شامل ہونے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اکھلیش سرکار کی امیج عوام کی نظر میں اچھی نہیں ہے اور سیاسی پارٹیوں کو لگتا ہے کہ اس کے ساتھ جانے سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا۔

بی ایس پی۔ایم آئی ایم اتحاد؟

    اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کا متبادل بی ایس پی ہے اور جس قدر اس کی سرکار بدنام ہورہی ہے اسی قدر بی ایس پی کو فائدہ مل رہا ہے۔ یہاں مسلمانوں کا ووٹ ۲۰فیصد ہے اور اس کا اکثر حصہ سماج وادی پارٹی کو جاتارہا ہے یہی سبب ہے کہ محض ۸فیصد آبادی والی یادوبرادری سے آنے والے ملائم سنگھ کی پارٹی کویہاں جیت مل جاتی ہے۔ اس وقت مسلمان ایس پی سرکار سے خوش نہیں نظر آتے اور وہ بی ایس پی کی طرف میلان رکھتے ہیں، ایسے میں مسلم ووٹ کو پکا کرنے کے لئے وہ ایم آئی ایم سے اتحاد کے راستے پر چل رہی ہے۔ سیاسی گلیاروں میں بہوجن سماج پارٹی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اتحاد پر ان دنوں چرچا گرم ہے۔ قیاس آرائیاں یہاں تک ہیں کہ بی ایس پی-ایم آئی ایم کا گٹھ جوڑ ہو چکا ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں آئندہ اسمبلی انتخابات میں ساتھ مل کر چنائولڑیں گی۔بتایا جا رہا ہے کہ اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی کا مسلم ووٹوں پر دعویٰ رہا ہے مگر اس دعوے کو توڑنے کی غرض سے بہوجن سماج پارٹی نے اسدالدین اویسی کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا ہے۔اترپردیش میں مسلم اور دلت مل کر فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں کے ووٹ مل کر ۴۴فیصد کے آس پاس پہنچ جاتے ہیں۔خبروں کے مطابق مایاوتی ایم آئی ایم کو۲۵/۳۰سیٹیں دے کر اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہیں۔یہاں تک دعوے کئے جارہے ہیں کہ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے اپنی پارٹی کے عہدیداروں کو اس اتحاد کی خفیہ طور پر جانکاری دے دی ہے۔فی الحال مانا جا رہا ہے کہ بی ایس پی-ایم آئی ایم اتحاد پردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی کے لئے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آسکتا ہے۔بہوجن سماج پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین کی طرف سے باقاعدہ طور پر اتحاد کا اعلان سامنے نہیں آیا ہے مگر میڈیا میں آرہی اتحاد کی خبروں سے اب تک دونوں میں سے کسی پارٹی نے انکار نہیں کیاہے۔

  کانگریس کی سرگرمیاں

    الیکشن کے پیش نظر کانگریس بھی یہاں سرگرم ہوگئی ہے۔کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے حال ہی میں اترپردیش کا دورہ کیا۔انھوں نے کسانوں کے مطالبات کو لے کر سہارنپور ضلع میں پیدل مارچ بھی کیا اور کسان مہا پنچایت میں حصہ لیا۔ 6 کلومیٹر کے پیدل مارچ کے دوران راہل نے ریاستی سرکار کے بجائے مودی سرکار پر نشانہ سادھا۔ راہل کے اس مارچ کو مشن -2017 یعنی آنے والے یوپی اسمبلی انتخابات کی تیاری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سہارنپور میں وہ عمران مسعود کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے۔ عمران مسعود لوک سبھا انتخابات کے دوران مودی کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے معاملے میں جیل جا چکے ہیں۔

    بہار انتخابی نتائج سے حوصلہ پاکر کانگریس نے دعوی کیا ہے کہ وہ اتر پردیش میں بھی بہار جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور اپنی سیٹوں میں کئی گنا اضافہ کرے گی۔ اتر پردیش امور کے انچارج مدھسودن مستری نے کہا کہ اترپردیش چنائو 2017 کا روڈ میپ تیار ہے لیکن ابھی کچھ نہیں بتا سکتے۔ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ یوپی میں کانگریس کسی بھی پارٹی سے سمجھوتہ نہیں کرے گی اور تنہا چنائو لڑے گی۔حالانکہ اسے کانگریس کی دبائو کی حکمت عملی مانا جارہاہے۔ وہ بی ایس پی کے ساتھ سمجھوتہ چاہتی ہے اور اگر وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوئی تو ایس پی اس کی مجبوری ہوگی۔ویسے چودہری اجیت سنگھ کی آرایل ڈی پہلے ہی سے کانگریس کے ساتھ ہے۔  

بی جے پی کی تیاری

    بہار انتخابات میں کراری شکست کے بعد اب 2017 میں یوپی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی وزیر اعظم نریندر مودی کے بجائے کسی اور چہرے کو سامنے رکھ کر چنائو لڑسکتی ہے۔ وہ چہرہ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا ہوسکتاہے، یوگی آدتیہ ناتھ کا ہوسکتا ہے یا ورون گاندھی کا ہوسکتاہے۔ راج ناتھ سنگھ  2000 سے 2002 تک ریاست کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔  لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ملک کی تمام ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے کو آگے رکھ کربی جے پی نے انتخاب لڑاتھا مگر اب اترپردیش میں اس کی حکمت عملی میں بدلائو لانے کی بات کی جارہی ہے۔ مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور ہریانہ میں وزیر اعظم کا چہرہ سامنے رکھ کر چنائو لڑا گیا اور یہاں بی جے پی کی جیت ہوئی۔ البتہ دلی اور بہار میں اسے شرمناک ہار کا منہ دیکھنا پڑ ا جس کے بعد وزیر اعظم کی امیج پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اترپردیش میں کسی ایسے چہرے کو سامنے لانے کی بات کی جارہی ہے جو پارٹی کو میابی دلاسکے اور ہار کی صورت میں ذمہ داری وزیر اعظم کے سر پر نہ آئے۔

 راج ناتھ، ورون یا یوگی؟

    اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کا سی ایم امیدوارکون ہوگا؟ اس سلسلے میں پارٹی کے اندر زبردست اختلافات ہیں۔ ایک طبقہ مانتا ہے کہ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ بہتر امیدوار ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کی تصویر صاف ستھری ہے اورانھیں وزیراعلیٰ رہنے کا تجربہ بھی ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس کے لئے تیار بھی ہونگے؟ راجناتھ سنگھ ایک سینئرلیڈر ہیں اور وہ زمینی حقائق سے واقف ہیں۔ انھیں ابھی سے اندازہ ہے کہ پارٹی کے لئے جیت حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا، ایسے میں ہار کی تمام ذمہ داریاں ان کے سر آجائیں گی۔ جب کہ ایک طبقہ مانتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار بنایا جائے۔ وہ ریاست میں ہندتو کا چہرہ ہیں اور ان کے نام پر ہی ریاست کا ماحول فرقہ وارانہ ہوجائے گا۔ ترقی کے وعدوں پر ووٹ ملنے سے رہے مگر ووٹروں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرکے ووٹ لئے جاسکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ورون گاندھی کے حامیوں کا بھی ایک طبقہ ہے جس نے پچھلے دنوں میں کانپور میں ان کی حمایت میں پوسٹر اور بینر لگائے تھے اور مانگ کی تھی کہ انھیں وزیر اعلیٰ کا امیدواربنایا جائے۔ان لوگوں کو دلیل ہے کہ ورون گاندھی کا تعلق نہرو کی فیملی سے ہے اور آج بھی ریاست میں اس خاندان کے چاہنے والوں کا ایک طبقہ موجود ہے ایسے میں انھیں وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنانا فائدہ مند رہے گا۔حالانکہ اترپردیش میں بھی ذات پات کے نام پر ووٹ کاسٹنگ عام رہی ہے اور ان میں سے کوئی بھی امیدوا رایسا نہیں ہے جو کثیر آبادی والی برادری کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 488