donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Uttar Pradesh Me Maha Gathbandhan Ba Muqabla Maya Gathbhandhan


اترپردیش میںمہا گٹھبندھن بمقابلہ مایا گٹھبندھن


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    بہار انتخابات میں مہاگٹھبدھن کو ملی بڑی جیت کے بعد ملک میں نئی سیاسی صف بندی پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ آئندہ چندمہینوں کے اندر جن جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں ان میں اترپردیش بھی شامل ہے۔حالانکہ اس سے پہلے مغربی بنگال، آسام،کیرل، تمل ناڈو اور پانڈیچری میںبھی انتخابات ہونے ہیں۔اتر پردیش کے سیاسی گلیاروں میں اس بات پر زور وشور سے بحث چل رہی ہے کہ ریاست میں 2017 کی ابتدامیں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) مل الیکشن لڑیں گی۔جب کہ دوسری طرف سماج وادی پارٹی کے لیڈران کی طرف سے بھی مہاگٹھبندھن بنانے کی بات چل رہی ہے۔کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کواس اتحاد میں شامل کرنے کی بات بھی چل رہی ہے مگر یہ پارٹیاں اس معاملے میں محتاط ہیں۔ فی الحال سماج وادی پارٹی ریاست میں برسراقتدار ہے اور اس کے خلاف عوام میں غصہ پایا جاتا ہے،یہی سبب ہے کہ کوئی بھی پارٹی اس کے ساتھ جانے میں جھجک محسوس کر رہی ہے۔ البتہ بی ایس پی کی طرف یہ پارٹیاں امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہیں،حالانکہ بی ایس پی لیڈر مایاوتی کسی کو ساتھ لینے کے معاملے میں بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی ہیں۔اس بیچ اس قسم کی خبریں بھی آرہی ہیں کہ بی ایس پی اور ایم آئی ایم کے بیچ اتحاد کا فیصلہ ہوچکا ہے ،محض اعلان باقی ہے۔ حالانکہ اس بارے میں اب تک دونوں میں سے کسی پارٹی نے کوئی اعلان نہیں کیا ہے، لیکن پردیش میں اس امکان کو لے کر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ بی ایس پی کے کئی لیڈر قبول کر چکے ہیں کہ ریاست میں بی ایس پی اور ایم آئی ایم کا اتحاد ہو چکا ہے، صرف اعلان باقی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے مسلم پولرائزیشن کو توڑنے کے لئے مایاوتی، ایم آئی ایم کے ساتھ مل کرالیکشن لڑنے کو تیار ہو گئی ہیں۔وہیں، اتر پردیش میں اپنی پارٹی کو بڑھانے کے لئے اسدالدین اویسی بھی بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کے حق میں ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ریاست کی بیشتر سیٹوں پر دلت -مسلم ووٹوں کا اتحادکچھ الگ قسم کا سیاسی رزلٹ دے سکتا ہے۔ذرائع کے مطابق، بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے اپنی پارٹی کے عہدیداروں کو خفیہ طور پر اس نئے اتحاد کی معلومات دی ہے۔ تاہم اتحاد طے ہونے سے کچھ دن پہلے ہی بی ایس پی نے ریاست کی بعض سیٹوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان بھی کر دیاہے۔ذرائع کے مطابق جو نشستیں ایم آئی ایم کو دی جائیں گی، وہاں سے بی ایس پی امیدوار کو ہٹا لیا جائے گا۔خبروں کے مطابق اتحاد کا خاکہ تیار ہوتے ہی ایم آئی ایم اتر پردیش میں اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردے گا۔فی الحال مانا جا رہا ہے کہ بی ایس پی-ایم آئی ایم اتحاد پردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آسکتا ہے۔ اتر پردیش میں تقریبا 100سے زیادہ اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں، جہاں مسلم ووٹر انتخابات کا رخ طے کرتے ہیں۔ اکیلے مغربی اترپردیش کی تقریبا 20 اسمبلی سیٹوں پر مسلم ووٹر ہی ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں، وہیں بی ایس پی سے اتحاد ہونے پر مسلم اوردلت ووٹوں کے پولرائزیشن سے کئی سیاسی جماعتوں کے حساب بگڑ سکتے ہیں۔


    بہار انتخابات میں کراری شکست کے بعد اتر پردیش بی جے پی کے اندر بھی جوتیوں میں دال بٹنے لگی ہے۔حالانکہ وہ اکھلیش سرکار کی غیرمقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہاں سرکار بنانے کاخواب دیکھ رہی تھی اور اسی حکمت عملی کے تحت ریاست میں فرقہ وارانہ فضا کو مسموم کرنے میں لگی ہوئی تھی۔اب یہاں بی جے پی صدر امت شاہ کی سیاسی سمجھ اور قابلیت پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔ پارٹی کے اندر پرانی گروپ بندی نئے زور کے ساتھ سر اٹھا رہی ہے جس کا اثر جاری پنچایت انتخابات میں صاف دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے عین پہلے امت شاہ کو اتر پردیش کا پارٹی انچارج بنایا گیا تھا۔ ریاست میں عام انتخابات میں ملی شاندار جیت کو امت شاہ کی قیادت اور تنظیمی صلاحیت کا کرشمہ بتا کر پرچار کیا گیا تھا۔بڑے لیڈر بھی ان کے سامنے منہ کھولنے سے بچتے تھے، ان کا کہا ’’حرفِ آخر‘‘ ہوتا تھا لیکن اب ان کی چمک پھیکی ہو رہی ہے اور پارٹی ورکروں پر نفسیاتی اثر ڈال رہی ہیں بی ایس پی اور ایم آئی ایم کے اتحاد کی خبریں ۔مایاوتی کے اس دھوبیا پاٹ سے بی جے پی اور سماج وادی پارٹی، دونوں ہی ہراساں نظر آرہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ اتحاد قائم ہوگیا تو ریاست میں بی جے پی ہی نہیں بلکہ سماج وادی پارٹی کا بھی صفایا ہوسکتا ہے کیونکہ یہاں مسلمان ووٹر20فیصد ہیں تو دلت ووٹر22فیصد بتائے جاتے ہیں۔ البتہ اس اتحاد میں کانگریس ،آر ایل ڈی ،راشٹریہ علماء کونسل اور پیس پارٹی جیسی جماعتوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے تاکہ مزید بہتر نتائج برآمد ہوسکیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 466