donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghazanfar Jawaid
Title :
   Sultan Jamhoor Ke Is Raushan daur Me



سلطان جمہور کے اس روشن دور میں


جو نقش کہن آئے نظر اس کو مٹادو

 

غضنفر جاوید اورنگ آباد

 

    جو نہ ترشے تو پتھر تھے جہاں ترشے خدا ٹھہرے کے بمصداق پارلیمانی الیکشن میں کامیابی کی بدولت بھارتیہ جنتا پارٹی کوملک کی سربراہی کا جوموقع نصیب ہوا۔اس موقع کو کیش کرنے کے لیے صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس کی  عجلت و جلد بازی کے مظاہرہ کے ذریعہ آر ایس ایس حکمتِ عملی کا اس ملک میں جو مظاہرہ جاری ہے۔اس پیغام کی کڑی کے طور پر وزیر اعظم کے اپنے دورہ جاپان کے موقع پر شہنشاہ جاپان سے ملاقات کے دوران ان کی خدمت میں’’بھگوت گیتا‘‘ کی جلد پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کی جانب سے تنقید اسے ایک رسمی اعتراض قرار دیا جا سکتا ہو۔ بی جے پی حکمت عملی کی ہوڑمیں دہلی میں منعقدہ پروگرام میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی بھگوت گیتا کوقومی گرنتھ قرار دینے کی تجویز پیش کرتے ہوئے اس ہوڑ کو نیا موڑ دیا۔اس پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ رام لعل کھڑنے بھی جوش میں یہ اعلان کر ڈالا کہ آئندہ تعلیمی سال سے ہریانہ کے تمام مدارس میں ابتدائی تعلیم میں ہی بھگوت گیتا کے اشلوک سے طلباء کے شعور کو بیدار کرنے کی اسے انہوںحکومت کی بنیادی حکمت عملی قرار دی۔انہوں نے اس بات کی تشریح نہیں کی کہ ہریانہ حکومت کا یہ فیصلہ صرف ہندوطلبا کی شعور کی بیداری کے لیے مختص رہیگا۔ یا اس فیصلے کے اثرات سے غیر ہندو طلبامحروم رہیں گے۔ہریانہ میں مسلم میواتی آبادی کے سوا یہاں پر سکھوں کی بھی بڑی آبادی کے پیش نظر غیر ہندو طبقات میں اس تعلق سے تجسس اور تشویش پیدا ہونا فطری امر ہو سکتا ہے۔

    بھگوت گیتا کی اہمیت کے پیش نظر مودی‘سشما سوراج‘اشوک سنگھل اور رام لعل کھڑ کے اعتراف اور اس فیصلہ پر ہم کسی تبصرہ سے گریز کرتے ہوئے طلباء کے شعور کی بیداری کے لیے ان کی ابتدائی تعلیم کے دوران سابق ریاست حیدرآباد میں اخلاقیات و دینیات کی تعلیم کے لزوم کا ہم حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس آزاد اور خود مختار سلطنت کا فرماں روا مسلم ہونے کے باوجود ان کتابوں کے اسکولی نصاب میں شمولیت کے پس پشت اسلام کی تبلیغ یا ترویج کا کوئی مطمع نظر نہ تھا۔مستقبل میں ان طلباء میں اخلاقی قدروںMoral Valuesکی اہمیت و افادیت کے اس فیصلہ کے مقابل بھگوت گیتا کی ایک دم اہمیت کے پس پشت کچھ نہ کچھ ہندوتوا کا نظریہ زبردستی تھوپے جانے کا گمان ہونا بھیملک کے عا م شہریوں کے مذہبی معاملات میں وہ دخل اندازی کا سبب تو نہیں؟

    سقوط حیدرآباد و ملک کی آزادی کے نتیجہ میں ریاستِ حیدرآباد سے اخلاقیات و دینیات کی تعلیم طاق نسیاں کرنے کے بعد اسے حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے جس قابل و برگزیدہ ہستی کا اس عہدہ پر انتخاب عمل میں آیاتھا۔ وہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد ؒ دینی و دنیاوی علوم میں طاق رہنے کے ساتھ ہی تحریک آزادی میںبھی موصوف کا اہم کردارتھا۔اس کے باوجود محض ملک کے سیکولر دستور کے Speed Brakerکی وجہ سے موصوف اخلاقیات و دینیات کو ملک کے تعلیمی نصاب میں اس کا مستحقہ مقام نہ دلواسکے ۔آزادی کے بعد ملک کی تعمیر نو کے لیے مختلف قائدین نے حتی المقدور اپنی سطح ‘مزاج‘صلاحیت کے بموجب مختلف منصوبوں کو رو بہ عمل ضرور لایا لیکن کسی اللہ کے بندے کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ قوم کی اخلاقی تعلیم کی سمت کسی نے بھی اس سلسلہ میں زحمت گوارا نہیں کی ۔آج ملک بد عنوانیوں اور بے ایمانوں کے شکنجہ میں جس شدت کے ساتھ جکڑا ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں ملک کے مخلص و دانشور طبقہ کی تشویش بجا ۔ان کی جانب سے معاشرہ کے اس کینسر سے نجات دلانے کی کوششوں کا خیر مقدم ۔

    سقوط حیدر آباد سے قبل ریاست کی مسلم آبادی کا تناسب تقریباً اٹھارہ فیصد تھا۔اس کے بعد ریاست کی دلیت قبائلی ‘ادیباسی سکھ‘کرسچین و دیگر طبقات کی آبادی کا تناسب تقریباً پچھتر فیصد کے مقابلہ میں برہمن ‘جین‘دنگایت و دیگر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی آبادی تقریباً سات فیصد تھی۔مہاراجہ سرکشن پرشاد یمین السلطنت کے اہم عہدہ پر فائز رہنے کے سوادیگر اہم غیر مسلم شخصیتوں کو ریاست میں کلیدی عہدوں پر کارگزاری کے بھرپور مواقع حاصل ہونے کے پس منظر میںریاست کے مسلمانوں کا انتظامیہ پر غلبہ حاصل تھا۔آصف جاہ سابع نے بیرونی ریاست کے با صلاحیت مسلم ماہرین کو ریاست میں بہترین مواقع فراہم کیے گئے تھے۔ان کی نظروں میں ہندو ومسلمان ان کی دو آنکھوں کے مترادف تھے۔غیر مسلم تعلیمی اداروں سے تعاون و ان کی سرپرستی کی مثال اورنگ آباد کی سرسوتی بھون ایجوکیشن سوسائٹی کی وہ جیتی جاگتی مثال قرار دی جا سکتی ہے۔مذکورہ سوسائٹی کے ذمہ دار حیدرآباد ریاست سے نجات کے کٹر حامی رہنے نیز حکومت کی جانب سے امتناع کے باوجود وندے ماترم تحریک سے وابستہ رہنے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس ادارہ کی درخواست پر آصف جاہ سابع نے جو عطیہ دیا تھا اس خطیر رقم کے اعداد آج بھی سرسوتی بھون کے اطلاعاتی بورڈ پر آویزاں ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو حسبِ ضرورت بر وقت امداد و تعاون جہاں ان کی تعلیمی پالیسی کے فروغ کی مثال تھی۔وہیں انہوں نے عصبیت سے بے نیاز ہوکر بنارس ہندو یونیورسٹی کو جو گرانقدر امداد دی۔ وہ مسلم حکمرانوں کے انصا ف و رواداری کی اس روشن مثال کے تحت انہوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کی پیپلز ایجوکیشن سوسائٹی کو خطیر مالی امداد کے علاوہ شہر اورنگ آباد میں سینکڑوں ایکڑ زمین بطور عطیہ دی تھی۔آـصف جاہ سابع کا شمار اس وقت دنیا کے دولت مندوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر رہنے کے باوجود موصوف نے اپنی ذاتی زندگی میں کفایت شعاری کو جس طرح اپناشعار بنا رکھا تھا۔اس کی مثال ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔کہ ان کی زیر استعمال کمبل پرانی ہونے پر انہوں نے مشیر آباد جیل میں قید با مشقت بھگتنے والے قیدیوں کی ہمت افزائی کے پیش نظر جیل سپرنٹنڈنٹ کوخط لکھ کر ان سے کمبل منگوائی ۔سپرنٹنڈنٹ نے ان کی خواہش کے تحت کمبل بھجواکر اس کی قیمت میں اضافہ کے نام پرمابقی رقم کا مطالبہ کرنے پر آصف جاہ سابع نے وہ کمبل واپس کرتے ہوئے یہ اطلاع دی کہ ابھی کمبل استعمال کے قابل ہے۔اس کے ناکارہ ہونے پر وہ حسبِ ضرورت دوسری کمبل منگوالیں گے۔اسی زمانہ میں دہلی جامع مسجد کے ایک وفد نے اس مسجد میں ریپیرنگ کے کاموں کی تکمیل میں ان سے تعاون کی درخواست پر آصف جاہ سابع نے فراخدلی کے مظاہرہ کے ذریعہ ان کے پیش کردہ بجٹ سے زیادہ رقم بطور عطیہ دے کر اس وفد کو حیران کر دیا تھا۔  

    آصف جاہ سابع کی یہ کم نصیبی قرار دی جا سکتی ہے موصوف حج و عمرہ کی سعادت سے محروم رہنے کے باوجود انہوں نے عازمین حج کی سہولت کے لیے اپنے مذہبی اوقاف کی جانب سے مکہ و مدینہ میں رباط قائم کی تھیں۔جہاں آج بھی سابقہ ریاست کے مسلمانوں کے لیے فی سبیل اللہ رہائشی سہولیا ت بہم پہنچائی جاتی ہیں۔قارئین کی مزید یاد دہانی کے لیے ہم اس بات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ آزادی کے بعد ملک کے حکمرانوں نے پارٹی سطح سے بے نیاز ہوکر شہنشاہ بابر کے مقرب خاص میر باقی کی تیار کردہ بابری مسجد کوسلگتا مسئلہ بناتے ہوئے آخر کار1992؁ء میں اس کی شہادت کا گناہ انجام دیا۔اسی شہنشاہ بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کو ہندوئوں کی گائے کے تئیں عقیدت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے ذبیحہ پر پابندی کی وصیت کی تھی۔مسلمان حکمرانوں کی رواداری دراصل ان کے خون میں رچے بسے اس ایمان کا نتیجہ ہے جس نے اپنے پیروں کو ظالم بادشاہ کے ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے و حق بات کا مشور دیتے ہوئے اسے جہاد کے مانند تعبیر کیا تھا۔اس پس منظر میں ہماری موجودہ مرکزی و ریاستی حکومت کی کارگزاری کا جائزہ لیں تب ملک کے عام شہریوں چاہے وہ ان کے ہم مذہب کسان کیوں نہ ہوں ‘ان کے استحصال اور نا انصافیوں کے تناظر میں مسلمانوں کو اس حکومت سے خیر کی امید رکھنا خود فریبی کے مماثل رہے گی۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

(یو این این)

****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 557