donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Aaj Har Reyasat Me Musalmano Ko Aik Qayed Chahiye


 آج  ہر  ریاست  میں مسلمانوں  کو  ایک  قائد  چاہیے


 از  : غلام غوث ۔کورمنگلا  ،  بنگلور 

  فون  :  9980827221


        مسلم لیڈرشپ پر کئی مضامین لکھے جا چکے ہیں  اور ہر مضموں میں یہی کہا گیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان لیڈرشپ کا فقدان نہیں ہے مگر فقدان ہے تو اسے ماننے کا  ۔  پچھلے پچاس سالوں سے ہم مسلمانوں کی یہ عادت رہی ہے  کہ ہم کسی بھی شخص کو اپنا لیڈر تسلیم کر نا نہیں چاہتے  ۔  ہر ایک میں عیب تلاش کر نا ہماری عادت رہی ہے  ۔  یہی سبب ہے کہ ہمارے درمیان نہ مذہبی لیڈرشپ ہے اور نہ ہی عصری لیڈرشپ  ۔  اگر اتحاد کی بات کریں تو نہ مذہبی اتحاد ہے اور نہ ہی عصری معاملات میں اتحاد ہے  ۔  پچھلے پچاس سالوں سے ہم ہر میٹنگ اور جلسے میں ہماری کمزوریوں کا تذکرہ کرتے رہے  ،  اسکا تجزیہ کر تے رہے اور پھر  اپنے اپنے گھروں کو جا کر سو تے رہے  ۔  سیاستدانوں اور حکومتوں کو آج تک یہ نہیں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا رہنما کون ہے  ،  انکا ترجمان  (Spokes person )  کون ہے  اور انکے حقیقی مسائل کیا ہیں  ۔  مجھے یاد ہے کہ چند برس پہلے مسلمانوں کا ایک وفد اس وقت کی سیاسی پارٹی کے صدر سے ملنے گیا تو اس نے پوچھا کہ بھائی آپ کون لوگ ہیں  ۔  وفد نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے لیڈرس اور ترجمان  (Spokes person ) ہیں  ۔  یہ سنتے ہی وہ غضبناک ہو گیا اور کہنے لگا کہ کیا آپ مذاق کر تے ہیں  ۔  ہر گروپ آتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیڈر اور ترجمان ہیں اور الگ الگ مطالبات پیش کر تا ہے  ۔  اس لئے آپ جائیے اور سب ملکر اپنے مطالبات پیش کیجیے  ۔  اس نے سب کو جھڑک دیا مگر کچھ دیر بعد معافی بھی مانگ لی  ۔  ہوا یہ تھا کہ پہلے دو وفد اس کے پاس گئے تھے اور اور   الگ الگ مطالبات رکھے تھے  ۔  دراصل صدر صاحب کو معلوم ہی نہ ہو سکا تھا کہ مسلمانوں کے حقیقی لیڈر کون ہیں  ۔  ہر ریاست میں اور ہر شہر میں جو مسلم ادارے کام کر رہے ہیں ان میں کچھ تو کاغذی ادارے ہیں  ، کچھ باتیں کر نے اور ذہنی عیاشی کے ادارے ہیں اور کچھ نیم تعلیم یافتہ اور جوشیلے لوگوں کے ادارے ہیں  ۔ صرف چند ادارے حقیقی کام کر رہے ہیں  ۔  مگر انکی خصوصیت یہ ہے کہ نہ انکے اندر اتحاد ہے اور نہ ہی  انکے درمیان  ۔  ہر وفد حکام کو متاثر کر نے کے لئے چند مذہبی حضرات کو آگے رکھتا ہے اور امید کر تا ہے کہ انکی مذہبی شکل و صورت انکے کام آئے گی  ۔  میمورینڈم دیے جا تے ہیں  ،  تصویریں لی جاتی ہیں  اور دوسرے دن وہ تصاویر اردو اخباروں کی زینت بن جا تے ہیں  ۔  اگر اخباروں نے شائع کر نے میں دیر لگائی تو ہنگامہ کھڑا ہو جا تا ہے  ۔  پھر کئی مہینوں تک کسی کو یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے میمورینڈم میں کیا لکھا تھا اور اس ہر کیا عمل ہوا  ۔  حکام کو بھی ہماری یہ عادت اچھی طرح معلوم ہو چکی ہے  اسلئے وہ ہمارے ایسے میمورینڈمس کو سرد خانوں میں ڈال دیتے ہیں اور سب کچھ بھول جا تے ہیں  ۔  کچھ دانشوروں نے اس حالت زار کو دیکھ کر کوشش کی کہ ہمارے درمیان ایک اجتمائی لیڈرشپ قائم ہو  ۔  کامیابی بھی ملی مگر سارا جوش چند مہینوں میں ٹھنڈا پڑ گیا کیونکہ کچھ احباب اپنا وقت نہ دے سکے ۔  ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہمارے ذاتی کام اکثر اوقات ملی کاموں سے زیادہ اہم ہو جا تے ہیں  ۔  اس لئے ادارے   ناکام ہو جا تے ہیں  ۔  ہم آر یس یس والوں کی طرح دوسرے کام چھوڑ کر اپنا وقت ملّی کاموں میں نہیں لگاتے  ۔  اب مرکز میں بی جے پی حکومت آ گئی ہے اور ہر دن ایک نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے  ۔  کبھی لو جہاد  ، کبھی گھر  واپسی  ،  کبھی گائے بیل کے ذبح پر پابندی  ،  کبھی تاریخ بدلنے کا  مسلہ  ،  کبھی مندر مسجد اور چرچ کا مسلہ  ،  کہیں معصوموں کی گرفتاری کا مسلہ  اور اب  مسلمانوں کو ووٹ کر نے کا حق نہ دینے کی بات وغیرہ وغیرہ  رچائے جا رہے ہیں  ۔  ایسے میں تمام اقلیتوں کو اپنا مستقبل تاریک لگنے لگا ہے اور ہر طرف ڈر اور خوف کا ماحول بنتا چلا جا رہا ہے  ۔  کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کریں تو کیا کریں اور کہیں تو کس سے کہیں  ۔ایسے میں ہر ریاست میں ایک موثر اور دور اندیش مسلم قائد کی اشد ضرورت ہے  ۔    ایسی صورت حال کو دیکھ کر کچھ دانشوروں نے طئے کیا کہ کیوں نہ ایک انفرادی ریاستی لیڈرشپ کا تجربہ بھی کر لیا جائے چاہے اللہ اس میں کامیابی دے یا  نہ دے  ۔  چناچہ قریباّ دس ناموں پر بحث مباحثہ ہوا اور آخر میں کرناٹک میں ایک نام پر اتفاق ہو گیا  ۔  یہ سچ ہے کہ بے عیب کوئی نہیں مگر صرف چند عیب دیکھ کے کسی کو رد کر دینا ٹھیک نہیں ہے  ۔  اب  فرشتے تو زمین پر آ کر رہنمائی کر نے والے نہیں ہیں  ۔  ایسے میں خاموش رہنے سے بہتر ہے کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے  ۔  مقصد یہ کہ حکام اور عوام کے سامنے ایک یا دو ایسے چہرے لائے جائیں جنہیں دیکھ کر ہر کوئی کہے کہ یہی مسلمانوں کے لیڈر ہیں اور انہیں کی بات ہمیں سننا ہے  ۔  ہماری ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی رائے طلب کی جائے اور انکے مشورے کو فوقیت دی جائے  ۔  یہ عملی طور پر نا ممکن ہے کیونکہ ہم جہاں دس سے چالیس ہوے رکاوٹ ہی رکاوٹ پڑ نے لگے گی  ۔  اس لئے بہتر یہی ہے کہ کچھ آٹھ یا دس دانشور کام شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ لیڈر شپ کو عوام میں قبولیت دلانے کی کوشش کریں  ۔  دنیا میں جتنے بھی انقلاب آیے ہیں وہاں صرف چند اشخاص نے پہل کی ہے  ۔  سب کی رائے اور سب کی منظوری لے کر کام کو آگے نہیں بڑھایا ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے  ۔  قائد تعلیم یافتہ ہو  ،  عام مسلمان اسکے نام سے واقف ہوں  ،  نڈر ہو  ،   دوسروں کو ساتھ لیکر چلنے والا ہو  ،  سادگی اور اخلاص ہو  ،  حالات حاضرہ پر عبور ہو  ،  تمام سیاستدانوں سے تال میل ہو  ،  سوسائٹی میں عزت ہو،  آزاد ایسا ہو کہ کسی کے چندے  کی فکر نہ ہو  اور ملک و قوم کی خدمت کر نے کا جذبہ ہو  ۔  کرناٹک میں چند دانشوروں نے ایسے شخص کی شناخت کر لی ہے اور کوشش شروع ہو رہی ہے کہ عوام کو اسکی قیادت کی قبولیت کے لئے تیار کریں  ۔  اس قیادت کو ابھارنے کی کوشش جناب ریاض احمد  ( سابق پبلک سرویس کمیشن ممبر ) ،  تحسین احمد  ( ریٹائرڈ  سینیر کے یے یس آفیسر ) ،  منیر احمد ٹمکوری   ( صحافی اور کالم نگار ) ،  سید شفیع اللہ  ( کالم نگار اور سیاسی ماہر ) ،  میر منیر احمد ( اڈوکیٹ اور کالم نگار )  ،  محمد نثار  ( اڈوکیٹ اور سوشیل ورکر )  ،  فیاض قریشی ( صحافی اور کالم نگار ) ،  محمد الیاس  ( سوشیل ورکر )  ،  محمد فاروق ( سوشیل ورکر   )  نزیر احمد  ( سوشیل ورکر )  محمد ظہیر الحق  ۔ میسور( صدر  ، انجمن  اصلاح  معاشرہ  ) کر رہے ہیں  ۔  یہ حضرات مسلم مسائل سے اچھی طرح واقف ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ایک اچھے قائد کو آگے لا کر ملت مسلمہ کی خدمت کریں  ۔  یہ قیادت صرف عصری میدان میں  ملک و ملت کے اجتمائی مسائل پر کام کرے گی اور دوسرے اداروں سے بھی تال میل رکھے گی  ۔  اس قیادت کے سامنے صرف چند  اہم  مدعے ہوں گے اور انہیں پر کام کرنے کی کوشش کی جائے گی  ۔  حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوے بہتر ہو گا اگر ہم اس تجربے کو ملک کی ہر ریاست میں آزمائیں  ۔  یہ کام صرف آٹھ دس ہمخیال ا اہل دانش ہی کر سکتے ہیں  ۔  ضروری بات یہ ہے کہ جس طرح 1857سے ہم نے دینی تعلیم اور عصری تعلیم کو الگ رکھا ہے بلکل اسی طرح ہم مذہبی قیادت کو عصری قیادت سے الگ رکھیں اور ایک کو دوسرے میں دخل اندازی کر نے نہ دیں  ۔  انشا اللہ ہمیں ضرور کامیابی ملے گی  ۔

(یو این این)


**********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 502