donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Kya Musalman Uniform Civil Code Par Debate Karne Ke Liye Taiyar Hain


 کیا مسلمان  یونیفارم سیول کوڈ  پر 

ڈبیٹ  کرنے کے لئے تیار ہیں ؟


 از :  غلام غوث 

کورمنگلا ،  بنگلور ۔  فون  : 9980827221


       ہم ٹی وی نہیں دیکھیں گے ۔  جب ٹی وی نہیں دیکھیں گے تو اسمیں ہونے والے ڈبیٹ چاہے وہ پرسنل لا پر ہوں ،  طلاق اور خلع پر ہوں یا کوئی مذہبی یا غیر مذہبی مسلہ پر ہوں ہم نہیں دیکھیں گے ۔  اخبارات ہم نہیں پڑھیں گے چاہے اسمیں ہمارے کلچر ،  مذہب یا روایات کے خلاف کیوں نہ لکھا جایے۔  ہم یوروپ اور امریکہ میں ریسرچ کے ہوی اسلام کے متعلق کتابیں نہیں پڑھیں گے ۔  ہم ہمارے کمروں اور عبادت گاہوںمیں بیٹھ کر سو سال پہلے لکھی ہوی کتابیں پڑھکر آج کے مسائل کا حل تلاش کر نے میں یقین رکھیں گے ۔  دوسرے کیا کہتے ہیں اس سے ہمیں سروکار نہیں ہے ۔  یہ سب دیکھنا اور پڑھنا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے ۔  اگر کچھ پڑھتے بھی ہیں تو اس پر غور و فکر کر نا ضروری نہیں ہے ۔  اللہ ہمارا ہے اور ہم اسکے ہیں ۔  وہ ہماری حفاظت کر لے گا ۔  خوہ مخواہ پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں ہے ۔  ۔یہ ہے ہماری سوچ ۔  6.11.2015 کو رات دس بجے ٹی وی چینل ٹائمس ناو  میں مسلم پرسنل لا پر ایک زبردست ڈبیٹ ہوا جسمیں مسٹر ظفر یاب جیلانی ،  ڈاکٹر رحمانی  ،  فادر اسٹانلی اور دیگر چار لوگوں نے حصہ لیا اور مسلم پرسنل لا پر زبردست حملے کیے  جسمیں  مسلم نمائندوں کی دھجیاں اْڑا دی گئیں ۔  مسلم نمایندے لاجواب سے لگ رہے تھے ۔  ہمارے علماء حضرات اگر ایسے ڈبیٹوں میں حصہ لینے کے قابل ہو تے تو وہ اعتقاد کی بنیاد پر بات کر تے جبکہ دوسرے لوگ حالات حاضرہ کو سامنے رکھ کر بات کر تے ہیں ۔  وہ یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن میں کیا لکھا ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کو ماننے والے اس پر کتنا عمل کر رہے ہیں ۔  شاید ہمارے مذہبی حضرات اس بات سے خوش ہیں کہ انہوں نے مسلم پرسنل لا پر ہونے والے ایسے حملوں کو نہ ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی اخباروں میں پڑھ رہے ہیں ۔  شاید انہیں خوشی اس بات پر ہو رہی ہے کہ معاملات کو اللہ پر چھوڑ کر وہ مصیبتوں سے بچ بھی رہے ہیں ۔  اب ہم تمام مسلمانوں کو سوچنا ہے کہ مذہبی حضرات کا اس طرح مسائل سے آنکھ بند کر لینا کیا مسلمانوں کے لئے فائیدہ مند ہے ۔  اکثر حضرات جو مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں و ہ ہر مسلے کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور عقیدے کی بنیاد پر بات کر تے ہیں جبکہ غیر مسلموں کے ساتھ اگر ڈبیٹ ہوں تو یہ نظریے تنقید کا نشانہ بن جا تے ہیں ۔  کامن سیول کوڈ اور مسلم پرسنل لا کو لے کر سب سے زیادہ بحث طلاق ،  خلع ،  چار شادیاں ،  وراثت اور پردے پر ہو تی ہیں ۔  ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کیوں ان معاملات میں قرآنی احکامات پر عمل نہیں کر تے جسمیں طلاق کا طریقہ ،  چار شادیوں کے شرائیط کا اور پردے کا ذکر کیا گیا ہے ۔  ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ مسلمان جب پرسنل لا کی بات کر تے ہیں تو کریمنل لا کو کیوں نہیں اپنا تے ۔  ان سوالات پر مسلم نمائندے پریشان سے لگ رہے تھے کیونکہ حقیقت بھی یہ ہے کہ ہم ان قرآنی احکامات اور شرائط پر کار بند نہیں ہیں ۔  ہمارے دستور کی دفعہ 14 سب کے لئے مساوی حقوق کی بات کرتی ہے جبکہ دفعہ 25 ہر ایک کو مذہب کی آزادی کی بات کر تی ہے ۔  سوال یہ بھی ہوا کہ جب  ہر معاملے میں مساوی حقوق پر زور دیتے ہیں تو ہر مذہب میں عورتوں کے حقوق پر ڈاکا کیوں ڈالا جا تا ہے  ۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو تین مرتبہ سختی سے مشورہ دیا ہے کہ کہ وہ آرٹیکل Directive principle) 44ـ) کے مطابق یونیفارم سیول کوڈ لا نے میں ٹال مٹول سے کام کیوں کر رہی ہے ۔  شاہ بانو کیس 1985، سرلا مدگل کیس 1995اور جان ولم ماٹن کیس 2003سے پہلے ہی سے سپریم کورٹ  یونیفارم سیول کوڈ تیار کر نے پر زور دے رہا تھا ۔  مگر عیسائی اور مسلم مذہبی حضرات اسکی مخالفت کر رہے تھے  ۔ سوائے بی جے پی کے تمام باقی تمام سیکولر پارٹیاں اس مسلے کو ٹالتے آ رہی تھیں  مگر 2014 میں بی جے پی نے لوک سبھا میں اپنی دو تہائی اکثریت کو لے کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئی کہ اس ملک کے تمام شہری یونیفارم سیول کوڈ کی موافقت میں ہیں  ۔ اس سلسلہ میں میری بات جب کچھ مسلم اعلی افسروں سے اور دانشوروں اور کچھ عورتوں کی تنظیموں سے ہوی تو انہوں نے ہمارے مذہبی حضرات کی بے حسی اور دقیانوسی خیالات کی شکایت کر تے ہوے کہا کہ مسلم عورتوں پر ہونے والے موجودہ ناانصافیوں سے بہتر ہے کہ یونیفارم سیول کوڈ کو لاگو کر دیا جائے  ۔ مجھے صرف اتنا پوچھنا ہے کہ ہم مسلم عورتوں سے مشورہ کیوں نہیں کر تے  اور انکی رائے کیوں نہیں لیتے  ۔ یوں تو میرے سامنے بیشمار کیس ہیں مگر انمیں سے صرف ایک کیس یوں ہے کہ شادی سے صرف دو سال بعد ایک لڑکا پیدا ہو تا ہے مگر شوہر جو تعلیم یافتہ تھا اسکی کمائی کا مستقل ذریعہ نہ تھا حالانکہ وہ ایک متوسط گھرانے سے تھا ۔  اس نے بیوی کے تمام زیورات دھوکہ سے فروخت کر دیے اور ہیوی کو ڈرانے ،  مارنے اور گالی گلوج پر اتر آیا  ۔ بیوی پر ہر طرح کے الزامات لگا تا ،  گھر کے ( دالدین اور بھائیوں کے ) تمام کام کرواتا اور ملازمت پر جانے سے بھی روکتا تھا ۔  تنگ آ کر لڑکی میکے چلی گئی اور طلاق کا مطالبہ کر دیا  ـ رشتہ داروں نے مداخلت کی مگر معاملہ سلجھ نہ سکا ۔  لڑکے نے کہہ دیا کہ وہ طلاق نہیں دے گا ( آجکل نکمے لڑکے اور انکے والدین ایسا ہی کر رہے ہیں ) بلکہ وہ چاہے تو خلع لے لے  ۔ چناچہ خلع نامہ لڑکے کو روانہ کر دیا گیا مگر لڑکے نے ضد میں آ کر لڑکی کو ستانے کے لئے خلع نامے پر دستخط کر نے سے انکار کر دیا ۔  چناچہ معاملہ میسور کی ایک دارالقضاء جہاں مہینوں نوٹس پر نوٹس لینے کے باوجود لڑکا یا اسکے رشتہ دار حاضر نہیں ہوے  ۔  پھر وہ ایک مرتبہ آیا اور نہ جانے کیا ہوا کہ دارالقضاء کے قاضی نے لڑکی والوں سے کہہ دیا کہ وہ اس معاملے پر کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ اب یہ کیس مجبورا عدالت میں چلا گیا ہے  ۔ اور ایک سال سے وہاں چل رہا ہے ۔  اگر عدالت کوئی شریعت کے خلاف فیصلہ سنا دے تو مذہبی حضرات پریشان ہو جائیں گے مگر سوچنا یہ ہے کہ اسکے لئے ذمہ دار کون ہیں  ، لڑکی والے یا دار القضاء والے  ؟ اگر دار القضاء والے نکاح فسخ کر دیتے  یا کوئی دوسرا راستہ بتاتے تو ایسی نوبت ہی نہ آتی ۔  مذہبی حضرات نہ جانے کیوں ایسے مسائل پر ڈبیٹ سے کتراتے ہیں اور نہ جانے کیوں عورتوں کے اداروں سے  سننے کے لئے تیار نہیں ہیں  ۔ ایسے مسائل پر کام کر نے کے لئے آج ہمیں ایسے مذہبی حضرات کی ضرورت ہے جو اس انتظار میں نہ رہیں کہ دوسرے انکے پاس آئیں بلکہ خود صحابہ اکرام کی طرح دوسروں کے پاس جائیں اور مسلوں پر بات کریں  ۔ اہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو خود سے اٹھیں اور خود سے کام کریں نہ کہ دوسرے اٹھائیں اور یہ تقریریں کر کے غائب ہو جایں  ۔ نگریزوں نے 1937میں مسلم پرسنل لا کوڈ بنایا مگر وہ آج کے لئے نا کافی ہے  ۔ آج ہمارے پاس ایسا کوئی کوڈ نہیں ہے جسے ہم پرسنل لا کوڈ کہہ سکیں  ۔ پرسنل لا کی اہمیت اور ضرورت پر تو کتابیں موجود ہیں مگر دوسرے قوانین کی طرح پرسنل لا کوڈ  تحریری طور پر کہیں نہیں ہے  ۔ خود عیسائیوں اور مسلمانوں کے اندر بیشمار حضرات اور خواتین ایسے ہیں جو مذہبی حضرات کی پرسنل لا تقریروں سے اتفاق نہیں رکھتے  ۔ میں نے بھی کچھ لوگوں سے کسی ایسی کتاب دیکھنے کا سوال رکھا  مگر آج تک کسی نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ  کوئی جدید لکھا ہوا کوڈ پیش نہیں کیا  ۔ آج موجودہ طریقے طلاق ( جب دل چاہے تب  ، فون پر یا یس یم یس اور ای میل کے ذریعہ ) کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ یہ طریقہ قرآن میں موجود نہیں ہے  ۔ پرسنل لا میں تبدیلی کے لئے اس مسلہ پر ضرور غورر و خوص کر سکتے ہیں  ۔ اب ۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے ہم اپنی اندرونی اصلاح کر لیں ۔  

                   ہر ہفتہ اس مسلے کو لے کر ٹی وی پر ڈبیٹ ہو رہے ہیں اور سیول کوڈ نافذکر نے کی بات ہو رہی ہے ۔ مسلم نمایندے بغیر تیاری کے اس میں حصہ لے رہے ہیں اور تسلی بخش جواب دے نہیں پا رہے ہیں ۔  چند دانشوروں نے اسکے سنگین نتایج کو محسوس کر تے ہوے غور و خوص کے بعد  مندرجہ ذیل مشورے دیے ہیں ۔  

( 1مسلم پرسنل لا اور یونیفارم سیول کوڈ کے مسلے پر سب سے پہلے ملت کے اندر غور و خوص ہو نا چاہیے  ۔ ہر ریاست میں اس مسلے پر چار عالم اور چار دانشوروں کو غور و خوص اور ڈبیٹ کر نا چاہیے ۔ یہ مسلہ جتنا مذہبی ہے اتنا ہی سماجی بھی ہے ۔  اسلیے سب کو ملکر غور کر نا ہے اور پھر پوری تیاری اور خود اعتمادی کے ساتھ غیروں سے ڈبیٹ کر نا ہے  ۔

( 2یونیفارم سیول کوڈ جسکا ڈرافٹ ابھی تیار نہیں ہوا ہے اسے  دھتکار نے کے بجاے  یہ کہہ دیں کہ پہلے تو ڈرافٹ بناو اور پھر کہیں اسکی ہر ایک شق پر بحث کی جاے گی  ۔ یہ تاثیر بلکل نہیں دینا چاہیے کہ مسلمان شش و پنچ میں ہیں  کیونکہ جب ڈرافٹ بنانے کے لئے کمیٹی بنے گی تو اس میں ایک مسلمان ممبر بھی ضرور ہو گا  ۔ ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے ڈرافٹ کی مخالفت خود ہندو ہی کریں گے کیونکہ انکی الگ الگ ذاتوں میں الگ الگ رواج ہیں ۔  

( 3شرعی قوانین کو تحریر میں لائیں اور انکی کتابیں بنا کر عام مسلمانوں میں تقسیم کریں تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ یہی شریعت قانون ہے  ( شریعت کوڈ )۔

( 4 یہ سچ ہے کہ ملت کے اندر ایسے بہت چلن ہیں جو شریعت سے ٹکراتے ہیں  ـ۔  اگر ہم نے تمام سے ملکر ( عورتوں کی تنظیموں سے  بھی )  اندرونی مسائل خود حل کر لیے تو باہر والوں کو انگلی اٹھانے کا موقعہ نہیں ملے گا  ۔ مگر انہیں حل کر نے کے لئے علماء اور دانشوروں کا مل کر بیٹھنا ضروری ہے  ۔ پرسنل لا پر  قرآن اور حدیث اور حالات حاضرہ کے تناظر میں ضرور بحث ہو نی چاہیے اور صرف جلسے کر کے لا پتہ ہو جا نے سے مسلہ حل نہیں ہو گا  ۔  ہر ریاست کے صدر مقام میں اس طرح کے اندرونی  ڈبیٹ ہوں اور پوری تیاری کے ساتھ ٹی وی وغیرہ میں ڈبیٹ کر نے کی قابلیت پیدا کریں ۔

(یو این این)


*****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 519