donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Leader Ship Ka Fuqdan Congress Aur Musalmano Ka Masla


لیڈرشپ  کا  فقدان  کانگریس اور  مسلمانوں کا  مسلہ


 از  :  غلام غوث  ،  کورمنگلا ،  بنگلور ۔  فون  : 9980827221


        جب کوئی اقتدار میں رہتا ہے اور عوام اسکی موافقت میں رہتے ہیں تب اسے چاہیے کہ وہ ہر وہ اچھا کام کرے جسے عوام چاہتے ہیں  ۔  اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو عوام اسے دھتکار کر دوسروں کو اقتدار میں لے آ تے ہیں  ۔  جب دوسرے اپنے کام سے عوام کو خوش کر نے لگتے ہیں  تب پہلے والے کف افسوس ملتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش ہم اپنے دور اقتدار میں وہ سب کر دیتے  ۔  آج یہی حالت کانگریس کی ہے  ۔  ایسے کام کانگریس 2014  سے پہلے کر سکتی تھی مگر اس نے اپنا تمام وقت خود کو عقلمند اور عوامی رہنما ہو نے کا جھوٹاخواب دیکھنے میں گزار دیا  ۔  آج جو بی جے پی اور عام آدمی پارٹی اپنے دور اقتدار میں کر رہی ہیں یعنی  بجلی ، پانی اور  ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں کمی  ،  افسروں پر کنٹرول اور کرپشن پر کنٹرول وہ تو کانگریس بھی اقتدار کھو نے سے پہلے ہی کر سکتی تھی  ۔  افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ کانگریس نے آج بھی کوئی سبق نہیں سیکھا  ۔  کرناٹک میں اور دیگر ریاستوں میں جہاں کانگریس اقتدار میں ہے وہاں اگر اس نے اپنے اقتدار کا فائیدہ اٹھا تے ہوے عوامی شکایتوں کو دور نہیں کیا تو انکا انجام بھی آنے والے الیکشن میں وہی ہو گا جو 2014  میں آل انڈیا سطح پر کانگریس کا ہوا  ۔  اگر آج کرناٹک میں الیکشن ہو تا ہے تو بی جے پی کا نمبر اور زیادہ ہو جائے گا  ۔  الیکشن ہار کر اقتدار کھو نے اور بعد میں ہاتھ ملنے سے اچھا ہے کہ کانگریس اپنے بر سر اقتدار افسروں اور ریٹائرڈ افسروں کے  سامنے یہ چیلنج رکھے کہ وہ ایسے مشورے دیں جن سے بجلی پانی اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں کمی آ سکے گی  ۔  مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ بہت ہی مفید مشورے دیں گے  ۔  افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  آج ایسے قابل افسروں کی آزادانہ آواز پر سیاستدانوں نے روک لگا دی ہے  اور وہی کر رہے ہیں جس میں خود کا فائیدہ اور عوام کا نقصان ہے  ۔  آئے دن ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ کانگریس کے نمائندے جو ڈبیٹوں میں حصہ لیتے ہے وہ اب بھی زعم کی باتیں کر تے ہیں اور یہ قبول کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ عوام سے دور ہو گئے ہیں  جو کہ صاف دکھائی دے رہا ہے  ۔  ابھی  شہر ہاسن میں کانگریس کے صدر مسٹر پرمیشور نے کانگریس کو مضبوط کر نے کے لئے اپنے پارٹی ورکرس سے مشورے طلب  کئے تو اکثریت نے کہا کہ اگر فلاں شخص کو منسٹر بنا دیا گیا تو  کانگریس مضبوط ہو جائے گی اور عوام خوش ہو جائیں گے  ۔  ایسے لگتا ہے کہ کانگریس ورکرس کو عوام کی نہیں بلکہ اپنے عہدوں کی پڑی ہے  ۔  وہ بھول رہے ہیں کہ اگر اقتدار چلا گیا تو سب کے عہدے بھی چلے جائیں گے  ۔  کانگریسی سیاستدانوں کی اس سوچ کو بدلنا بہت ہی مشکل نظر آ رہا ہے  ۔  ہندستان بھر میں  اقلیتوں کے لئے عموماـ اور مسلمانوں کے لئے  خصوصا یہ ایک نازک سی گھڑی ہے  کیونکہ فرقہ پرستوں نے اپنے خفیہ اجنڈے پر کام کر نا شروع کر دیا ہے  ۔  کہیں لو جہاد ، کہیں گھر واپسی کی بات  ۔  کہیں زیادہ بچوں کی بات  اور کہیں عبادت گاہوں پر حملے  اور کہیں پہلے  عیسائی کو بعد قصائی کو کے نعرے وغیرہ عام ہو تے جا رہے ہیں  ۔  ایسے میں مسلمانوں کے درمیان ایک دور اندیش قیادت کا فقدان کافی مشکلیں کھڑا کر رہا ہے  ۔  دور دور تک کوئی با شعور اور مخلص لیڈر نظر نہیں آ رہا ہے  ۔  5.2.2015 کو  ٹی وی  کے Times Now   میں عاپ  ،  بی جے پی اور کانگریس کا ایک ڈبیٹ دھلی کے امام بخاری ا کے اس بیان کے متعلق تھا کہ تمام مسلمان عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیں  ۔  اس ڈبیٹ میں دو مذہبی حضرات  امام بخاری کے چھوٹے بھائی  اور مولانا کاظمی بھی تھے  ۔  ان دونوں نے ڈبیٹ کے دوران جس طرح ایک دوسرے پر حملے کئے اور موجودہ حالات سے لا علمی اور حکمت سے عاری خیالات کا اظہار کیا وہ مسلمانوں کے سر شرم سے جھکا دینے کے لئے کافی تھا  ۔  مولانا کاظمی نے جس طرح  بات کی اس سے فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط ہو تے دکھائی دیے  ۔  صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ دونوں کمرشیل قسم کے مفاد پرست تھے  ۔  ایسے ایک نہیں بلکہ بیشمار واقعات ماضی میں دیکھنے کو ملے ہیں  ۔  یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی کہ کیوں بھارت کی آزادی کے دوران مسلمانوں کی قیادت مسٹر محمد علی جناح کے ہاتھوں میں تھی جو بے نمازی  ،  شرابی اور جواری تھے  مگر تھے مخلص ،  با شعور ،  حکمت والے ،  نڈر ،  ملک اور قوم کے سچے وفادار  اور دور اندیش  ۔  قابل قدر مذہبی حضرات کی اکثریت بھی آپکی  لیڈر شپ کا لوہا  مان کر ان سے قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے  ۔  آج الگ الگ مسلک  ، نظریات اور سوچ کے ادارے اور جماعتیں تو ہیں مگر جناح جیسی سب کو ساتھ لیکر چلنے والی شخصیت نہیں  ہے  ۔  آل انڈیا لیول پر اگر دیکھیں تو دور دور تک کوئی ایسا مسلم لیڈر نظر نہیں آ رہا ہے جسے مسلمانوں کی اکثریت اپنا لیڈر ماننے  تیار ہو  ۔  مسلک اور فرقے کسی کو آگے بڑھنے نہیں دے رہے ہیں ۔  ایسے میں کسی ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو  محمد علی جناح کی طرح ہر تفرقے سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہو  ۔  مذہبی حضرات ایسی ذمہ داری ہرگز اٹھا نہیں سکتے کیونکہ وہ لیڈرشپ کی پہلی سیڑھی بے لوث اور غیر جانبداری پر ہی ڈھیر ہو جا تے ہیں  ۔  مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح دونوں اڈوکیٹس تھے  ،  مذہبی جانبداری سے دور تھے  اور صرف عام لوگوں کے بھلے کی سوچتے تھے  ۔  آج ہمیں ایسے  ہی کسی اڈوکیٹ  یا سوشیل ورکر کی ضرورت ہے جو ہر فروعی تفرقہ سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہو  ۔  دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم کسی سیکولر  اور دوراندیش غیر مسلم کو اپنا لیڈر بنا لیں اور اپنی پوری طاقت اسکے پیچھے لگا دیں  ۔  وہ جب بات کرے گا تو تمام غیر مسلم لیڈر اسکی بات غور سے سنیں گے  ۔  کرناٹک کی بھی یہی حالت ہے  ۔  ایک امید کی کرن مسٹر روشن بیگ  ،  وزیر  حج اور انفرااسسٹرکچر ہیں جنمیں حکمت بھی ہے ،  نڈر پن بھی  ،  اخلاص بھی ،  سب کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت بھی  ،  تنقید اور مخالفت برداشت کر نے کی  قوت بھی اور حق بات پر اڑ جانے کی عادت بھی  ۔  ایسے حضرات کے لئے میرا مشورہ ہے کہ ملت کی لیڈرشپ پر زبردستی حاوی ہو جائیں اور ملت کے اس ریوڑ کو صحی راستے پر لے چلیں اور سیکولر طاقتوں کو جتا کر ملک و ملت کی خدمت کریں  ۔  اب وقت آ گیا ہے کہ تمام مسلیم ادارے ملکر آل انڈیا کے لئے ایک نام اور کرناٹک کے لئے مسٹر روشن بیگ صاھب کے نام کا اعلان کر دیں اور انکے قدم سے قدم ملا کر چلیں  ۔  عاپ نے دھلی میں بی جے پی کے رتھ کو روک دیا اور اب باری ہے دیگر ریاستوں کی  ۔  خدا کی قدرت بھی عجیب ہے کہ جب سب امیدیں ختم ہو تی نظر آ تی ہیں  تب اللہ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ ظالم خود بخود کمزور ہو جا تے ہیں  ۔  دھلی میں بی جے پی کی شکست دراصل آر یس یس  ،  مودی اور بیدی کی شکست ہے  ۔  اب کانگریس کے دوبارہ زندہ ہو نے کے امکانات روشن ہیں بشرطیکہ وہ اپنی عادت بدلے اور خوابوں کی دنیا سے باہر آئے ۔  تمام عوام یہ جان چکے ہیں کہ بی جے پی نے لوک سبھا الیکشن سے پہلے جو خواب دکھائے اور وعدے کئے  انمیں بہت زیادہ جھوٹ تھا  ۔  کانگریس کی یہ کمزوری ہے کہ اس نے اپنی غلطی اور کمزوری کوکبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ ہر وقت اسے صحی ثابت کر نے میں لگے رہے  ۔  کانگریسی سیاستدان ہمیشہ خدمتگاروں کی بجائے حاکموں کی  طرح بات کر تے رہے ۔  وہ بھول  گئے کہ آج سیاست کے اصول بدل گئے ہیں اور عوام سے تال میل بہت ضروری ہو گیا ہے  ۔  کانگریس میں ایک بھی سیاستدان ایسا نظر نہیں آیاجو کجریوال کی طرح صاف گوئی ،  سچائی اور کھلے پن کا مظاہرہ کر تا  ۔  جس دن اس میں کجریوال جیسے  صاف دل لیڈر پیدا ہو جائیں گے وہ دوبارہ ضرور کامیاب ہو گی  ۔  امید ہے کہ کانگریس ہوش اور عقل سے کام لے گی اور آئندہ ہو نے والے الیکشنوں میں کامیاب ہو کر ملک  کو امن ،  استحکام  اور کرپشن فری حکومت دے گی ۔

(یو این این)

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 561